کوئٹہ دودھ گوشت روٹی کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی

شہریوں کو ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت اور دودھ اور دہی کی قیمتیں ازخود مقرر کرنا ڈیری مالکان اپنا حق سمجھتے ہیں۔

شہریوں کو ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت اور دودھ اور دہی کی قیمتیں ازخود مقرر کرنا ڈیری مالکان اپنا حق سمجھتے ہیں۔ فوٹو: نسیم جیمز/ایکسپریس

کوئٹہ میں ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹی کی غفلت اور چشم پوشی کے باعث گراں فروشی، ملاوٹ اور ناپ تول کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

قسائی، نان بائی اور دودھ فروش عوام سے خود ساختہ نرخ وصول کر رہے ہیں۔ شہری حلقوں کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں کھانے پینے کی چیزوں کی مختلف قیمتیں مقرر ہیں، ایسا لگتا ہے یہاں کسی انتظامیہ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ شہر کے بعض علاقوں میں چھو ٹے بڑے گوشت اور مرغی کے نر خ بھی الگ مقرر ہیں۔ چھوٹا گوشت 600 روپے سے لے کر 650 رو پے، بڑا گوشت بغیر ہڈی والا390 رو پے سے لے کر420 اور مرغی کا گوشت 260 سے لے کر300 روپے فی کلو فروخت کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ قسائی کی دکانوں پر صفائی ستھرائی، گوشت کو گرد و غبار اور مکھیوں سے محفوظ رکھنے کے بھی انتظامات نہیں کئے جاتے۔ انتظامیہ کی جانب سے قسائیوں کو ہدایات تو جاری کر دی جاتی ہیں، مگر اس پر عملی اقدامات صرف اخباری بیانات تک محدود رہتے ہیں۔ کوئٹہ میں خالص دودھ کا ملنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ایک جانب شہریوں کو ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت اور دوسری جانب دودھ اور دہی کی قیمتیں ازخود مقرر کر نا ڈیری مالکان اپنا حق سمجھتے ہیں۔ گزشتہ سال کی طرح امسال بھی ڈیری مالکان نے عوام پر خود ساختہ منہگائی مسلط کر دی ہے۔ ڈیری مالکان نے دودھ کی قیمتیں 11 رو پے فی لیٹر اضافے کے ساتھ 86 روپے فی لیٹر مقرر کر دی ہیں۔ دودھ کے ساتھ دہی کی قیمتیں بھی90 رو پے سے بڑھا کر 100 رو پے کلو مقرر کی گئی ہے۔ ڈیری مالکان نے اپنے نئے نرخ نامے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔

دودھ اور دہی کی قیمیتوں میں ایک بار پھر خود ساختہ اضافے نے ایک جانب شہریوں کے ہوش اڑا دیے ہیں، تو دوسری جانب انتظامیہ نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹی نے دودھ اور دہی سمیت کھانے پینے کی تمام چیزوں کا نیا سرکاری نرخ نامہ جاری کر دیا ہے اور ساتھ ہی ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے روائتی انداز میں ماتحت افسران کو ہدایات بھی جاری کی ہیں کہ نئے سرکاری نرخ نامے پر ہر حالت میں عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے مگر حسب سابق ڈپٹی کمشنر کے تازہ احکامات بھی اخبارات تک محدود ہیں اور ڈیری مالکان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔




یاد رہے گزشتہ سال بھی ڈیری مالکان نے سرکاری نرخوں کو مسترد کرتے ہو ئے اپنے نرخ مقرر کیے تھے جس کی روک تھام کے لیے انتظامیہ آج تک خاموش ہے۔ اب ایک بار پھر ڈیری مالکان نے قیمتیں بڑھا دی ہیں، جس پر انتطامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹی خاموش ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈیری مالکان نے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی پرائس کنٹرول کمیٹی اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ سازباز کر لی ہے۔ عوامی حلقوں نے صوبائی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیری مالکان اور انتظامیہ کی ملی بھگت کا فوری نوٹس لے کر کاروائی کریں بصورت دیگر کوئٹہ کے شہری دودھ اور دہی کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ دودھ کے علاوہ نان بائیوں نے بھی سرکای نرخ نا مے کی دھجیاں اڑاتے ہو ئے رو ٹی کا وزن خود ہی گھٹا دیا ہے۔

سرکاری طور پر نان بائیوں کو 460 گرام وزن کی روٹی 20 روپے اور 230 گرام وزن کی روٹی 10 روپے میں فروخت کر نے کے نرخ دیے گئے ہیں، جس پر عمل درآمد نہ ہو نے کے برا بر ہے اور نان بائی ایسوسی ایشن نے رو ٹی کا وزن ا زخود گھٹا دیا ہے۔ شہر میں 330 گرام وزن کی روٹی 20 اور 165 گرام وزن کی روٹی 10 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ دوسری جانب ناپ تو ل کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اکثر دکان دار اور ریڑھی بان وزن کے لیے منظور شدہ باٹ کی بجا ئے وزن کے لیے پتھر استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس کے لیے محکمہ اوزان وپیمائش موجود ہے، مگر اس کی کار کردگی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ محکمہ اوزان و پیمائش کی انتظامیہ نے گزشتہ دنوں ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں تمام انسپکٹرز اوزان وپیمائش اور فیلڈ اسٹاف کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ کم وزن اشیاء خوردونوش فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں اور خاص طور پر اینٹ، پتھر کو بطور باٹ استعمال کرنے والے عناصر پر کڑی نظر رکھیں اور ان سے کی نرمی نہ برتیں مگر ماضی کے تجربات سے ثابت ہے کہ اس قسم کے احکامات ہمیشہ ہوا میں اڑا دیے گئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے15مارچ کو صارفین کے حقوق کے لیے کام کر نے والی تنظیم پامیر کنزیومر سوسائٹی کے زیراہتمام صارفین کے عا لمی دن پر ایک تقریب میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بلوچستان میں کنزیومر کورٹس قائم کر نے کا اعلان کیا مگر تاحال اس کے لیے عملی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ شہریوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس تمام صورت حال کا نوٹس لیں اور فوری طور پر سنجیدہ اقدامات کریں۔
Load Next Story