راج دلارے

barq@email.com

مشکل ہے کہ اب شہرمیں نکلے کوئی گھر سے

دستارپہ بات آگئی ہوتی ہوئی سر سے

لیکن یہ ہرگزمت سمجھئے کہ یہ مشکل یاخطرہ، دھماکوں یا ڈاکو لٹیروں سے ہے ،اس کے تو ہم اب اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، حکومت خود اتنے دھماکے وغیرہ کرتی ہے کہ لوگ بہری چڑیاں بن گئے ہیں اور لوٹ مار کی ذمے داری حکومت کے اداروں کے ساتھ ساتھ تاجر دکانداروں نے لی ہوئی ہے۔

بہری چڑیوں کی بات تو ہم اکثر کرتے رہتے ہیں، بچپن میں جب ہمارے کھیتوں میں کوئی فصل پکنے لگتی تھی تو اس پر چڑیوں کی یلغار ہوجاتی تھی۔

ان چڑیوں کو بھگانے کے لیے ہم بچوں کی ڈیوٹی لگائی جاتی تھی ،پہلے تو یونہی کھیت کے کنارے پھر پھر کر ''ہاوہو'' سے ان چڑیوں کوبھگاتے یا اڑاتے تھے، پھر اس سے کام نہ چلتا تو کنستر میں پتھر روڑے ڈال کر بجاتے یا ویسے پیٹ پیٹ کر کنستر بجاتے تھے، شروع شروع میں تو چڑیاں اڑجاتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ ان آوازوں سے مانوس ہوکر ٹس سے مس بھی نہ ہوتی تھیں، ایسے موقع پر بزرگ کہتے تھے چڑیاں بہری ہوگئی ہیں۔

ہم پاکستانی چڑیاں بھی روز روزکے نرخوں، قیمتوں اور بجٹوں کے دھماکے سن سن کر اب بہریاں چڑیاں بن چکے ہیں ۔اس لیے بات وہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جب گھر سے نکلتے ہیں تو سڑکیں پار کرنے کے ہفت خوان شروع ہوجاتے ہیں ،سڑک کوئی دیہات ہی کی کیوں نہ ہو، اسے پار کرنا گو موت کے کنوئیں میں چلنا ہوتا ہے۔

کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد ٹریفک کے دریا میں کوئی رخنہ آتا ہے تو سڑک پار کریں ورنہ کھڑے رہیں گے ، ہمارے گاؤں کی ایک خاتون نے اس سلسلے میں ایک نئی ایجاد کی ہے ۔کہتی ہے کسی بھی رکشے والے کو روک کر ہاتھ پر دس روپے (پرانی بات) کا نوٹ رکھتی ہوں اور سڑک پار کرنے کو کہتی ہوں ۔


پاکستان میں ٹریفک کی اتنی بہتات ہے کہ سڑک کو دیکھیے تو لگتاہے جیسے ساری دنیا کی گاڑیاں سڑک پر نکل آئی ہوں، کسی پارکنگ میں جائیے تو لگتا ہے کہ ساری گاڑیاں تو پارک ہوچکی ہیں، بازار میں نکلیے تو ہر دکان کے آگے گاڑیوں کی تین تہیں ہوتی ہیں اور بیچ میں صرف اتنی جگہ ہوتی ہے کہ گاڑیاں رک رک بلکہ رینگ رینگ کرچلتی ہیں ۔

آپ تو جانتے ہیں کہ پاکستان میں سقراط، بقراط اور بزرگ جمہرزیادہ پیدا ہوتے ہیں چنانچہ اس موضوع پر بھی ایک دانا دانشور نے ہمارے کان خالی دیکھ کر بہت زبردست فلسفہ بگارا۔ بولے ،پاکستان میں اپنی کوئی گاڑی نہیں بنتی لیکن پھر بھی اتنی گاڑیاں ؟ اس کا مطلب تویہی نکلتاہے کہ پاکستان دنیا کا مالدار ترین ملک ہے ۔

ہم نے بھی اس کا حسب منشا جواب دے دیا، ہاں بالکل مالدار ترین تو ہے آخر ''پچیس کروڑ'' تیل کے کنوئیں بھی جو اس کے پاس ہیں اور ہرکنواں ''خشک'' ہونے سے پہلے کم سے کم چار اورکنوئیں پیداکرکے دیتا ہے اور وہ مان بھی گیا کہ پاکستانی ''ماننے''میں بھی نہایت ہی سعادت مند واقع ہوتے ہیں، کوئی لیڈرکچھ بھی کہے، مان لیتے ہیں ۔

ورنہ اصل بات یہ ہے کہ اس ملک میں ابھی تک کوئی حکومت آئی ہی نہیں، گینگ وارکاسلسلہ ہے اورگینگ پالیسیاں نہیں بناتے صرف لوٹتے ہیں اور''داد'' بناتے ہیں ورنہ ہرملک میں ہر چیز کا ایکسپائری ڈیٹ ہوتا ہے جو گاڑیوں پر لاگوہوتا ہے چنانچہ پچیس یاتیس سال پرانی گاڑیاں سڑکوں پر بند کر دی جاتی ہیں جب کہ پاکستان میں شاید انیس سو تیس تا چالیس کی گاڑیاں بھی سڑکوں پر فراٹے بھر رہی ہیں۔

جسے گاڑی کہنا ہی گاڑی کی توہین ہے کہ اس پر ملنگوں کے کمبل کی طرح ہر دوراور ہر رنگ کے ٹکڑے لگے ہوتے ہیں۔ایک مرتبہ ہمیں کسی نے بتایا کہ فلاں شخص کے پاس ایک موٹر سائیکل برائے فروخت موجود ہے، دیکھنے گئے تو ایک ہی موٹرسائیکل میں پورا جاپان اکٹھا کیا گیا تھا، ہرہرکمپنی کا کچھ نہ کچھ اس میں لگا ہوا تھا بلکہ پاکستان اور چائنا بھی کہیں کہیں دکھائی دے رہے تھے ۔

ہمارے ہاں ایک خالص پاکستانی ایجاد بھی ہے، اسے مقامی اصطلاح میں ''گٹو'' کہتے ہیں، یہ کسی بھی شکل میں ہوسکتا ہے، ٹرک ،ٹریکٹر، جیپ، موٹر،وین، پک اپ۔اس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں باقی سب کچھ ہوتاہے لیکن اس میں اصل گاڑی کا کچھ بھی نہیں ہوتا ،جس سے اس کی تعمیر کی ابتدا ہوئی تھی ۔

ایک دن ہم نے یہ بات ایک دانا سے کہی اور اپنے خیال میں خود کو دانشورتصورکرتے ہوئے کہی کہ اگر حکومت اسلام آباد کی طرح پورے ملک میں گاڑیوں کی ایکسپائری ڈیٹ لاگوکرے تو پچھتر فی صد تیل بچ سکتا ہے۔

اس پر اس دانا نے ہم پر ترحم کی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا ، وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ تیل کے تاجر گاڑیوں کے تاجر پمپوں کے مالک اور اس عظیم گنج بے بہا سے چپکے ہوئے وہ بیچارے کہاں جائیں گے جو راج دلارے ہوتے ہیں ۔
Load Next Story