غنیمت فلاحی ادارے
سنا ہے آپ اس سال بھی راشن تقسیم کر رہے ہیں؟ جی کر رہے ہیں، آپ فرمائیں۔ اس جواب کے بعد فون کرنے والے نے کہا؛ جی میرے پڑوس میں دو تین خاندانوں کو اشد ضرورت ہے، سفید پوش ہیں، کسی سے کہنے کی ہمت نہیں، اگر ان کی امداد ہو جائے تو... لاہور سے نامور آرکیٹیکٹ پرویز چشتی یہ گفتگو سناتے ہوئے گلوگیر ہو گئے۔
بولے، میں ان صاحب کو عرصے سے جانتا ہوں، سفید پوش ہیں، مہنگائی نے عام آدمی کی طرح انھیں بھی بے حال کر دیا ہے ، اپنا نام زبان پر لاتے ہوئے جھجھک رہے تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ پڑوس کے پردے میں اپنی ہی بات کر رہے تھے۔
کمر توڑ مہنگائی نے سفید پوش اور معاشی تنگ دستی کے شکار لوگوں کو انتہائی تکلیف دہ چوائسز کی نذر کر دیا ہے۔ کراچی سے اشرف باوانی ایک سینئیر کارپوریٹ ایگزیکٹیو ہیں ، چار ویلفئیر اداروں کے بورڈ پر ہیں۔
ہیلپ انٹرنیشنل ویلفئیر ٹرسٹ کا ایک واقعہ کچھ یوں سنایا؛ ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھیلیسیمیا کی شکار ایک بچی زیر علاج تھی، صبح نو بجے اس کی اپوائنٹمنٹ طے تھی لیکن خلاف معمول وہ بچی بر وقت نہیں آئی۔
عملے نے انتظار کیا، اس دوران اوقات کار ختم ہونے کو تھے کہ بچی کی ماں بچی کو اٹھائے سینٹر میں داخل ہوئی شدید گرمی اور حبس کے موسم میں اس کے کپڑے پسینے سے شرابور اور چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔
عملے نے اسے واضح کیا کہ قصور تمہارا ہے، صبح نو بجے کے بجائے ایک بجے آ رہی ہو جب کہ عملہ کام ختم کرکے جانے کو ہے۔یہ سن کر خاتون نے اپنی بپتا سنائی ؛ کیا کرتی، جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی، کرائے کی رقم کا بندوبست نہ ہوسکا، مجبوراً بچی کو اٹھائے پانچ چھ کلومیٹر پیدل چل کر آئی اس لیے دیر ہو گئی۔ یہ سن کر عملے کے دل بھی پسیج گئے۔
اشرف باوانی کا نکتہ یہ تھا کہ معاشی مسائل بڑھنے سے نچلے طبقات کی زندگی کی چوائسز مزید درہم ہو گئی ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری نے اس قدر زیر بار کر دیا ہے کہ بیماری کی صورت میں'' مرے کو مارے شاہ مدار '' والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
اللہ معاف کرے اگر تھیلیسیمیا، ڈائیلسیز وغیرہ سے واسطہ پڑجائے تو خاندان بھر کی زندگی زیر و زبر ہو جاتی ہے۔ اصولاً ریاست کو غریب اور لاچار لوگوں کا آسرا بننا چاہیے لیکن حکومت اور ریاستی ڈھانچے کے اپنے مسائل ہیں۔
ایسے میں غنیمت ہے کہ کئی پبلک ویلفیئرادارے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ، ایدھی فاونڈیشن، الخدمت، اخوت، سندس فاونڈیشن، ریڈ اسکول سسٹم، الغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے ادارے اپنے اپنے طور پر وسائل جمع کرکے ایسے لوگوں کے لیے علاج، تعلیم اور قدرتی آفات کی صورت میں مصروف عمل ہیں۔
اسی میدان میں چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ، ٹاون شپ لاہور بھی شامل ہے جو خاموشی سے علاج معالجے اور تعلیم کے میدان میں 37 سالوں سے مصروف عمل ہیں۔
چوہدری رحمت علی پاکستان کی تاریخ کے دلچسپ کردار ہیں۔ متحدہ بھارت میں جب زیادہ تر سیاسی جماعتیں ملک کے اندر سیاسی بقا اور آزادی کے لیے راستہ بنانے کی تگ و دو میں تھیں تو تیس کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ علاقائی خطوں پر مشتمل ملک کی تجویز دی۔ 1933 میں لکھے اپنے شہرہ آفاق کتابچے Now or Never میں پہلی بات انھوں نے نئے ممکنہ ملک کے لیے لفظ پاکستان استعمال کیا۔
یہ لفظ انھوں نے کیسے سوچا، اس کی توجیہ ہم سب کو معلوم ہے۔ انھوں نے اپنے تئیں پاکستان نیشنل موومنٹ نام کی ایک متحرک تنظیم بھی تشکیل دی۔
ان کے سیاسی نظریات مسلم لیگ سے مختلف تھے۔ تاہم 1940 کی قرارداد لاہور منظور ہونے پر گزشتہ روز پریس نے اس قرارداد کو پاکستان کے نام سے پکارا۔ گو مسلم لیگ نے اس وقت تک اس نام کو رسمی طور پر اپنایا نہیں تھا لیکن نام کی معنویت اور خوبصورتی نے اس کے بعد آزادی کی تحریک کو ایک روح پرور چہرہ دے دیا۔
اس کے بعد چل سو چل۔ یہ الگ داستان ہے کہ اس نام کے خالق کے ساتھ بعد میں جو سلوک ہوا وہ یقیناً نامناسب تھا۔ ان کا کسمپرسی کے عالم میں برطانیہ میں ہی انتقال ہوا۔
ان کے ایک دوست ڈاکٹر ایس ایم کے واسطی جو لاہور کے مشہور چائلڈ اسپیشلسٹ اور میو اسپتال میں چلڈرن وارڈ کے بانیوں میں سے تھے، انھوں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر 1976 میں ان کے نام پر ٹرسٹ بنانے کی ٹھانی۔ جو پودا انھوں نے لگایا آج اس شجرِ سایہ دار کے تحت ایک اسپتال، ایک گرلز اسکول، ایک بوائز اسکول، ایک جونئیر اسکول، ایک مسجد اور اس سے ملحق ایک مدرسہ قائم ہے۔
چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ اسپتال سے سالانہ 160,000کے لگ بھگ افراد مستفید ہوتے ہیں، غریب اور مستحق افراد کا علاج مفت کیا جاتا ہے، 50 روپے کی علامتی پرچی پر OPD سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اسپتال میں جنرل میڈیسن، گائنی و زچہ بچہ،جنرل سرجری،ای این ٹی، نیورالوجی،جلد،چیسٹ وٹی بی، چلڈرن، چشم، ڈینٹل و ذیابیطس کے شعبہ جات کام کر رہے ہیں ، ڈائیگناسٹک کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
ٹرسٹ کے زیر اہتمام وسیع کیمپس پر بوائز ہائی اسکول، گرلز اسکول اور جونئیر اسکول میں طلباء و طالبات کی تعداد 2300 سے زائد ہے۔
ماہانہ فیس انتہائی کم ، ذہین و مستحق طلباء طالبات فیس میں خصوصی رعایت / اسکالرشپ جب کہ انتہائی ضرورت مند طلباء مفت تعلیم سے مستفید ہوتے ہیں۔جامعہ مسجد رحمت و دارالعلوم میں بچوں کو حفظِ قرآن، ناظرہ تجوید و درسِ نظامی کی مفت تعلیم جب کہ ان بچوں کے کھانے پینے، علاج اور رہائش کے اخراجات بھی ادارہ کے ذمے ہیں۔
ٹرسٹ کے ماہانہ کل اخراجات ایک کروڑ سے زائد ہیں جب کہ توسیع اور مزید سہولیات کے لیے عطیات اور مالی معاونت کا تخمینہ الگ ۔ جو احباب اس شجر سایہ دار کا سایہ پھیلانے میں زکوۃٰ، عطیات و صدقات کے ذریعے سے شامل ہو سکیں۔
اس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی بھی ہے اور معاشرے کے حق داروں کا حق ادا ہونے کی صورت بھی ہے۔رابطے اور عطیات کے لیے تفصیلات:
Ch. Rahmat Ali Memorial Trust45-Civic Centre, Dr. Wasti Chowk, Township, Lahore
Phone:042-35154812, 0309-3330125.
بولے، میں ان صاحب کو عرصے سے جانتا ہوں، سفید پوش ہیں، مہنگائی نے عام آدمی کی طرح انھیں بھی بے حال کر دیا ہے ، اپنا نام زبان پر لاتے ہوئے جھجھک رہے تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ پڑوس کے پردے میں اپنی ہی بات کر رہے تھے۔
کمر توڑ مہنگائی نے سفید پوش اور معاشی تنگ دستی کے شکار لوگوں کو انتہائی تکلیف دہ چوائسز کی نذر کر دیا ہے۔ کراچی سے اشرف باوانی ایک سینئیر کارپوریٹ ایگزیکٹیو ہیں ، چار ویلفئیر اداروں کے بورڈ پر ہیں۔
ہیلپ انٹرنیشنل ویلفئیر ٹرسٹ کا ایک واقعہ کچھ یوں سنایا؛ ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھیلیسیمیا کی شکار ایک بچی زیر علاج تھی، صبح نو بجے اس کی اپوائنٹمنٹ طے تھی لیکن خلاف معمول وہ بچی بر وقت نہیں آئی۔
عملے نے انتظار کیا، اس دوران اوقات کار ختم ہونے کو تھے کہ بچی کی ماں بچی کو اٹھائے سینٹر میں داخل ہوئی شدید گرمی اور حبس کے موسم میں اس کے کپڑے پسینے سے شرابور اور چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔
عملے نے اسے واضح کیا کہ قصور تمہارا ہے، صبح نو بجے کے بجائے ایک بجے آ رہی ہو جب کہ عملہ کام ختم کرکے جانے کو ہے۔یہ سن کر خاتون نے اپنی بپتا سنائی ؛ کیا کرتی، جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی، کرائے کی رقم کا بندوبست نہ ہوسکا، مجبوراً بچی کو اٹھائے پانچ چھ کلومیٹر پیدل چل کر آئی اس لیے دیر ہو گئی۔ یہ سن کر عملے کے دل بھی پسیج گئے۔
اشرف باوانی کا نکتہ یہ تھا کہ معاشی مسائل بڑھنے سے نچلے طبقات کی زندگی کی چوائسز مزید درہم ہو گئی ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری نے اس قدر زیر بار کر دیا ہے کہ بیماری کی صورت میں'' مرے کو مارے شاہ مدار '' والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
اللہ معاف کرے اگر تھیلیسیمیا، ڈائیلسیز وغیرہ سے واسطہ پڑجائے تو خاندان بھر کی زندگی زیر و زبر ہو جاتی ہے۔ اصولاً ریاست کو غریب اور لاچار لوگوں کا آسرا بننا چاہیے لیکن حکومت اور ریاستی ڈھانچے کے اپنے مسائل ہیں۔
ایسے میں غنیمت ہے کہ کئی پبلک ویلفیئرادارے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ، ایدھی فاونڈیشن، الخدمت، اخوت، سندس فاونڈیشن، ریڈ اسکول سسٹم، الغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے ادارے اپنے اپنے طور پر وسائل جمع کرکے ایسے لوگوں کے لیے علاج، تعلیم اور قدرتی آفات کی صورت میں مصروف عمل ہیں۔
اسی میدان میں چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ، ٹاون شپ لاہور بھی شامل ہے جو خاموشی سے علاج معالجے اور تعلیم کے میدان میں 37 سالوں سے مصروف عمل ہیں۔
چوہدری رحمت علی پاکستان کی تاریخ کے دلچسپ کردار ہیں۔ متحدہ بھارت میں جب زیادہ تر سیاسی جماعتیں ملک کے اندر سیاسی بقا اور آزادی کے لیے راستہ بنانے کی تگ و دو میں تھیں تو تیس کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ علاقائی خطوں پر مشتمل ملک کی تجویز دی۔ 1933 میں لکھے اپنے شہرہ آفاق کتابچے Now or Never میں پہلی بات انھوں نے نئے ممکنہ ملک کے لیے لفظ پاکستان استعمال کیا۔
یہ لفظ انھوں نے کیسے سوچا، اس کی توجیہ ہم سب کو معلوم ہے۔ انھوں نے اپنے تئیں پاکستان نیشنل موومنٹ نام کی ایک متحرک تنظیم بھی تشکیل دی۔
ان کے سیاسی نظریات مسلم لیگ سے مختلف تھے۔ تاہم 1940 کی قرارداد لاہور منظور ہونے پر گزشتہ روز پریس نے اس قرارداد کو پاکستان کے نام سے پکارا۔ گو مسلم لیگ نے اس وقت تک اس نام کو رسمی طور پر اپنایا نہیں تھا لیکن نام کی معنویت اور خوبصورتی نے اس کے بعد آزادی کی تحریک کو ایک روح پرور چہرہ دے دیا۔
اس کے بعد چل سو چل۔ یہ الگ داستان ہے کہ اس نام کے خالق کے ساتھ بعد میں جو سلوک ہوا وہ یقیناً نامناسب تھا۔ ان کا کسمپرسی کے عالم میں برطانیہ میں ہی انتقال ہوا۔
ان کے ایک دوست ڈاکٹر ایس ایم کے واسطی جو لاہور کے مشہور چائلڈ اسپیشلسٹ اور میو اسپتال میں چلڈرن وارڈ کے بانیوں میں سے تھے، انھوں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر 1976 میں ان کے نام پر ٹرسٹ بنانے کی ٹھانی۔ جو پودا انھوں نے لگایا آج اس شجرِ سایہ دار کے تحت ایک اسپتال، ایک گرلز اسکول، ایک بوائز اسکول، ایک جونئیر اسکول، ایک مسجد اور اس سے ملحق ایک مدرسہ قائم ہے۔
چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ اسپتال سے سالانہ 160,000کے لگ بھگ افراد مستفید ہوتے ہیں، غریب اور مستحق افراد کا علاج مفت کیا جاتا ہے، 50 روپے کی علامتی پرچی پر OPD سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اسپتال میں جنرل میڈیسن، گائنی و زچہ بچہ،جنرل سرجری،ای این ٹی، نیورالوجی،جلد،چیسٹ وٹی بی، چلڈرن، چشم، ڈینٹل و ذیابیطس کے شعبہ جات کام کر رہے ہیں ، ڈائیگناسٹک کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
ٹرسٹ کے زیر اہتمام وسیع کیمپس پر بوائز ہائی اسکول، گرلز اسکول اور جونئیر اسکول میں طلباء و طالبات کی تعداد 2300 سے زائد ہے۔
ماہانہ فیس انتہائی کم ، ذہین و مستحق طلباء طالبات فیس میں خصوصی رعایت / اسکالرشپ جب کہ انتہائی ضرورت مند طلباء مفت تعلیم سے مستفید ہوتے ہیں۔جامعہ مسجد رحمت و دارالعلوم میں بچوں کو حفظِ قرآن، ناظرہ تجوید و درسِ نظامی کی مفت تعلیم جب کہ ان بچوں کے کھانے پینے، علاج اور رہائش کے اخراجات بھی ادارہ کے ذمے ہیں۔
ٹرسٹ کے ماہانہ کل اخراجات ایک کروڑ سے زائد ہیں جب کہ توسیع اور مزید سہولیات کے لیے عطیات اور مالی معاونت کا تخمینہ الگ ۔ جو احباب اس شجر سایہ دار کا سایہ پھیلانے میں زکوۃٰ، عطیات و صدقات کے ذریعے سے شامل ہو سکیں۔
اس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی بھی ہے اور معاشرے کے حق داروں کا حق ادا ہونے کی صورت بھی ہے۔رابطے اور عطیات کے لیے تفصیلات:
Ch. Rahmat Ali Memorial Trust45-Civic Centre, Dr. Wasti Chowk, Township, Lahore
Phone:042-35154812, 0309-3330125.