ڈیفنس کراچی کو بارش کے پانی سے بچانے کے مشن کا پہلا مرحلہ مکمل
یہ منصوبہ ماضی کے مقابلے میں چار گنا بڑا ہے جسے 100 سال کے ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جارہا ہے
ڈی ایچ اے کا مون سون بارشوں کی نکاسی کے منصوبے اسٹروم واٹرڈرینج سسٹم کے 49 کلومیٹرپرمحیط پہلا مرحلہ رواں سال جون میں مکمل کرلیا جائےگا، ہائیڈروگرافی کے بعد 74 کلومیٹر طویل نکاسی آب کے نظام کو اگلے 100 سالہ بارشوں کے متوقع ڈیٹا کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ڈی ایچ اے کی جانب سے مون سون کی سن 2020اورسن 2022میں ہونے والی غیرمعمولی بارشوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کے سبب اسٹروم واٹر ڈرینج سسٹم کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈی ایچ اے انتظامیہ کے مطابق نکاسی آب کا منصوبہ تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے، منصوبے کا آغازگذشتہ برس ستمبرکے مہینے میں کیاگیا، 74 کلومیٹرطویل منصوبے میں تارکول کی پکی سڑک کے نیچے ڈیڑھ میٹرگہرااورڈھائی میٹرچوڑابرساتی نالہ گزرے گا جبکہ منصوبے کی مکمل تکمیل پرڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتاہ۔
اس منصوبے کے ذریعے خیابان نشاط، بخاری، فیز4 سمیت دیگرمقامات پرجمع ہونے والے پانی کا مسئلہ مکمل طورپرحل ہوجائےگا،اس منصوبے کی ہائیڈروگرافی کے بعد اسے ماہرین نے ڈیزائن کیا ہے،اورنیس پاک اوراین ایل سی کی خصوصی تیکنیکی معاونت کے سبب یہ سابقہ نکاسی آب کے نظام سے 4گنا بڑامنصوبہ ہے،جس میں 100سالہ بارشوں کے ڈیٹاکومدنگاہ رکھا گیا ہے، جس وقت اسٹروم واٹرڈرین پراجیکٹ مکمل طورپرفعال ہوجائےگا توانھیں سابقہ تلخ تجربات سے یقینی طورپرچھٹکارامل جائےگا۔
ترجمان ڈی ایچ اے کے مطابق اس منصوبے کو دومختلف مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے،پہلے مرحلے میں 49 کلومیٹرپرمبنی ہے،فیز ون میں ان علاقوں کو ترجیح اورفوقیت دی گئی ہے، جو سن 2020اور2022کی مون سون بارشوں کے دوران بہت زیادہ متاثرہوئے، نکاسی آب کے اس منصوبے کے دوران مین ڈرین کی شیٹرنگ تو وہیں پرہورہی ہے جبکہ لنک اورانٹرسیپٹرز کی چھتیں اوردیگرمیٹریل بیچنگ پلانٹ پرتیارہورہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ کنسلنٹنٹ کی جانب سے ایک لیبارٹری بھی قائم کی گئی ہے، جس میں تیارمیٹریل کوچیک کیا جاتا ہےاوراس کے معیار کو جانچا جاتاہے۔ ڈی ایچ اے کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے دوران کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں سرفہرست کھدائی کے وقت لینڈ سلائیڈنگ، پینے کے صاف پانی کی لائنوں کے جال کی منتقلی، زیرزمین بچھی یوٹیلیٹی سروسز کی لائنوں کو کے الیکٹرک اورسوئی سدرن کمپنی کے ذریعے دوسری جگہ پرمنتقل کرنے کا صبر آزما اورانتہائی تیکنیکی مراحل سرکیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرانی سیوریج لائنوں اورپینے کے صاف پانی کے لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ کے سبب نئی لائنوں سے تبدیلی کا عمل بھی برق رفتاری سے جاری ہے، ان تمام چیلنجوں کے باوجود ڈی ایچ اے پرعزم ہے،منصوبے کی راہ میں سریے اورسیمنٹ کی حالیہ قیمتوں میں بے انتہا اضاف کی وجہ سے بھی جاری کاموں پرمنفی اثرات پڑے،تاہم اس معاملے پرکافی حد تک قابوپالیا گیا،اس وقت 15دن کا ریزروسریا اوردوسرامیٹریل موجود ہے، سمندر اورمحمود آباد نالے میں جانے والے آوٹ فالزپرخصوصی ڈیزائن کیے گئے پمپس نصب کیے جائینگے،پانی کے اخراج کے لیے سمندرپر2 جبکہ محمودآباد نالے پربھی 2آوٹ فالزپہلے سے موجود ہیں،تاہم اب مذکورہ منصوبے کے تحت ان دونوں مقامات پر6مذید آوٹ فالز تعمیر کیے جارہے ہیں،جو انتہائی طاقتورپمپس سے لیس ہونگے۔ جو سینسرز کے ذریعے کام کرینگے اوربارش کے پانی کو انتہائی تیزی سے محمود آباد اورسمندربردکرے گے۔
ترجمان ڈی ایچ اے کے مطابق پہلے فیزمیں جاری کام آئندہ مون سون سے پہلے مکمل کردیا جائے گا تاکہ گذشتہ برسوں میں ہونے والی ہنگامی بارشوں کے زیادہ متاثرہ علاقوں کے مکینوں کو دوبارہ ماضی جیسی صورتحال سے نہ گذرنا پڑے، یہ بات بھی اولین ترجیحات میں شامل ہے کہ منصوبہ اپنے مقررہ وقت پرمکمل ہو، مکینوں سے درخواست ہے کہ ڈی ایچ اے تعاون کریں،اس پراجیکٹ کی پلاننگ میں مکینوں کی تکالیف کو مدنظررکھا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق مکینوں اور شہریوں کی رہنما اس کے حوالے سے ہیلپ لائن اورٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں،جو کسی بھی شکایت کے ازالے کے لیے ہمہ وقت موجود ہوں گی، پہلے مرحلے پرمشتمل منصوبہ 30جون کو مکمل کردیا جائےگا۔
واضح رہے کہ سن 2007میں غیرمعمولی بارشوں کے بعد ڈی ایچ اے انتظامیہ نے نکاسی آب کے اس منصوبے پرکام شروع کردیا تھا،تاہم کچھ علاقہ مکینوں کی جانب سے اس پراعتراضات کے بعد یہ منصوبہ پس منظر میں چلا گیاتھا،تاہم سن 2020اورحالیہ مون سون بارشوں کے بعد اس منصوبے کی تکمیل ناگزیرقراردی گئی۔
ڈی ایچ اے کی جانب سے مون سون کی سن 2020اورسن 2022میں ہونے والی غیرمعمولی بارشوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کے سبب اسٹروم واٹر ڈرینج سسٹم کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈی ایچ اے انتظامیہ کے مطابق نکاسی آب کا منصوبہ تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے، منصوبے کا آغازگذشتہ برس ستمبرکے مہینے میں کیاگیا، 74 کلومیٹرطویل منصوبے میں تارکول کی پکی سڑک کے نیچے ڈیڑھ میٹرگہرااورڈھائی میٹرچوڑابرساتی نالہ گزرے گا جبکہ منصوبے کی مکمل تکمیل پرڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتاہ۔
اس منصوبے کے ذریعے خیابان نشاط، بخاری، فیز4 سمیت دیگرمقامات پرجمع ہونے والے پانی کا مسئلہ مکمل طورپرحل ہوجائےگا،اس منصوبے کی ہائیڈروگرافی کے بعد اسے ماہرین نے ڈیزائن کیا ہے،اورنیس پاک اوراین ایل سی کی خصوصی تیکنیکی معاونت کے سبب یہ سابقہ نکاسی آب کے نظام سے 4گنا بڑامنصوبہ ہے،جس میں 100سالہ بارشوں کے ڈیٹاکومدنگاہ رکھا گیا ہے، جس وقت اسٹروم واٹرڈرین پراجیکٹ مکمل طورپرفعال ہوجائےگا توانھیں سابقہ تلخ تجربات سے یقینی طورپرچھٹکارامل جائےگا۔
ترجمان ڈی ایچ اے کے مطابق اس منصوبے کو دومختلف مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے،پہلے مرحلے میں 49 کلومیٹرپرمبنی ہے،فیز ون میں ان علاقوں کو ترجیح اورفوقیت دی گئی ہے، جو سن 2020اور2022کی مون سون بارشوں کے دوران بہت زیادہ متاثرہوئے، نکاسی آب کے اس منصوبے کے دوران مین ڈرین کی شیٹرنگ تو وہیں پرہورہی ہے جبکہ لنک اورانٹرسیپٹرز کی چھتیں اوردیگرمیٹریل بیچنگ پلانٹ پرتیارہورہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ کنسلنٹنٹ کی جانب سے ایک لیبارٹری بھی قائم کی گئی ہے، جس میں تیارمیٹریل کوچیک کیا جاتا ہےاوراس کے معیار کو جانچا جاتاہے۔ ڈی ایچ اے کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے دوران کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں سرفہرست کھدائی کے وقت لینڈ سلائیڈنگ، پینے کے صاف پانی کی لائنوں کے جال کی منتقلی، زیرزمین بچھی یوٹیلیٹی سروسز کی لائنوں کو کے الیکٹرک اورسوئی سدرن کمپنی کے ذریعے دوسری جگہ پرمنتقل کرنے کا صبر آزما اورانتہائی تیکنیکی مراحل سرکیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرانی سیوریج لائنوں اورپینے کے صاف پانی کے لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ کے سبب نئی لائنوں سے تبدیلی کا عمل بھی برق رفتاری سے جاری ہے، ان تمام چیلنجوں کے باوجود ڈی ایچ اے پرعزم ہے،منصوبے کی راہ میں سریے اورسیمنٹ کی حالیہ قیمتوں میں بے انتہا اضاف کی وجہ سے بھی جاری کاموں پرمنفی اثرات پڑے،تاہم اس معاملے پرکافی حد تک قابوپالیا گیا،اس وقت 15دن کا ریزروسریا اوردوسرامیٹریل موجود ہے، سمندر اورمحمود آباد نالے میں جانے والے آوٹ فالزپرخصوصی ڈیزائن کیے گئے پمپس نصب کیے جائینگے،پانی کے اخراج کے لیے سمندرپر2 جبکہ محمودآباد نالے پربھی 2آوٹ فالزپہلے سے موجود ہیں،تاہم اب مذکورہ منصوبے کے تحت ان دونوں مقامات پر6مذید آوٹ فالز تعمیر کیے جارہے ہیں،جو انتہائی طاقتورپمپس سے لیس ہونگے۔ جو سینسرز کے ذریعے کام کرینگے اوربارش کے پانی کو انتہائی تیزی سے محمود آباد اورسمندربردکرے گے۔
ترجمان ڈی ایچ اے کے مطابق پہلے فیزمیں جاری کام آئندہ مون سون سے پہلے مکمل کردیا جائے گا تاکہ گذشتہ برسوں میں ہونے والی ہنگامی بارشوں کے زیادہ متاثرہ علاقوں کے مکینوں کو دوبارہ ماضی جیسی صورتحال سے نہ گذرنا پڑے، یہ بات بھی اولین ترجیحات میں شامل ہے کہ منصوبہ اپنے مقررہ وقت پرمکمل ہو، مکینوں سے درخواست ہے کہ ڈی ایچ اے تعاون کریں،اس پراجیکٹ کی پلاننگ میں مکینوں کی تکالیف کو مدنظررکھا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق مکینوں اور شہریوں کی رہنما اس کے حوالے سے ہیلپ لائن اورٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں،جو کسی بھی شکایت کے ازالے کے لیے ہمہ وقت موجود ہوں گی، پہلے مرحلے پرمشتمل منصوبہ 30جون کو مکمل کردیا جائےگا۔
واضح رہے کہ سن 2007میں غیرمعمولی بارشوں کے بعد ڈی ایچ اے انتظامیہ نے نکاسی آب کے اس منصوبے پرکام شروع کردیا تھا،تاہم کچھ علاقہ مکینوں کی جانب سے اس پراعتراضات کے بعد یہ منصوبہ پس منظر میں چلا گیاتھا،تاہم سن 2020اورحالیہ مون سون بارشوں کے بعد اس منصوبے کی تکمیل ناگزیرقراردی گئی۔