نواز‘ زرداری ملاقات… ایجنڈا کیا تھا

’’تحفظ پاکستان‘‘ کے نام پر جو قانون ہمارے سامنے آیا ہے وہ بنیادی طور پر اس ممکنہ Blow Back کو Degrade کرنا چاہتا ہے

nusrat.javeed@gmail.com

24/7 چینل کے لیے رپورٹنگ کرنا کافی مشکل کام ہے۔ مگر اس سے متعلقہ پیشہ وارانہ مشکلات ہرگز اس بات کا جواز فراہم نہیں کرتیں کہ Beeper فروش انتہائی ڈھٹائی سے بے پرکی اُڑانا شروع ہو جائیں۔ آصف علی زرداری کی نواز شریف سے ملاقات کافی دنوں سے طے تھی۔ مجھے اس ملاقات کے طے ہو جانے کی خبر 6 اپریل کو ملی تھی۔

اس وقت تک آئی ایس پی آر کی طرف سے وہ بیان بھی جاری نہیں ہوا تھا جس نے بہت سارے ''ایمان داروں'' کے دلوں میں ''اچھی حکومت'' قائم کرنے کے مشن میں کوئی ''خدمت'' سرانجام دینے کی امیدیں جگا دی ہیں۔ ملاقات کا مقصد جو مجھے بتایا گیا وہ بھی کافی قابل اعتماد محسوس ہوا۔ چند ہفتے پہلے نواز شریف کا چوہدری نثار علی خان کی جیپ میں بیٹھ کر بنی گالہ پہنچ جانا بھی بنیادی طور پر اسی مقصد کے حصول کی خاطر ممکن ہوا تھا۔

ہمیں یہ بات اب سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں دہشت اور افراتفری کی فضاء اب فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ ملک کو بچانا، سنوارنا اور اسے اقتصادی استحکام کی راہ پر ڈالنا ہے تو یہاں امن قائم کرنا ہو گا۔ دائمی امن کے قیام کی خاطر ہی اس حوالے سے بہت اہم فریق نظر آنے والوں سے مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ہمارے منقسم معاشرے میں بہت سارے افراد بڑی شدت سے اس مذاکراتی عمل کے مخالف ہیں۔ میرا اپنا شمار بھی ایسے لوگوں میں کیا جا سکتا ہے۔ مذاکراتی عمل کو تقویت دینے کے لیے نواز حکومت کو لیکن فی الوقت میرے جیسے افراد کو دلائل کے ذریعے قائل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی پہلی ترجیح دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ کئی دوسری اہم سیاسی جماعتیں بھی مذاکرات کی حامی ہیں۔ عمران خان اور ان کی تحریکِ انصاف ان جماعتوں میں سے سب سے زیادہ شدت گیر اور بلند آواز ہیں۔ لہذا نواز شریف عمران خان کے ہاں پہنچ گئے۔ پنجاب اور خیبرپختون خوا میں سب سے زیادہ متحرک اور موثر نظر آنے والی جماعتیں مذاکرات کے معاملے میں یکسو ہو گئیں۔

مذاکرات کا دونوں فریقین کی جانب سے پر خلوص آغاز مگر اس بات کو ہرگز یقینی نہیں بناتا کہ ان کا انجام صرف خیر کی صورت میں برآمد ہو گا۔ انگریزی محاورے میں چائے کا کپ ہونٹوں تک پہنچنے سے پہلے کئی لمحات کے دوران زمین پر گر کے ٹکڑے ٹکڑے بھی ہو سکتا ہے۔ چائے کا کپ ہونٹوں تک پہنچ نہ پایا تو ''آپریشن'' کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہے گا۔ آپریشن آپریشن کی دہائی دینے والوں کو مگر اس بات کا ادراک نہیں کہ جن کے خلاف آپریشن کرنا ہے وہ کسی ایک مقام پر ایک باقاعدہ فوج کی طرح مورچوں اور مچانوں پر جم کر نہیں بیٹھے ہیں۔

ابھی تک قومی سلامتی کے اداروں کے جو اعلیٰ سطحی اجلاس ہوئے ہیں ان سب میں مختلف النوع انٹیلی جنس کے ذرایع سے خبر اور تجزیے سامنے یہی آئے ہیں کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں 130 کے قریب Sleepers Cells پھیلا دیے گئے ہیں۔ آپریشن شمال پر مرکوز ہوا تو Blow Back جنوب میں آئے گا۔ ریاست جنوب میں مصروف ہوئی تو مشرق و مغرب میں کئی ہولناک واقعات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن کا سب سے زیادہ شکار عام شہری ہوں گے۔ Blow Back کے امکانات کو مناسب پیش قدمی کے ذریعےDegrade کیے بغیر آپریشن کی آگ میں کود جانا قطعاََ حماقت ہو گی۔


''تحفظ پاکستان'' کے نام پر جو قانون ہمارے سامنے آیا ہے وہ بنیادی طور پر اس ممکنہ Blow Back کو Degrade کرنا چاہتا ہے۔ اس قانون کا اصل مسودہ اس ادارے کی طرف سے آیا تھا جس کا کسی ممکنہ آپریشن میں کردار کلیدی ہو گا۔ اکرم شیخ نے، جی ہاں وہی اکرم شیخ نے، جو ان دنوں جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کے سرکاری وکیل ہونے کی وجہ سے کئی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں، کئی گھنٹے جاگ کر اس مسودے کی قانونی نوک پلک درست کی۔ سیاسی جماعتوں کو یہ قانون ہضم کرنا پھر بھی بہت مشکل لگا۔

سیاسی جماعتوں کی مزاحمت کو محض اپوزیشن کی ضد قرار دے کر ٹھکرایا نہیں جا سکتا۔ پاکستان کی ایک مخصوص تاریخ ہے جہاں پبلک سیفٹی ایکٹ اور ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت صرف فوجی حکومتوں نے نہیں بلکہ منتخب جمہوری حکومتوں نے بھی دفاعِ پاکستان کے نام پر بنے ان قوانین کو اپنے سیاسی مخالفین کی زندگیاں اجیرن کرنے کے لیے انتہائی سفاکی کے ساتھ استعمال کیا۔ محمد خان جونیجو مرحوم کے دنوں سے ہمارے ہاں جمہوری اور انسانی حقوق کے احترام کی روایت متعارف ہوئی۔ ایک طویل عرصے تک پھیلے سیاسی طور پر ڈرامائی اُتار چڑھائو کے بعد بالآخر 2007ء آیا۔ آزاد عدلیہ کے نام پر ایک بھرپور تحریک چلی اور میڈیا بھی اس کی بدولت زیادہ مستعد، بے باک اور توانا بن گیا۔ اتنے برسوں کی کٹھن جدوجہد کے بعد حاصل شدہ حقوق اور آزادی کے احساس کو ''تحفظِ پاکستان'' کے نام پر قربان کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور میڈیا کو کئی بار سوچنا ہو گا۔

اس پسِ منظر کے ساتھ ہی ساتھ ایک ٹھوس سیاسی حقیقت یہ بھی ہے کہ نواز حکومت کو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں۔ وہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت کی مشترکہ یا مشروط اور علیحدہ علیحدہ حیثیت میں عطاء کی گئی حمایت کے بغیر ''تحفظِ پاکستان'' والا قانون ایوانِ بالا سے منظور نہیں کروا سکتی۔ یہ قانون سینیٹ نے نامنظور کر دیا تو نواز حکومت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سادہ اکثریت کے ذریعے اسے ہم پر لاگو کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ مگر اس صورت میں ہمارا معاشرہ سیاسی طور پر مزید تقسیم ہو جائے گا اور اس تقسیم کا اصل فائدہ بالآخر سیاسی نہیں غیر جمہوری قوتیں اور ادارے اٹھائیں گے۔

ملک کو مزید خلفشار اور افراتفری سے بچانے کے لیے از حد ضروری ہے کہ دیانت دارانہ مشاورت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ سیاسی قوتیں تحفظ پاکستان کے قانون کے کسی مناسب اور قابلِ عمل مسودے پر متفق ہو جائیں۔ آصف علی زرداری کی نواز شریف سے ملاقات کا اصل مقصد اس قانون پر Consensus کی تلاش تھا۔ سیاست دان مگر جب مل بیٹھتے ہیں تو موسم کی باتیں نہیں کیا کرتے۔ سیاست ہی ان کا موضوع رہتی ہے اور یقینا سوال جواب اس بات پر بھی ہوئے ہوں گے کہ ISPR کو ایک بیان جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اس ساری ملاقات کو لیکن اس طرح پیش کرنا بھی مناسب نہ تھا کہ جیسے ''طبل جنگ'' بج چکا ہے اور نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔

2014ء کے پاکستان میں ''طبل جنگ'' بجانے سے پہلے کئی مراحل کو عبور کرنا ہو گا اور ان میں سے کوئی مرحلہ بھی ایسا نظر نہیں آ رہا جہاں ریاستی معاملات سے متعلقہ افراد اور اداروں کو واپسی کی راہ نظر نہ آئے اور وہ دیوار کے ساتھ لگ جانے سے چھلانگ لگا کر دوسرے مرحلے میں داخل ہونے پر خود کو مجبور پائیں۔ سیاسی عمل T-20 نہیں ہوتا۔یہ کئی دنوں تک پھیلا ہوا ایک لمبا کھیل ہوتا ہے۔ 24/7 چینل کے لیے ہر پل کی خبر دیتے ہوئے ہمیں اس عمل کو T-20 والی Thrill فراہم کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔

آخر میں جو رپورٹر حضرات انتہائی جوش سے قوم کو اطلاع دے رہے تھے کہ نواز شریف سری پائے کے شوقین ہیں اور انھوں نے آصف علی زرداری کے لنچ کے لیے انتہائی لذیذ اور مرغن کھانے تیار کروائے ہیں انھیں یہ خبر دے رہا ہوں کہ نواز شریف 1994ء سے بہت پرہیزی کھانا کھاتے ہیں۔ یورک ایسڈ کے خوف سے سری پائے کو تو ہاتھ بھی نہیں لگاتے اور آصف علی زرداری کئی برسوں سے صرف سندھی انداز میں تلی ہوئی کراری بھنڈی اور پتلی دال پر اکتفا کرتے ہیں۔
Load Next Story