یوکرین ایک سبق

نیٹو ممالک نے یوکرین میں اپنی پسند کی حکومت تو قائم کرلی تھی مگر ان کو اس کا گمان نہ تھا ۔۔۔

anisbaqar@hotmail.com

ابھی یوکرین کا پہلا بحران خدا خدا کرکے ختم ہوا تھا جس میں جزیرہ نما کریمیا ایک خودمختار ریاست کی شکل میں ابھرا اور رشین فیڈریشن کا ایک حصہ بن گیا کریمیا کے ریفرنڈم کو یورپی ممالک اور امریکا نے تسلیم نہ کیا مگر وہ ایک حقیقت بن کے ابھر گیا شور شرابے کے بعد نیٹو نے اس کا یہ ردعمل ظاہر کیا کہ روس کو جی ایٹ (G-8) سے نکال باہر کیا مگر ایسا لگتا ہے روس نے یہ ردعمل پہلے سے ہی بھانپ لیا تھا اور اس پر آہ و زاری نہ کی کیونکہ جی 8 سے روس کی معیشت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ مشرقی یورپ اور بعض مغربی یورپ کے ممالک کو روس گیس اور تیل سپلائی کرتا ہے۔

نیٹو ممالک نے یوکرین میں اپنی پسند کی حکومت تو قائم کرلی تھی مگر ان کو اس کا گمان نہ تھا کہ شطرنج کے اس عالمی کھیل میں آخری چال میں مات کس کی ہوگی گوکہ نیٹو ممالک کئی چالوں کے ردعمل کو پہلے ہی بھانپ لیتے ہیں مگر ایسا نہ ہوا اور نیٹو ہاتھ ملتا رہ گیا ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ جزیرہ نما کریمیا کی بہترین گزرگاہ کو روس نے جغرافیائی اعتبار سے بالشویک انقلاب کے بعد جو کریمیا کی جدائی کا ماتم کیا تھا وہ خسارہ پورا کرلیا ایسا لگا کہ روس سویت یونین کی پسپائی کو بھولا نہیں خاص طور سے ولادی میر پوتن، جو سویت یونین کے دور میں روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی (KGB) کے سربراہ تھے۔

عام طور پر دنیا میں جو لوگ بھی صدارتی مسند پر براجمان ہوتے ہیں وہ سیاسی دنیا کے لوگ ہوتے ہیں مگر خفیہ ایجنسی کے لوگ شاید ہی ایسی پوزیشن سنبھالتے ہوں لہٰذا روس کے ماضی کے عزائم اور نظریات سے لوگ واقف ہیں کہ وہ سوشلزم کی مختلف ملکوں میں حمایت کرتا تھا اور آزادی کی تحریکوں کا کھل کر ساتھ دیتا تھا، لاطینی امریکا، شمالی کوریا عوامی جمہوریہ چین اس کی واضح مثال ہیں مگر فی الوقت تو روس میں کوئی ایسا نظریاتی عمل نہیں ہے جب کہ اس کے جھنڈے کا رنگ و روپ بھی سویت یونین کے بکھرنے کے بعد بدل گیا مگر بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس بدلے ہوئے جھنڈے اور سوشلزم کی ترویج کو بھلانے والا روس بعض اقدامات وہی کر رہا ہے جو ایک زمانے میں سویت یونین کرتا تھا موجودہ دور میں اگر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ روس کے سابق وزیر اعظم بلگا نین نے نہر سوئز کے تنازعے پر مصر کی حمایت پر جو الٹی میٹم دیا تھا اور کیوبا کے مسئلے پر آنجہانی نکیتا خروشیف نے جو موقف اختیار کیا تھا روس کا موقف شام کے مسئلے پر اور کریمیا کے مسئلے پر اس سے قریب تر ہے گویا اس کو سرد جنگ کی طرف ایک قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

پر اب تک یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ پالیسی کس طرف جا رہی ہے اس کو البتہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ ایک قسم کی طالع آزمائی، یا مہم جوئی کی پالیسی کی طرف قدم ہے اور اس کا مطلب یوں نکلا جاسکتا ہے کہ یہ نیشنل ازم کا بڑھتا قدم ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور معاملہ ہے۔ دوسرے معنی میں اس عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ اب دنیا یونی پولر یعنی دنیا کے فیصلے کرنے والی قوت محض نیٹو ممالک نہیں بلکہ روس بھی دنیاوی معاملات میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ابھی رشین فیڈریشن کا کردار محدود حلقے میں وینزویلا اور اس کے قرب و جوار کے ممالک میں ہے البتہ وسطی ایشیائی ریاستوں کی جانب اس کا قدم کیا ہوگا اگر صورت حال بدستور یوں ہی چلتی رہی اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی وہاں کے عوام نے وہی کردار ادا کیا جو مشرقی یوکرائن میں ہے تو پھر اس خطے میں بھی جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں حالیہ دنوں میں روس اور چین نے ایران کے مسئلے پر اپنا روایتی دوستانہ عمل جاری رکھا ہوا ہے۔


اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایران کے ذریعے افغانستان میں پس پردہ اپنا کردار ادا کرسکتا ہے اس کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ سویت یونین کو افغانستان میں ہزیمت اور شرمندگی اٹھانی پڑی ہے تو وہ اپنی اس شرمندگی کو مٹانے میں کسی حد تک کردار ادا کرسکتا ہے اس مسئلے پر اگر افغانستان میں شمالی اتحاد کی حامی جماعتیں اگر کوئی کلیدی پوزیشن لیتی ہیں تو پھر اس کا عمل بھی اہم ہوگا مگر فی الحال افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جو پوزیشن حاصل کی ہے نیٹو ممالک اس کی مزاحمت کریں گے مگر دنیا میں کسی حد تک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس جو قوت ہے اس میں کمی ضرور آئے گی البتہ روسی فیڈریشن براہ راست ایسی کیفیت میں ان حالات میں کودنے کی کوشش نہیں کرے گا البتہ یہ عمل یقینی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جو کردار ادا کرچکا ہے وہ نہیں کرے گا کیونکہ شام میں اس کی حامی جماعت اقتدار میں ہے مگر پاکستان کے اطراف میں فی الوقت ایسی پوزیشن اتنی آسان نہیں۔

البتہ ایران کے بڑھتے ہوئے کردار کی توقع ممکن ہے مگر یہ فی الحال قیاس اور امکانات کا ملا جلا خیال قرار دیا جاسکتا ہے مگر موجودہ عالمی سیاسی حالات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ نیٹو ممالک نے روس کو جی ایٹ (G-8) سے باہر نکالنے کی بات کی پھر اس پر گہری خاموشی اختیار کی اور ایک آدھ بار ایسا عندیہ دیا کہ G-8 اب تک قائم ہے گویا روس کے خلاف کوئی موثر تادیبی کارروائی اب تک نہ ہوئی جس کی وجہ سے روس کے حامی عناصر رشین فیڈریشن سے اپنے علاقے کے الحاق کی تحریک بڑی قوت سے چلا رہے ہیں اور مغربی ممالک کے میڈیا محض بیانات پر ہی اکتفا کر رہے ہیں ایک بار پھر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جا رہا ہے کیونکہ روس نے سلامتی کونسل کی سابقہ قرارداد کو ویٹو کردیا تو اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ موجودہ قرارداد بھی ردی کی ٹوکری میں چلی جائے گی ۔

مشرقی یوکرائن میں روس کے حامی باغی گورنمنٹ کی عمارتوں اور پولیس اسٹیشنوں پر مسلسل قبضہ کر رہے ہیں اور روس کا جھنڈا لہرا رہے ہیں جب کہ یوکرائن کے اقوام متحدہ میں مندوب محض مذمت پر تکیہ کیے ہوئے ہیں یوکرائن کی حکومت کی جانب سے 15 اپریل کو باغیوں کو وارننگ دی گئی تھی کہ وہ اپنے ہتھیار پھینک دیں اور حملے بند کردیں مگر اب یہ حملے بڑھ گئے ہیں اور باغیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔دوسری جانب نیٹو ممالک لگتا نہیں کہ وہ یوکرائن میں جاکر حکومت کی حمایت کریں گے۔ یوکرائن کی اتھارٹی کا یہ کہنا ہے کہ روس نے مشرقی یوکرائن کی سرحد پر اپنی بڑی جنگی فوجیں لگا رکھی ہیں البتہ دونوں جانب سے میڈیا پر الفاظ کا ٹکراؤ شدت سے ہو رہا ہے روسی وزارت خارجہ نے اپنی تقریر میں یورپی ممالک کو ریا کاری (Hypocrite) کی سیاست سے تشبیہ دی کیونکہ وہ ایک جانب تو عوامی امنگ کا تذکرہ کرتے ہیں اور اپنی اس منطق کو یوکرائن میں لاگو نہیں کرتے الفاظ کی یہ جنگ ایک طرف تو دوسری جانب روس کے حامی باغی زمین پر قبضے میں مصروف ہیں یورپی یونین کے رہنما نہایت احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔

فی الحال آثار براہ راست جنگ کے نہیں ہیں محض معاشی پابندیوں کی گرج چمک نظر آرہی ہے اور جس یوکرائن میں انھوں نے بغاوت کرائی تھی اور روس نواز صدر کو بھگایا تھا وہ یوکرائن لخت لخت ہوتا نظر آرہا ہے گویا مغربی ممالک کی تدبیر کو شدید دھچکا لگا اس سے موجودہ حالات میں اس فلسفے کو بھی اپنی افادیت کھوتے دیکھا جاسکتا ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مستقبل کی جنگیں معاشی جنگیں ہوں گی ۔پس معلوم ہوا کہ محض معیشت دفاع کے قابل نہیں ورنہ جنگ نے کئی سیاسی اور دفاعی سوالات کو جنم دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ محض مستحکم معیشت ملک کو بچانے سے قاصر ہے دفاعی اور معاشی استحکام ریاست کو بچانے کے لیے اہم ستون ہیں اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ دفاعی قوت محض کارآمد نہیں بلکہ دانا، دوربیں اور بروقت فیصلہ کرنے والی قیادت بھی ضروری ہے آنے والے خطرات کو محسوس کرنا ضروری ہے یوکرائن کے نئے حکمرانوں نے آنے والے خدشات کو محسوس نہ کیا وہ اسی غفلت میں تھے کہ دنیا یک قطبی ہے۔

طاقت کا سرچشمہ مغربی ممالک ہیں اور وہ روس کی ابھرتی ہوئی قیادت کا ادراک نہ رکھتے تھے، ان واقعات نے اب یورپی یونین اور امریکا کو چوکنا کردیا ہے لہٰذا ان حالات کی روشنی میں ملکی اور غیر ملکی حالات اور بدلتے وقت کا جائزہ لینا ضروری ہے خاص طور سے وزارت خارجہ کا قلمدان نہایت زیرک انسان کے پاس ہونا چاہیے جو محض آنے والے وقتی فائدے کو نہ دیکھے بلکہ ہر عمل پھر ردعمل اور ردعمل کے بعد سیاسی معاملات کو کیسے سلجھایا جائے اس کا ادراک رکھے۔ یوکرائن کا بحران پھر یوکرائن کا ایک حصہ کریمیا کا کٹ جانا نیا ملک بن جانا اور نئے ملک کے بعد مشرقی یوکرائن میں ایک دراڑ اور پھر اس دراڑ کے بعد کا عمل دنیا بھر کے وزارت خارجہ کے مدیروں کے لیے ایک سبق ضرور ہے۔
Load Next Story