کوئی تو آگے بڑھے
پاکستان صحافیوں کیلیے خطرناک ملک قرار دیا جا چکا ہے، اب حملے گولیاں برساکر کیے جائیں یا ریاستی کارروائی کی شکل میں۔۔۔
اگر میں سچ بول رہا ہوں تو اس کے لیے نہ مجھے لفظوں کی تلاش میں سرگرداں ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی انھیں مانجھنے، چمکانے کے چکر میں پڑنا چاہیے۔ بلکہ پہلی فرصت میں جو بھی لفظ میسر ہو انھیں استعمال کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کردینا چاہیے۔ کیوں کہ سچ بذات خود اپنا اثر و رسوخ رکھتاہے اور سماعت و دل کا درمیانی راستہ بڑے کروفر اور وقار سے طے کرتے ہوئے اپنی جگہ بنالیتا ہے۔
لہٰذا سوچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور میں بلا تمہید اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر حملے کی بزدلانہ کارروائی کو رد کرتاہوں، رضا رومی جیسے بے باک نیوز رپورٹر پر جان لیوا حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتاہوں اور حملے میں شہید ہونیوالے ڈرائیور کی روح کے لیے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتاہوں کہ وہ شہید کے درجات بلند فرماتے ہوئے اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کے بعد زندگی گزارنے کے لیے اسباب مہیا فرمائے (آمین)
آج مجھے ملک بھر میں میڈیا کے ہر گروپ سے یہ سوال بھی کرنا ہے کہ آپ کی اس احتیاط نے کہ ''ایسا سچ بولنے یا چھاپنے سے گریز کیا جائے جو آپ کے وجود پر کسی مزید حملے کا سبب بنے'' آپ کو کیا دیا؟ کیا آپ پر ہونے والے حملے بند ہوگئے؟ انتہا پسندوں نے آپ کے امن و آشتی پر مبنی پیغام کو خوش آمدید کہہ دیا؟ یا ٹارگٹ کلرز نے صحافت کی آزادی اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرلیا۔آپ جانتے ہیں کہ ان سوالات کا ہر جواب نفی میں ہے۔ البتہ ایک حملے کے بعد دوسرے حملے کے درمیانی وقفے کو اگر آپ کی مفاہمت پر مبنی پالیسی کی کامیابی سمجھ لیا جائے تو یہ محض ایک گمان ہوسکتا ہے جس سے حقیقت کوسوں دور کھڑی نادم سی نظر آتی ہے کیوں کہ بیگناہوں کو مارنے والے اخلاقی و سماجی قدروں کو نہیں مانتے ۔اور اگر وہ ریاست سے لڑرہے ہیں۔ اسے ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں۔
اگر وہ ریاستی رد عمل کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہوں انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگ سکتے ہیں تو وہ آپ کی کسی بھی مصالحت اور صلح جوئی کو کیوں Welcome کہیںگے۔ آپ تو اس حوالے سے بھی نسبتاً کمزور ہیں کہ آپ کے چوتھے ستون کے پاس لڑنے کے لیے کوئی فوج نہیں ہے، ہتھیار نہیں ہیں۔سردست مجھے معلوم نہیں کہ صحافیوں پر حملے کو شریعت کے کون سے خانے میں درج کیا گیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہاں علما کی ایک پوری فوج ظفر موج ہے۔ کوئی روحانی لباس تو انھوں نے اپنی کارروائی کو ضرور پہنایا ہوگا۔ ایک جواز تو یہ بھی ممکن ہے کہ جب رد عمل کے طور پر ایک عام آدمی کو مارا جاسکتا ہے تو میڈیا پرسن کو کیوں نہیں۔بہر حال صحافت پر حملے ہماری ملکی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔
پاکستان صحافیوں کیلیے خطرناک ملک قرار دیا جا چکا ہے، اب حملے گولیاں برساکر کیے جائیں یا ریاستی کارروائی کی شکل میں۔ لیکن یہ واقعہ ایسا نہیں ہے جو پہلی مرتبہ یا موجودہ دور میں ہوا ہو۔ اپنے ملک میں تو ویسے بھی خاص بات ہے ہی کیا؟ کوئی پورا ملک لوٹ کر چلا جائے، ہزاروں ارب کا ڈاکہ مارلے، ووٹ تو ہم پھر بھی اسی کو دیں گے۔ کیوں کہ وہ اپنے صوبے کی پارٹی ہے اس لیے کہ وہ اپنا گوٹھائی( بھائی) ہے، ہم زبان ہے، ہم ثقافت ہے۔اب وہ رند خانہ خراب ہے، جواری ہے تو کیا ہوا۔ ہے تو اپنا، کوئی غیر تو نہیں ہے، حکومت میں آگیا تو اپنے وارے نیارے تو کروا ہی دے گا۔ ارے ملک کا کیا ہے یہ تو 67 سالوں سے چل ہی رہا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا اور چلو اگر ٹوٹ بھی گیا تو اپنا صوبہ الگ ہوکر اپنا ملک بن جائے گا۔ بابا اچھا ہوگا جان چھوٹے گی 20 کروڑ لوگوں سے ابھی اتنے لوگوں سے کون متھا ماری کرے۔
ہماری سوچ ان ہی بنیادوں پر بہت مضبوطی سے استوار ہوچکی ہے اور بظاہر اس میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے لیکن معاف کیجیے گا آج میرا موضوع صوبائیت یا عصبیت نہیں ہے بلکہ میں بات کررہاتھا صحافت پر ہونے والے سابقہ و حالیہ حملوں کی اور ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے تئیں ایسے حملوں کے سد باب کے لیے سوچ رہا ہے۔ لیکن اس ضمن میں جتنے ممکنہ راستے ذہن سے گزرتے ہیں ان کے انجام پر ایسا کوئی روزن موجود نہیں، جس کے باہر صاف و شفاف اجالا نظر آتا ہو۔ بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ خیال کی اس سرنگ میں ہم جتنا بھی سفر کرلیں وہ ہمیں تاریکی میں ہی طے کرنا پڑے گا۔کجا یہ کہ ملک میں تعلیم اس قدر عام ہوجائے کہ شعور (Sense) کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر ایک رکھتاہو۔ گویا ایک مکمل تبدیلی ہی صحافی کے سچ بولنے کی سزا پر عمل در آمد کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔ ورنہ تو آپ حکومتی کرپشن کو بے نقاب کریںگے تو وہ اپنے اشتہارات میں سے آپ کا جائز حصہ بھی حذف کرلیں گے۔
علاوہ ازیں آپ کو تنگ کرنے کا ہر راستہ اختیار کریں۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کے خلاف لکھنے پر آپ مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ اگرچہ ایک زاویہ نظر اور بھی ہے اور وہ ہے اﷲ تعالیٰ کی مدد۔ جو صرف اور صرف اسے پہنچتی ہے جو سچ بولتاہو، سنتا ہو اور لکھتاہو، بس اسی نقطے پر آکر یہ یقین فزوں تر ہو جاتاہے کہ آخر کار ظلم اور ظالم ہار جائیںگے اور اس جنگ میں آخری فتح صحافت کی ہوگی اور دہشت گرد جب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہوں گے تو یہی آپ کو مدد کے لیے آواز دیںگے۔ اپنے دکھ درد لے کر آپ کے دروازے پر ہاتھ باندھے کھڑے ہوںگے۔ اس وقت کے بے چارے یہی دہشت گرد ہوںگے جو نہیں جانتے کہ سچ ہی وہ امرت ہے جس سے جھوٹ کے سریع الاثر زہر کا تریاق ممکن ہے۔ میرا مشورہ شاید آپ کو گراں گزرے اور اس میں آپ کے تحفظات کے بہت سے پہلو نکلتے ہوں۔ لیکن اپنی رائے کا اظہار میرا وہ بنیادی حق ہے جس سے آپ خواہ انحراف کرتے ہوں پھر بھی اسے سننا ضرور چاہیے کہ ''میڈیا کے تمام ادارے الیکٹرانک، پرنٹ، سوشل، سچ کو مزید جرأت اور طاقت کے ساتھ بولیں۔
اس یقین کو لے کر اسے لکھیں کہ اﷲ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ ہے۔ آپ ملک کی اور 20 کروڑ لوگوں کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ہر مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے شب وروز تگ و دو کررہے ہیں اور اسے اعلانیہ انصاف مل رہا ہے۔ وہ ڈوبتے ڈوبتے اب تیرنے لگا ہے۔ ایک غریب اور نادار شخص جو کسی مہلک مرض میں مبتلا ہوکر علاج کی سکت نہ رکھنے کے باعث خودکشی کررہاتھا میڈیا پر آنے کے بعد کسی صاحب حیثیت شخص کی مدد سے اپنا علاج کروارہاہے مظلوم کی داد رسی ہورہی ہے، تب یقین رکھیے کہ معمولی حملے، دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیاں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیںگی۔ لیکن ضرورت ہے اپنی صفوں میں متحد رہنے کی۔ اس جنگ میں طاغوتی طاقتوں کو بد ترین شکست ہوگی اور تاریخ آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی تصویر کو عیاں کردے گی۔
لہٰذا سوچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور میں بلا تمہید اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر حملے کی بزدلانہ کارروائی کو رد کرتاہوں، رضا رومی جیسے بے باک نیوز رپورٹر پر جان لیوا حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتاہوں اور حملے میں شہید ہونیوالے ڈرائیور کی روح کے لیے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتاہوں کہ وہ شہید کے درجات بلند فرماتے ہوئے اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کے بعد زندگی گزارنے کے لیے اسباب مہیا فرمائے (آمین)
آج مجھے ملک بھر میں میڈیا کے ہر گروپ سے یہ سوال بھی کرنا ہے کہ آپ کی اس احتیاط نے کہ ''ایسا سچ بولنے یا چھاپنے سے گریز کیا جائے جو آپ کے وجود پر کسی مزید حملے کا سبب بنے'' آپ کو کیا دیا؟ کیا آپ پر ہونے والے حملے بند ہوگئے؟ انتہا پسندوں نے آپ کے امن و آشتی پر مبنی پیغام کو خوش آمدید کہہ دیا؟ یا ٹارگٹ کلرز نے صحافت کی آزادی اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرلیا۔آپ جانتے ہیں کہ ان سوالات کا ہر جواب نفی میں ہے۔ البتہ ایک حملے کے بعد دوسرے حملے کے درمیانی وقفے کو اگر آپ کی مفاہمت پر مبنی پالیسی کی کامیابی سمجھ لیا جائے تو یہ محض ایک گمان ہوسکتا ہے جس سے حقیقت کوسوں دور کھڑی نادم سی نظر آتی ہے کیوں کہ بیگناہوں کو مارنے والے اخلاقی و سماجی قدروں کو نہیں مانتے ۔اور اگر وہ ریاست سے لڑرہے ہیں۔ اسے ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں۔
اگر وہ ریاستی رد عمل کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہوں انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگ سکتے ہیں تو وہ آپ کی کسی بھی مصالحت اور صلح جوئی کو کیوں Welcome کہیںگے۔ آپ تو اس حوالے سے بھی نسبتاً کمزور ہیں کہ آپ کے چوتھے ستون کے پاس لڑنے کے لیے کوئی فوج نہیں ہے، ہتھیار نہیں ہیں۔سردست مجھے معلوم نہیں کہ صحافیوں پر حملے کو شریعت کے کون سے خانے میں درج کیا گیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہاں علما کی ایک پوری فوج ظفر موج ہے۔ کوئی روحانی لباس تو انھوں نے اپنی کارروائی کو ضرور پہنایا ہوگا۔ ایک جواز تو یہ بھی ممکن ہے کہ جب رد عمل کے طور پر ایک عام آدمی کو مارا جاسکتا ہے تو میڈیا پرسن کو کیوں نہیں۔بہر حال صحافت پر حملے ہماری ملکی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔
پاکستان صحافیوں کیلیے خطرناک ملک قرار دیا جا چکا ہے، اب حملے گولیاں برساکر کیے جائیں یا ریاستی کارروائی کی شکل میں۔ لیکن یہ واقعہ ایسا نہیں ہے جو پہلی مرتبہ یا موجودہ دور میں ہوا ہو۔ اپنے ملک میں تو ویسے بھی خاص بات ہے ہی کیا؟ کوئی پورا ملک لوٹ کر چلا جائے، ہزاروں ارب کا ڈاکہ مارلے، ووٹ تو ہم پھر بھی اسی کو دیں گے۔ کیوں کہ وہ اپنے صوبے کی پارٹی ہے اس لیے کہ وہ اپنا گوٹھائی( بھائی) ہے، ہم زبان ہے، ہم ثقافت ہے۔اب وہ رند خانہ خراب ہے، جواری ہے تو کیا ہوا۔ ہے تو اپنا، کوئی غیر تو نہیں ہے، حکومت میں آگیا تو اپنے وارے نیارے تو کروا ہی دے گا۔ ارے ملک کا کیا ہے یہ تو 67 سالوں سے چل ہی رہا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا اور چلو اگر ٹوٹ بھی گیا تو اپنا صوبہ الگ ہوکر اپنا ملک بن جائے گا۔ بابا اچھا ہوگا جان چھوٹے گی 20 کروڑ لوگوں سے ابھی اتنے لوگوں سے کون متھا ماری کرے۔
ہماری سوچ ان ہی بنیادوں پر بہت مضبوطی سے استوار ہوچکی ہے اور بظاہر اس میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے لیکن معاف کیجیے گا آج میرا موضوع صوبائیت یا عصبیت نہیں ہے بلکہ میں بات کررہاتھا صحافت پر ہونے والے سابقہ و حالیہ حملوں کی اور ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے تئیں ایسے حملوں کے سد باب کے لیے سوچ رہا ہے۔ لیکن اس ضمن میں جتنے ممکنہ راستے ذہن سے گزرتے ہیں ان کے انجام پر ایسا کوئی روزن موجود نہیں، جس کے باہر صاف و شفاف اجالا نظر آتا ہو۔ بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ خیال کی اس سرنگ میں ہم جتنا بھی سفر کرلیں وہ ہمیں تاریکی میں ہی طے کرنا پڑے گا۔کجا یہ کہ ملک میں تعلیم اس قدر عام ہوجائے کہ شعور (Sense) کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر ایک رکھتاہو۔ گویا ایک مکمل تبدیلی ہی صحافی کے سچ بولنے کی سزا پر عمل در آمد کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔ ورنہ تو آپ حکومتی کرپشن کو بے نقاب کریںگے تو وہ اپنے اشتہارات میں سے آپ کا جائز حصہ بھی حذف کرلیں گے۔
علاوہ ازیں آپ کو تنگ کرنے کا ہر راستہ اختیار کریں۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کے خلاف لکھنے پر آپ مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ اگرچہ ایک زاویہ نظر اور بھی ہے اور وہ ہے اﷲ تعالیٰ کی مدد۔ جو صرف اور صرف اسے پہنچتی ہے جو سچ بولتاہو، سنتا ہو اور لکھتاہو، بس اسی نقطے پر آکر یہ یقین فزوں تر ہو جاتاہے کہ آخر کار ظلم اور ظالم ہار جائیںگے اور اس جنگ میں آخری فتح صحافت کی ہوگی اور دہشت گرد جب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہوں گے تو یہی آپ کو مدد کے لیے آواز دیںگے۔ اپنے دکھ درد لے کر آپ کے دروازے پر ہاتھ باندھے کھڑے ہوںگے۔ اس وقت کے بے چارے یہی دہشت گرد ہوںگے جو نہیں جانتے کہ سچ ہی وہ امرت ہے جس سے جھوٹ کے سریع الاثر زہر کا تریاق ممکن ہے۔ میرا مشورہ شاید آپ کو گراں گزرے اور اس میں آپ کے تحفظات کے بہت سے پہلو نکلتے ہوں۔ لیکن اپنی رائے کا اظہار میرا وہ بنیادی حق ہے جس سے آپ خواہ انحراف کرتے ہوں پھر بھی اسے سننا ضرور چاہیے کہ ''میڈیا کے تمام ادارے الیکٹرانک، پرنٹ، سوشل، سچ کو مزید جرأت اور طاقت کے ساتھ بولیں۔
اس یقین کو لے کر اسے لکھیں کہ اﷲ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ ہے۔ آپ ملک کی اور 20 کروڑ لوگوں کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ہر مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے شب وروز تگ و دو کررہے ہیں اور اسے اعلانیہ انصاف مل رہا ہے۔ وہ ڈوبتے ڈوبتے اب تیرنے لگا ہے۔ ایک غریب اور نادار شخص جو کسی مہلک مرض میں مبتلا ہوکر علاج کی سکت نہ رکھنے کے باعث خودکشی کررہاتھا میڈیا پر آنے کے بعد کسی صاحب حیثیت شخص کی مدد سے اپنا علاج کروارہاہے مظلوم کی داد رسی ہورہی ہے، تب یقین رکھیے کہ معمولی حملے، دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیاں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیںگی۔ لیکن ضرورت ہے اپنی صفوں میں متحد رہنے کی۔ اس جنگ میں طاغوتی طاقتوں کو بد ترین شکست ہوگی اور تاریخ آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی تصویر کو عیاں کردے گی۔