پروفیسر فتح محمد ملک کا آشیاں

اپنے کیرئیر کے دوران میں انھوں نے ہمیشہ ایسا ہی کیایعنی سیاسی سرگرمی شرکت کو کبھی عار نہیں سمجھا

farooq.adilbhuta@gmail.com

کسی عہد کی تہذیب، ثقافت اور سیاست کو سمجھنے کے ذرایع کچھ ایسے کم نہیں ہوتے لیکن خود نوشت سوانح یوں سمجھ لیجیے کہ ایک بنیادی ذریعہ ہے۔ وہ معاشرہ بنجر ہو جاتا ہے جس میں کسی عہد کے کردار اپنی گواہی سے پہلو تہی کریں۔

یہی گواہی ہے جسے علمی دنیا میں خود نوشت سوانح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے اہل دانش کے ایک بڑے طبقے نے اس فریضے سے کبھی پہلو تہی نہیں کی۔

پروفیسر فتح محمد ملک فی الاصل ہیں تو ادیب، دانش ور ، صحافی اور ماہر تعلیم لیکن مصلحت کوش دانشوروں اور ادیبوں کے برعکس واضح سیاسی نظریات رکھتے ہیں اور قومی تعمیر و ترقی کے لیے اپنے مزاج کے مطابق سیاسی سرگرمی میں شرکت ضروری سمجھتے ہیں ۔

اپنے کیرئیر کے دوران میں انھوں نے ہمیشہ ایسا ہی کیایعنی سیاسی سرگرمی شرکت کو کبھی عار نہیں سمجھا۔' آشیانہ غربت سے آشیاں در آشیاں' ان کے اسی سیاسی، صحافتی اور ادبی سفر کی دل نشیں روداد ہے۔

ان سطور کا لکھنے والا گزشتہ دنوں ایک طبی مجبوری کی وجہ سے چند دنوں کے لیے بستر تک محدود ہو گیا تو برادر محترم پروفیسر ڈاکٹر طاہر نعیم ملک مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے اور اس گراں مایہ کتاب سے سرفراز کیا۔

چند روز کے بعد جب ہم پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں یک جا ہوئے تو انھوں نے یہ سوال کر کے شرمندہ کر دیا کیسی لگی ابا کی سرگزشت؟ اب میں انھیں کیا بتاتا کہ ان کے ابا کے قلم کا اسیر میں کب سے ہوں؟ یہ اعتراف کرتے ہوئے مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی کہ اخبار کے ساتھ میرا پہلا تعلق خبر کی وجہ سے نہیں ، کہانی کی وجہ سے ہوا۔

ہمارے لڑکپن میں ادارتی صفحے کی پشت پر ایک کہانی شایع ہوا کرتی تھی، حاتم طائی کا بیٹا۔ یہ ایک مغربی روایت کی خوب صورت مشرقی تجسیم تھی۔

یہ مغربی روایت کیا تھی؟ بعد کے برسوں میں جب اخبار کے ساتھ ایک جامع تعلق استوار ہوا اور پاکستانی اخبارات کے علاوہ غیر ملکی اخبارات سے بھی استفادے کا موقع میسر آیا تو معلوم ہوا کہ سماج کے ہر طبقے کو اخبار کے ساتھ منسلک کرنے کے بڑے خوبصورت طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔

ان میں ایک طریقہ کہانی بھی تھا جسے عام طور پر مصور کر کے شایع کیا جاتا تھا۔ اس کی ایک نمایاں مثال ٹارزن کی کہانیاں تھیں جو صرف مغربی اخبارات میں نہیں، اردو ترجمے کے ساتھ پاکستانی اخبارات کا حصہ بھی بنا کرتی تھیں۔ یہ مغربی کہانیاں کیا کیا ستم ڈھایا کرتی تھیں، اس کی ایک یاد میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوگی۔

میں جن دنوں جامعہ کراچی میں زیر تعلیم تھا، اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک بڑے قومی اخبار میں ملازم تھا۔ اس اخبار میں ٹارزن کی کہانی شایع ہوا کرتی تھی۔

کہانی کی ایک قسط میں ڈاکوؤں کا ذکر تھا۔ تصویری خاکے میں بھی ڈاکو دکھائے گئے تھے، ان ڈاکوں کے پس منظرمیں مسجد کی عمارت کا خاکہ تھا، یوں کوئی ایک لفظ لکھے بغیر ایک نظریاتی پیغام پڑھنے والوں تک منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔


پروفیسر فتح محمد ملک صاحب نے ہمارے شعور کے زمانے میں جس اخبار میں طویل عرصے تک لکھا، وہ ایک نظریاتی اخبار تھا لہٰذا اس اخبار میں مغربی کہانیاں ری پروڈیوس کرنے کے بجائے اپنی تہذیبی روایت کو ترجیح دی جاتی تھی۔

حاتم طائی کا بیٹا جیسی کہانی کی اشاعت بھی اسی تسلسل کا حصہ تھی جسے محمود احمد قاضی دل چسپ انداز میں لکھا کرتے تھے۔ کہانی کے ساتھ ان ہی کا بنایا ہوا تصویری خاکہ بھی شایع ہوا کرتاتھا۔ اخبار کے ساتھ میرا تعلق اسی کہانی نے مضبوط کیا۔

جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، اخبار کے ساتھ تعلق بڑھتا گیا۔ مجھے ایسا یاد پڑتا ہے کہ کہانی کے بعد میں عطا الحق قاسمی صاحب کے کالم' روزن دیوار سے' کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کے بعد ذہن جب مزید سنجیدہ تحریروں کی طرف متوجہ ہوا تو مجھے کل کی طرح یاد ہے کہ یہ کوئی اور نہیں پروفیسر فتح محمد ملک تھے جن کی طرف میں کھنچتا چلا گیا۔

ادب کا چسکا اگر لڑکپن میں ہی لگ جائے تو ساتھ ایک خرابی بھی درآتی ہے، انسان مرصع اور مسجع تحریروں کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ خود بھی اسی پیرائے میں لکھے۔

ان دنوں سوشل میڈیا کی پزیرائی کی وجہ سے سادہ تحریر کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور سادگی کے ساتھ لکھنے کا رجحان بھی بڑھا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی ہمیں بہت سے لوگ ایسے مل جاتے ہیں جو اس طرح کے اسلوب سے اپنی تحریروں کو بوجھل بناتے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ لوگ انھیں صاحب اسلوب بھی قرار دیتے ہیں۔

پروفیسر صاحب کی تحریر کی خوبی یہ تھی کہ ایسے ہر قسم کے تصنع سے پاک تھی ،پڑھنے والے کو اپنی جانب بلاتی تھی اور جب کوئی پڑھنے والا ایک دفعہ ان کی طرف آ جاتا، پلٹنا اس کے لیے ممکن نہ رہتا۔ میرا شمار بھی اگر اسی شمع کے ان پروانوں میں کر لیا جائے جو پروفیسر صاحب کی تحریر کے گرویدہ ہوئے تو یہ میری خوش نصیبی ہوگی۔

اتنے ڈھیر سارے پس منظر کے بعد اب یہ سوال فطری ہے کہ اس کتاب کے مندرجات پر بات بھی ہوگی کہ نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ مندرجات کے ذکر کے لیے بھی پس منظر کا ذکر ضروری ہے۔

یہ درست ہے کہ پروفیسر صاحب کا ایک پورا نظریاتی پس منظر ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے نوائے وقت میں لکھا اور کسی تحفظ کے بغیر ہر وہ بات لکھی جو ان کے دل میں تھی۔

نظریاتی لوگوں کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے تعصبات کی بھینٹ چڑھ جانے کے باوصف ایسا لب و لہجہ اختیار کر بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے اختلاف کرنے والے بدک کر ان سے دور ہو جاتے ہیں، پروفیسر صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ اختلاف رکھنے والوں کو بھگاتے نہیں، اختلاف برقرار رکھتے ہوئے اپنے دامن دل میں جگہ دیتے ہیں۔

ان کی یہی خوبی انھیں مرجع خلائق بناتی ہے۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس نے انھیں ایسا صلح کل بنا دیا ہے، یہ گرہ ان کی یہ خود نوشت سوانح کھولتی ہے۔

پروفیسر صاحب نے لکھا ہے کہ بھٹو صاحب ستر کی دہائی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران تلہ گنگ آئے تو ان کا خیر مقدم کرنے والے نمایاں لوگوں میں وہ خود بھی شامل تھے۔ اسی موقع پر بھٹو صاحب کی ملاقات ان کے والد گرامی سے ہوئی تو انھوں نے درخواست کی کہ وہ انھیں کوئی نصیحت کریں۔ والد گرامی نے نصیحت کی کہ جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا مفتی محمود علیہ رحمہ سے اپنا تعلق مضبوط بنائیں۔

یہ رشتہ اسلام اور اسلامی سوشلزم کے اس ربط باہم کی بنیاد بنے گا، ہمارے سماج میں جس کا فقدان ہے۔ یہ کتاب پاکستانی سیاست کے اس نظریاتی تال میل کے پراسرار و سراپا عبرت نشیب و فراز کی کہانیاں بھی بیان کرتی ہے اور ماضی کے کچھ ایسے واقعات سے بھی پردہ اٹھاتی ہے لیکن ایک مختصر تحریر میں کتنے واقعات گنوائے جا سکتے ہیں؟
Load Next Story