بحرانوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ
آج کا دن ہمارا وطن عزیز پستی اور انحطاط پذیری کی گہری کھائی سے نکل ہی نہیں پا رہا
یہ ملک ہمیشہ سے ہی بحرانوں کی زد میں رہا ہے، لیکن گزشتہ چند سالوں سے بحرانوں کا یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی سخت اور گھمبیر ہوگیا ہے۔
2017 میں ہونے والی جبری تبدیلی کے بعد سے یہ ملک سنبھلنے ہی نہیں پا رہا۔ میاں نوازشریف کو جس طرح زبردستی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اقتدار سے معزول اور بیدخل کر کے ایک اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کردیا گیا وہ ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ کا ایک بد ترین باب ثابت ہوچکا ہے۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہمارا وطن عزیز پستی اور انحطاط پذیری کی گہری کھائی سے نکل ہی نہیں پا رہا۔ 2018 کے الیکشن میں خفیہ ہاتھوں کی کرامتوں کے ذریعے خان صاحب کو مسند اقتدار پربٹھا تو دیا گیا لیکن اس کوشش میں اس قوم کا جو نقصان ہوگیا، وہ اگلے دس بیس سالوں میں بھی پورا نہیں ہو پائے گا۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کو معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط ہونے سے کون سے عالمی طاقت روکے ہوئے ہے۔ کس ملک کو ہماری ترقی کا کوئی بھی بڑا اور عظیم منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہمارا ایٹمی قوت بننا اور یہاں سی پیک جیسے عظیم اقتصادی منصوبے کا شروع ہو جانا کس سپر پاور کو سخت ناگوار گذرا تھا۔
کیا نوازشریف کو 1999 میں اور پھر 2017 میں زبردستی اقتدار سے بیدخل کرنے کے پیچھے بھی ایسے ہی عوامل کارفرما نہیں تھے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس عالمی طاقت کے ناپاک عزائم کی تکمیل کچھ طبقوں کی جانب سے ہوتی رہی ہے ۔ یہ ملک آج جن بحرانوں سے گذر رہا ہے اس میں سب سے زیادہ عمل دخل ایسے ہی طبقوں کا ہے ۔
بے شک ہمارے لوگوں کی یاد داشت بہت کمزور رہی ہے۔ وہ آج بھول گئے کہ خان کے دور میں کون کون سے بحران پے درپے آتے رہے۔ اقتدار ملتے ہیں معاشی بحران کا رونا پیٹا گیا، یکے بعد دیگرے کئی وزیر خزانہ تبدیل کیے گئے۔
ملک کی GDP جو 2017 میں 6.5 تک پہنچ چکی تھی کووڈ آنے سے پہلے ہی خان صاحب کے ابتدائی دور میں منفی درجوں میں جا پہنچی۔ پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چینی کا بحران پیدا کیا گیا۔ چینی اچانک 55 روپے سے 90 اور100روپے فی کلو تک پہنچ گئی، اسی طرح گندم اورآٹے کا بحران پیدا کیا گیا اور35 روپے ملنے والا آٹا چند مہینوں میں 80 روپے کلو تک پہنچا دیا گیا۔
قوم کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے تحقیقاتی کمیشن بٹھائے گئے لیکن کسی ایک شخص کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ نہ آٹا سستا ہوا اور نہ چینی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب آج بڑے فخریہ انداز میں غلط بیانی کرتے ہیں کہ ہمارے دور میں آٹا 55روپے ملا کرتا تھا اور چینی بھی سستی تھی۔ حالانکہ دوچار سال پہلے کا ریکارڈ اُٹھا کے دیکھ لیں کہ اصل حقائق کیا تھے اور کیا ہیں۔
ڈالر جو نوازشریف کے دور میں 105 پر مسلسل رکا ہوا تھا کس طرح اُن کے دور میں 175تک جاپہنچا۔ غیر ملکی قرضہ جس کا رونا وہ اپنی تقریروں میں کیا کرتے تھے اپنے دور میں تمام سابقہ ریکارڈ توڑ کے بے حساب قرضہ بھی لیا اور کوئی ترقیاتی منصوبہ بھی شروع نہ کیا۔ اُن کا سب سے بڑا پروجیکٹ لنگر خانے اور شیلٹر ہومز ہی تھے۔
جن کا آج کوئی وجود بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ ملک تو اُن کے اپنے دور میں اس وقت ڈیفالٹ ہو چکا تھا جب فارن ایکس چینج میں دنیا کو دکھانے کے لیے سعودی عرب اوریو اے ای سے تین تین ارب ڈالر مانگے گئے، اگر معیشت اُن کے بقول خوب پروان چڑھ رہی تھی تو پھر یہ ادھار کے ڈالر کیوں مانگے گئے تھے۔کیا ملکی معیشت ایسے پروان چڑھتی ہے۔
ملک میں بحرانوں کا یہ سلسلہ تھمنے ہی نہیں پا رہا۔ آج ایک طرف معاشی بحران ہے تو دوسری طرف سیاسی اور آئینی بحران۔ ادارے نہ صرف ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں بلکہ اپنے اندر سے بھی باہم متصادم ہیں۔ سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی تلقین کرنے والے خود آپس میں ایک دوسرے کو گوارہ کرنے سے قاصر ہیں۔
ملکی آئین اور دستور بیشک ایک اہم دستاویز ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے الفاظ اور شقوں کو پکڑ کر بیٹھ جایا جائے اور موجودہ صورتحال اور حالات کے مطابق کوئی مناسب راستہ ہی نہ نکالاجائے۔
یہ ملک جب سخت معاشی بحران سے گذر رہا ہے تو سال میں دو بار الیکشن کروا کے اربوں روپے کیوں خرچ کیے جائیں۔ دو صوبوں میں جنرل الیکشن سے صرف چھ ماہ قبل انتخابات کروا کے اگر اس ملک کے مسائل کم ہوتے ہوں تو کوئی حرج بھی نہیں ہے لیکن کیا ایسے انتخابات کروانے سے سیاسی بحران ختم ہو پائے گا۔ آئین جب 90 دنوں میں الیکشن کروانے کا حکم دیتا ہے یہی آئین انتخابات نگراں حکومت کے تحت کروانے کا بھی مشورہ دیتا ہے۔
اس اپریل میں دو صوبوں میں قائم ہونے والی حکومتیں کیا اکتوبر میں جنرل الیکشن کے وقت اپنے طور پر معزول ہوکر یہاں نگراں سیٹ اپ قائم کرنے دیں گی ، اگر نہیں تو پھر ایسی صورت میں جنرل الیکشن کے نتائج متنازعہ اور ناقابل قبول نہیں ہو جائیں گے۔
آئین کی محافظ عدالتیں دستور کی پاسداری میں یہ پہلو کیوں بھول جاتی ہیں۔ خدارا ملک کو بحران سے نکلنے کی تدابیر سوچیں اور ضد اور انا کی زنجیروں سے خود کو آزاد کریں۔ صرف من پسند ججوں پر مشتمل بینچ بٹھا کر فیصلے کرنے سے یہ ملک کبھی بھی بحرانوں سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ فل بینچ بٹھا کر فیصلہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔
2017 میں ہونے والی جبری تبدیلی کے بعد سے یہ ملک سنبھلنے ہی نہیں پا رہا۔ میاں نوازشریف کو جس طرح زبردستی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اقتدار سے معزول اور بیدخل کر کے ایک اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کردیا گیا وہ ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ کا ایک بد ترین باب ثابت ہوچکا ہے۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہمارا وطن عزیز پستی اور انحطاط پذیری کی گہری کھائی سے نکل ہی نہیں پا رہا۔ 2018 کے الیکشن میں خفیہ ہاتھوں کی کرامتوں کے ذریعے خان صاحب کو مسند اقتدار پربٹھا تو دیا گیا لیکن اس کوشش میں اس قوم کا جو نقصان ہوگیا، وہ اگلے دس بیس سالوں میں بھی پورا نہیں ہو پائے گا۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کو معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط ہونے سے کون سے عالمی طاقت روکے ہوئے ہے۔ کس ملک کو ہماری ترقی کا کوئی بھی بڑا اور عظیم منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہمارا ایٹمی قوت بننا اور یہاں سی پیک جیسے عظیم اقتصادی منصوبے کا شروع ہو جانا کس سپر پاور کو سخت ناگوار گذرا تھا۔
کیا نوازشریف کو 1999 میں اور پھر 2017 میں زبردستی اقتدار سے بیدخل کرنے کے پیچھے بھی ایسے ہی عوامل کارفرما نہیں تھے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس عالمی طاقت کے ناپاک عزائم کی تکمیل کچھ طبقوں کی جانب سے ہوتی رہی ہے ۔ یہ ملک آج جن بحرانوں سے گذر رہا ہے اس میں سب سے زیادہ عمل دخل ایسے ہی طبقوں کا ہے ۔
بے شک ہمارے لوگوں کی یاد داشت بہت کمزور رہی ہے۔ وہ آج بھول گئے کہ خان کے دور میں کون کون سے بحران پے درپے آتے رہے۔ اقتدار ملتے ہیں معاشی بحران کا رونا پیٹا گیا، یکے بعد دیگرے کئی وزیر خزانہ تبدیل کیے گئے۔
ملک کی GDP جو 2017 میں 6.5 تک پہنچ چکی تھی کووڈ آنے سے پہلے ہی خان صاحب کے ابتدائی دور میں منفی درجوں میں جا پہنچی۔ پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چینی کا بحران پیدا کیا گیا۔ چینی اچانک 55 روپے سے 90 اور100روپے فی کلو تک پہنچ گئی، اسی طرح گندم اورآٹے کا بحران پیدا کیا گیا اور35 روپے ملنے والا آٹا چند مہینوں میں 80 روپے کلو تک پہنچا دیا گیا۔
قوم کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے تحقیقاتی کمیشن بٹھائے گئے لیکن کسی ایک شخص کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ نہ آٹا سستا ہوا اور نہ چینی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب آج بڑے فخریہ انداز میں غلط بیانی کرتے ہیں کہ ہمارے دور میں آٹا 55روپے ملا کرتا تھا اور چینی بھی سستی تھی۔ حالانکہ دوچار سال پہلے کا ریکارڈ اُٹھا کے دیکھ لیں کہ اصل حقائق کیا تھے اور کیا ہیں۔
ڈالر جو نوازشریف کے دور میں 105 پر مسلسل رکا ہوا تھا کس طرح اُن کے دور میں 175تک جاپہنچا۔ غیر ملکی قرضہ جس کا رونا وہ اپنی تقریروں میں کیا کرتے تھے اپنے دور میں تمام سابقہ ریکارڈ توڑ کے بے حساب قرضہ بھی لیا اور کوئی ترقیاتی منصوبہ بھی شروع نہ کیا۔ اُن کا سب سے بڑا پروجیکٹ لنگر خانے اور شیلٹر ہومز ہی تھے۔
جن کا آج کوئی وجود بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ ملک تو اُن کے اپنے دور میں اس وقت ڈیفالٹ ہو چکا تھا جب فارن ایکس چینج میں دنیا کو دکھانے کے لیے سعودی عرب اوریو اے ای سے تین تین ارب ڈالر مانگے گئے، اگر معیشت اُن کے بقول خوب پروان چڑھ رہی تھی تو پھر یہ ادھار کے ڈالر کیوں مانگے گئے تھے۔کیا ملکی معیشت ایسے پروان چڑھتی ہے۔
ملک میں بحرانوں کا یہ سلسلہ تھمنے ہی نہیں پا رہا۔ آج ایک طرف معاشی بحران ہے تو دوسری طرف سیاسی اور آئینی بحران۔ ادارے نہ صرف ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں بلکہ اپنے اندر سے بھی باہم متصادم ہیں۔ سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی تلقین کرنے والے خود آپس میں ایک دوسرے کو گوارہ کرنے سے قاصر ہیں۔
ملکی آئین اور دستور بیشک ایک اہم دستاویز ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے الفاظ اور شقوں کو پکڑ کر بیٹھ جایا جائے اور موجودہ صورتحال اور حالات کے مطابق کوئی مناسب راستہ ہی نہ نکالاجائے۔
یہ ملک جب سخت معاشی بحران سے گذر رہا ہے تو سال میں دو بار الیکشن کروا کے اربوں روپے کیوں خرچ کیے جائیں۔ دو صوبوں میں جنرل الیکشن سے صرف چھ ماہ قبل انتخابات کروا کے اگر اس ملک کے مسائل کم ہوتے ہوں تو کوئی حرج بھی نہیں ہے لیکن کیا ایسے انتخابات کروانے سے سیاسی بحران ختم ہو پائے گا۔ آئین جب 90 دنوں میں الیکشن کروانے کا حکم دیتا ہے یہی آئین انتخابات نگراں حکومت کے تحت کروانے کا بھی مشورہ دیتا ہے۔
اس اپریل میں دو صوبوں میں قائم ہونے والی حکومتیں کیا اکتوبر میں جنرل الیکشن کے وقت اپنے طور پر معزول ہوکر یہاں نگراں سیٹ اپ قائم کرنے دیں گی ، اگر نہیں تو پھر ایسی صورت میں جنرل الیکشن کے نتائج متنازعہ اور ناقابل قبول نہیں ہو جائیں گے۔
آئین کی محافظ عدالتیں دستور کی پاسداری میں یہ پہلو کیوں بھول جاتی ہیں۔ خدارا ملک کو بحران سے نکلنے کی تدابیر سوچیں اور ضد اور انا کی زنجیروں سے خود کو آزاد کریں۔ صرف من پسند ججوں پر مشتمل بینچ بٹھا کر فیصلے کرنے سے یہ ملک کبھی بھی بحرانوں سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ فل بینچ بٹھا کر فیصلہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔