کشیدگی بڑھ گئی ہے
اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے لیے عوام کو اپنا شدید مخالف بنا لیا ہے
سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آٹھ اکتوبر کو الیکشن کی ضمانت کون دے گا اور سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا فیصلہ نہیں اڑائے گی تو انتخابات کیسے ہوں گے؟
الیکشن کمیشن نے پنجاب میں عام انتخابات آٹھ اکتوبر کو کرانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جو اس کی آئینی ذمے داری بنتی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن یہی کرسکتا ہے جو اس نے کردیا ہے، رہے اس کے لیے وسائل تو وہ الیکشن کمیشن کے اختیار میں نہیں ہے، الیکشن کمیشن کسی صوبے کا نہیں ملک کا آئینی ادارہ بن چکا ہے ۔
حکومتی اتحادیوں اور وکلا سمیت کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ اسمبلیاں ٹوٹنے پر نوے روز میں نئے انتخابات آئین کا تقاضا نہیں ہے۔
صدر مملکت نے بھی وزیر اعظم کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ الیکشن کرائیں اور توہین عدالت سے بچیں۔ جواب میں وزیر داخلہ نے صدر کو مشورہ دیا ہے مداخلت نہ کریں۔
صدر مملکت نے وزیر اعظم کو یہ بھی لکھا ہے کہ حکومت شہریوں کے خلاف طاقت کا غیر مناسب استعمال اور انسانی حقوق کی پامالی رکوائیں اور مقررہ وقت پر انتخابات کے لیے پنجاب و کے پی حکومت کی معاونت کریں۔ صدر کے مطابق الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کے اپنے انتخابات کرانے کے فیصلے پر عمل نہیں کیا جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔
صدر مملکت نے اپنے خط میں جس انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا ہے اس کے جواب میں وزیر داخلہ نے صدر سے پوچھا ہے کہ اس وقت یہ انسانی حقوق کہاں تھے جب عمران خان کی حکومت نے ساری اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رکھا تھا اور اپنے سیاسی مخالفین اور ان کی بہنوں بیٹیوں کو سزائے موت کی چکیوں میں قید کر رکھا تھا تو اس وقت انسانی حقوق کیوں یاد نہیں آئے تھے ۔
پنجاب و کے پی کے مجوزہ انتخابات پر صدر مملکت اور وفاقی حکومت کے درمیان بیان بازی سے کشیدگی بڑھ گئی ہے جب کہ عمران خان اور ان کے حامیوں کی طرف سے اتحادی حکومت پر کڑی تنقید ہو رہی ہے کہ اس نے وسائل فراہمی سے انکار کرکے الیکشن کمیشن کے ذریعے 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرا دیے ہیں اور عمران خان کو یہ امید بھی نہیں کہ آٹھ اکتوبر کو بھی انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ شیخ رشید کے مطابق (ن) لیگ کی آٹھ اکتوبر کو بھی الیکشن کی نیت نہیں ہے کیونکہ انھیں اپنی شکست نظر آ رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما بھی کہہ رہے ہیں کہ آئین میں واضح درج ہے کہ 90 دنوں میں انتخابات ہونے ہیں۔ سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ ہے جس کا بہت احترام ہے ہمیں حقائق اور آگے بڑھنے کا راستہ بھی دیکھنا چاہیے۔
ایک نظریہ وہ ہے جس کو عام طور پر درست کہا جاتا ہے دوسری طرف الیکشن کمیشن نے کیا کہا ہے اور کیا کیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے ہوتے ہیں اور اس کے پاس اپنے وسائل اور نفری نہیں ہوتی۔
الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ دے کر متعلقہ محکموں سے تعاون مانگا۔ عدلیہ نے کیسوں کے بوجھ کی وجہ سے ریٹرننگ افسران دینے اور محکمہ دفاع نے سیکیورٹی صورت حال اور مردم شماری کی مصروفیات کے باعث اپنی مجبوری کی وجوہات بتا دی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کو تمام حقائق سے آگاہ کردیا جس پر انھوں نے یہ حقائق کابینہ کے سامنے رکھے اور کابینہ نے بھی حقائق کی توثیق کردی اور الیکشن کمیشن کے پاس محکموں کے صاف جواب کے بعد کوئی چارہ ہی نہیں رہا جس پر الیکشن کمیشن کو صوبائی انتخابات ملتوی کرنا پڑے جس کے بعد پی ٹی آئی یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں لے گئی ہے اور حتمی فیصلہ اب سپریم کورٹ نے کرنا ہے جس کے سامنے الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت اور متعلقہ محکمے اپنی گزارشات رکھیں گے۔
عمران خان نے جو سیاست کی ہے ایسی سیاست پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ حکومت ختم ہونے پر ماضی میں اسمبلیاں بھی ختم ہو جایا کرتی تھیں اور ملک بھر میں ایک ہی دن قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الیکشن کمیشن کرایا کرتا تھا۔
غیر جمہوری و جمہوری ادوار میں بھی ملک میں ساری اسمبلیوں کے انتخابات 1973 کے آئین کے تحت اکٹھے ہوتے تھے۔
ملک میں پہلی بار عمران خان کو آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تو انھوں نے اپنے ارکان قومی اسمبلی سے استعفے دلا کر حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے جو نئے انتخابات کی کوشش کی مگر الیکشن کا اعلان نہ ہوا تو انھوں نے اپنی حکومتوں والے دو صوبوں پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں تڑوا دیں جب کہ ان کی پارٹی والے انھیں روکتے رہے مگر عمران خان پر نئے انتخابات کا جنون سوار تھا کیونکہ وہ دوبارہ اقتدار میں خود آنا چاہتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد سے قبل ملکی معیشت کی تباہی عمران خان کی حکومت میں ہوئی جس کی بہتری کے لیے انھوں نے آئی ایم ایف سے مزید قرضے لینے چاہے اور حکومت جاتی دیکھ کر انھوں نے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور پٹرول و بجلی سستی کردی جس سے آئی ایم ایف نے ناراض ہو کر معاہدہ نہیں کیا۔
نئے معاہدے کے لیے اتحادی حکومت اب آئی ایم ایف کے پیروں میں پڑ چکی ہے اور اس نے پٹرول، بجلی و گیس مہنگی کرکے ملک میں اتنی مہنگی اشیا کرا دی ہیں کہ عوام کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ اتحادی حکومت ضمنی انتخابات میں اپنی شکست دیکھ چکی ہے۔ (ن) لیگ کے اہم گڑھ پنجاب میں ضمنی انتخابات میں حکومتی شکست پر عمران خان بہت خوش ہیں۔ حالات ان کے حق میں اور اتحادی حکومت کے سخت خلاف ہیں۔
اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے لیے عوام کو اپنا شدید مخالف بنا لیا ہے۔ انھیں یہ سب کچھ مجبوری اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے اس امید پر کیا کہ مستقبل میں حالات اچھے اور عوام ان کے ساتھ آ جائیں گے جس کی امید کم اور عمران خان خوش ہیں کہ ان حالات میں الیکشن ہوں اور وہ اقتدار میں آ کر ملکی صورت حال کا ذمے دار اتحادی حکومت کو قرار دے کر اتحادی پارٹیوں کو مزید رسوا کریں۔
جس طرح دکھ فاختہ جھیلتی ہے اور اس کے انڈے کوے کھا جاتے ہیں اسی طرح عوام کی تنقید سننے والی اتحادی حکومت کیسے چاہے گی کہ اس کی تکلیف اٹھانے کے اقدامات کا فائدہ عمران خان اٹھائیں اس لیے وہ بھی ملک میں اکٹھے انتخابات اپنے وقت پر کرانا چاہ رہی ہے مگر انتخابات عمران خان کی فوری ضرورت ہیں جو انھیں درپیش مشکلات اور مقدمات سے بچا کر اقتدار میں لا سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب میں عام انتخابات آٹھ اکتوبر کو کرانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جو اس کی آئینی ذمے داری بنتی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن یہی کرسکتا ہے جو اس نے کردیا ہے، رہے اس کے لیے وسائل تو وہ الیکشن کمیشن کے اختیار میں نہیں ہے، الیکشن کمیشن کسی صوبے کا نہیں ملک کا آئینی ادارہ بن چکا ہے ۔
حکومتی اتحادیوں اور وکلا سمیت کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ اسمبلیاں ٹوٹنے پر نوے روز میں نئے انتخابات آئین کا تقاضا نہیں ہے۔
صدر مملکت نے بھی وزیر اعظم کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ الیکشن کرائیں اور توہین عدالت سے بچیں۔ جواب میں وزیر داخلہ نے صدر کو مشورہ دیا ہے مداخلت نہ کریں۔
صدر مملکت نے وزیر اعظم کو یہ بھی لکھا ہے کہ حکومت شہریوں کے خلاف طاقت کا غیر مناسب استعمال اور انسانی حقوق کی پامالی رکوائیں اور مقررہ وقت پر انتخابات کے لیے پنجاب و کے پی حکومت کی معاونت کریں۔ صدر کے مطابق الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کے اپنے انتخابات کرانے کے فیصلے پر عمل نہیں کیا جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔
صدر مملکت نے اپنے خط میں جس انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا ہے اس کے جواب میں وزیر داخلہ نے صدر سے پوچھا ہے کہ اس وقت یہ انسانی حقوق کہاں تھے جب عمران خان کی حکومت نے ساری اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رکھا تھا اور اپنے سیاسی مخالفین اور ان کی بہنوں بیٹیوں کو سزائے موت کی چکیوں میں قید کر رکھا تھا تو اس وقت انسانی حقوق کیوں یاد نہیں آئے تھے ۔
پنجاب و کے پی کے مجوزہ انتخابات پر صدر مملکت اور وفاقی حکومت کے درمیان بیان بازی سے کشیدگی بڑھ گئی ہے جب کہ عمران خان اور ان کے حامیوں کی طرف سے اتحادی حکومت پر کڑی تنقید ہو رہی ہے کہ اس نے وسائل فراہمی سے انکار کرکے الیکشن کمیشن کے ذریعے 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرا دیے ہیں اور عمران خان کو یہ امید بھی نہیں کہ آٹھ اکتوبر کو بھی انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ شیخ رشید کے مطابق (ن) لیگ کی آٹھ اکتوبر کو بھی الیکشن کی نیت نہیں ہے کیونکہ انھیں اپنی شکست نظر آ رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما بھی کہہ رہے ہیں کہ آئین میں واضح درج ہے کہ 90 دنوں میں انتخابات ہونے ہیں۔ سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ ہے جس کا بہت احترام ہے ہمیں حقائق اور آگے بڑھنے کا راستہ بھی دیکھنا چاہیے۔
ایک نظریہ وہ ہے جس کو عام طور پر درست کہا جاتا ہے دوسری طرف الیکشن کمیشن نے کیا کہا ہے اور کیا کیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے ہوتے ہیں اور اس کے پاس اپنے وسائل اور نفری نہیں ہوتی۔
الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ دے کر متعلقہ محکموں سے تعاون مانگا۔ عدلیہ نے کیسوں کے بوجھ کی وجہ سے ریٹرننگ افسران دینے اور محکمہ دفاع نے سیکیورٹی صورت حال اور مردم شماری کی مصروفیات کے باعث اپنی مجبوری کی وجوہات بتا دی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کو تمام حقائق سے آگاہ کردیا جس پر انھوں نے یہ حقائق کابینہ کے سامنے رکھے اور کابینہ نے بھی حقائق کی توثیق کردی اور الیکشن کمیشن کے پاس محکموں کے صاف جواب کے بعد کوئی چارہ ہی نہیں رہا جس پر الیکشن کمیشن کو صوبائی انتخابات ملتوی کرنا پڑے جس کے بعد پی ٹی آئی یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں لے گئی ہے اور حتمی فیصلہ اب سپریم کورٹ نے کرنا ہے جس کے سامنے الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت اور متعلقہ محکمے اپنی گزارشات رکھیں گے۔
عمران خان نے جو سیاست کی ہے ایسی سیاست پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ حکومت ختم ہونے پر ماضی میں اسمبلیاں بھی ختم ہو جایا کرتی تھیں اور ملک بھر میں ایک ہی دن قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الیکشن کمیشن کرایا کرتا تھا۔
غیر جمہوری و جمہوری ادوار میں بھی ملک میں ساری اسمبلیوں کے انتخابات 1973 کے آئین کے تحت اکٹھے ہوتے تھے۔
ملک میں پہلی بار عمران خان کو آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تو انھوں نے اپنے ارکان قومی اسمبلی سے استعفے دلا کر حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے جو نئے انتخابات کی کوشش کی مگر الیکشن کا اعلان نہ ہوا تو انھوں نے اپنی حکومتوں والے دو صوبوں پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں تڑوا دیں جب کہ ان کی پارٹی والے انھیں روکتے رہے مگر عمران خان پر نئے انتخابات کا جنون سوار تھا کیونکہ وہ دوبارہ اقتدار میں خود آنا چاہتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد سے قبل ملکی معیشت کی تباہی عمران خان کی حکومت میں ہوئی جس کی بہتری کے لیے انھوں نے آئی ایم ایف سے مزید قرضے لینے چاہے اور حکومت جاتی دیکھ کر انھوں نے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور پٹرول و بجلی سستی کردی جس سے آئی ایم ایف نے ناراض ہو کر معاہدہ نہیں کیا۔
نئے معاہدے کے لیے اتحادی حکومت اب آئی ایم ایف کے پیروں میں پڑ چکی ہے اور اس نے پٹرول، بجلی و گیس مہنگی کرکے ملک میں اتنی مہنگی اشیا کرا دی ہیں کہ عوام کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ اتحادی حکومت ضمنی انتخابات میں اپنی شکست دیکھ چکی ہے۔ (ن) لیگ کے اہم گڑھ پنجاب میں ضمنی انتخابات میں حکومتی شکست پر عمران خان بہت خوش ہیں۔ حالات ان کے حق میں اور اتحادی حکومت کے سخت خلاف ہیں۔
اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے لیے عوام کو اپنا شدید مخالف بنا لیا ہے۔ انھیں یہ سب کچھ مجبوری اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے اس امید پر کیا کہ مستقبل میں حالات اچھے اور عوام ان کے ساتھ آ جائیں گے جس کی امید کم اور عمران خان خوش ہیں کہ ان حالات میں الیکشن ہوں اور وہ اقتدار میں آ کر ملکی صورت حال کا ذمے دار اتحادی حکومت کو قرار دے کر اتحادی پارٹیوں کو مزید رسوا کریں۔
جس طرح دکھ فاختہ جھیلتی ہے اور اس کے انڈے کوے کھا جاتے ہیں اسی طرح عوام کی تنقید سننے والی اتحادی حکومت کیسے چاہے گی کہ اس کی تکلیف اٹھانے کے اقدامات کا فائدہ عمران خان اٹھائیں اس لیے وہ بھی ملک میں اکٹھے انتخابات اپنے وقت پر کرانا چاہ رہی ہے مگر انتخابات عمران خان کی فوری ضرورت ہیں جو انھیں درپیش مشکلات اور مقدمات سے بچا کر اقتدار میں لا سکتے ہیں۔