چیئرمین نیب کے تقرر کا عمل مشکوک ہے لگتا ہے سب طے شدہ تھا سپریم کورٹ
تقرر کا عمل شروع ہوا توقمر زمان سرکاری ملازم تھے، وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر کی مشاورت زبانی تھی، تحریری ریکارڈ نہیں،حکومت
سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کے تقررکے خلاف مقدمے میں آج تمام وکلا کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے اور آبزرویشن دی ہے کہ مقدمہ آج ہی نمٹا دیا جائے گا۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کے سامنے حکومتی وکیل خواجہ حارث نے تسلیم کیا کہ چیئرمین نیب کی تقرری کا عمل شروع ہوا تو چوہدری قمر زمان سرکاری ملازم تھے تاہم انھوں نے تقرری سے پہلے استعفٰی دے دیا تھا۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ ایک ہی دن چیئرمین کے لیے امیدوار کی نامزدگی اور سرکاری ملازمت سے استعفے نے تقرری کے عمل کو مشکوک بنا دیا ہے، اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے تھا۔عمران خان کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ جس وقت چوہدری قمرزمان کانام زیر غور لایا گیا وہ چیئرمین نیب کے اہل ہی نہیں تھے،آرٹیکل 45کی خلاف ورزی کی گئی،مشاورت قانون کے مطابق نہیں ہوئی، صدر، قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرکے تقرری کرتے ہیں لیکن یہاں صدرکوربڑاسٹمپ بنایا گیا، قائد ایوان اور حزب اختلاف نے آپس میں بیٹھ کرفیصلہ کیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ مشاورت کا عمل صدر کے کہنے پر شروع ہوا تاہم اس بارے میں کوئی تحریری دستاویز نہیں، سب کچھ زبانی ہوا۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت تیسری بڑی جماعت ہے لیکن اس کے سربراہ سے مشاورت نہیں ہوئی۔جسٹس عثمانی نے کہا کہ جو تقرریاں اوپرکی سطح پر ہوتی ہیں ان میں شفافیت اور زیادہ ضروری ہو جاتی ہے تاکہ کسی کوشکایت کا موقع ہی نہ ملے، اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ کی طرف سے اعتزا ز احسن پیش ہوئے اور تقرری کا دفاع کیا، انھوں نے استدعا کی کہ عدالت اس کیس کو نہ سنے ،تقرری کے بارے میں قانون واضح ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے قانون میں سقم ہے تواس کودرست کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، عدالت کا کوئی فیصلہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کا متبادل نہیں ہوسکتا، جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ مشاورت قانون کے مطابق نہیں ہوئی، درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اس سارے عمل میں صدر غائب ہیں۔
اعتزاز نے کہا کہ صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس کے پابند ہیں، وزیراعظم نے قائد حزب اختلاف سے مشورہ کرکے صدر کو ایڈوائس بھیجی،جسٹس ناصر الملک نے کہاکہ اگر اس دلیل کو تسلیم کیا جائے تو پھر قائد حزب اختلاف سے مشاورت کی پابندی بھی غیر ضروری ہے، دراصل چیئرمین نیب کی تقرری میں وزیراعظم کا کردار دہرا ہے، ایک طرف وہ قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے پابند ہیں جبکہ دوسری طرف صدر کو ایڈوائس بھی بھیجیں گے، اگر اس دلیل کو مانا جائے کہ وزیراعظم کا اختیار حتمی ہے تو پھر نیب آرڈیننس کی شق6غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ محض شکایت پر کسی کو برطرف نہیں کیا جا سکتا، انکے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہونے پر سماعت ملتوی کردی گئی۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کے سامنے حکومتی وکیل خواجہ حارث نے تسلیم کیا کہ چیئرمین نیب کی تقرری کا عمل شروع ہوا تو چوہدری قمر زمان سرکاری ملازم تھے تاہم انھوں نے تقرری سے پہلے استعفٰی دے دیا تھا۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ ایک ہی دن چیئرمین کے لیے امیدوار کی نامزدگی اور سرکاری ملازمت سے استعفے نے تقرری کے عمل کو مشکوک بنا دیا ہے، اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے تھا۔عمران خان کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ جس وقت چوہدری قمرزمان کانام زیر غور لایا گیا وہ چیئرمین نیب کے اہل ہی نہیں تھے،آرٹیکل 45کی خلاف ورزی کی گئی،مشاورت قانون کے مطابق نہیں ہوئی، صدر، قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرکے تقرری کرتے ہیں لیکن یہاں صدرکوربڑاسٹمپ بنایا گیا، قائد ایوان اور حزب اختلاف نے آپس میں بیٹھ کرفیصلہ کیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ مشاورت کا عمل صدر کے کہنے پر شروع ہوا تاہم اس بارے میں کوئی تحریری دستاویز نہیں، سب کچھ زبانی ہوا۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت تیسری بڑی جماعت ہے لیکن اس کے سربراہ سے مشاورت نہیں ہوئی۔جسٹس عثمانی نے کہا کہ جو تقرریاں اوپرکی سطح پر ہوتی ہیں ان میں شفافیت اور زیادہ ضروری ہو جاتی ہے تاکہ کسی کوشکایت کا موقع ہی نہ ملے، اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ کی طرف سے اعتزا ز احسن پیش ہوئے اور تقرری کا دفاع کیا، انھوں نے استدعا کی کہ عدالت اس کیس کو نہ سنے ،تقرری کے بارے میں قانون واضح ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے قانون میں سقم ہے تواس کودرست کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، عدالت کا کوئی فیصلہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کا متبادل نہیں ہوسکتا، جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ مشاورت قانون کے مطابق نہیں ہوئی، درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اس سارے عمل میں صدر غائب ہیں۔
اعتزاز نے کہا کہ صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس کے پابند ہیں، وزیراعظم نے قائد حزب اختلاف سے مشورہ کرکے صدر کو ایڈوائس بھیجی،جسٹس ناصر الملک نے کہاکہ اگر اس دلیل کو تسلیم کیا جائے تو پھر قائد حزب اختلاف سے مشاورت کی پابندی بھی غیر ضروری ہے، دراصل چیئرمین نیب کی تقرری میں وزیراعظم کا کردار دہرا ہے، ایک طرف وہ قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے پابند ہیں جبکہ دوسری طرف صدر کو ایڈوائس بھی بھیجیں گے، اگر اس دلیل کو مانا جائے کہ وزیراعظم کا اختیار حتمی ہے تو پھر نیب آرڈیننس کی شق6غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ محض شکایت پر کسی کو برطرف نہیں کیا جا سکتا، انکے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہونے پر سماعت ملتوی کردی گئی۔