سپریم کورٹ میں کسی کی آمریت کو تسلیم نہیں کرتے بلاول بھٹو
چیف جسٹس دو ججز کو نکال کر فل کورٹ بنائیں اور کل فیصلہ دیں تو ہم پرسوں الیکشن کیلیے تیار ہیں، بلاول بھٹو
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ جب ہم ملک میں کسی اور کی آمریت کو تسلیم نہیں کرتے تو سپریم کورٹ میں بھی کسی کی آمریت تسلیم نہیں کریں گے۔
لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ 'جنرل ضیا کے مارشل لا کی اور فوجی عدالتوں سے کارکنوں کو سزائے موت کی توثیق بھی ان ہی عدالتوں نے کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ چلتے چلتے مشرف تک پہنچا اور مشرف نے جب بے نظیر کے خلاف زیادتیوں پر معافی مانگی تو افتخار چوہدری نے این آر او کا شور مچا کر ایک نئی روایت قائم کی۔
بلاول نے کہا کہ افتخار چوہدری کو پی پی کے جیالوں کی جدوجہد نے بحال کروایا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں بحال کیا تو بطور چیف جسٹس مشرف کو آئین توڑنے کی سزا دینے کے بجائے آئین بچانے پر گیلانی کو سزا دی گئی اور انہیں گھر بھیجا گیا، پھر دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو عدالت میں گھسیٹا گیا اور اُسے راجہ رینٹل کا نام دیا گیا مگر آج بھی اُسی کی پالیسیاں چل رہی ہیں، کسی کو کچھ شرم اور حیا ہے۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ ملک کے حکمران اور وزیراعظم کا فیصلہ کسی جج کو نہیں بلکہ عوام کو کرنا ہے، جب ماضی میں پیپلزپارٹی کے لوگوں کو ایک آمر کی حکومت کیلیے تبدیل کیا گیا تب عدالت خاموش رہی، سینیٹ میں عدم اعتماد کے وقت جب فلور کراسنگ ہوئی تو عدالت نے اسے پارلیمنٹ کا فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 'عدلیہ نے کسی سے وعدہ پورا کرنے کیلیے تخت لاہور پی ڈی ایم سے چھین کر پرویز الہیٰ کو دیا، جس کے نتیجے میں آج ملک سیاسی بحران کا شکار ہے'۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی بحران سے نکلنے کیلیے سپریم کورٹ فل کورٹ بنائے اور بینچ سے ان دو ججز کو نکال دیا جائے جو اپوزیشن سے فون پر بات کرتے ہوئے پکڑے گئے، کل آپ الیکشن کا فیصلہ کریں پیپلزپارٹی انتخابات لڑنے کیلیے تیار ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ اگر کوئی کھوٹ نہیں تو فل کورٹ بنانے میں کیا مسئلہ ہے، آپ فُل کورٹ بنا کر ملک کو آئینی بحران سے بچائیں، عدلیہ اور جمہوریت کو بحال کریں تاکہ ملک مستحکم ہو ورنہ تخت لاہور کی لڑائی سارے ملک اور وفاق کو لے کر ڈوبے گی اور اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو بھگتنا ہوگا۔
لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ 'جنرل ضیا کے مارشل لا کی اور فوجی عدالتوں سے کارکنوں کو سزائے موت کی توثیق بھی ان ہی عدالتوں نے کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ چلتے چلتے مشرف تک پہنچا اور مشرف نے جب بے نظیر کے خلاف زیادتیوں پر معافی مانگی تو افتخار چوہدری نے این آر او کا شور مچا کر ایک نئی روایت قائم کی۔
بلاول نے کہا کہ افتخار چوہدری کو پی پی کے جیالوں کی جدوجہد نے بحال کروایا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں بحال کیا تو بطور چیف جسٹس مشرف کو آئین توڑنے کی سزا دینے کے بجائے آئین بچانے پر گیلانی کو سزا دی گئی اور انہیں گھر بھیجا گیا، پھر دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو عدالت میں گھسیٹا گیا اور اُسے راجہ رینٹل کا نام دیا گیا مگر آج بھی اُسی کی پالیسیاں چل رہی ہیں، کسی کو کچھ شرم اور حیا ہے۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ ملک کے حکمران اور وزیراعظم کا فیصلہ کسی جج کو نہیں بلکہ عوام کو کرنا ہے، جب ماضی میں پیپلزپارٹی کے لوگوں کو ایک آمر کی حکومت کیلیے تبدیل کیا گیا تب عدالت خاموش رہی، سینیٹ میں عدم اعتماد کے وقت جب فلور کراسنگ ہوئی تو عدالت نے اسے پارلیمنٹ کا فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 'عدلیہ نے کسی سے وعدہ پورا کرنے کیلیے تخت لاہور پی ڈی ایم سے چھین کر پرویز الہیٰ کو دیا، جس کے نتیجے میں آج ملک سیاسی بحران کا شکار ہے'۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی بحران سے نکلنے کیلیے سپریم کورٹ فل کورٹ بنائے اور بینچ سے ان دو ججز کو نکال دیا جائے جو اپوزیشن سے فون پر بات کرتے ہوئے پکڑے گئے، کل آپ الیکشن کا فیصلہ کریں پیپلزپارٹی انتخابات لڑنے کیلیے تیار ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ اگر کوئی کھوٹ نہیں تو فل کورٹ بنانے میں کیا مسئلہ ہے، آپ فُل کورٹ بنا کر ملک کو آئینی بحران سے بچائیں، عدلیہ اور جمہوریت کو بحال کریں تاکہ ملک مستحکم ہو ورنہ تخت لاہور کی لڑائی سارے ملک اور وفاق کو لے کر ڈوبے گی اور اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو بھگتنا ہوگا۔