مظلوم بیٹی کی فریاد

میرے کمزور ایمان نے مجھے کیوں نہ جھنجھوڑا اور میرے ضمیر نے مجھے کوتاہی کی نیند سے بیدار کیوں نہ کیا

zulfiqarcheema55@gmail.com

مجھے اپنی فرض ناشناسی، کوتاہی، سُستی اور نااہلی پر شرم محسوس ہورہی ہے کہ میں مختلف واقعات، نظریات، شخصیات، اخلاقیات اور سیاسیات سمیت مختلف موضوعات پر کالم لکھتا رہتا ہوں مگر کتنے شرم کی بات ہے کہ پچھلی دو دھائیوں کے مظلوم ترین انسان پر پورا کالم لکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ مجھے یہ خیال کیوں نہ آیا کہ وہ مظلوم ترین انسان ایک عورت بھی ہے جس کے حقوق سب سے زیادہ ہیں۔

میرے کمزور ایمان نے مجھے کیوں نہ جھنجھوڑا اور میرے ضمیر نے مجھے کوتاہی کی نیند سے بیدار کیوں نہ کیا کہ وہ مظلوم عورت میرے ملک پاکستان کی شہری ہے اور کلمہ گو مسلمان بھی ہے۔ مجھے کیوں نہ یاد آیا کہ جس خدا کو میں اپنا خالق اور مالک مانتا ہوں، اس کا حکم ہے کہ کہیں بھی کسی مسلمان پر ظلم ہو رہا ہو تو دوسرے مسلمان اس کی مدد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

جس روز سب سے بڑی عدالت لگے گی تب شہنشاہوں کے شہنشاہ نے ہم سے اپنی مظلوم ترین بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہونے والے مظالم پر خاموش رہنے کا حساب مانگا تو ہم کیا جواب دیں گے؟ صرف کھیل کود اور ہیجان خیز ناچ گانوں کی رسیا نئی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ بیس سالوں سے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کی ہیوسٹن یونیورسٹی سے اسکالر شپ ملا۔ اس کے بعد اس نے امریکا کی معروف یونیوورسٹی MIT سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ وہاں بھی وہ Exceptionally briliant and High Achieverکے طور پر جا نی جاتی تھی۔

وہ تین چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی ماں تھی جب بیس سال پہلے اسے کراچی سے اُٹھا کر تاریک دنیا میں پہنچا دیا گیا۔ غیر ملکی صحافیوں اور وکلاء کے بقول جنسی زیادتی اور بے پناہ جسمانی تشدّد سمیت کوئی ایسا ظلم نہیں ہے جو اس کے ساتھ روا نہ رکھا کیا گیا ہو۔ ہماری سیاست میں مفاد پرستی اور منافقت کا راج ہے، لوگوں کے جذبات سے کھیلنے اور ھمدردی سمیٹنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔

ملک کے تمام سیاسی لیڈر عافیہ صدیقی کی والدہ اور بہن کے ساتھ وعدے کرتے رہے کہ ہم اقتدار میں آئے تو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملادیں گے لیکن تمام سیاستدان برسرِاقتدار آکر اپنے وعدوں سے مکر گئے۔

سب سے بلند بانگ دعوے اور وعدے عمران خان نے کیے تھے، اسی لیے ہمیں امید تھی کہ وہ بطور وزیرِاعظم امریکا کے دورے میں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی پرزور سفارش کریں گے اور امریکی صدر ان کی درخواست قبول کرلے گا اور خان صاحب عافیہ صدیقی کو اپنے جہاز میں ساتھ ہی لے کر آئیں گے۔

مگر وہ منظر دیکھ کر پاکستانیوں کو انتہائی صدمہ پہنچا جب ایک پاکستانی صحافی کو وزیرِاعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے بارے میں سوال پوچھنے سے منع کردیا اور جب ایک اردو اخبار کی خاتون کالم نگار نے عمران خان کی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر امریکی صدر سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بات کی تو صدر ٹرمپ نے (غالباً تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے ) ساتھ بیٹھے ہوئے پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان سے پوچھاکہ '' یہ خاتون کیا کہہ رہی ہیں؟'' اس پر عمران خان نے کندھے اچکا کر اس کے سوال سے یعنی ڈاکٹر عافیہ کے اِشو سے ہی لاتعلّقی کا اظہار کردیا۔

اگر ہم واقعی زندہ قوم ہوتے تو عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اسلام آباد میں ملین مارچ ہوتے اور امریکا سے مذاکرات میں پاکستانی ایجنڈے کا پہلا پوائنٹ یہی ہوتا، مگر ہم پست کردار کے لوگ اور اقبالؒ کے بقول راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں جن میں شاید کسی چنگاری کی کوئی رمق نظر نہیں آتی ۔

اگر قوم میں کوئی حرارت اور جان ہوتی تو وہ پاکستان کی ایک بیٹی کو امریکیوں کے حوالے کرنے والے آمر اور پولیس افسرکو نشانِ عبرت بنادیتی۔ دنیا مسلمانوں کی بے حسی اور بزدلی پر حیران ہوتی ہے کہ بے گناہ مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم پر بھی غیرمسلموں نے زیادہ بلند آواز سے احتجاج کیا ہے۔

ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے پاکستانی کے حکمرانوں، قوم، میڈیااور نام نہاد سول سوسائیٹی نے بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے جب کہ اس معاملے پر بھی اگر کچھ لوگوں نے ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ آواز بلند کی ہے تو وہ غیرمسلم ہیں۔

راقم کو اعتراف ہے کہ وہ بھی بے حسی کی چادر اوڑھے ملک کے سیاسی اور عدالتی محاذپر کھیلاجانے والا مفاد پرستی اور بے ضمیری کا گندہ کھیل دیکھنے میں وقت ضایع کرتا رہتا اگر امریکا کا ایک وکیل میرے سوئے ہوئے ضمیر کو ہتھوڑوںسے جگا نہ دیتا۔ ضمیر جگانے والے ہتھوڑے لوہے کے نہیں لفظوں کے تھے جن کی ضربات نے میرے ضمیر اور دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔


چند روز قبل کلائیواسمتھ کا ایک انگریزی اخبار میں چھپنے والا آرٹیکل ایک تحریر نہیں، یہ ایک بے حس قوم کے منہ پر طمانچہ ہے۔ تحریر کا ایک ایک فقرہ پاکستانیوں کے ضمیر کو نوکِ خنجر کی طرح کچوکے لگا کر بیدار کررہا ہے۔

ماضی قریب میں اگر کوئی شخص ڈاکٹر عافیہ سے ملنے میں کامیاب ہوا ہے تو وہ اسی آرٹیکل کا خالق امریکی وکیل کلائیو سٹیفرڈ اسمتھ ہے جسے دو ماہ قبل تین گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد ڈاکٹر عافیہ سے ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کی اجازت ملی۔

اس نے لکھا ہے کہ ''اس پر کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ ایک کمزور سی لڑکی نے امریکی فوجیوںسے بندوق چھین کر ان پر چلانے کی کوشش کی ہوگی۔ یہ ایک مضحکہ خیز الزام ہے مگر اس حقیقت میں ذرا برابر شبہ نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ہر قسم کے جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدّدکا نشانہ بنتی رہی ہے۔

افغانستان کی بگرام جیل میں اس پر اس قدسر جسمانی تشدّد کیا گیا کہ اس کے اوپر والے دانتوں میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ بالآخر اسے بگرام جیل سے امریکا بھیج دیا گیا جہاں ایک عدالت نے اسے کوئی جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود86سال قید کی سزا سنادی''۔ اسمتھ لکھتا ہے کہ ''جیل میں وہ آج بھی ہر روز ٹارچر کا سامنا کررہی ہے۔

آج بھی اسے ہر روز گندی گالیاں دی جاتی ہیں جو وہ عدالتی فیصلے کے مطابق 2094تک سنتی رہے گی۔ اس کی موت کی افواہیں بھی پھیلتی رہی ہیں، اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکا میں ہی نہیں پاکستان میں ایسے لوگ ہیں جو اس کی موت کی خبر سن کر خوش ہوتے۔''

سٹیفرڈ اسمتھ نے مزید لکھا ہے کہ ''ڈاکٹر عافیہ کے اعصاب توڑنے کے لیے تشدّد کے خاص حربے اور خصوصی پیکیج تیار کیا گیا اور اسمیں ایک بے گناہ خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا حربہ بھی استعمال کیا گیا۔ یہ میرے ملک پر ایک سیاہ دھبہ ہے جو میرے لیے باعثِ شرم ہے ۔

بہرحال میری نظر یں پاکستان پر ہیں کہ وہ اپنی شہری کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ میں کسی معاوضے کے بغیر ہر قسم کی مدد کے لیے تیار ہوںاور عنقریب پاکستان بھی جارہا ہوں۔ ''

کل ہی کسی نے ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کی وڈیو بھیجی ہے جس میں وہ روتے ہوئے دہائی دے رہی ہے کہ ''بیس سال تو قتل کے مجرموں کو بھی جیل میں نہیں رکھّا جاتا، میری بہن کے ساتھ دنیا کا ہر ظلم ہوا ہے، وہ بیس سال سے اپنے بچوں کو نہیںدیکھ سکی مگر پاکستان کے حکمرانوں نے غلامانہ سوچ کی وجہ سے کچھ نہیں کیا۔ کاش! میری بہن کسی اور ملک کی شہری ہوتی،'' ڈاکٹر فوزیہ کی سچّی باتیں جو بھی پاکستانی سنتا ہے اس کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

امیر نہیں غریب ملک بھی اپنے شہریوں کے جان، مال اور آبرو کے تخفّظ کے لیے آخری حد تک جاتے ہیں۔ بیسیوں کیس میں خود جانتا ہوں جن میں سنگین جرائم میں ملوّث مجرموں کو دوسرے ملکوں کے سفارتخانے پاکستان سے چھڑا کر لے گئے۔

ہم تو ایک بے گناہ پاکستانی شہری کی بات کررہے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ تین بچوں کی ماں پر بیس سالوں سے ہونے والا ظلم اب بند کردیا اور اسے انسانی ہمدردی کے تحت اپنے بچوں کے پاس جانے دیا جائے۔لہٰذا میں وزیرِاعظم اور آرمی چیف سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کی اس بے گناہ شہری کی رہائی کے لیے اپنا آئینی اور دینی فرض نبھانے کی آخری حد تک کوشش کریں۔

میں امریکی عوام سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ بیس سال جیل میں رہنے والی مظلوم عورت کو Compassionate grounds کی بناء پر رہائی دلوانے کے لیے آواز بلند کریں۔

میں پاکستان کی پارلیمنٹ کے ہر رکن، ملک کے ہر صحافی، ہر وکیل، ہر استاد، ہر عالمِ دین، ہر رائٹر اور سوشل میڈیاہر ایکٹیوسٹ سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ عافیہ صدیقی کی بازیابی کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ میری کائناتوں کے خالق اور مالک سے دعا ہے کہ اپنی اس مظلوم بندی پر رحم فرمائیں اور اس کی آزمائش ختم فرما کر اسے ظلم و جبر کی چکی سے نکال لیں۔
Load Next Story