لیاقت آباد کا سندھ گورنمنٹ اسپتال لاوارث علاج گاہ بن گیا مریض پریشان
اسپتال میں کوئی پوچھنے والا نہیں، علاج کرنے بھی کوئی نہیں آتا، مریضوں اور تیمارداروں کا شکوہ
محکمہ صحت کی عدم توجہی کے سبب سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد لاوارث علاج گاہ میں تبدیل ہوگیا۔ اسپتال میں ادویات ناپید، مشینیں ناکارہ ہوگئیں، مریضوں نے اسپتال کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر اور طبی عملہ ڈیوٹی سے غیرحاضر رہنے لگا۔
تفصیلات کے مطابق ماضی میں 200 بستروں پر مشتمل سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد کی لیبارٹری میں یوریا اور بلڈ کے تشخیصی ٹیسٹوں کی سہولیات موجود تھیں، روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 100 مریض آیا کرتے تھے جن کے تمام اقسام کے 4 سے 5 سو ٹیسٹ کیے جاتے تھے، اسپتال ذرائع کے مطابق اب اس اسپتال میں صرف سی بی سی اور یوریا کے ٹیسٹ ہورہے ہیں جبکہ بائیو کیمسٹری کا کوئی ٹیسٹ اسپتال میں فی الحال نہیں کیا جارہا۔
اسپتال میں داخل مریضوں نے الزام عائد کیا کہ دوپہر اور رات کے اوقات میں متعدد ڈاکٹرز اور طبی عملہ ڈیوٹیاں کرنے آتا ہی نہیں ہے،جس کے سبب اسپتال کے بیشتر وارڈز میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ڈاکٹر یا عملہ موجود نہیں ہوتا۔ اسپتال میں انتظامی امور شدید متاثر ہوچکے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ماضی میں اسپتال میں اوسطاً 60 سے 70 مریض داخل ہوتے تھے مگر اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ مریضوں نے اس اسپتال کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب اسپتال میں تقریبا 7 مریض داخل ہیں۔
مریضوں اور تیمارداروں کا کہنا ہے کہ اسپتال میں کوئی پوچھنے والا نہیں، علاج کرنے بھی کوئی نہیں آتا۔ سندھ حکومت فوری ایکشن لے کر اسپتال کی صورتِ حال درست کروائے۔
اسپتال میں کتے کے کاٹنے کے بعد لگائی جانی والی اینٹی ریبیز کی ویکسین موجود نہیں ہے جبکہ سپریم کوٹ کے واضح احکامات ہیں کہ اسپتال حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسپتال میں اینٹی ریبیز کی فراہم کی یقینی بنائیں۔
اسپتال میں موجود ادویات کے اسٹاک کے ایکسپائر ہونے کے بھی خدشات ہیں کیوںکہ جب اسپتال میں مریض ہی نہیں آتے تو ادویات کس کو دی جائیں گی؟
اسپتال کا گائنی وارڈ بھی جعل سازی سے محفوظ نہ رہا، ایک مریضہ نے شکوہ کیا کہ گائنی وارڈ میں خواتین کی رجسٹریشن تو مکمل کرلی جاتی ہے مگر ولادت کا وقت قریب آنے پر ان سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس اسپتال میں آپریشن نہیں ہوسکتا، پھر مریضہ کو نجی اسپتال منتقل کروانے کی تجویز دے دی جاتی ہے۔
ذرائع کے مطابق آپریشن کے لیے آپریشن تھیٹر سمیت طبی ساز و سامان بھی موجود ہے مگر متعدد مشینیں بھی خراب ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹرز مریضوں کو نجی اسپتالوں میں بھیج رہے ہیں۔
اسپتال میں سی ٹی اسکین ،لیتھوٹرپسی ،فیکو مشین،کالر ڈوپلرایکو اور سی ٹی جی مشین خراب پڑی ہیں،ماضی میں روزانہ 100 سے زائد ایکس رے کیے جاتے تھے مگر اب اسپتال کا عملہ من مانیوں پر اتر آیا ہے اور روزانہ صرف50 ایکسرے کرتا ہے۔
جب ایکسپریس نیوز کی ٹیم نے سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر تیرتھ کمار سے رابطہ کیا تو انہوں نے موقف دیا کہ ہمارے اسپتال کے ڈاکٹرز اور طبی عملہ ڈیوٹیوں پر نہیں آرہا تھا،جس کے بعد میں نے میٹنگ کرکے سب کو پابند کیا ہے۔
ایم ایس نے کہا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں مریض خود ہی اسپتال میں داخل نہیں ہونا چاہتے،اسپتال کی لیبارٹری کو چلانے کے لیے فنڈ کی کمی کا سامنا ہے تاہم محکمہ صحت سندھ نے فنڈز دینے سے انکار نہیں کیا بلکہ وجہ یہ ہے کہ مجھ سے قبل اسپتال میں تعینات ہونے والے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس نے کھبی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو اس بارے میں اطلاع ہی نہیں دی تھی۔
ڈاکٹر تیرتھ کمار نے کہا کہ میری پوری کوشش ہے کہ اسپتال میں دستیاب تمام وسائل کا استعمال کرکے انتظامی امور کو بہتر بناؤں۔
تفصیلات کے مطابق ماضی میں 200 بستروں پر مشتمل سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد کی لیبارٹری میں یوریا اور بلڈ کے تشخیصی ٹیسٹوں کی سہولیات موجود تھیں، روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 100 مریض آیا کرتے تھے جن کے تمام اقسام کے 4 سے 5 سو ٹیسٹ کیے جاتے تھے، اسپتال ذرائع کے مطابق اب اس اسپتال میں صرف سی بی سی اور یوریا کے ٹیسٹ ہورہے ہیں جبکہ بائیو کیمسٹری کا کوئی ٹیسٹ اسپتال میں فی الحال نہیں کیا جارہا۔
اسپتال میں داخل مریضوں نے الزام عائد کیا کہ دوپہر اور رات کے اوقات میں متعدد ڈاکٹرز اور طبی عملہ ڈیوٹیاں کرنے آتا ہی نہیں ہے،جس کے سبب اسپتال کے بیشتر وارڈز میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ڈاکٹر یا عملہ موجود نہیں ہوتا۔ اسپتال میں انتظامی امور شدید متاثر ہوچکے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ماضی میں اسپتال میں اوسطاً 60 سے 70 مریض داخل ہوتے تھے مگر اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ مریضوں نے اس اسپتال کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب اسپتال میں تقریبا 7 مریض داخل ہیں۔
مریضوں اور تیمارداروں کا کہنا ہے کہ اسپتال میں کوئی پوچھنے والا نہیں، علاج کرنے بھی کوئی نہیں آتا۔ سندھ حکومت فوری ایکشن لے کر اسپتال کی صورتِ حال درست کروائے۔
اسپتال میں کتے کے کاٹنے کے بعد لگائی جانی والی اینٹی ریبیز کی ویکسین موجود نہیں ہے جبکہ سپریم کوٹ کے واضح احکامات ہیں کہ اسپتال حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسپتال میں اینٹی ریبیز کی فراہم کی یقینی بنائیں۔
اسپتال میں موجود ادویات کے اسٹاک کے ایکسپائر ہونے کے بھی خدشات ہیں کیوںکہ جب اسپتال میں مریض ہی نہیں آتے تو ادویات کس کو دی جائیں گی؟
اسپتال کا گائنی وارڈ بھی جعل سازی سے محفوظ نہ رہا، ایک مریضہ نے شکوہ کیا کہ گائنی وارڈ میں خواتین کی رجسٹریشن تو مکمل کرلی جاتی ہے مگر ولادت کا وقت قریب آنے پر ان سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس اسپتال میں آپریشن نہیں ہوسکتا، پھر مریضہ کو نجی اسپتال منتقل کروانے کی تجویز دے دی جاتی ہے۔
ذرائع کے مطابق آپریشن کے لیے آپریشن تھیٹر سمیت طبی ساز و سامان بھی موجود ہے مگر متعدد مشینیں بھی خراب ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹرز مریضوں کو نجی اسپتالوں میں بھیج رہے ہیں۔
اسپتال میں سی ٹی اسکین ،لیتھوٹرپسی ،فیکو مشین،کالر ڈوپلرایکو اور سی ٹی جی مشین خراب پڑی ہیں،ماضی میں روزانہ 100 سے زائد ایکس رے کیے جاتے تھے مگر اب اسپتال کا عملہ من مانیوں پر اتر آیا ہے اور روزانہ صرف50 ایکسرے کرتا ہے۔
جب ایکسپریس نیوز کی ٹیم نے سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر تیرتھ کمار سے رابطہ کیا تو انہوں نے موقف دیا کہ ہمارے اسپتال کے ڈاکٹرز اور طبی عملہ ڈیوٹیوں پر نہیں آرہا تھا،جس کے بعد میں نے میٹنگ کرکے سب کو پابند کیا ہے۔
ایم ایس نے کہا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں مریض خود ہی اسپتال میں داخل نہیں ہونا چاہتے،اسپتال کی لیبارٹری کو چلانے کے لیے فنڈ کی کمی کا سامنا ہے تاہم محکمہ صحت سندھ نے فنڈز دینے سے انکار نہیں کیا بلکہ وجہ یہ ہے کہ مجھ سے قبل اسپتال میں تعینات ہونے والے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس نے کھبی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو اس بارے میں اطلاع ہی نہیں دی تھی۔
ڈاکٹر تیرتھ کمار نے کہا کہ میری پوری کوشش ہے کہ اسپتال میں دستیاب تمام وسائل کا استعمال کرکے انتظامی امور کو بہتر بناؤں۔