سانحہ 27 دسمبر 2007 کراچی میں بدترین لوٹ مار سیکڑوں گاڑیاں املاک نذر آتش
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی شہادت کی خبر کے چند منٹوں بعد ہی ’’نامعلوم‘‘ افراد نے شہر کو آگ میں جھونک دیا تھا
27 دسمبر 2007کا دن معمول کے مطابق گذر کر شام میں تبدیل ہوگیا ۔ زندگی رواں دواں تھی کہ اچانک ایک خبر نے اس شام کو شام غریباں میں تبدیل کردیا۔
عوام کے دلوں کی دھڑکن بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے بعد واپس جا رہی تھیں کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہو گیا ،جس میں وہ شہید ہو گئیں ، اس خبر کا سننا تھا کہ ملک میں وہ سنگین حالات پیدا ہوئے ، جس کا تصور قیام پاکستان کے وقت جیسے حالات سے کیا جاسکتا ہے،اس وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے جو لوگ پاکستان آرہے تھے ان سے جس طریقے سے لوٹ مار کی گئی وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے اور 27دسمبر کی شام اس تاریخ کو ایک مرتبہ پھر دوہرا رہی تھی ، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی افرا تفری کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی اور چاروں طرف شاہراہوں پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا ، ہر شخص اپنے گھر جلدی پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا اور ہزاروں لوگ دفاتر ، فیکٹریوں اور دیگر اداروں میں موجود تھے ،ہر طرف خوف کا عالم تھا کہ اچانک شہر کے بیشتر علاقوں میں '' نامعلوم '' مسلح افراد ایک دم نمودار ہوتے ہیں اور پھر وہ آگ و خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے ، جس کا کراچی والوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
27 دسمبر کو نامعلوم افراد نے کچھ گھنٹوں میں سیکڑوں گاڑیاں ، متعدد بینکس ، پیٹرول پمپس اور دیگر اشیا کو نذر آتش کردیا، ہزاروں افراد کو لوٹا گیا اور نامعلوم چہروں نے شہریوں کے ساتھ دکانوں میں بھی لوٹ مار کی ۔ درجنوں گودام اور فیکٹریوں میں بھی لوٹ مار کی گئی جبکہ شہر جل رہا تھا اور اس وقت کی صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف تماشہ دیکھ رہے تھے ، تین دن تک شہر مکمل طور پر بند رہا، لوگ گھروں میں محصور رہے ، سانحہ 27 دسمبر ایک بڑا واقعہ ہے ، جس میں اس عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور پارٹی کی چیئر پرسن بینظیر بھٹو شہید کی گئیں ، پیپلز پارٹی تو اس وقت غم میں تھی تاہم وہ نامعلوم چہرے کون تھے ، جنھوں نے کراچی میں تاریخی لوٹ مار کی اور اربوں روپے کی املاک اور گاڑیوں کو نذر آتش کردیا ،اس صورت حال پر کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کہتے ہیں کہ کراچی والوں کے لیے وہ ایک خوفناک دن تھا ، اس دن ایک بڑی عظیم لیڈرشہید ہوئیں،پوری قوم غم میں تھی لیکن نامعلوم افراد کھلے عام ہنگامہ آرائی اور لوٹ مار کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 27 دسمبر کو ہی مختلف واقعات میں تاجروں ، ٹرانسپورٹرز اور عوام کو 10 ارب روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا،آج تک حکومت نے تاجروں اور عوام کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا ، تاہم یہ اچھی بات ہے کہ ٹرانسپورٹرز کو جلائی گئی گاڑیوں کا معاوضہ دیا جا رہا ہے ، کراچی گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر محمد خالد خان کہتے ہیں کہ سانحہ 27 دسمبر 2007کو 968 گاڑیاں جلائی گئیں تھیں جبکہ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ 150 سے زائد بسیں ، منی بسیں اور کوچز جلائی گئیں،انھوں نے کہا کہ موجودہ وفاقی اور سندھ حکومتوں نے ٹرانسپورٹرز کو جلائی گئی گاڑیوں کا معاوضہ ادا کرنا شروع کر دیا ہے اور محکمہ داخلہ کی مرتب کردہ لسٹ کے مطابق 900 سے زائد گاڑیوں کے مالکان کو ماڈل کے حساب سے ایک سے 7 لاکھ روپے تک کا معاوضہ ادا کیا جا رہا ہے۔
کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے کہا کہ سانحہ 27 دسمبر 2007 میں جلائی گئی گاڑیوں کی معاوضے کی ادائیگی جاری ہے، اس سانحے کے بعد اس وقت کی وفاقی اور سندھ حکومتوں نے اس معاملے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا تھا لیکن اس اعلان پر مختلف اداروں نے تحقیقات بھی کیں لیکن یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہی رہا ، اس صورت حال پر پیپلز پارٹی سندھ کے سیکریٹری اطلاعات وقار مہدی کہتے ہیں کہ 27 دسمبر 2007کو عوام کی مقبول ترین لیڈر کو دہشتگردوں نے شہید کیا ۔ ہم تو غم میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن اس واقعے کی آڑ میں نامعلوم شرپسندوں نے عوامی املاک کو نقصان پہنچایا، لوٹ مار کی، ان کو روکنا اس وقت کی حکومت کی ذمے داری میں شامل تھا لیکن اس وقت کی حکومت حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔
انھوں نے کہا کہ اس سانحے کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ منظم رہیں اور اس سانحے کے بعد کی جانے والی سازش کو ناکام بنائیں ،انھوں نے کہا کہ اس سانحے کے بعد درجنوں ایف آئی آر مختلف تھانوں میں نامعلوم افرادکیخلاف اس وقت کی حکومت نے درج کیں لیکن اس وقت کی حکومت نے کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی ان مقدمات میں کوئی گواہی دینے آیا،اسی لیے اس سانحے کے بعد ہونے والے واقعات کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی،انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے ٹرانسپورٹرز کے نقصانات کا ازالہ کیا ہے، عوامی حلقے کہتے ہیں کہ آج اس واقعے کو 6 سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن اس واقعے کی تحقیقات کا سامنے نہ آنا ایک سوالیہ نشان ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرے۔
عوام کے دلوں کی دھڑکن بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے بعد واپس جا رہی تھیں کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہو گیا ،جس میں وہ شہید ہو گئیں ، اس خبر کا سننا تھا کہ ملک میں وہ سنگین حالات پیدا ہوئے ، جس کا تصور قیام پاکستان کے وقت جیسے حالات سے کیا جاسکتا ہے،اس وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے جو لوگ پاکستان آرہے تھے ان سے جس طریقے سے لوٹ مار کی گئی وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے اور 27دسمبر کی شام اس تاریخ کو ایک مرتبہ پھر دوہرا رہی تھی ، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی افرا تفری کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی اور چاروں طرف شاہراہوں پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا ، ہر شخص اپنے گھر جلدی پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا اور ہزاروں لوگ دفاتر ، فیکٹریوں اور دیگر اداروں میں موجود تھے ،ہر طرف خوف کا عالم تھا کہ اچانک شہر کے بیشتر علاقوں میں '' نامعلوم '' مسلح افراد ایک دم نمودار ہوتے ہیں اور پھر وہ آگ و خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے ، جس کا کراچی والوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
27 دسمبر کو نامعلوم افراد نے کچھ گھنٹوں میں سیکڑوں گاڑیاں ، متعدد بینکس ، پیٹرول پمپس اور دیگر اشیا کو نذر آتش کردیا، ہزاروں افراد کو لوٹا گیا اور نامعلوم چہروں نے شہریوں کے ساتھ دکانوں میں بھی لوٹ مار کی ۔ درجنوں گودام اور فیکٹریوں میں بھی لوٹ مار کی گئی جبکہ شہر جل رہا تھا اور اس وقت کی صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف تماشہ دیکھ رہے تھے ، تین دن تک شہر مکمل طور پر بند رہا، لوگ گھروں میں محصور رہے ، سانحہ 27 دسمبر ایک بڑا واقعہ ہے ، جس میں اس عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور پارٹی کی چیئر پرسن بینظیر بھٹو شہید کی گئیں ، پیپلز پارٹی تو اس وقت غم میں تھی تاہم وہ نامعلوم چہرے کون تھے ، جنھوں نے کراچی میں تاریخی لوٹ مار کی اور اربوں روپے کی املاک اور گاڑیوں کو نذر آتش کردیا ،اس صورت حال پر کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کہتے ہیں کہ کراچی والوں کے لیے وہ ایک خوفناک دن تھا ، اس دن ایک بڑی عظیم لیڈرشہید ہوئیں،پوری قوم غم میں تھی لیکن نامعلوم افراد کھلے عام ہنگامہ آرائی اور لوٹ مار کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 27 دسمبر کو ہی مختلف واقعات میں تاجروں ، ٹرانسپورٹرز اور عوام کو 10 ارب روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا،آج تک حکومت نے تاجروں اور عوام کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا ، تاہم یہ اچھی بات ہے کہ ٹرانسپورٹرز کو جلائی گئی گاڑیوں کا معاوضہ دیا جا رہا ہے ، کراچی گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر محمد خالد خان کہتے ہیں کہ سانحہ 27 دسمبر 2007کو 968 گاڑیاں جلائی گئیں تھیں جبکہ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ 150 سے زائد بسیں ، منی بسیں اور کوچز جلائی گئیں،انھوں نے کہا کہ موجودہ وفاقی اور سندھ حکومتوں نے ٹرانسپورٹرز کو جلائی گئی گاڑیوں کا معاوضہ ادا کرنا شروع کر دیا ہے اور محکمہ داخلہ کی مرتب کردہ لسٹ کے مطابق 900 سے زائد گاڑیوں کے مالکان کو ماڈل کے حساب سے ایک سے 7 لاکھ روپے تک کا معاوضہ ادا کیا جا رہا ہے۔
کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے کہا کہ سانحہ 27 دسمبر 2007 میں جلائی گئی گاڑیوں کی معاوضے کی ادائیگی جاری ہے، اس سانحے کے بعد اس وقت کی وفاقی اور سندھ حکومتوں نے اس معاملے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا تھا لیکن اس اعلان پر مختلف اداروں نے تحقیقات بھی کیں لیکن یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہی رہا ، اس صورت حال پر پیپلز پارٹی سندھ کے سیکریٹری اطلاعات وقار مہدی کہتے ہیں کہ 27 دسمبر 2007کو عوام کی مقبول ترین لیڈر کو دہشتگردوں نے شہید کیا ۔ ہم تو غم میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن اس واقعے کی آڑ میں نامعلوم شرپسندوں نے عوامی املاک کو نقصان پہنچایا، لوٹ مار کی، ان کو روکنا اس وقت کی حکومت کی ذمے داری میں شامل تھا لیکن اس وقت کی حکومت حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔
انھوں نے کہا کہ اس سانحے کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ منظم رہیں اور اس سانحے کے بعد کی جانے والی سازش کو ناکام بنائیں ،انھوں نے کہا کہ اس سانحے کے بعد درجنوں ایف آئی آر مختلف تھانوں میں نامعلوم افرادکیخلاف اس وقت کی حکومت نے درج کیں لیکن اس وقت کی حکومت نے کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی ان مقدمات میں کوئی گواہی دینے آیا،اسی لیے اس سانحے کے بعد ہونے والے واقعات کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی،انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے ٹرانسپورٹرز کے نقصانات کا ازالہ کیا ہے، عوامی حلقے کہتے ہیں کہ آج اس واقعے کو 6 سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن اس واقعے کی تحقیقات کا سامنے نہ آنا ایک سوالیہ نشان ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرے۔