الگورتھم کی مدد سے بچوں میں ٹی بی کی تشخیص میں نمایاں کامیابی
وسائل سے محروم ممالک میں ایکسرے اور بلغم کو دیکھتے ہوئے الگورتھم بہت مؤثر انداز میں ٹی بی کی شناخت کرسکتا ہے
اکیسویں صدی میں اب بھی ٹی بی جیسے مرض کی شناخت ایک معمہ بنی ہوئی ہے جس میں کئی کیس نگاہوں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ اب کمپیوٹرالگورتھم کی مدد سے بلغم اور ایکسرے کو دیکھتے ہوئے بالخصوص بچوں میں پھیپھڑوں کی ٹی بی کی درست تشخیص میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے غریب اور وسائل سے محروم علاقوں کے لیے ایک الگورتھم بنایا ہے جو بچوں میں ٹی بی کی غیرمعمولی درست شناخت کرسکتا ہے۔ اس سے بروقت علاج کرنے اور جان بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔
الگورتھم حقیقت میں کمپیوٹر ہدایات کا مجموعہ ہوتے ہیں اور طب میں ان کا غیرمعمولی استعمال بڑھ رہا ہے۔ اب یہ ٹی بی کی شناخت میں غیرمعمولی مدد دے سکتے ہیں۔ اس طرح خود طبی عملے پر کام کا دباؤ بھی کم ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ بہتر فیصلہ سازی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش کے ڈاکٹر شکیل احمد نے اسے استعمال کرکے تفصیلی روداد لینسٹ چائلڈ میں پیش کی ہے۔ ان کے مطابق امیر ممالک میں بھی بچوں میں ٹی بی کی شناخت اکثرچوک جاتی ہے اور یوں ان کی بڑی تعداد مرض کے ساتھ جیتی ہے اور مرض اس وقت سامنے آتا ہے جب پانی سر سے بلند ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹرشکیل احمد نے زور دے کر کہا ہے کہ ان کا الگورتھم اب ترقی پذیر ممالک کی طبی ہدایات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم بنیادی (پرائمری) طبی عملے کو اس کی تربیت درکار ہوگی۔
الگورتھم میں علامات، طبی (بلغم کا) ٹیسٹ، سینے کے ایکسرے، اور تاریخ وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر الگورتھم خطرے کی سطح کو نمبر کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ اس سے بچے میں ٹی بی کی شناخت وعلاج میں مدد ملتی ہے۔
واضح رہے کہ اس الگورتھم میں 12 ممالک کے ایسے بچوں کا ڈیٹا شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 10 برس سے کم تھیں۔ اس کے بعد بخار وغیرہ اور دیگر علامات پر پوائنٹ سسٹم کا نظام بنایا گیا ہے اور اسی مناسبت سے بچے میں مرض کے ہونے یا نہ ہونے کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
الگورتھم سازی میں شامل ، جان ہاپکنز یونیورسٹی ہسپتال سے وابستہ ڈاکٹر امیتا گپتا کے مطابق الگورتھم کی درستگی کی شرح بہت بلند ہے۔ اس کا استعامل آسان ہے جو پسماندہ علاقوں میں آسانی سے استعمال ہوسکتا ہے۔ اس ٹیسٹ کو بھارت اور بنگلہ دیش میں آزمایا گیا ہے اور زبردست نتائج سامنے آئے ہیں۔
بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے غریب اور وسائل سے محروم علاقوں کے لیے ایک الگورتھم بنایا ہے جو بچوں میں ٹی بی کی غیرمعمولی درست شناخت کرسکتا ہے۔ اس سے بروقت علاج کرنے اور جان بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔
الگورتھم حقیقت میں کمپیوٹر ہدایات کا مجموعہ ہوتے ہیں اور طب میں ان کا غیرمعمولی استعمال بڑھ رہا ہے۔ اب یہ ٹی بی کی شناخت میں غیرمعمولی مدد دے سکتے ہیں۔ اس طرح خود طبی عملے پر کام کا دباؤ بھی کم ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ بہتر فیصلہ سازی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش کے ڈاکٹر شکیل احمد نے اسے استعمال کرکے تفصیلی روداد لینسٹ چائلڈ میں پیش کی ہے۔ ان کے مطابق امیر ممالک میں بھی بچوں میں ٹی بی کی شناخت اکثرچوک جاتی ہے اور یوں ان کی بڑی تعداد مرض کے ساتھ جیتی ہے اور مرض اس وقت سامنے آتا ہے جب پانی سر سے بلند ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹرشکیل احمد نے زور دے کر کہا ہے کہ ان کا الگورتھم اب ترقی پذیر ممالک کی طبی ہدایات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم بنیادی (پرائمری) طبی عملے کو اس کی تربیت درکار ہوگی۔
الگورتھم میں علامات، طبی (بلغم کا) ٹیسٹ، سینے کے ایکسرے، اور تاریخ وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر الگورتھم خطرے کی سطح کو نمبر کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ اس سے بچے میں ٹی بی کی شناخت وعلاج میں مدد ملتی ہے۔
واضح رہے کہ اس الگورتھم میں 12 ممالک کے ایسے بچوں کا ڈیٹا شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 10 برس سے کم تھیں۔ اس کے بعد بخار وغیرہ اور دیگر علامات پر پوائنٹ سسٹم کا نظام بنایا گیا ہے اور اسی مناسبت سے بچے میں مرض کے ہونے یا نہ ہونے کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
الگورتھم سازی میں شامل ، جان ہاپکنز یونیورسٹی ہسپتال سے وابستہ ڈاکٹر امیتا گپتا کے مطابق الگورتھم کی درستگی کی شرح بہت بلند ہے۔ اس کا استعامل آسان ہے جو پسماندہ علاقوں میں آسانی سے استعمال ہوسکتا ہے۔ اس ٹیسٹ کو بھارت اور بنگلہ دیش میں آزمایا گیا ہے اور زبردست نتائج سامنے آئے ہیں۔