میرے گاؤں میں بجلی آئی تھی

سرکاری دفاتر اور مراعات یافتہ اشرافیہ کے بل لاکھوں بھی ہو جائیں تو کسی کو کوئی فکر نہیں ہوتی

m_saeedarain@hotmail.com

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پچاس سال پہلے میڈیا پر حکومت پاکستان کی طرف سے یہ اشتہار بہت چلا تھا کہ میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے۔

پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں ملک بھر کے گاؤں گوٹھوں کو بجلی کی فراہمی بڑے پیمانے پر شروع کی گئی تھی ۔ اس وقت یہ تصور نہیں تھا کہ آنے والے 35 سال بعد پھر پیپلز پارٹی کی حکومت ہوگی جس کے دور میں ملک اندھیروں میں ڈوب جائے گا اور ملک کے لیے بجلی کی لوڈ شیڈنگ عذاب بن جائے گی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ اٹھارہ بیس گھنٹوں تک پہنچ جائے گا جس میں سب سے متاثر بھی شہروں سے زیادہ وہ گاؤں ہوں گے جن کے اشتہار بڑے فخر سے چلتے تھے کہ میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے۔

پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت 2008 میں قائم ہوئی جس کے 5 سالوں میں بجلی سب سے بڑا مسئلہ بنی رہی اور یہ مسئلہ ہی 2013 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی شکست کا سبب بنا اور ملک میں پیپلز پارٹی کو لے ڈوبا۔گاؤں میں بجلی آنے اور مسلسل آبادی بڑھنے کے باعث ملک میں بجلی کی کھپت بڑھتی رہی مگر 2008 تک جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں رہنے تک کسی حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ نہیں دی بلکہ بھٹو دور سے اب تک ہر حکومت بجلی مہنگی کرنے میں مصروف رہی اور موجودہ اتحادی حکومت نے عوام سے دشمنی کی حد تک بجلی اتنی مہنگی اور ناپید کردی ہے کہ لوگ اب بجلی کے مہنگے مہنگے بلوں کے باعث بجلی کے استعمال سے تنگ آ چکے ہیں مگر بجلی اب ہر شخص کی مجبوری بن چکی ہے کیونکہ دیہات ہوں یا شہر سب ہی بجلی کے عادی بن چکے ہیں۔

گاؤں میں امیر اور متوسط طبقے کے لوگ اے سی کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ملک میں بجلی کی کھپت جہاں ہر روز بڑھ رہی ہے وہاں بجلی سے چلنے والی ہر چیز کی طلب بھی بڑھی مگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ملک کے لوگوں کو اتنی وافر مقدار میں بجلی کہاں سے دی جائے گی۔

ہر حکومت نے بجلی کی بڑھتی طلب پوری کرنے کے بجائے بجلی مہنگی کرنے پر توجہ دی جس کی وجہ سے بجلی کی چوری مسلسل بڑھتی رہی اور کسی حکومت نے بجلی کی چوری روکنے کی وجوہات جاننے اور بجلی چوری روکنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔

ملک میں بجلی کا استعمال اب گاؤں ہو یا شہر ہر ایک کی اشد ضرورت بنا ہوا ہے اور اتحادی حکومت نے تو بجلی مہنگی کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے اور بجلی مہنگی ہونے سے ملک میں مہنگائی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے مگر سابقہ حکومتوں کی طرح اتحادی حکومت کو بھی کوئی فکر نہیں ہے اور بجلی مہنگی ہونے سے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ بجلی کم استعمال کریں اور ایک اہم بات یہ ہے کہ لوگ لاکھ بجلی کم استعمال کریں اور گھنٹوں لوڈ شیڈنگ بھی ہو مگر بجلی کے بل کم نہیں آتے یہ نہ جانے کیا چکر ہے۔


سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں پی پی کی سابقہ حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے بجائے گھڑیاں آگے پیچھے کرنے اور بازاروں کے کاروباری اوقات کم کرنے پر ضرور توجہ دی مگر اس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی جس کے بعد جب 2013 کے الیکشن کی مہم چلی تو میاں نواز شریف نے منشور بنایا کہ وہ اقتدار میں آ کر بجلی کی پیداوار بڑھانے پر مکمل توجہ دیں گے اور ملک سے اندھیرے دور کریں گے۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے دور میں بجلی کا مسئلہ حل کرنے پر زور بھی دیا اور 2018 تک وعدے کے مطابق بجلی کی لوڈ شیڈنگ باقاعدہ ختم کرنے کا سرکاری اعلان بھی کردیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی اور کہا گیا کہ نواز حکومت نے ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کردی تھی اس لیے عمران خان نے بجلی کے کارخانے بند کرا دیے جس کے بعد ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اتحادی حکومت کے 11 ماہ گزرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوا۔

گرمیاں تو کیا موسم سرما میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور اب گرمیاں پھر شروع ہیں نہ جانے آگے کیا ہوگا۔بجلی مہنگی ہونے اور لوڈ شیڈنگ سے صرف عوام متاثر ہوتے ہیں اور حکمرانوں، اشرافیہ اور بیورو کریٹس پر کوئی اثر اس لیے نہیں پڑتا کہ انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد سیکڑوں یونٹ ماہانہ مفت استعمال کرنے کی سرکاری سہولت ملی ہوئی ہے اور یہ سہولت بہت زیادہ حاصل ہے وہ گرمی ہو یا سردی مفت بجلی کی یہ رعایت بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔

بجلی مہنگی ہو یا لوڈ شیڈنگ وہ متاثر نہیں ہوتے انھیں بجلی کے علاوہ سرکاری پٹرول اور گیس بھی بل کے بغیر مفت میں ملتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ پر ان کے جنریٹر چل جاتے ہیں، سردیوں میں جنریٹر اور ہیٹر بجلی و گیس سے چلا کر وہ سرکاری سہولت کے مزے لوٹ رہے ہیں تو ان کی صحت پر کیا اثر پڑنا ہے۔

سرکاری دفاتر میں بھی بجلی کا بے دردی سے استعمال ہوتا ہے دن میں بھی تمام لائٹیں جلتی ہیں سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں اے سی صاحب بہادروں کے آنے سے قبل ہی آن کر دیے جاتے ہیں اور ان کے جانے کے بعد بھی چلتے رہتے ہیں۔ نچلے عملے کو کیا فکر بل حکومت دیتی ہے۔

عوام کی بجلی چند ہزار پر کٹ جاتی ہے اور سرکاری دفاتر اور مراعات یافتہ اشرافیہ کے بل لاکھوں بھی ہو جائیں تو کسی کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ گاؤں کیا شہر بھی بجلی و گیس کی قلت کا شکار ہیں اور گاؤں والے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بجلی کیوں آئی تھی اس کے آئے بغیر ہی ہم اچھے تھے۔
Load Next Story