زنگ آلود ذہن ڈگری مافیا اور بے روزگاری
فیصل ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ ہوش سنبھالا تو والدین نے مہنگے اسکول میں داخل کروایا تاکہ ان کے چشم و چراغ کو وہ معاشی مسائل نہ جھیلنا پڑیں جن کا سامنا انہیں کرنا پڑا۔ تعلیمی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو فیصل کی کارکردگی نے اہلخانہ کو خوب ڈھارس بندھائی۔ ہر جماعت میں اچھے نمبر حاصل کرتا اور یوں یہ سلسلہ اسکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی تک جا پہنچا۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے تک اُس کے والدین عمر کے آخری حصے کو جا پہنچے تھے۔ تمام جمع پونجی تعلیمی اخراجات پر صَرف ہوچکی تھی۔ بڑھتی مہنگائی اور محدود وسائل کے باعث گھر کے انتظام کو چلانا انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔ والدین کو امید تھی کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد فیصل کو اچھی نوکری ملے گی اور مالی حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن صورتحال یکسر مختلف ہوگئی۔ ڈگریاں، میڈلز اور سرٹیفکیٹس ہونے کے باوجود بےروزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔
آج معاشرے میں ہزاروں نوجوان مہنگی ڈگریاں لیے مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہیں۔ بے روزگاری کے بارے میں اخباروں پر روزانہ کی بنیاد پر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ مختلف سیاسی قیادتیں بھی ووٹ بٹورنے کےلیے نوجوانوں کو سبز باغ دکھاتی رہتی ہیں لیکن یہ مسئلہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے میں روزگار کے حوالے سے بہت غلط سوچ پروان چڑھ چکی ہے۔ اپنے کارروبار یا سرمایہ کاری پر سرکاری نوکری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد یوں تصور کیا جاتا ہے کہ نوکری پکے ہوئے آم کی طرح ان کی گود میں آکر گرے گی۔ پیشہ ورانہ مہارت کی جانب رجحان بہت کم ہے۔ اپنے اردگرد موجود ایسے بیسیوں افراد کو جانتا ہوں جو سرکاری نوکریوں کی جدودجہد میں مصروف ہیں لیکن پیشہ ورانہ مہارت میں بالکل کورے ہیں۔ ایسے طبقے کا سرکاری نوکریوں پر ہونا نہ صرف ان اداروں پر بوجھ ہے بلکہ قوم کے پیسوں کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔ سرکاری شعبوں میں افراد کی طلب بہت کم ہے، جن شعبوں میں جگہ موجود ہے وہاں تجربہ اور اسکلز کا فقدان ہے۔
سرکاری نوکری کو آرام دہ اور سیونگ سمجھا جاتا ہے، یہی وہ سوچ ہے جس کے باعث نوجوانوں کی ذہنی صلاحیتیں منجمد ہوتی جارہی ہیں۔ بے روزگاری سے بچنے کےلیے تعلیم یافتہ نوجوان اچھی مہارتیں سیکھ کر فری لانسنگ سے اچھی آمدن حاصل کرسکتے ہیں۔ دور حاضر میں پروفیشنل مہارتوں کو سیکھنا بالکل مشکل نہیں اور نہ ہی اس کےلیے دفتروں میں کام کرنا ضروری ہے بلکہ انٹرنیٹ پر ایسی کئی ویب سائٹس موجود ہیں جو مفت تربیت فراہم کرتی ہیں۔ کسی بھی شعبے سے تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان باآسانی متعلقہ ٹریننگ حاصل کرسکتا ہے۔
بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ شعور میں کمی اور انا بھی ہے۔ محنت سے نہ صرف اچھی آمدن حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ اپنی تعلیمی قابلیتوں کے ذریعے کاروبار کو مزید وسعت بھی دی جاسکتی ہے۔ موجودہ دور میں بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ پڑھے لکھے طبقے کی وقعت فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور سے بھی کم ہوچکی ہے کیونکہ وہاں پر کام کرنے والا مزدور 32 ہزار روپے یا اس سے زائد ماہانہ کما رہا ہے لیکن یونیورسٹیوں میں لاکھوں روپے صرف کرنےوالے نوجوانوں کو ماہانہ 10 سے 15 ہزار روپے کے عوض نوکریوں پر رکھا جاتا ہے۔ اس پریشانی کا واحد حل دوران تعلیم پیشہ ورانہ مہارتوں کو حاصل کرنا ہے۔
پاکستان کے تعلیمی ادارے بھی بے روزگاری میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے شعبے جن کی مستقبل تو دور، حال میں بھی کوئی ضرورت نہیں، ان سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا ڈگریاں لے رہے ہیں۔ ایسے طلبا جو غیر ضروری شعبوں سے ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں انہیں چاہیے کہ ایسی مہارتوں کو حاصل کریں جو ہر شعبے میں کارآمد ہوسکتی ہیں۔ ان مہارتوں کے بارے میں انٹرنیٹ پر با آسانی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے چند سال میں کلرک، اکاؤنٹنٹس اور آڈیٹرز سمیت دیگر دفتری امور پر تعینات افراد کی طلب میں کافی حد تک کمی آئے گی جبکہ آئی ٹی اور دیگر جدید مہارتوں کے حامل افراد کی مانگ میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ آئی ایم ایف نے جن پیشہ ورانہ مہارتوں کا اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے ان میں بہت کم پروگرامز پر پاکستانی جامعات میں کام کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں ہر سال تعلیم مکمل کرنے والے آئی ٹی پروفیشنل کی تعداد تقریباً 26000 ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی اس نوجوان نسل کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ صرف 2 سے 3 ہزار ہی اداروں کو مطلوب استعداد پر پورا اترتے ہیں۔ ہنرمند آئی ٹی افراد کی تعداد طلب کے مقابلے میں بہت کم ہے، ان میں اکثریت اس استعداد سے عاری نظر آتی ہے جو عالمی مارکیٹ میں مقابلے کےلیے ضروری ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن جس کا مقصد اعلیٰ تعلیم کے بارے میں نہ صرف قانونی سازی کرنا ہے بلکہ جامعات کو معیاری تعلیم دینے کا پابند بھی کرنا ہے، خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں خامیوں کا انکشاف ہائر ایجوکیشن کے اعلیٰ عہدیدان کئی بار کرچکے ہیں۔ کمیشن کے زیر سایہ ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو صرف ڈگریاں بیچنے کا کام کر رہے ہیں۔ ناقص تعلیم پر احتساب کا کوئی مستقل نظام موجود نہیں۔ اس صورتحال پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ عہدیداران کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور معیاری تعلیم کےلیے موثرپالیسی بنائی جانی چاہیے۔ اگر جامعات میں ناقص تعلیم کا سلسلہ بند نہ ہوا تو بے روزگاری کی شرح میں نا صرف مزید اضافہ ہوگا بلکہ ایسے مسائل جنم لیں گے جو حکومت وقت کےلیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔