عالمی منظر نامے میں تبدیلی کے اشارے

ایران نے تقریباً 8سال کے بعد متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بحال کیے ہیں

فوٹو : اے ایف پی

مشرق وسطیٰ کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے' یہ پیشرفت ایران اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ ایران اور سعودی عرب پہلے ہی سفارتی تعلقات بحال کر چکے ہیں اب میڈیا کی اطلاع کے مطابق ایران نے متحدہ عرب امارات سے بھی تعلقات بحال کر لیے ہیں۔

ایران نے تقریباً 8سال کے بعد متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بحال کیے ہیں اور اب اپنا سفیر مقرر کر دیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ برس اگست میں متحدہ عرب امارات نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنا سفیر بھی تہران بھیجے گا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے۔

ان مذاکرات کے نتیجے میں ایران نے بھی متحدہ عرب امارات میں اپنا سفیر مقرر کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات جنوری 2016 میں منقطع ہوگئے تھے، جب سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کو پھانسی دی گئی تھی جس کے ردعمل میں ایران میں سعودی سفارت خانے پر مظاہرین نے حملہ کر دیا تھا۔

اس پر سعودی عرب نے اپنا سفیر واپس بلا کر ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیے تھے۔ سعودی عرب سے اظہار یکجہتی کے لیے متحدہ عرب امارات سمیت دیگر عرب ممالک نے بھی اپنے سفیر واپس بلالیے تھے۔

تاہم اب ایران اور سعودی عرب کے درمیان گزشتہ ماہ سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے چین کی ثالثی میں معاہدہ طے پاگیا تھا جس میں دونوں ممالک نے دو ماہ کے دوران سفارتی دفاتر کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔ سعودی عرب سے سفارتی تعلقات کی بحالی کا مطلب دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی ایران کے تعلقات بحال ہوگئے ہیں۔

گزشتہ ماہ ایران اور سعودی عرب نے تعلقات بحال کرنے اور سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا۔ متحدہ عرب امارات کے ایران کے درمیان کاروباری اور تجارتی تعلقات ایک صدی سے زیادہ پرانے ہیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں ایران کے نئے سفیر رضا امیری وزارت خارجہ میں ایرانی تارکین وطن کے دفتر میں بطور ڈائریکٹر جنرل خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ایران اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی دنیا میں نئی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ عرب لیگ نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو کشیدگی بڑھانے سے روکے۔ یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ عالمی امور میں چین کا کردار بڑھ رہا ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرانے میں چین نے ہی اہم کردارادا کیا تھا اور اب ایران اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کی بحالی میں بھی چین کا ہی اہم کردارہے۔

ان تبدیلیوں سے واضح ہو رہا ہے کہ جلد ہی یمن اور سعودی عرب کا تنازع بھی طے پا جائے گا ' اس کے ساتھ ساتھ شام کے بھی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بحال ہوتے نظرآ رہے ہیں' شام کے صدر بشار الاسد اور عرب حکمرانوں کے درمیان برف پگھلتی نظر آ رہی ہے۔

اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر مشرق وسطیٰ میں تنازعات کی آگ بجھتی نظر آ رہی ہے۔ ادھر اسرائیل ابھی تک فلسطینیوں کے حوالے سے اپنی ظلم و جبر کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصٰی میں دھاوا بولا جس کے نتیجے میں حالات مزید خراب ہو گئے۔فلسطینیوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

یاد رہے 'اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصی میں دھاوا بول کر درجنوں نمازیوں کو زخمی کر دیا ہے، اس کے ردعمل میں فلسطینی تنظیم حماس نے بڑے مظاہروں کی کال دیدی،حملے دوران فلسطینی سڑکوں پر جمع ہو کر اسرائیل کی سرحد کی جانب بڑھنے لگے ہیں۔

اسرائیل پولیس کے مطابق غزہ سے اسرائیل کی جانب 9 راکٹ فائر کیے گئے ،پولیس نے 350 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔ اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے اس وقت مسجد اقصی کے احاطے میں داخل ہوئیں جب سیکڑوں مسلمان رمضان المبارک کی شب عبادت میں مصروف تھے۔


فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے کہا کہ ہم قابض طاقت کو مقدس مقام کی سرخ لکیر عبور کرنے کیخلاف خبردار کرتے ہیں جو ایک بڑے تصادم کا باعث بنے گا۔واقعے کے بعد اسرائیلی فوج نے کہا جنوبی قصبوں میں سائرن بجنے کے بعد غزہ سے اسرائیل کی جانب 9راکٹ فائر کیے گئے۔فلسطینی گروپوں نے نمازیوں پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے جرم قرار دیا ہے۔

پاکستان' سعودی عرب اردن اور مصرنے واقعے کی مذمت کی ہے۔ادھر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیلی قبضے کے خلاف او آئی سی کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی۔بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف او آئی سی کی قرارداد پاکستان نے پیش کی۔قرارداد کے حق میں اڑتیس اور مخالفت میں چار ووٹ پڑے جب کہ پانچ ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

اسرائیل کے خلاف قرارداد کی مخالفت کرنے والے چار ملکوں میں امریکا اور برطانیہ بھی شامل تھے۔

ادھر پاکستانی میڈیا نے فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی کے حوالے سے بتایا ہے کہعرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط مسجد اقصٰی پر دھاوا بولنے ، نمازیوں پر حملہ کرنے اور تقریباً چار سو فلسطینیوں کو گرفتار کرنے کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں خطرناک کشیدگی روکنے پر مجبور کرے۔

مشرق وسطیٰ میں بد امنی 'خانہ جنگی اور جنگ کی بنیادی وجہ اسرائیل کی پالیسیاں ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کئی معاہدے بھی کیے لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

آئے روز اسرائیلی فورسز فلسطینیوں پر حملے کرتی ہیں۔ اس کے ردعمل میں فلسطینی بھی کارروائی کرتے ہیں جس پر اسرائیل واویلا کرتا رہتا ہے۔

بہر حال اگر ایران اور عرب ملکوں کے درمیان تعلقات بحال ہو جاتے ہیں اور باہمی تنازعات دور ہوجاتے ہیں تو اس سے اسرائیل پر دباؤ بڑھے گا ' یہی نہیں بلکہ امریکا اور مغربی یورپی ممالک کی حکومتوں پر بھی دباؤ بڑھے گا' یہ ممالک اسرائیل کی پالیسیوں کی اندھا دھند حمایت کرنے سے پہلے عرب ممالک میں اپنے مفادات کے بارے میں بھی سوچیں گے۔

چین نے اس معاملے میں جو کردار ادا کیا ہے 'وہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی تنازعات میں چین ایک غیر متنازع فریق کے طور پر سب کے لیے قابل قبول ہے۔ امریکا اور مغربی یورپی ممالک اب اس پوزیشن میں نہیں رہے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو حل کریں کیونکہ ان تنازعات میں وہ خود ایک فریق کے طور پر شامل ہیں۔

چین افریقہ میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھا رہاہے 'افریقہ میں چین ایک بڑے سٹیک ہولڈر کی پوزیشن حاصل کر چکا ہے اور کئی افریقی ممالک میں چینی کمپنیوں کی بھاری سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ ادھر چین روس اور یو کرائن کے درمیان جنگ بندی کے لیے بھی متحرک نظرآ رہا ہے ' فرانس کے صدر چین کے دورے پر ہیں'اطلاعات کے مطابق فرانسیسی صدر نے چین کے دورے سے قبل امریکی ہم منصب سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔

اس دورے میں روس اور یو کرین جنگ کا موضوع سب سے اہم رہے گا ۔اگر چین اس جنگ کو بند کرانے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو آنے والے وقت کا منظر نامہ سمجھنا مشکل نہیں رہے گا۔بھارت ابھی ان تبدیلیوںسے بے نیاز ہو کر چین کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اس سلسلے میں بھارت نے متنازع ریاست ارونا چل پردیش کے گیارہ مقامات کے نام تبدیل کر دیئے۔اگلے روز اس بھارتی اقدام کا جواب دیتے ہوئے چین نے متنازعہ اروناچل پردیش کے 11 مقامات کے نام تبدیل کر دیئے۔

میڈیا نے ذرائع کیحوالے سے بتایا ہے کہ چین نے یہ اقدام امریکی سینیٹ کے متنازعہ علاقے پر بھارتی حق تسلیم کرنے کے جواب میںاٹھائے ہیں۔

عالمی منظر نامے میں ہونے والی یہ تبدیلیاں واضح کر رہی ہیں کہ جہاں کئی ملکوں کے درمیان تنازعات موجود ہیں تو کئی ملکوں نے اپنے تنازعات حل کرنے کی کوششوں کو عملی شکل دینی شروع کر دی ہے۔

چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات موجود ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے ۔عالمی سطح پر بھی چین کا کردار پہلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے' پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی اس بدلتی ہوئیصورت حال کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔

اب یہ بات طے ہے کہ آج کی دنیا تنازعات اور جنگوں کی نہیں بلکہ تجارتی مفادات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے والی ہے۔اب وہی ملک ترقی کرے گا جس کے تنازعات کم سے کم ہوں گے۔
Load Next Story