حمزہ یوسف… ڈالرکو چیلنجز
اس کامیابی سے جناب حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر یعنی وزیرِ اعظم بن گئے ہیں
عالمی منظر نامے میں دو بہت اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جو کئی اور تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔
برِصغیر پاک و ہند انگریزوں کے قبضے میں جانے سے پہلے بہت دولتمند خطہ تھا شاید اسی لیے اسے سونے کی چڑیا سے تشبیہ دی جاتی تھی۔
انگریزوں نے اسے لوٹ کر کنگال کر دیا لیکن انگریز راج کی وجہ سے جہاں برِصغیر کو بہت معاشی پسماندی میں دھکیلا گیا وہیں اس خطے کے رہنے والوں کو برطانیہ نقل مکانی کی سہولت میسر آ گئی اور ایک بڑی تعداد نے یہاں سے وہاں جا کر مستقل سکونت اختیار کر لی۔
اب ان لوگوں کی اولادیں برطانوی شہریت کی حامل ہیں اور وہاں کی سیاست میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ کے کئی ارکان کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے اور اب ایک بھارت نژاد ہندو رشی سوناک برطانیہ کا وزیرِ اعظم بن گیا ہے۔ پاکستانی نژاد جناب محمد صادق لندن جیسے اہم میٹروپولیٹن شہر کے میئر ہیں۔ جناب صادق نے 2021میں دوسری بار یہ انتخاب جیتا ہے۔ آئر لینڈ کا وزیرِ اعظم بھی ایک بھارتی نژاد ہے۔ پورے یورپ میں ایک حیران کن تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
1985میں پیدا ہونے والے 37سالہ جناب حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کی حکمران جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی کا انتخاب جیت کر پارٹی کے سربراہ مقرر ہو گئے ہیں۔ اس کامیابی سے جناب حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر یعنی وزیرِ اعظم بن گئے ہیں۔
انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ یہ یورپ کی کسی بھی حکومت کے پہلے مسلمان سربراہ ہیں۔ یورپ عیسائیت کا گڑھ ہے۔ دنیا میں عیسائیت نے سب سے پہلے یورپی سرزمین تسخیر تھی۔
یورپین ویلیوز ہی عیسائی ویلیوز بن گئیں۔عیسائی روایات کے حامل معاشرے میں ساؤتھ ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان گھرانے کے ایک فرد کا اسکاٹ لینڈ کا حکمران بن جانا انتہائی انوکھی اور حیران کن تبدیلی ہے۔جس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔
جناب حمزہ یوسف سب سے کم عمر اسکاٹش حکمران بھی ہیں۔حمزہ نے گلاسگو کے ایک پرائیویٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی۔انھوں نے سیاسیات کے مضمون کو ترجیح دی اور تعلیم مکمل کر کے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔وہ2011میں محض 26سال کی عمر میں اسکاٹش پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے اور صحت کے علاوہ ٹرانسپورٹ کے وزیر رہے۔
انھوں نے خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور چیریٹی ورک کرتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی عار نہیں جانا۔اگر پاکستانی نژاد افراد کی بات کی جائے تو ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں اس وقت کم و بیش 15لاکھ پاکستانی آباد ہیں۔
پاکستانیوں نے برطانیہ کی سیاست میں بڑا نام کمایا ہے۔جناب محمد سرور وہ پہلے پاکستانی تھے جو پارلیمنٹ کے ممبر بنے۔جناب ساجد جاوید برطانیہ کے وزیرِ خزانہ رہے۔بیرونس سعیدہ وارثی کنزرویٹو پارتی کی چیئر پرسن رہیں۔
جناب حمزہ یوسف بہت کم مارجن سے انتخاب جیتے ہیں۔انھوں نے 52فی صد ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کی حریف نکولس سرجین کو 48فید ووٹ پڑے۔اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ حکمران جماعت متحد نہیں ہے۔حمزہ کو حکمران جماعت کو متحد کرنا ہو گا تاکہ وہ یکسوئی سے اپنا کام کر سکیں۔
ان کا پہلا چیلنج اپنی وفاداریوں کو شک و شبے سے اوپر اٹھانا ہو گا۔انھوں نے خود بتایا کہ نائن الیون کے بعد کئی بار اسکاٹ لینڈ کے ساتھ ان کی وفاداری پر سوال اٹھائے گئے۔ اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی تڑپ بہت گہری ہے۔
حمزہ نے اپنی ابتدائی تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ برطانیہ سے آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔حمزہ یوسف کی تقریر پر برطانوی وزیرِ اعظم رشی سوناک نے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ آزادی کے لیے ریفرنڈم کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب حمزہ یوسف کے راستے میں کئی پہاڑ کھڑے ہیں ۔حمزہ کو اسکاٹ لینڈ میں آباد پاکستانی کیمونٹی کی پسماندگی دور کرنے کے لیے بھی محنت کرنی ہو گی۔نئے فرسٹ منسٹر کو کریمینل جسٹس سسٹم کے اندر ریفارمز لانا ہوں گی۔حمزہ کی پیشرو فرسٹ منسٹڑ نکولا اور ان کے خاوند دو دہائیوں سے زائد حکمران رہے۔ نکولا نے ایک بیان میں کہا کہ حمزہ یوسف ایک آؤٹ اسٹینڈنگ رہنماء ثابت ہوں گے۔
اسکاٹ لینڈ میں حزبِ مخالف کی جماعت لیبر پارٹی کے سربراہ بھی پاکستانی مسلمان ہیں جو بہت خوش آئند بات ہے۔ بہر حال حمزہ اسکاٹ لینڈ میں لوکل قوم پرست سیاست کا ایک روشن ستارہ ہیں۔اﷲ حمزہ یوسف کو کامیاب کرے۔
ان کی کامیابی سے یورپ میں مسلمانوں کے لیے اچھی مثال قائم ہو گی۔ہم پاکستان میں حمزہ کی کامیابی پر خوش ہیں لیکن اپنے ملک میں کسی غیر مسلمان کو صدر،وزیرِ اعظم یا آرمی چیف نہیں دیکھ سکتے۔
بین الاقوامی میدان میں دوسری اہم ترین پیش رفت کچھ اقوام کا ڈالر میں تجارت سے منہ موڑنا ہے۔ اس معاملے میں چین اور روس پیش پیش ہیں۔ بے پناہ فوجی قوت کے ساتھ ساتھ ڈالر میں تجارت اور خاص کر تیل کی تجارت نے ساری دنیا کو امریکی کرنسی کا دستِ نگر بنایا ہوا ہے۔
چین نے روس سے تیل کی خریداری کے لیے دو تہائی ادائیگی روسی کرنسی روبل میں کرنی شروع کر دی ہے۔روس چین کو ادائیگیاں چینی کرنسی میں کر رہا ہے۔
یہی میکانزم روس اور بھارت کے درمیان موجود ہے لیکن بھارتی بینک پابندیوں کے خوف سے ساری ادائیگیاں روبل میں کر نہیں رہے ،البتہ بھارت نے ڈالر کے بجائے یو ای اے کرنسی میں ادائیگیاں کی ہیں۔ایران پچھلے سال سے روس کے ساتھ تجارت اپنی اور روس کی کرنسی میں کر رہا ہے۔
شنید ہے کہ برازیل ،سعودی عرب اور کئی افریقی ممالک بھی اسی راہ پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اگر سعودی عرب نے ایسا کرنا شروع کر دیا تو ڈالر کی مانگ بالکل بیٹھ جائے گی اور امریکی اثر و رسوخ کونا قابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
برِصغیر پاک و ہند انگریزوں کے قبضے میں جانے سے پہلے بہت دولتمند خطہ تھا شاید اسی لیے اسے سونے کی چڑیا سے تشبیہ دی جاتی تھی۔
انگریزوں نے اسے لوٹ کر کنگال کر دیا لیکن انگریز راج کی وجہ سے جہاں برِصغیر کو بہت معاشی پسماندی میں دھکیلا گیا وہیں اس خطے کے رہنے والوں کو برطانیہ نقل مکانی کی سہولت میسر آ گئی اور ایک بڑی تعداد نے یہاں سے وہاں جا کر مستقل سکونت اختیار کر لی۔
اب ان لوگوں کی اولادیں برطانوی شہریت کی حامل ہیں اور وہاں کی سیاست میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ کے کئی ارکان کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے اور اب ایک بھارت نژاد ہندو رشی سوناک برطانیہ کا وزیرِ اعظم بن گیا ہے۔ پاکستانی نژاد جناب محمد صادق لندن جیسے اہم میٹروپولیٹن شہر کے میئر ہیں۔ جناب صادق نے 2021میں دوسری بار یہ انتخاب جیتا ہے۔ آئر لینڈ کا وزیرِ اعظم بھی ایک بھارتی نژاد ہے۔ پورے یورپ میں ایک حیران کن تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
1985میں پیدا ہونے والے 37سالہ جناب حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کی حکمران جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی کا انتخاب جیت کر پارٹی کے سربراہ مقرر ہو گئے ہیں۔ اس کامیابی سے جناب حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر یعنی وزیرِ اعظم بن گئے ہیں۔
انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ یہ یورپ کی کسی بھی حکومت کے پہلے مسلمان سربراہ ہیں۔ یورپ عیسائیت کا گڑھ ہے۔ دنیا میں عیسائیت نے سب سے پہلے یورپی سرزمین تسخیر تھی۔
یورپین ویلیوز ہی عیسائی ویلیوز بن گئیں۔عیسائی روایات کے حامل معاشرے میں ساؤتھ ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان گھرانے کے ایک فرد کا اسکاٹ لینڈ کا حکمران بن جانا انتہائی انوکھی اور حیران کن تبدیلی ہے۔جس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔
جناب حمزہ یوسف سب سے کم عمر اسکاٹش حکمران بھی ہیں۔حمزہ نے گلاسگو کے ایک پرائیویٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی۔انھوں نے سیاسیات کے مضمون کو ترجیح دی اور تعلیم مکمل کر کے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔وہ2011میں محض 26سال کی عمر میں اسکاٹش پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے اور صحت کے علاوہ ٹرانسپورٹ کے وزیر رہے۔
انھوں نے خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور چیریٹی ورک کرتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی عار نہیں جانا۔اگر پاکستانی نژاد افراد کی بات کی جائے تو ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں اس وقت کم و بیش 15لاکھ پاکستانی آباد ہیں۔
پاکستانیوں نے برطانیہ کی سیاست میں بڑا نام کمایا ہے۔جناب محمد سرور وہ پہلے پاکستانی تھے جو پارلیمنٹ کے ممبر بنے۔جناب ساجد جاوید برطانیہ کے وزیرِ خزانہ رہے۔بیرونس سعیدہ وارثی کنزرویٹو پارتی کی چیئر پرسن رہیں۔
جناب حمزہ یوسف بہت کم مارجن سے انتخاب جیتے ہیں۔انھوں نے 52فی صد ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کی حریف نکولس سرجین کو 48فید ووٹ پڑے۔اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ حکمران جماعت متحد نہیں ہے۔حمزہ کو حکمران جماعت کو متحد کرنا ہو گا تاکہ وہ یکسوئی سے اپنا کام کر سکیں۔
ان کا پہلا چیلنج اپنی وفاداریوں کو شک و شبے سے اوپر اٹھانا ہو گا۔انھوں نے خود بتایا کہ نائن الیون کے بعد کئی بار اسکاٹ لینڈ کے ساتھ ان کی وفاداری پر سوال اٹھائے گئے۔ اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی تڑپ بہت گہری ہے۔
حمزہ نے اپنی ابتدائی تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ برطانیہ سے آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔حمزہ یوسف کی تقریر پر برطانوی وزیرِ اعظم رشی سوناک نے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ آزادی کے لیے ریفرنڈم کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب حمزہ یوسف کے راستے میں کئی پہاڑ کھڑے ہیں ۔حمزہ کو اسکاٹ لینڈ میں آباد پاکستانی کیمونٹی کی پسماندگی دور کرنے کے لیے بھی محنت کرنی ہو گی۔نئے فرسٹ منسٹر کو کریمینل جسٹس سسٹم کے اندر ریفارمز لانا ہوں گی۔حمزہ کی پیشرو فرسٹ منسٹڑ نکولا اور ان کے خاوند دو دہائیوں سے زائد حکمران رہے۔ نکولا نے ایک بیان میں کہا کہ حمزہ یوسف ایک آؤٹ اسٹینڈنگ رہنماء ثابت ہوں گے۔
اسکاٹ لینڈ میں حزبِ مخالف کی جماعت لیبر پارٹی کے سربراہ بھی پاکستانی مسلمان ہیں جو بہت خوش آئند بات ہے۔ بہر حال حمزہ اسکاٹ لینڈ میں لوکل قوم پرست سیاست کا ایک روشن ستارہ ہیں۔اﷲ حمزہ یوسف کو کامیاب کرے۔
ان کی کامیابی سے یورپ میں مسلمانوں کے لیے اچھی مثال قائم ہو گی۔ہم پاکستان میں حمزہ کی کامیابی پر خوش ہیں لیکن اپنے ملک میں کسی غیر مسلمان کو صدر،وزیرِ اعظم یا آرمی چیف نہیں دیکھ سکتے۔
بین الاقوامی میدان میں دوسری اہم ترین پیش رفت کچھ اقوام کا ڈالر میں تجارت سے منہ موڑنا ہے۔ اس معاملے میں چین اور روس پیش پیش ہیں۔ بے پناہ فوجی قوت کے ساتھ ساتھ ڈالر میں تجارت اور خاص کر تیل کی تجارت نے ساری دنیا کو امریکی کرنسی کا دستِ نگر بنایا ہوا ہے۔
چین نے روس سے تیل کی خریداری کے لیے دو تہائی ادائیگی روسی کرنسی روبل میں کرنی شروع کر دی ہے۔روس چین کو ادائیگیاں چینی کرنسی میں کر رہا ہے۔
یہی میکانزم روس اور بھارت کے درمیان موجود ہے لیکن بھارتی بینک پابندیوں کے خوف سے ساری ادائیگیاں روبل میں کر نہیں رہے ،البتہ بھارت نے ڈالر کے بجائے یو ای اے کرنسی میں ادائیگیاں کی ہیں۔ایران پچھلے سال سے روس کے ساتھ تجارت اپنی اور روس کی کرنسی میں کر رہا ہے۔
شنید ہے کہ برازیل ،سعودی عرب اور کئی افریقی ممالک بھی اسی راہ پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اگر سعودی عرب نے ایسا کرنا شروع کر دیا تو ڈالر کی مانگ بالکل بیٹھ جائے گی اور امریکی اثر و رسوخ کونا قابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔