رمضان الکریم کی عظمت و برکات

ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس کی بخشش نہ ہو

فوٹو : فائل

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا، مفہوم: ''جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کردیا جاتا ہے۔'' (بخاری)

رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرمؐ کی اس حدیث مبارک سے لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جو شخص بہ حالتِ ایمان اور ثواب کی نیّت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔'' (بخاری)

رمضان المبارک کی ہر ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کرسکتے۔ قیامِ رمضان کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے رمضان میں بہ حالتِ ایمان ثواب کی نیّت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے گئے۔''

قران میں ارشاد باری کا مفہوم ہے: '' ماہِ رمضان ہے جس میں قرآن مجید بھیجا گیا، جس کا وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لیے (ذریعہ) ہدایت ہے اور واضح الدلالت ہے، من جملہ ان کتب کے جو (ذریعہ) ہدایت (بھی) ہیں اور (حق و باطل میں) فیصلہ کرنے والی (بھی) ہیں۔ سو جو شخص اس ماہ میں موجود ہو اس کو ضرور اس (ماہ) میں روزہ رکھنا چاہیے، اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب) ہے۔

اﷲ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ (اَحکام میں) آسانی کرنا منظور ہے اور تمہارے ساتھ (اَحکام و قوانین مقرّر کرنے میں) دشواری منظور نہیں، اور تاکہ تم لوگ (ایام ادا یا قضا کی) شمار کی تکمیل کرلیا کرو (کہ ثواب میں کمی نہ رہے) لہٰذا تم لوگ اﷲ تعالیٰ کی بزرگی (و ثنائ) بیان کیا کرو اس پر کہ تم کو (ایک ایسا) طریقہ بتلادیا (جس سے تم برکات و ثمراتِ رمضان سے محروم نہ رہو گے) اور (عذر سے خاص رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت اس لیے دے دی) تاکہ تم لوگ (اس نعمتِ آسانی پر اﷲ کا) شکر ادا کیا کرو۔''

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب رمضان داخل ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے: جنت کے دروازے۔ اور ایک اور روایت میں ہے: رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں) اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین پابندِ سلاسل کردیے جاتے ہیں۔'' (بخاری و مسلم)


ایک روایت میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: '' تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے، اﷲ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض کیا ہے، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور سرکش شیطان قید کردیے جاتے ہیں، اس میں اﷲ کی (جانب سے) ایک ایسی رات (رکھی گئی) ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو شخص اس کی خیر سے محروم رہا، وہ محروم ہی رہا۔'' (احمد، نسائی، مشکوٰۃ)

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن قید کردیے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، پس اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا، اور جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پس اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا، اور ایک منادی کرنے والا (فرشتہ) اعلان کرتا ہے: اے خیر کے تلاش کرنے والے! آگے آ، اور اے شر کے تلاش کرنے والے! رُک جا۔ اور اﷲ کی طرف سے بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کردیا جاتا ہے، اور یہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔'' (احمد، ترمذی)

ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''رمضان کی خاطر جنّت کو آراستہ کیا جاتا ہے، سال کے سرے سے اگلے سال تک، پس جب رمضان کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے (جو) جنّت کے پتوں سے (نکل کر) جنّت کی حوروں پر (سے گزرتی ہے) تو وہ کہتی ہیں: اے ہمارے رَبّ! اپنے بندوں میں سے ہمارے ایسے شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہم سے ان کی آنکھیں۔'' ( البیہقی) حضرت انسؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے خود سنا ہے کہ رمضان آچکا ہے۔

اس میں جنّت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین کو طوق پہنا دیے جاتے ہیں، ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس کی بخشش نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' جس نے ایمان کے جذبے سے اور طلبِ ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے گزشتہ گناہوں کی بخشش ہوگئی۔'' (بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: (نیک) عمل جو آدمی کرتا ہے تو (اس کے لیے عام قانون یہ ہے کہ ) نیکی دس سے لے کر سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: مگر روزہ اس (قانون) سے مستثنیٰ ہے (کہ اس کا ثواب ان اندازوں سے عطا نہیں کیا جاتا) کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا (بے حد و حساب) بدلہ دوں گا، (اور روزے کے میرے لیے ہونے کا سبب یہ ہے کہ) وہ اپنی خواہش اور کھانے (پینے) کو محض میری (رضا) کی خاطر چھوڑتا ہے۔

روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں، ایک فرحت اِفطار کے وقت ہوتی ہے، اور دوسری فرحت اپنے رَبّ سے ملاقات کے وقت ہوگی۔ اور روزہ دار کے منہ کی بُو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے زیادہ خوش بُودار ہے۔ (بخاری و مسلم)

اﷲ تعالیٰ ہمیں اس مہینے کی قدر کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
Load Next Story