افغانستان میں شکستِ فاش انکشافات سے بھرپورامریکی رپورٹ منظرعام پرآگئی
20 کھرب ڈالر پھونکنے اور 3 لاکھ افغان فوجیوں کی ٹریننگ کے باوجود طالبان نے بآسانی ٹیک اوور کرلیا، رپورٹ
افغانستان میں دہائیوں کی جنگ کے بعد عجلت میں امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کے ہاتھوں شکست فاش سے متعلق وائٹ ہاؤس کی رپورٹ میں جوبائیڈن اور ٹرمپ انتظامیہ نے اس ہزیمت کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرادیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وائٹ ہاؤس کی رپورٹ میں افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر افغانستان میں مزید وقت لیا جاتا یا فنڈز میں اضافہ کیا جاتا یا امریکا میں سیاسی و حکومتی حالات تبدیل ہو بھی جاتے تب بھی انخلا کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔
امریکی کانگریس کو بھیجے گئے رپورٹ کے خلاصے میں انخلا کا ذمہ دار ٹرمپ کی پالیسیوں کو قرار دیتے ہوئے اصرار کیا گیا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے جو جو کچھ ممکن تھا وہ کیا لیکن وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے پابند تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انخلا کی تاریخ دیدی لیکن امریکی فوج کی واپسی کا کسی بھی سطح پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ عجلت میں اور انتہائی بے ہنگم فوجی انخلا کی صورت میں نکلا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان جنگ میں 20 کھرب ڈالر پھونکنے اور افغان فوج کے 3 لاکھ فوجیوں کی بھرپور ٹریننگ کے باوجود طالبان نے بآسانی اور تیز رفتاری سے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرلیا۔
رپورٹ میں کہا گہا کہ بغیر مزاحمت کے طالبان کی حکومت بن جانے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو نہیں روکا جا سکتا تھا یا پھر مستقل طور پر اور مزید بڑے پیمانے پر امریکی فوج کی موجودگی میں توسیع کی جاتی۔
رپورٹ میں طالبان کے ٹیک اوور کے دوران افغان فوج کی عدم مزاحمت سے متعلق کہا گیا کہ کیس خفیہ ایجنسی نے افغان فوج کی اس حد تک ناکامی کی پیشن گوئی نہیں کی تھی۔
دوسری جانب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کی ذمہ داری جوبائیڈن انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان متعدد ملاقاتوں اور مذاکرات کے بعد 28 فروری 2020 کو تاریخی امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت غیرملکی افواج کو انخلا کا محفوظ راستہ دیا جائے گا اور طالبان افغان سرزمین کو کسی دوسرے کی سلامتی کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں طالبان نے افغانستان میں اگست 2021 میں اقتدار سنبھال لیا اور تمام غیر ملکی فوجی افغانستان سے واپس چلی گئیں تاہم اب تک کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وائٹ ہاؤس کی رپورٹ میں افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر افغانستان میں مزید وقت لیا جاتا یا فنڈز میں اضافہ کیا جاتا یا امریکا میں سیاسی و حکومتی حالات تبدیل ہو بھی جاتے تب بھی انخلا کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔
امریکی کانگریس کو بھیجے گئے رپورٹ کے خلاصے میں انخلا کا ذمہ دار ٹرمپ کی پالیسیوں کو قرار دیتے ہوئے اصرار کیا گیا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے جو جو کچھ ممکن تھا وہ کیا لیکن وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے پابند تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انخلا کی تاریخ دیدی لیکن امریکی فوج کی واپسی کا کسی بھی سطح پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ عجلت میں اور انتہائی بے ہنگم فوجی انخلا کی صورت میں نکلا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان جنگ میں 20 کھرب ڈالر پھونکنے اور افغان فوج کے 3 لاکھ فوجیوں کی بھرپور ٹریننگ کے باوجود طالبان نے بآسانی اور تیز رفتاری سے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرلیا۔
رپورٹ میں کہا گہا کہ بغیر مزاحمت کے طالبان کی حکومت بن جانے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو نہیں روکا جا سکتا تھا یا پھر مستقل طور پر اور مزید بڑے پیمانے پر امریکی فوج کی موجودگی میں توسیع کی جاتی۔
رپورٹ میں طالبان کے ٹیک اوور کے دوران افغان فوج کی عدم مزاحمت سے متعلق کہا گیا کہ کیس خفیہ ایجنسی نے افغان فوج کی اس حد تک ناکامی کی پیشن گوئی نہیں کی تھی۔
دوسری جانب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کی ذمہ داری جوبائیڈن انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان متعدد ملاقاتوں اور مذاکرات کے بعد 28 فروری 2020 کو تاریخی امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت غیرملکی افواج کو انخلا کا محفوظ راستہ دیا جائے گا اور طالبان افغان سرزمین کو کسی دوسرے کی سلامتی کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں طالبان نے افغانستان میں اگست 2021 میں اقتدار سنبھال لیا اور تمام غیر ملکی فوجی افغانستان سے واپس چلی گئیں تاہم اب تک کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا کیا ہے۔