تحفظ قبرستان بل لایا جائے
گذشتہ دنوں جب بھکر میں مردہ خور بھائیوں کی خبرسامنے آئی تو لوگوں کے رونگٹھے پھر سے کھڑے ہوگئے.
اس وقت ملک میں تحفظ پاکستان بل کا بہت چرچا ہے، حکومت والے اس کے گن گارہے ہیں اور اپوزیشن کو شدید اعتراض ہے، اب تحفظ پاکستان بل ہے کیا اس کی تفصیل میں نہ تو ہم جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی موقع ہے، حکومت ایک بل یا ایک دستاویز کے ذریعے پورے ملک کو تحفظ دینا چاہتی ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ نہ صرف اس ملک کو بلکہ اس میں موجود ہر چیز کو تحفظ کی اشد ضرورت ہے، یہاں پر کسی بھی انسان کی عزت ،جان اور مال محفوظ نہیں اور ان کی حفاظت کے لئے جوقوانین موجود ہیں ان پر کہاں تک عملدرآمد ہورہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہی ہے۔ انسان کی جان کی تو یہاں پہلے بھی کوئی قیمت نہ تھی مگر اب تو یہ نوبت آگئی ہے کہ وطن عزیز کے مردے بھی محفوظ نہیں رہے۔
یہ بات شاعری کی حد تک رہتی تو ٹھیک تھی مگر کسے معلوم تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب لوگوں کو قبروں میں بھی چین نصیب نہیں ہوگا۔ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ اس جہان فانی میں اگر عبرت حاصل کرنی ہے تو پھر قبرستان کا رخ کرو کہ کیسے کیسے لوگ منوں مٹی تلے دبے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی برعکس ہے ۔ یہاں قبرستان برائی کے اڈے بنتے جارہے ہیں ۔ اور عام انسان اتنا وحشی ہوگیا ہے کہ وہ قبروں میں ابدی نیند سوئے ہوئوں کو بھی بخشنے کو تیار نہیں۔
گذشتہ دنوں جب بھکر میں مردہ خور بھائیوں کی خبرسامنے آئی تو لوگوں کے رونگٹھے پھر سے کھڑے ہوگئے، یہاں میں پھر سے اس لیے کہہ رہاں ہو کہ پہلے بھی یہ دونوں بھائی مردہ خوری کے جرم میں گرفتار ہوچکے تھے۔ لیکن بعد ازاں ضمانت پر انہیں رہائی مل گئی اور انہوں نے پھر سے اپنا گھناؤنا کھیل شروع کردیا۔ کہتے ہیں کہ 'چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی'، اسی طرح ان مردہ خور بھائیوں کو بھی ایسی لت لگی ہوئی تھی جوکہ جیل میں جاکر بھی نہیں چھوٹی اور باہر آتے ہی انہوں نے ایک بار پھر پھاوڑا اٹھایا اور ایک تازہ قبر کو کھود ڈالا۔ گھر سے بدبو اٹھنے پر محلے والوں نے پولیس کو اطلاع دی اور اتفاقا پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دونوں بھائیوں کو گرفتار کرلیا۔ پکڑے جانے والے مردہ خور نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ جیل سے چھوٹنے کے بعد بھی دو مرد اور ایک بچی کی نعش کو نوچ چکے ہیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان دونوں بھائیوں نے مردے کا گوشت کھا کر کوئی بڑا جرم نہیں کیا؟ کیونکہ تعزیرات پاکستان میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے جوکہ مردے کھانے والوں پر لاگو ہوتا ہو، قانون دانوں کو اب کیا معلوم تھا کہ اس ملک میں گدھ کی خصلت رکھنے والے انسان بھی موجود ہیں جو مردوں تک کو نہیں بخشتے۔ بھکر کے رہائشی ان دونوں بھائیوں کو 2011 میں قانون نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑدیا گیا تھا اور اس بار بھی ان کے خلاف نقص امن، دہشتگردی، لوگوں کو خوفزدہ کرنا اور اسی طرح کی تعزیرات لگائی گئی ہیںجن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اچھا وکیل ایک ہی پیشی پر ان کو ضمانت پر رہا کروا سکتا ہے کیونکہ قانون صرف اندھا ہی نہیں بلکہ لکیر کا فقیر بھی ہوتا ہے۔
پہلے قصے کہانیوں میں سنا کرتے تھے کہ کچھ ایسے بھی بدقماش ہوتے تھے جوکہ قبریں کھود کر مردوں کے کفن چوری کیا کرتے تھے، اب یہ تو خدا جانتا ہے کہ اس میں کچھ حقیقت بھی ہے یا لوگوں نے ایسے ہی 'کفن چور' کی اصطلاح اختیار کررکھی ہے مگر ہم اب اپنی گناہ گار آنکھوں سے ایسی ایسی چیزیں دیکھ رہے ہیں جن پر شائد پچھلے زمانوں میں زمین پھٹ جایا کرتی ہوگی یا پھر آسمان ٹوٹ پڑتا ہوگا مگر اب تو عام لوگوں کے لئے ایسے واقعات ایک خبر سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتے ۔ میڈیا میں کچھ روز ایسی خبروں کا چرچا رہتا اور پھر یہ چند دنوں بعد یہ وقت کی دھول میں دب جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل کراچی میںبھی ایک ایسے درندہ صفت انسان کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا جوکہ قبروں میں سے خواتین کو نکال کر ان کی بے حرمتی کیا کرتا تھااور وہ پکڑا گیا، اب یہ معلوم نہیں کہ اس کو کتنی سزا ہوئی اور آیا اب بھی وہ قید میں ہے یا پھر چھوٹ چکا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مردہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے حوالے بھی کوئی قانون موجود ہی نہ ہو۔
اسی طرح گذشتہ دنوں ایک نجی چینل کی جانب سے کیے جانے والے اسٹنگ آپریشن میں یہ شرمناک انکشاف بھی ہوا کہ عام لوگوں کی قبریں تو پہلے ہی محفوظ نہیں تھی اب تو بابائے قوم قائداعظم کی آخری آرام گاہ کو بھی لوگوں نے اپنی ہوس کی آگ بجھانے کا ٹھکانہ بنالیا اور چند روپوں کی خاطر حقیقی قبر کا دروازہ کھول دیا جاتا ۔
یہ تو وہ چند چیزیں ہیں جوکہ چند لوگوں کی کاوشوں کی وجہ سے منظر عام پر آگئیں ، انہیں دیکھنے اور سننے کے بعد ہم خود سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا واقعی ہم نے لاکھوں قربانیوں کے بعد پاکستان ان تمام غیر اخلاقی افعال کی تکمیل کے لئے حاصل کیا تھا؟۔ اب یہ تو خدا ہی بہتر جانتا
ہے کہ قبرستانوں میں جانوروں کے علاوہ انسانی درندے بھی کیسی کیسی شرمناک حرکتوں میں مصروف ہیں، حکومت کو اس مسئلہ کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے، اور اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے پہلی فرصت میں 'تحفظ قبرستان بل' لایا جانا چاہئے تاکہ انسانوں کے درمیان بسنے والے ان درندوں کو قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے کی کوئی راہ میسر نہ آسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بقول شاعر
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی اگر چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
یہ بات شاعری کی حد تک رہتی تو ٹھیک تھی مگر کسے معلوم تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب لوگوں کو قبروں میں بھی چین نصیب نہیں ہوگا۔ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ اس جہان فانی میں اگر عبرت حاصل کرنی ہے تو پھر قبرستان کا رخ کرو کہ کیسے کیسے لوگ منوں مٹی تلے دبے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی برعکس ہے ۔ یہاں قبرستان برائی کے اڈے بنتے جارہے ہیں ۔ اور عام انسان اتنا وحشی ہوگیا ہے کہ وہ قبروں میں ابدی نیند سوئے ہوئوں کو بھی بخشنے کو تیار نہیں۔
گذشتہ دنوں جب بھکر میں مردہ خور بھائیوں کی خبرسامنے آئی تو لوگوں کے رونگٹھے پھر سے کھڑے ہوگئے، یہاں میں پھر سے اس لیے کہہ رہاں ہو کہ پہلے بھی یہ دونوں بھائی مردہ خوری کے جرم میں گرفتار ہوچکے تھے۔ لیکن بعد ازاں ضمانت پر انہیں رہائی مل گئی اور انہوں نے پھر سے اپنا گھناؤنا کھیل شروع کردیا۔ کہتے ہیں کہ 'چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی'، اسی طرح ان مردہ خور بھائیوں کو بھی ایسی لت لگی ہوئی تھی جوکہ جیل میں جاکر بھی نہیں چھوٹی اور باہر آتے ہی انہوں نے ایک بار پھر پھاوڑا اٹھایا اور ایک تازہ قبر کو کھود ڈالا۔ گھر سے بدبو اٹھنے پر محلے والوں نے پولیس کو اطلاع دی اور اتفاقا پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دونوں بھائیوں کو گرفتار کرلیا۔ پکڑے جانے والے مردہ خور نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ جیل سے چھوٹنے کے بعد بھی دو مرد اور ایک بچی کی نعش کو نوچ چکے ہیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان دونوں بھائیوں نے مردے کا گوشت کھا کر کوئی بڑا جرم نہیں کیا؟ کیونکہ تعزیرات پاکستان میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے جوکہ مردے کھانے والوں پر لاگو ہوتا ہو، قانون دانوں کو اب کیا معلوم تھا کہ اس ملک میں گدھ کی خصلت رکھنے والے انسان بھی موجود ہیں جو مردوں تک کو نہیں بخشتے۔ بھکر کے رہائشی ان دونوں بھائیوں کو 2011 میں قانون نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑدیا گیا تھا اور اس بار بھی ان کے خلاف نقص امن، دہشتگردی، لوگوں کو خوفزدہ کرنا اور اسی طرح کی تعزیرات لگائی گئی ہیںجن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اچھا وکیل ایک ہی پیشی پر ان کو ضمانت پر رہا کروا سکتا ہے کیونکہ قانون صرف اندھا ہی نہیں بلکہ لکیر کا فقیر بھی ہوتا ہے۔
پہلے قصے کہانیوں میں سنا کرتے تھے کہ کچھ ایسے بھی بدقماش ہوتے تھے جوکہ قبریں کھود کر مردوں کے کفن چوری کیا کرتے تھے، اب یہ تو خدا جانتا ہے کہ اس میں کچھ حقیقت بھی ہے یا لوگوں نے ایسے ہی 'کفن چور' کی اصطلاح اختیار کررکھی ہے مگر ہم اب اپنی گناہ گار آنکھوں سے ایسی ایسی چیزیں دیکھ رہے ہیں جن پر شائد پچھلے زمانوں میں زمین پھٹ جایا کرتی ہوگی یا پھر آسمان ٹوٹ پڑتا ہوگا مگر اب تو عام لوگوں کے لئے ایسے واقعات ایک خبر سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتے ۔ میڈیا میں کچھ روز ایسی خبروں کا چرچا رہتا اور پھر یہ چند دنوں بعد یہ وقت کی دھول میں دب جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل کراچی میںبھی ایک ایسے درندہ صفت انسان کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا جوکہ قبروں میں سے خواتین کو نکال کر ان کی بے حرمتی کیا کرتا تھااور وہ پکڑا گیا، اب یہ معلوم نہیں کہ اس کو کتنی سزا ہوئی اور آیا اب بھی وہ قید میں ہے یا پھر چھوٹ چکا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مردہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے حوالے بھی کوئی قانون موجود ہی نہ ہو۔
اسی طرح گذشتہ دنوں ایک نجی چینل کی جانب سے کیے جانے والے اسٹنگ آپریشن میں یہ شرمناک انکشاف بھی ہوا کہ عام لوگوں کی قبریں تو پہلے ہی محفوظ نہیں تھی اب تو بابائے قوم قائداعظم کی آخری آرام گاہ کو بھی لوگوں نے اپنی ہوس کی آگ بجھانے کا ٹھکانہ بنالیا اور چند روپوں کی خاطر حقیقی قبر کا دروازہ کھول دیا جاتا ۔
یہ تو وہ چند چیزیں ہیں جوکہ چند لوگوں کی کاوشوں کی وجہ سے منظر عام پر آگئیں ، انہیں دیکھنے اور سننے کے بعد ہم خود سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا واقعی ہم نے لاکھوں قربانیوں کے بعد پاکستان ان تمام غیر اخلاقی افعال کی تکمیل کے لئے حاصل کیا تھا؟۔ اب یہ تو خدا ہی بہتر جانتا
ہے کہ قبرستانوں میں جانوروں کے علاوہ انسانی درندے بھی کیسی کیسی شرمناک حرکتوں میں مصروف ہیں، حکومت کو اس مسئلہ کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے، اور اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے پہلی فرصت میں 'تحفظ قبرستان بل' لایا جانا چاہئے تاکہ انسانوں کے درمیان بسنے والے ان درندوں کو قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے کی کوئی راہ میسر نہ آسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔