روس یوکرین جنگ کے خاتمے میں چین کا کردار

اگر تنازعے نے مزید طول کھینچا تو کہیں عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم ایک نئی عالمی جنگ کا روپ اختیار نہ کرلے

اگر تنازعے نے مزید طول کھینچا تو کہیں عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم ایک نئی عالمی جنگ کا روپ اختیار نہ کرلے۔ فوٹو: اڈوب

فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے چین سے مدد مانگ لی۔

چین کے تین روزہ دورہ کے موقعے پر چینی صدر شی جی پنگ سے بیجنگ میں ہونے والی ملاقات کے دوران صدر میکرون نے کہا کہ وہ اپنے قریبی اتحادی روسی صدر پوتن کو یوکرین جنگ کے خاتمے اور قیام امن کے لیے راضی کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں،انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جن سے روس، یوکرین تنازعے میں تیزی آئے اور معاملے کا حل ہاتھوں سے نکل جائے ۔

بلاشبہ اس وقت روس اوریوکرین کے درمیان جاری تنازعہ عالمی امن کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے،اور اس کے اثرات تقریباً پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں ،بالخصوص عالمی سطح پر خوراک کی قلت اور قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ، جس سے عالمی معیشت کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں ۔

روس، یوکرین جنگ انتہائی تباہ کن ہے۔ یہاں صرف دو فریق جنگ نہیں کر رہے بلکہ اس میں بہت سی عالمی طاقتیں روس یا یوکرین کو فوجی، دفاعی اور معاشی مدد فراہم کر رہی ہیں۔اس وقت یورپ، برطانیہ، امریکا سمیت سعودی عرب بھی یوکرین کو فوجی، دفاعی اور معاشی امداد دے چکے ہیں۔ یوکرینی محاذ پر مغرب اور امریکا کی جانب سے دی گئی توپیں، بندوقیں، ہیلی کاپٹر اور میزائل سسٹم جنگ میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔

اس کے علاوہ برطانیہ یوکرینی فوجیوں کو فوجی تربیت بھی دے رہا ہے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ یوکرین کے ساتھ جنگ کے بعد سے روس کو عالمی پابندیوں کا سامنا ہے۔ روسی برآمدات اب بہت کم ہو گئی ہیں۔ ایسے میں اب چین روسی مصنوعات کو خرید رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق چین اب روس سے 100 فیصد سے بھی زیادہ گیس خرید رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہی عالمی طاقتیں شام، عراق اور افغانستان جیسے مسلم ممالک کی سرزمین پر پروکسی جنگیں لڑ رہی تھیں اور اب پروکسی جنگ انھی کی سرزمین کو کھنڈرات میں بدل رہی ہے۔


روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے کی بات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ گزشتہ کچھ عرصے میں امریکا اور چین کے تعلقات بہت خراب ہو چکے تھے اور امریکا کی فضاؤں میں جاسوس غباروں کی کہانی نے معاملات کو مزید خراب کر دیا تھا ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکا اکلوتے اپنے سپر پاور ہونے کے زعم میں مبتلا رہے گا یا پھر نئے بدلتے عالمی حالات اور عالمی منظر نامے کے تناظر میں اپنی پالیسیوں اور سوچ میں تبدیلی لائے گا ، تب ہی یہ بات ممکن ہے کہ دنیا میں امن قائم ہوسکے ۔

جنگ صرف تباہی وبربادی کا نام ہے ، دنیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ طاقت کی جنگ میں اخلاقیات نہیں دیکھی جا سکتیں۔ جنگ چاہے طاقت کی ہو، مظلوم اور ظالم کی ہو، سامراجی ہو یا پراکسی،جنگ میں رحم کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جنگ بے رحم ہوتی ہے۔

چاہے اس کی مثال امریکا اور سوویت یونین کی لی جائے، 1970 کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں پاکستان اور انڈیا کی، ویت نام اور امریکا کی، الجیریا اور فرانس کی یا پھر پہلی عالمی جنگ کی یا دوسری عالمی جنگ میں امریکا کی جس نے جاپان کی سرزمین کو ایٹم زدہ بنایا تھا اور جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

اسی طرح اب یہی تجربے روس اور یوکرین کی جنگ میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ دنیا کی عالمی طاقتوں میں شمار روس گزشتہ سال سے یوکرین کے ساتھ شدید جنگ لڑ رہا ہے جو اب تک جاری ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ سے اس بات کے خدشات بھی ابھرنے لگے تھے اگر تنازعے نے مزید طول کھینچا تو کہیں عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم ایک نئی عالمی جنگ کا روپ اختیار نہ کرلے ، ایسے میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے امن کے لیے کوششوں میں پہل کی ہے لہٰذاایک بات تو بڑی واضح ہے کہ عالمی منظرنامے میں چین خود کو عالمی امن کا علمبردار بنا کر پیش کر نے میں کامیاب نظر آرہا ہے۔

حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین صلح کروانے اور سفارتی تعلقات بحال کروانے میں کامیاب ہوا ہے۔حرف آخر اب یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ چین کے عالمی سیاست اور طاقت کو نئی شکل دینے کے اہداف کے پس منظر میں جو اس کی سپر پاور کی حیثیت کو تقویت بخشیں گے،اس کا براہ راست فائدہ پاکستان کو بھی پہنچے گا ۔
Load Next Story