تجارتی خسارہ اور مہنگائی
بینک کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال مہنگائی کی اوسط شرح27.5 فیصد ہے
گزشتہ 9 ماہ کے دوران ماہ مارچ ایسا مہینہ تھا جس میں ملکی برآمدات میں فروری کی نسبت آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے، اگر نو ماہ کی مجموعی برآمدات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں تو ادارہ شماریات کے مطابق 9 ماہ میں مجموعی طور پر 9.87 فیصد کمی کے ساتھ 21 ارب 4کروڑ60 لاکھ ڈالر کی برآمدات رہیں۔
جب کہ اسی مدت کے دوران درآمدات کا حجم 43 ارب 94 کروڑ60 لاکھ ڈالرز رہا اور یوں تجارتی خسارے میں 35.51 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور تجارتی خسارہ 22 ارب 90کروڑ ڈالرز کا رہا، لگے ہاتھوں کل برآمدات اور تجارتی خسارے کے اعداد و شمار کو ملاحظہ فرمائیں تو تجارتی خسارے کی مالیت کل برآمدات سے بڑھی ہوئی نظر آرہی ہے اور یہ بھی اس لیے کہ درآمدات میں کمی لا کر کئی صنعتوں کو نقصان پہنچا۔ ان میں سب سے زیادہ ٹیکسٹائل سیکٹر متاثر ہوا ہے، پاکستان کا یہ شعبہ کئی عشروں سے گوناگوں مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔
ان کے نمایندوں کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں ایل سی کھولنے کے مسائل کی وجہ سے بیرون ملک سے درآمد شدہ خام مال اور برآمدات کے لیے استعمال ہونے والی میٹریلز اور دیگر کئی باتوں نے اس شعبے کو شدید متاثر کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافے نے پاکستانی برآمدات کو بیرون ممالک مہنگے ہونے کے باعث سخت ترین مقابلے سے دوچار کر دیا ہے، حالانکہ معیشت کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر میں کمی کا مثبت اثر اس ملک کی برآمدات پر پڑتا ہے اور متعلقہ ملک کی مصنوعات کے سستے ہونے کے باعث عالمی منڈی میں اس کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن پاکستانی برآمدات ان فوائد سے اس لیے محروم ہیں کہ اس وقت عالمی منڈی کے حالات کساد بازاری کا شکار ہو چکے ہیں۔
یورپ سے پاکستان کو ملنے والی تجارتی مراعات سے وہ فوائد سمیٹے نہیں جاسکے جس کی توقعات تھیں کیونکہ پورا یورپ مختلف مسائل کی بنا پر کساد بازاری کی لپیٹ میں ہے۔
اس کے علاوہ سب سے بڑا عنصر کسی بھی مصنوعات کی تیاری میں بجلی اور گیس کا اور پٹرول کی ضرورت اور لیبر کو ملک میں رائج تنخواہ یا مزدوری کی ادائیگی اور دیگر کئی مالی مسائل کو حل کرنے، جن میں خاص طور پر آج کل ٹیکسٹائل شعبے کو ریفنڈ جیسا مسئلہ درپیش ہے۔
جس کے سبب ان کے پاس کیش کی زبردست کمی بھی ہے اور اب آئی ایم ایف کے مطالبے پر شرح سود کو 21 فیصد تک لے جایا گیا ہے۔
اب ان باتوں سے پاکستان کے برآمدی شعبے سے وابستہ افراد کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے جس کا منفی اثر معیشت پر مرتب ہوگا لہٰذا اس طرح کے کئی مسائل کے حل کے لیے اپٹما کے وفد نے گزشتہ دنوں وزیر خزانہ سے ملاقات کرکے گیس اور بجلی کی فراہمی ان کی قیمتوں، سیلز ٹیکس ریفنڈ کے مسائل اور ایل سی کے نہ کھلنے کے مسائل و دیگر سے آگاہ کیا اور ان کے فوری حل کی طرف توجہ دلائی تاکہ ٹیکسٹائل کا شعبہ مکمل طور پر بحال ہو سکے ، کیونکہ یہ شعبہ ابھی بھی ملک کو روزگار میسر کرنے والا اہم ترین شعبہ ہے۔
گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران شرح سود میں بار بار اضافے سے اب اسے 21 فیصد تک پہنچا دیا گیا ہے۔ بینک کی رپورٹ کے مطابق قریبی مدت میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔
اس وقت مارچ 2023 میں مہنگائی مزید بڑھ کر 35.4 فیصد تک جا پہنچی ہے، قریبی مدت میں مزید اضافے کے خدشات نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ پاکستان کا شمار اب دنیا کے مہنگے ترین ملکوں میں ہونے لگا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں غلے کی ارزانی، اشیائے خوراک کی بہتات اور بجلی گیس کے نرخ انتہائی کم ترین ہونے کے باعث بہت سے ملکوں کی نسبت پاکستان ایک سستا ترین ملک تھا۔
جب انگریزوں نے برصغیر میں قدم جمانے شروع کیے تو یہاں سبزی پھلوں دالوں چاولوں آٹے، کپڑے، ڈھاکا کی ململ، یہاں کے ہاتھوں سے بنے ہوئے جوتے اور دیگر بہت سی مصنوعات کی قیمتیں سن کر حیران رہ جاتے تھے کیونکہ ان کا ملک ان سب باتوں میں اول خود کفیل بھی نہیں تھا بلکہ مہنگا بھی تھا۔ یہاں ہر طرح کی فراوانی غلے کی ارزانی، زرخیز زمینیں، پھلوں سے لدے باغات دیکھ کر عش عش کر اٹھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سونے کی چڑیا ہے۔
اب اسٹیٹ نے آگاہ کردیا ہے کہ قریبی مدت میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اب یہاں تک نوبت آگئی ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی پی) نے کہا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے مہنگا ملک ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سری لنکا 24.4 فیصد کے ساتھ دوسرا مہنگا ملک ہے اور افغانستان 13.8 فیصد کے ساتھ تیسرا ملک ہے۔
بینک کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال مہنگائی کی اوسط شرح27.5 فیصد ہے۔ اگرچہ یہاں پر اسٹیٹ بینک اور ایشیائی بینک کے اعداد و شمار میں تضاد پایا جاتا ہے ، لیکن یہ بات طے ہے کہ مہنگائی اس سے کہیں زیادہ ہے اور اب اس میں مزید اضافے کے لیے تمام باتیں آہستہ آہستہ پوری کی جا رہی ہیں جیسے اب ایک ڈالر 290 روپے سے بھی زائد کا ہو چکا ہے۔
ڈالر ریٹ نے مہنگائی کو بام عروج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ببانگ دہل ایسا ہی کر رہا ہے اور آیندہ بھی اسی طرح کی توقعات ہیں۔
جب کہ اسی مدت کے دوران درآمدات کا حجم 43 ارب 94 کروڑ60 لاکھ ڈالرز رہا اور یوں تجارتی خسارے میں 35.51 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور تجارتی خسارہ 22 ارب 90کروڑ ڈالرز کا رہا، لگے ہاتھوں کل برآمدات اور تجارتی خسارے کے اعداد و شمار کو ملاحظہ فرمائیں تو تجارتی خسارے کی مالیت کل برآمدات سے بڑھی ہوئی نظر آرہی ہے اور یہ بھی اس لیے کہ درآمدات میں کمی لا کر کئی صنعتوں کو نقصان پہنچا۔ ان میں سب سے زیادہ ٹیکسٹائل سیکٹر متاثر ہوا ہے، پاکستان کا یہ شعبہ کئی عشروں سے گوناگوں مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔
ان کے نمایندوں کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں ایل سی کھولنے کے مسائل کی وجہ سے بیرون ملک سے درآمد شدہ خام مال اور برآمدات کے لیے استعمال ہونے والی میٹریلز اور دیگر کئی باتوں نے اس شعبے کو شدید متاثر کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافے نے پاکستانی برآمدات کو بیرون ممالک مہنگے ہونے کے باعث سخت ترین مقابلے سے دوچار کر دیا ہے، حالانکہ معیشت کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر میں کمی کا مثبت اثر اس ملک کی برآمدات پر پڑتا ہے اور متعلقہ ملک کی مصنوعات کے سستے ہونے کے باعث عالمی منڈی میں اس کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن پاکستانی برآمدات ان فوائد سے اس لیے محروم ہیں کہ اس وقت عالمی منڈی کے حالات کساد بازاری کا شکار ہو چکے ہیں۔
یورپ سے پاکستان کو ملنے والی تجارتی مراعات سے وہ فوائد سمیٹے نہیں جاسکے جس کی توقعات تھیں کیونکہ پورا یورپ مختلف مسائل کی بنا پر کساد بازاری کی لپیٹ میں ہے۔
اس کے علاوہ سب سے بڑا عنصر کسی بھی مصنوعات کی تیاری میں بجلی اور گیس کا اور پٹرول کی ضرورت اور لیبر کو ملک میں رائج تنخواہ یا مزدوری کی ادائیگی اور دیگر کئی مالی مسائل کو حل کرنے، جن میں خاص طور پر آج کل ٹیکسٹائل شعبے کو ریفنڈ جیسا مسئلہ درپیش ہے۔
جس کے سبب ان کے پاس کیش کی زبردست کمی بھی ہے اور اب آئی ایم ایف کے مطالبے پر شرح سود کو 21 فیصد تک لے جایا گیا ہے۔
اب ان باتوں سے پاکستان کے برآمدی شعبے سے وابستہ افراد کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے جس کا منفی اثر معیشت پر مرتب ہوگا لہٰذا اس طرح کے کئی مسائل کے حل کے لیے اپٹما کے وفد نے گزشتہ دنوں وزیر خزانہ سے ملاقات کرکے گیس اور بجلی کی فراہمی ان کی قیمتوں، سیلز ٹیکس ریفنڈ کے مسائل اور ایل سی کے نہ کھلنے کے مسائل و دیگر سے آگاہ کیا اور ان کے فوری حل کی طرف توجہ دلائی تاکہ ٹیکسٹائل کا شعبہ مکمل طور پر بحال ہو سکے ، کیونکہ یہ شعبہ ابھی بھی ملک کو روزگار میسر کرنے والا اہم ترین شعبہ ہے۔
گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران شرح سود میں بار بار اضافے سے اب اسے 21 فیصد تک پہنچا دیا گیا ہے۔ بینک کی رپورٹ کے مطابق قریبی مدت میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔
اس وقت مارچ 2023 میں مہنگائی مزید بڑھ کر 35.4 فیصد تک جا پہنچی ہے، قریبی مدت میں مزید اضافے کے خدشات نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ پاکستان کا شمار اب دنیا کے مہنگے ترین ملکوں میں ہونے لگا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں غلے کی ارزانی، اشیائے خوراک کی بہتات اور بجلی گیس کے نرخ انتہائی کم ترین ہونے کے باعث بہت سے ملکوں کی نسبت پاکستان ایک سستا ترین ملک تھا۔
جب انگریزوں نے برصغیر میں قدم جمانے شروع کیے تو یہاں سبزی پھلوں دالوں چاولوں آٹے، کپڑے، ڈھاکا کی ململ، یہاں کے ہاتھوں سے بنے ہوئے جوتے اور دیگر بہت سی مصنوعات کی قیمتیں سن کر حیران رہ جاتے تھے کیونکہ ان کا ملک ان سب باتوں میں اول خود کفیل بھی نہیں تھا بلکہ مہنگا بھی تھا۔ یہاں ہر طرح کی فراوانی غلے کی ارزانی، زرخیز زمینیں، پھلوں سے لدے باغات دیکھ کر عش عش کر اٹھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سونے کی چڑیا ہے۔
اب اسٹیٹ نے آگاہ کردیا ہے کہ قریبی مدت میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اب یہاں تک نوبت آگئی ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی پی) نے کہا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے مہنگا ملک ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سری لنکا 24.4 فیصد کے ساتھ دوسرا مہنگا ملک ہے اور افغانستان 13.8 فیصد کے ساتھ تیسرا ملک ہے۔
بینک کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال مہنگائی کی اوسط شرح27.5 فیصد ہے۔ اگرچہ یہاں پر اسٹیٹ بینک اور ایشیائی بینک کے اعداد و شمار میں تضاد پایا جاتا ہے ، لیکن یہ بات طے ہے کہ مہنگائی اس سے کہیں زیادہ ہے اور اب اس میں مزید اضافے کے لیے تمام باتیں آہستہ آہستہ پوری کی جا رہی ہیں جیسے اب ایک ڈالر 290 روپے سے بھی زائد کا ہو چکا ہے۔
ڈالر ریٹ نے مہنگائی کو بام عروج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ببانگ دہل ایسا ہی کر رہا ہے اور آیندہ بھی اسی طرح کی توقعات ہیں۔