کراچی کے لاپتہ افراد
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دوسری جماعتوں کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخالفت کر رہی ہیں ۔۔۔
HYDERABAD:
48 گھنٹوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 کارکن لاپتہ ہو گئے۔ متحدہ کا کہنا ہے کہ سادہ لباس میں ملبوس اہلکار ڈبل کیبن گاڑیوں میں کارکنوں کو اغواء کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لاپتہ ہونے پر سندھ اسمبلی میں جب ہنگامہ طول پکڑ گیا تو صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے حکومت سندھ کا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کے قانون نافذ کرنے والے ادارے تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اپنی احتجاجی مہم شروع کر دی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکن ان کی تحویل میں نہیں ہیں۔ وزیرِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو وفاق سے احتجاج کرنا چاہیے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے بہت سے افراد کو گرفتار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلوں میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق طالبان سے ہے۔ پھر لیاری گینگ وار میں ملوث ملزمان اور کئی بیگناہ مقابلوں میں مارے گئے ہیں۔ کچھ ہلاک ہونے والے افراد کی وابستگی سیاسی جماعتوں سے ہے۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب تر ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے افراد کی تعداد دو ہندسوں میں ہے۔ مرنے والوں میں ڈاکٹر، وکیل، اساتذہ اور طالب علم بھی شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان اللہ مروت کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دو وکلاء بھی اس جنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر قتل کی واردات کے بعد متعدد گرفتاریاں، اسلحہ برآمد ہونے اور ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ان ٹارگٹ کلرز کو چادر میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔
بعض کے اعترافی بیانات بھی میڈیا کی زینت بنتے ہیں مگر پھر کوئی بے گناہ شخص موٹر سائیکل پر سوار نوجوان کی فائرنگ کا شکار ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ تین برسوں کے دوران کراچی بد امنی کیس کی مسلسل سماعت کی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس ضمن میں عبوری فیصلے بھی دیے۔ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی میں طالبان کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے عسکری ونگز قائم کیے ہوئے ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں ان عسکری ونگز کی مدد سے اپنی ریاستیں قائم کر لی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے اس وقت کے پولیس کے سربراہ نے اس بات کا بھی اقرار کیا تھا کہ پولیس فورس میں سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اس طرح انٹیلی جنس نیٹ ورک مفلوج ہو گیا ہے۔
سابق آئی جی پولیس واجد درانی نے تو یہ بھی اقرار کیا تھا کہ انھیں گریڈ 17 اور اس کے اوپر کے افسروں کے تقرریاں اور تبادلوں کا اختیار نہیں ہے۔ یوں یہ اہم اختیار نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک کمانڈ Single Command کے اصول کے تحت پولیس فورس کو متحرک نہیں کر سکے۔ پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے پر توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ تھی کہ جب تک صدر زرداری ایوانِ صدر میں موجود رہے کراچی کے حالات بہتر نہ ہو سکے۔ جب مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی تو کراچی میں گزشتہ سال ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی ۔ اسی طرح لیاری میں موجود گینگسٹرز نے بھی لیاری کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔
شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ بھتے کی پرچیاں بڑے چھوٹے دکانداروں، صنعت کاروں اور ڈاکٹروں کو ملتی تھیں، اس کے ساتھ ان پرچیوں میں درج ہدایات پر عمل نہ کرنے پر دکانوں اور گھروں کو دستی بموں سے نشانہ بنایا جانے لگا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہمراہ کراچی آئے۔ کراچی میں نئے سرے سے آپریشن کو منظم کرنے کا مربوط طریقہ کار طے ہوا۔ اس آپریشن کا کپتان اگرچہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو بنایا گیا مگر پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کمانڈ قائم کی گئی، انٹیلی جنس نیٹ ورک کو منظم کرنے کے لیے اقدامات ہوئے اور پولیس فورس میں ریٹائرڈ فوجی جوانوں اور جونیئر افسروں کی بھرتی کا فیصلہ ہوا۔ یوں کراچی میں ایک دفعہ پھر محدود بنیاد پر آپریشن ہوا اور حکومت نے رینجرز کو خصوصی اختیارات دے دیے۔ اس بناء پر رینجرز کی کارروائیاں بڑھ گئیں۔
انتہا پسندوں نے رینجرز کے اہلکاروں اور ان کے ہیڈ کوارٹرز پر حملے کیے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کم ہوئی مگر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں فرق نہیں پڑا اور اسٹریٹ کرائمز میں بھی کمی نہ آ سکی۔ اس آپریشن میں دیگر جماعتوں کے ساتھ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو بھی گرفتار کیا جانے لگا۔ مقامی صحافی ولی خان بابر قتل کیس کے وکلا اور گواہوں کے بعد پروسیکیوٹر نعمت رندھاوا کو بھی قتل کیا گیا۔ نعمت رندھاوا مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے تھے۔ اس قتل کے الزام میں ایم کیو ایم کے کارکنان گرفتار ہوئے۔جبکہ ایم کیو ایم کی قیادت اپنے کارکنوں کے لاپتہ ہونے اور بعض کی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر احتجاج کرتی رہی۔ چند ماہ قبل ایم کیو ایم کے ایک کارکن کو دلہا بننے کے بعد بارات سے گرفتار کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے احتجاج پر یہ صاحب رہا ہوئے اور مقامی اسپتال میں داخل ہوئے۔
ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ اس کارکن کو تیسرے درجے کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس تمام صورتحال میں کراچی میں فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ انتہا پسندوں نے سہراب گوٹھ کے قریب او ر بلدیہ ٹائون کے علاقے میں دو مزدوروں میں موجود کئی افراد کو اچانک حملہ کر کے ہلاک کر دیا پھر جماعت اسلامی، اے این پی، پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے قتل کی خبریں آنے لگیں۔ جماعت اسلامی کے کراچی کے رہنما اپنے تین کارکنوں کے قتل پر سراپا احتجاج ہیں۔ یہ قتل شہر میں مختلف علاقوں میں ہوئے تھے۔ اب حکومت سندھ کے اس موقف کے بعد کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو وفاقی تحقیقاتی ادارے تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت گرفتار کر رہے ہیں اور صورتحال مزید خراب ہو گی۔ اس قانون کے تحت کسی بھی فرد کو دہشت گرد ہونے کے شبہ میں 90 د ن تک نظر بند کیا جا سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دوسری جماعتوں کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخالفت کر رہی ہیں مگر سندھ میں اس آرڈیننس کے تحت ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاری نئے تضادات کو ابھار رہی ہے۔ اگر انصاف کے فطری اصولوں کے تحت کسی شخص کو گرفتار کرنے سے پہلے اس پر عائد الزامات سے آگاہ نہیں کیا گیا اور متعلقہ شخص کو 24 گھنٹے میں عدالت کے سامنے پیش ہونے، اپنے دفاع کے لیے وکیل کرنے اور عدالت کے سامنے اپنے مؤقف کی وضاحت کا حق نہیں دیا گیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ مذکورہ شخص بے گناہ ہے۔ وفاق کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بلوچستان میں یہ تجربہ کر چکے ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ5 برسوں کے دوران لاپتہ افراد کی بازیابی کی مہم خاصی طاقتور ہو چکی ہے۔
اس مہم کے روح رواں ماما قادر بلوچ کی قیادت میں خواتین اور بچوں نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد پیدل مارچ کر کے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی ہمدردیاں حاصل کر لی تھیں۔ یوں بلوچستان کے لاپتہ افراد وہاں کے نوجوانوں کے ہیرو بن گئے۔ اگر ان اداروں نے یہ تجربہ کراچی میں دہرایا پھر اس کے بلوچستان سے بھی زیادہ خوفناک نتائج نکلیں گے۔ سرکاری اداروں کا ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاری کی تصدیق نہ کرنا خطرے کی گھنٹی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند خاندان کے نوجوان کو پاک کالونی سے ایک ہفتے قبل ڈبل کیبن گاڑی میں سوار افراد اٹھا کر لے گئے تھے۔
اس نوجوان کے والدین دفتر دفتر مارے پھر رہے ہیں مگر کوئی ان کے بیٹے کی گرفتاری کی تصدیق کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت کو گرفتار ہونے والے ہر فرد کی شناخت اور اس پر عائد الزامات پر مشتمل چارج شیٹ جاری کرنی چاہیے۔ متعلقہ شخص کو انصاف کے فطری اصولوں کے تحت دفاع کا مکمل حق ملنا چاہیے۔ اگر گرفتار ہونے والے شخص کو الزامات سے آگاہ نہ کیا جائے اور اسے عدالت میں پیش نہ کیا جائے تو یہ شخص مظلوم بن جائے گا۔ عوام کی ہمدردیاں لاپتہ شخص کے ساتھ ہو جائیں گی اور کراچی آپریشن عوام کی حمایت سے محروم ہو جائے گا۔ کراچی آپریشن کے خلاف رائے عامہ تبدیل ہو جائے گی یوں شہر میں امن قائم نہیں ہو گا جس کا سب کو نقصان ہو گا۔
ایم کیو ایم کے احتجاج کے اور معنی بیان کیے جا رہے ہیں۔ بعض لوگ اس احتجاج کو سابق صدر پرویز مشرف کے معاملے کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں مگر کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ خراب صورتحال کو مزید خراب کرے گا۔
48 گھنٹوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 کارکن لاپتہ ہو گئے۔ متحدہ کا کہنا ہے کہ سادہ لباس میں ملبوس اہلکار ڈبل کیبن گاڑیوں میں کارکنوں کو اغواء کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لاپتہ ہونے پر سندھ اسمبلی میں جب ہنگامہ طول پکڑ گیا تو صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے حکومت سندھ کا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کے قانون نافذ کرنے والے ادارے تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اپنی احتجاجی مہم شروع کر دی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکن ان کی تحویل میں نہیں ہیں۔ وزیرِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو وفاق سے احتجاج کرنا چاہیے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے بہت سے افراد کو گرفتار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلوں میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق طالبان سے ہے۔ پھر لیاری گینگ وار میں ملوث ملزمان اور کئی بیگناہ مقابلوں میں مارے گئے ہیں۔ کچھ ہلاک ہونے والے افراد کی وابستگی سیاسی جماعتوں سے ہے۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب تر ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے افراد کی تعداد دو ہندسوں میں ہے۔ مرنے والوں میں ڈاکٹر، وکیل، اساتذہ اور طالب علم بھی شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان اللہ مروت کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دو وکلاء بھی اس جنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر قتل کی واردات کے بعد متعدد گرفتاریاں، اسلحہ برآمد ہونے اور ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ان ٹارگٹ کلرز کو چادر میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔
بعض کے اعترافی بیانات بھی میڈیا کی زینت بنتے ہیں مگر پھر کوئی بے گناہ شخص موٹر سائیکل پر سوار نوجوان کی فائرنگ کا شکار ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ تین برسوں کے دوران کراچی بد امنی کیس کی مسلسل سماعت کی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس ضمن میں عبوری فیصلے بھی دیے۔ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی میں طالبان کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے عسکری ونگز قائم کیے ہوئے ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں ان عسکری ونگز کی مدد سے اپنی ریاستیں قائم کر لی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے اس وقت کے پولیس کے سربراہ نے اس بات کا بھی اقرار کیا تھا کہ پولیس فورس میں سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اس طرح انٹیلی جنس نیٹ ورک مفلوج ہو گیا ہے۔
سابق آئی جی پولیس واجد درانی نے تو یہ بھی اقرار کیا تھا کہ انھیں گریڈ 17 اور اس کے اوپر کے افسروں کے تقرریاں اور تبادلوں کا اختیار نہیں ہے۔ یوں یہ اہم اختیار نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک کمانڈ Single Command کے اصول کے تحت پولیس فورس کو متحرک نہیں کر سکے۔ پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے پر توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ تھی کہ جب تک صدر زرداری ایوانِ صدر میں موجود رہے کراچی کے حالات بہتر نہ ہو سکے۔ جب مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی تو کراچی میں گزشتہ سال ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی ۔ اسی طرح لیاری میں موجود گینگسٹرز نے بھی لیاری کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔
شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ بھتے کی پرچیاں بڑے چھوٹے دکانداروں، صنعت کاروں اور ڈاکٹروں کو ملتی تھیں، اس کے ساتھ ان پرچیوں میں درج ہدایات پر عمل نہ کرنے پر دکانوں اور گھروں کو دستی بموں سے نشانہ بنایا جانے لگا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہمراہ کراچی آئے۔ کراچی میں نئے سرے سے آپریشن کو منظم کرنے کا مربوط طریقہ کار طے ہوا۔ اس آپریشن کا کپتان اگرچہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو بنایا گیا مگر پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کمانڈ قائم کی گئی، انٹیلی جنس نیٹ ورک کو منظم کرنے کے لیے اقدامات ہوئے اور پولیس فورس میں ریٹائرڈ فوجی جوانوں اور جونیئر افسروں کی بھرتی کا فیصلہ ہوا۔ یوں کراچی میں ایک دفعہ پھر محدود بنیاد پر آپریشن ہوا اور حکومت نے رینجرز کو خصوصی اختیارات دے دیے۔ اس بناء پر رینجرز کی کارروائیاں بڑھ گئیں۔
انتہا پسندوں نے رینجرز کے اہلکاروں اور ان کے ہیڈ کوارٹرز پر حملے کیے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کم ہوئی مگر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں فرق نہیں پڑا اور اسٹریٹ کرائمز میں بھی کمی نہ آ سکی۔ اس آپریشن میں دیگر جماعتوں کے ساتھ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو بھی گرفتار کیا جانے لگا۔ مقامی صحافی ولی خان بابر قتل کیس کے وکلا اور گواہوں کے بعد پروسیکیوٹر نعمت رندھاوا کو بھی قتل کیا گیا۔ نعمت رندھاوا مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے تھے۔ اس قتل کے الزام میں ایم کیو ایم کے کارکنان گرفتار ہوئے۔جبکہ ایم کیو ایم کی قیادت اپنے کارکنوں کے لاپتہ ہونے اور بعض کی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر احتجاج کرتی رہی۔ چند ماہ قبل ایم کیو ایم کے ایک کارکن کو دلہا بننے کے بعد بارات سے گرفتار کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے احتجاج پر یہ صاحب رہا ہوئے اور مقامی اسپتال میں داخل ہوئے۔
ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ اس کارکن کو تیسرے درجے کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس تمام صورتحال میں کراچی میں فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ انتہا پسندوں نے سہراب گوٹھ کے قریب او ر بلدیہ ٹائون کے علاقے میں دو مزدوروں میں موجود کئی افراد کو اچانک حملہ کر کے ہلاک کر دیا پھر جماعت اسلامی، اے این پی، پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے قتل کی خبریں آنے لگیں۔ جماعت اسلامی کے کراچی کے رہنما اپنے تین کارکنوں کے قتل پر سراپا احتجاج ہیں۔ یہ قتل شہر میں مختلف علاقوں میں ہوئے تھے۔ اب حکومت سندھ کے اس موقف کے بعد کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو وفاقی تحقیقاتی ادارے تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت گرفتار کر رہے ہیں اور صورتحال مزید خراب ہو گی۔ اس قانون کے تحت کسی بھی فرد کو دہشت گرد ہونے کے شبہ میں 90 د ن تک نظر بند کیا جا سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دوسری جماعتوں کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخالفت کر رہی ہیں مگر سندھ میں اس آرڈیننس کے تحت ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاری نئے تضادات کو ابھار رہی ہے۔ اگر انصاف کے فطری اصولوں کے تحت کسی شخص کو گرفتار کرنے سے پہلے اس پر عائد الزامات سے آگاہ نہیں کیا گیا اور متعلقہ شخص کو 24 گھنٹے میں عدالت کے سامنے پیش ہونے، اپنے دفاع کے لیے وکیل کرنے اور عدالت کے سامنے اپنے مؤقف کی وضاحت کا حق نہیں دیا گیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ مذکورہ شخص بے گناہ ہے۔ وفاق کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بلوچستان میں یہ تجربہ کر چکے ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ5 برسوں کے دوران لاپتہ افراد کی بازیابی کی مہم خاصی طاقتور ہو چکی ہے۔
اس مہم کے روح رواں ماما قادر بلوچ کی قیادت میں خواتین اور بچوں نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد پیدل مارچ کر کے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی ہمدردیاں حاصل کر لی تھیں۔ یوں بلوچستان کے لاپتہ افراد وہاں کے نوجوانوں کے ہیرو بن گئے۔ اگر ان اداروں نے یہ تجربہ کراچی میں دہرایا پھر اس کے بلوچستان سے بھی زیادہ خوفناک نتائج نکلیں گے۔ سرکاری اداروں کا ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاری کی تصدیق نہ کرنا خطرے کی گھنٹی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند خاندان کے نوجوان کو پاک کالونی سے ایک ہفتے قبل ڈبل کیبن گاڑی میں سوار افراد اٹھا کر لے گئے تھے۔
اس نوجوان کے والدین دفتر دفتر مارے پھر رہے ہیں مگر کوئی ان کے بیٹے کی گرفتاری کی تصدیق کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت کو گرفتار ہونے والے ہر فرد کی شناخت اور اس پر عائد الزامات پر مشتمل چارج شیٹ جاری کرنی چاہیے۔ متعلقہ شخص کو انصاف کے فطری اصولوں کے تحت دفاع کا مکمل حق ملنا چاہیے۔ اگر گرفتار ہونے والے شخص کو الزامات سے آگاہ نہ کیا جائے اور اسے عدالت میں پیش نہ کیا جائے تو یہ شخص مظلوم بن جائے گا۔ عوام کی ہمدردیاں لاپتہ شخص کے ساتھ ہو جائیں گی اور کراچی آپریشن عوام کی حمایت سے محروم ہو جائے گا۔ کراچی آپریشن کے خلاف رائے عامہ تبدیل ہو جائے گی یوں شہر میں امن قائم نہیں ہو گا جس کا سب کو نقصان ہو گا۔
ایم کیو ایم کے احتجاج کے اور معنی بیان کیے جا رہے ہیں۔ بعض لوگ اس احتجاج کو سابق صدر پرویز مشرف کے معاملے کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں مگر کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ خراب صورتحال کو مزید خراب کرے گا۔