وقت اور حالات کا تقاضا
یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر ہی معرض وجود میں آیا تھا۔۔۔۔
HYDERABAD:
ہمارے آج کل کے حکمراں اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر بڑے طمطراق کے ساتھ اکڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور اقتدار کا نشہ ان کے چہروں پر بالکل نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن خلیفہ ثانی سیدنا عمرؓ بن خطاب کی تقریب خلافت کا منظر کچھ اور ہی تھا۔ وہ اللہ کے حضور اس منصب کی بھاری ذمے داریوں کا بوجھ سنبھالتے وقت اس احساس کے باعث بری طرح کانپ رہے تھے اور زاروقطار رو رہے تھے کہ کیا اس منصب کا حق پوری طرح ادا کرسکیں گے؟ کیا وہ سب کے ساتھ عدل و انصاف کرسکیں گے؟
کیا وہ ظالم کو ظلم سے باز اور کمزور کو اس کے دست ستم سے محفوظ رکھ سکیں گے؟ کیا وہ ضرورت مندوں کی جائز حاجات کی تکمیل اور بھوکوں کو پیٹ بھر کھانا کھلانے کے قابل ہوسکیں گے؟ شدید احساس ذمے داری کی اس کیفیت میں ان کے منہ سے نکلے ہوئے یہ چند الفاظ دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے ہمیشہ قائم رہنے والی ایک روشن مثال اور قابل تقلید روایت بن گئے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک کے مارے موت کا شکار ہوگیا تو اس کا عذاب عمرؓ کی گردن پر ہوگا۔
اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ سیدنا عمرؓ میں بار خلافت اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سکت یا صلاحیت نہیں تھی یا ان میں اہلیت کی کوئی کمی تھی۔ ان کی قوت اور اہلیت کا اس سے بڑھ کر کوئی ثبوت بھلا کیا ہوسکتا ہے کہ ان کی بے لاگ شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ''اگر نبوت کا سلسلہ ختم نہ ہوگیا ہوتا تو میرے بعد عمر ہی نبی ہوتا''۔ سیدنا عمرؓ کی بے پناہ صلاحیتوں کا، نبیؐ آخرالزماں کی زبان مبارک سے یہ اعتراف بلاشبہ سب سے بڑی سند کا درجہ رکھتا ہے۔
خلیفہ دوئم نے اپنے گیارہ سال پر محیط دور خلافت میں زندگی اور حکومت کے تمام شعبوں میں وہ کارنامے انجام دیے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے اور جن کی تعریف کرنے پر غیر مسلم بھی خود کو مجبور پائیں گے ، چناں چہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ انڈین نیشنل کانگریس کے روح رواں اور آئی او بھارت کے راشٹر پتا موہن داس کرم چند گاندھی نے جو عرف عام میں مہاتما گاندھی کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ اپنے رام راج کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے ایک موقعے پر واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ یہ دور رام چندرجی کے پتا راجہ دسرتھ کے دور حکمرانی کے مماثل کوئی دور ہوگا بلکہ اس سے مراد حضرت عمرؓ کا دور خلافت ہے جہاں ہر شہری کے ساتھ عدل و انصاف کیا جاتا تھا اور جہاں شیر اور بکری ایک ساتھ ایک ہی گھاٹ پر پانی پیا کرتے تھے۔
یہ وہ دور تھا کہ جب کسی کی مجال نہ تھی کہ کسی کو میلی آنکھ سے دیکھ سکے یا کسی کا ناحق خون بہا سکے۔ حکومتی امور میں خلیفہ کی گرفت اتنی سخت تھی، سرکاری اہل کار خود کو عوام کا خادم سمجھتے تھے اور فلاح و بہبود کے کاموں میں دن رات ایک کردیا کرتے تھے۔ اس بات کا اندازہ اس واقعے سے بہ آسانی کیا جاسکتا ہے کہ عظیم فاتح اور بہادر جرنیل حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کوفہ میں قائم اپنے دفتر کے باہر ایک ڈیوڑھی تعمیر کروا دی جس کی وجہ سے حاجت مندوں کو دشواری پیش آنے لگی۔ خلیفہ حضرت عمرؓ کے علم میں جب یہ بات آئی تو انھوں نے اس کا بڑی سختی کے ساتھ نوٹس لیا اور کھلے الفاظ میں شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے کی علامت ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے ۔ چناں چہ آپؓ نے فوری حکم کے تحت اس ڈیوڑھی کو نذرآتش کرا دیا۔
اس کے بالکل برعکس اسلامی جمہوریہ کہلانے والے وطن عزیز پاکستان کا حال ملاحظہ فرمائیں جہاں کے حکمرانوں کی گردنوں میں سریے نصب ہیں اور جن کے ٹھاٹ باٹ کی کوئی حد نہیں ہے۔ جمہوریت کے دعوے دار یہ حکمراں ملک کے عوام کو اپنی رعیت اور غلام سمجھتے ہیں اور اپنے قلعہ نما بنگلوں اور دفاتر میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ عوام بدامنی اور لاقانونیت سے بری طرح نڈھال ہیں اور نہ ان کی جان کو کوئی تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی مال محفوظ ہے۔
ذرا اندازہ تو کیجیے کہ ایک طرف وہ دور تھا جہاں خلیفہ وقت کو ایک جانور کے بھوکا مرنے کا احساس ستایا کرتا تھا اور ایک یہ دور ہے جب بھوک اور افلاس کے ستائے ہوئے عوام خودکشی کرنے اور اپنے جگر گوشوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ کا حال یہ ہے کہ وہ ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست'' کے مصداق ایسی پرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں جن کا ایک عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ہمارے آج کے حکمران شتر بے مہار ہیں جن کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ ہر طرف بے انصافی اور اقربا پروری ہے اور حکمرانی کو نسل در نسل منتقل کرنے کی منصوبہ سازی کی جا رہی ہے تاکہ جب ایک کھیپ سیاست سے ریٹائر ہوجائے تو دوسری کھیپ آکر گدی نشین ہوجائے۔
ملک کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں اس حکمت عملی کو قدر مشترک کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک طرف حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور نہ ختم ہونے والی عیاشیاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر طرف بھوک کا دور دورہ ہے ایک طرف عوام بھوک، افلاس اور قحط سالی کا شکار ہیں تو دوسری جانب ہمارے حکمراں اقتدار کی بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ کوئی دولت کا بھوکا ہے تو کوئی شہرت کا بھوکا۔ کسی کو طاقت کی بھوک ستا رہی ہے تو کسی پر جنسی بھوک سوار ہے۔ڈالر کی قدر میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافے کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں اور ڈنکوں پر ڈنکے بجائے جا رہے ہیں جب کہ مہنگائی کا سیلاب ہے کہ تھمنے اور رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ غریبوں اور ناداروں کے بچے کچرا کنڈیوں پر خوراک کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں تو دوسری جانب امرا اور رؤسا کے پالتو کتوں کی مہنگے ترین امپورٹڈ فوڈ سے خاطر تواضح اور پرورش کی جا رہی ہے۔ غریب کے بچوں کو علاج کی سہولتیں اور دوائیں تک میسر نہیں ہیں جب کہ اشرافیہ کے کتوں کے علاج کے لیے بھاری بھاری فیسیں ادا کرکے ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ کوئی پنکھے کے ساتھ لٹک کر اپنی جان دے رہا ہے تو کوئی کھلی کچہری میں کھڑے ہوکر خود سوزی کرنے پر مجبور ہے۔
یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر ہی معرض وجود میں آیا تھا۔ قیام پاکستان کا بنیادی مقصد ہی اسلام تھا۔ اسلام ہی دو قومی نظریے کی بنیاد تھا۔ اگر یہ بنیاد موجود نہ ہوتی تو اس مملکت کا وجود پذیر ہونا قطعی ناممکن تھا۔ یہ جذبہ اسلام ہی تھا جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہوکر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔ لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ایک مخصوص لابی باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس نوزائیدہ مملکت کو سیکولر ریاست بنانے کے لیے شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئی اور اس نے دو قومی نظریے کو متنازع بنانے اور بانیان پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم سازش کا آغاز کردیا جس کی پشت پناہی پاکستان مخالف بیرونی اور اندرونی دونوں قوتوں اور عناصر نے ملی بھگت کی صورت میں اپنے اپنے انداز میں شروع کر دی۔
نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ آج وطن عزیز پاکستان میں اسلامی شعائر کا کھلم کھلا مذاق اڑانا ایک فیشن بن گیا ہے۔ اسلام دشمن قوتوں کی آلہ کار مخصوص لابی فرنگیوں کی مذموم پالیسی ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کے تحت اس ملک کے اسلامی تشخص کو بری طرح مسخ کرنے کے لیے تمام ممکنہ حربے استعمال کر رہی ہے۔ وطن عزیز آج جس انتشار اور خلفشار کا شکار ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ وقت اور حالات کا سب سے بڑا اور اولین تقاضا ہے کہ ہر قسم کے اختلافات سے بالاتر ہوکر اتحاد کو ہر قیمت پر برقرار اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا جائے۔
ہمارے آج کل کے حکمراں اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر بڑے طمطراق کے ساتھ اکڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور اقتدار کا نشہ ان کے چہروں پر بالکل نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن خلیفہ ثانی سیدنا عمرؓ بن خطاب کی تقریب خلافت کا منظر کچھ اور ہی تھا۔ وہ اللہ کے حضور اس منصب کی بھاری ذمے داریوں کا بوجھ سنبھالتے وقت اس احساس کے باعث بری طرح کانپ رہے تھے اور زاروقطار رو رہے تھے کہ کیا اس منصب کا حق پوری طرح ادا کرسکیں گے؟ کیا وہ سب کے ساتھ عدل و انصاف کرسکیں گے؟
کیا وہ ظالم کو ظلم سے باز اور کمزور کو اس کے دست ستم سے محفوظ رکھ سکیں گے؟ کیا وہ ضرورت مندوں کی جائز حاجات کی تکمیل اور بھوکوں کو پیٹ بھر کھانا کھلانے کے قابل ہوسکیں گے؟ شدید احساس ذمے داری کی اس کیفیت میں ان کے منہ سے نکلے ہوئے یہ چند الفاظ دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے ہمیشہ قائم رہنے والی ایک روشن مثال اور قابل تقلید روایت بن گئے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک کے مارے موت کا شکار ہوگیا تو اس کا عذاب عمرؓ کی گردن پر ہوگا۔
اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ سیدنا عمرؓ میں بار خلافت اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سکت یا صلاحیت نہیں تھی یا ان میں اہلیت کی کوئی کمی تھی۔ ان کی قوت اور اہلیت کا اس سے بڑھ کر کوئی ثبوت بھلا کیا ہوسکتا ہے کہ ان کی بے لاگ شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ''اگر نبوت کا سلسلہ ختم نہ ہوگیا ہوتا تو میرے بعد عمر ہی نبی ہوتا''۔ سیدنا عمرؓ کی بے پناہ صلاحیتوں کا، نبیؐ آخرالزماں کی زبان مبارک سے یہ اعتراف بلاشبہ سب سے بڑی سند کا درجہ رکھتا ہے۔
خلیفہ دوئم نے اپنے گیارہ سال پر محیط دور خلافت میں زندگی اور حکومت کے تمام شعبوں میں وہ کارنامے انجام دیے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے اور جن کی تعریف کرنے پر غیر مسلم بھی خود کو مجبور پائیں گے ، چناں چہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ انڈین نیشنل کانگریس کے روح رواں اور آئی او بھارت کے راشٹر پتا موہن داس کرم چند گاندھی نے جو عرف عام میں مہاتما گاندھی کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ اپنے رام راج کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے ایک موقعے پر واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ یہ دور رام چندرجی کے پتا راجہ دسرتھ کے دور حکمرانی کے مماثل کوئی دور ہوگا بلکہ اس سے مراد حضرت عمرؓ کا دور خلافت ہے جہاں ہر شہری کے ساتھ عدل و انصاف کیا جاتا تھا اور جہاں شیر اور بکری ایک ساتھ ایک ہی گھاٹ پر پانی پیا کرتے تھے۔
یہ وہ دور تھا کہ جب کسی کی مجال نہ تھی کہ کسی کو میلی آنکھ سے دیکھ سکے یا کسی کا ناحق خون بہا سکے۔ حکومتی امور میں خلیفہ کی گرفت اتنی سخت تھی، سرکاری اہل کار خود کو عوام کا خادم سمجھتے تھے اور فلاح و بہبود کے کاموں میں دن رات ایک کردیا کرتے تھے۔ اس بات کا اندازہ اس واقعے سے بہ آسانی کیا جاسکتا ہے کہ عظیم فاتح اور بہادر جرنیل حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کوفہ میں قائم اپنے دفتر کے باہر ایک ڈیوڑھی تعمیر کروا دی جس کی وجہ سے حاجت مندوں کو دشواری پیش آنے لگی۔ خلیفہ حضرت عمرؓ کے علم میں جب یہ بات آئی تو انھوں نے اس کا بڑی سختی کے ساتھ نوٹس لیا اور کھلے الفاظ میں شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے کی علامت ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے ۔ چناں چہ آپؓ نے فوری حکم کے تحت اس ڈیوڑھی کو نذرآتش کرا دیا۔
اس کے بالکل برعکس اسلامی جمہوریہ کہلانے والے وطن عزیز پاکستان کا حال ملاحظہ فرمائیں جہاں کے حکمرانوں کی گردنوں میں سریے نصب ہیں اور جن کے ٹھاٹ باٹ کی کوئی حد نہیں ہے۔ جمہوریت کے دعوے دار یہ حکمراں ملک کے عوام کو اپنی رعیت اور غلام سمجھتے ہیں اور اپنے قلعہ نما بنگلوں اور دفاتر میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ عوام بدامنی اور لاقانونیت سے بری طرح نڈھال ہیں اور نہ ان کی جان کو کوئی تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی مال محفوظ ہے۔
ذرا اندازہ تو کیجیے کہ ایک طرف وہ دور تھا جہاں خلیفہ وقت کو ایک جانور کے بھوکا مرنے کا احساس ستایا کرتا تھا اور ایک یہ دور ہے جب بھوک اور افلاس کے ستائے ہوئے عوام خودکشی کرنے اور اپنے جگر گوشوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ کا حال یہ ہے کہ وہ ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست'' کے مصداق ایسی پرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں جن کا ایک عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ہمارے آج کے حکمران شتر بے مہار ہیں جن کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ ہر طرف بے انصافی اور اقربا پروری ہے اور حکمرانی کو نسل در نسل منتقل کرنے کی منصوبہ سازی کی جا رہی ہے تاکہ جب ایک کھیپ سیاست سے ریٹائر ہوجائے تو دوسری کھیپ آکر گدی نشین ہوجائے۔
ملک کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں اس حکمت عملی کو قدر مشترک کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک طرف حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور نہ ختم ہونے والی عیاشیاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر طرف بھوک کا دور دورہ ہے ایک طرف عوام بھوک، افلاس اور قحط سالی کا شکار ہیں تو دوسری جانب ہمارے حکمراں اقتدار کی بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ کوئی دولت کا بھوکا ہے تو کوئی شہرت کا بھوکا۔ کسی کو طاقت کی بھوک ستا رہی ہے تو کسی پر جنسی بھوک سوار ہے۔ڈالر کی قدر میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافے کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں اور ڈنکوں پر ڈنکے بجائے جا رہے ہیں جب کہ مہنگائی کا سیلاب ہے کہ تھمنے اور رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ غریبوں اور ناداروں کے بچے کچرا کنڈیوں پر خوراک کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں تو دوسری جانب امرا اور رؤسا کے پالتو کتوں کی مہنگے ترین امپورٹڈ فوڈ سے خاطر تواضح اور پرورش کی جا رہی ہے۔ غریب کے بچوں کو علاج کی سہولتیں اور دوائیں تک میسر نہیں ہیں جب کہ اشرافیہ کے کتوں کے علاج کے لیے بھاری بھاری فیسیں ادا کرکے ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ کوئی پنکھے کے ساتھ لٹک کر اپنی جان دے رہا ہے تو کوئی کھلی کچہری میں کھڑے ہوکر خود سوزی کرنے پر مجبور ہے۔
یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر ہی معرض وجود میں آیا تھا۔ قیام پاکستان کا بنیادی مقصد ہی اسلام تھا۔ اسلام ہی دو قومی نظریے کی بنیاد تھا۔ اگر یہ بنیاد موجود نہ ہوتی تو اس مملکت کا وجود پذیر ہونا قطعی ناممکن تھا۔ یہ جذبہ اسلام ہی تھا جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہوکر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔ لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ایک مخصوص لابی باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس نوزائیدہ مملکت کو سیکولر ریاست بنانے کے لیے شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئی اور اس نے دو قومی نظریے کو متنازع بنانے اور بانیان پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم سازش کا آغاز کردیا جس کی پشت پناہی پاکستان مخالف بیرونی اور اندرونی دونوں قوتوں اور عناصر نے ملی بھگت کی صورت میں اپنے اپنے انداز میں شروع کر دی۔
نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ آج وطن عزیز پاکستان میں اسلامی شعائر کا کھلم کھلا مذاق اڑانا ایک فیشن بن گیا ہے۔ اسلام دشمن قوتوں کی آلہ کار مخصوص لابی فرنگیوں کی مذموم پالیسی ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کے تحت اس ملک کے اسلامی تشخص کو بری طرح مسخ کرنے کے لیے تمام ممکنہ حربے استعمال کر رہی ہے۔ وطن عزیز آج جس انتشار اور خلفشار کا شکار ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ وقت اور حالات کا سب سے بڑا اور اولین تقاضا ہے کہ ہر قسم کے اختلافات سے بالاتر ہوکر اتحاد کو ہر قیمت پر برقرار اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا جائے۔