جمہوریت آئین اور پاکستان
ہمارا معاشی بحران اتنا شدید ہے کہ ہمیں ایک ایسے بیانیے کی اب اشد ضرورت ہے جو ہماری معیشت میں بہتری لاسکے
اب تو بات ضابطوں اور اخلاق سے آگے بڑھ گئی ہے۔ پارلیمنٹ بمقابلہ سپریم کورٹ ، آئین دینے والے اور آئین کی تشریح کرنے والے۔ قانون بنانے والے اور قانون کے مطابق کرنے والے۔ اگر سپریم کورٹ بھی ایک صفحے پر نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کی تحریر کی ہوئی ججمنٹ نے تین رکنی بینچ کا شیرازہ بکھیر دیا ہے ، ادھر حزب اختلاف قومی اسمبلی سے باہر ہے، لیکن پارلیمنٹ پھر بھی موجود ہے اورایک پیج پر ہے، پارلیمنٹ کا ایک جز صدر بے اختیاری کے باوجود اختیار استمعال کررہا ہے، انتظامیہ ادھر کی رہی نہ ادھر کی ؟
کیا اسٹیبلشمنٹ پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑی ہے؟ اب ایک باریک سی لکیر ہے سسٹم کے چلنے اور سسٹم کے زمین بوس ہونے میں اور بہت تھوڑے سے وقت میں تصویر واضح ہوتے ہوتے بلآخر نظر آ ہی جائے گی۔
یہ بحث کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ثانوی حیثیت اختیار کرچکی ہے، اب یہ ضروری ہے کہ اس نکتے پر بحث کی جائے کہ ان دونوں قوتوں میں جمہوری قوت کون ہے اور آمریتی قوت کون ہے۔ مطلب جھگڑا وہی پرانا ہے، بس کردار تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہمارے خان صاحب کے خد وخال برازیل کے بولسنارو، روس کے پیوٹن اور امریکا کے ٹرمپ سے ملتے جلتے ہیں۔ الیکشن کی باتیں بولسنارو بھی کرتا ہے اور ٹرمپ بھی لیکن ان کے حامی، دائیں بازو کی پاپولر ازم کے زمرے میں آتے ہیں۔
ایک ایسی کیفیت جس سے لوگوں کے جذبات ابھارے جاتے ہیں، نفرتوں کو پروان چڑھایا جاتا، تصادم کو ہوا دی جاتی ہے ،مذہب، رنگ و نسل وغیرہ جیسے منفی حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ماضی میں یہ کام بھٹو نے کیا،شیخ مجیب کے خلاف، نواز شریف نے کیا بے نظیر کے خلاف اور آج یہ کام عمران خان کررہے ہیں جب کہ اس وقت جمہوری قوتوں کی صف میں ہر اول دستے پر کھڑے ہیں، مریم نواز اور بلاول بھٹو۔
ہمارے ہاں جو دائیں بازو کی انتہا پرست سوچ تھی، اس کے پیچھے جنرل ضیاء الحق اور جنرل حمید گل والی سپورٹ خود اسٹبلشمنٹ کے اندر سے تھی، وہ آہستہ آہستہ باہر ہوتی جارہی ہے تاہم اس وقت سوال یہ اٹھتا ہے، آیا بازو کی انتہا پسند سوچ اسٹبلشمنٹ اب بھی برقرار ہے اور کتنی طاقتور ہے ؟ اس کا جواب سوفیصد کلئیر نہیں ہے۔
ہمارا سیکیورٹی کا بیانیہ کشمیر و افغان پالیسی کے گرد گھومتا رہا، ساتھ ساتھ جمہوریت کو ہم نے ملک دشمن سمجھا ،ایسی سیاست جو آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے سفر کو آگے لے کر چلے ہم نے اس کے راستے میں روڑے اٹکائے جس کی وجہ سے جمہوریت کا وہ فطری ارتقا جو ہندوستان و بنگلہ دیش میں ہوا یہاں نہیں ہوسکا۔
اشرافیہ کی ایسی صف بندی کی کہ اس کے مفادات انتہا پسندی کے ساتھ جڑ گئے ، سیاست میں بھی ایسا ہی ہوا، 2017 میں اقامہ کا فیصلہ لیا۔ پھر آر ٹی ایس سٹم فیل ہوگیا، یوں ہائبرڈ جمہوریت قائم ہوئی لیکن اس کے لبادے میں آمریت اور انتہاپسندی چھپی ہوئی تھی، نتیجہ یہ نکلا کہ ''ہرئبرڈ'' نے ملک کی ٹرین کو دیوار سے ٹکرادیا۔ کشمیر ہندوستان نگل گیا،معیشت ڈوب گئی اور طالبان ہمارے دشمن ہوگئے ۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے جو گٹھ جوڑ تھا وہ اس ملک کو اس دہانے تک لے آیا ہے، جہاں پر یہ معرکہ ہونا باقی ہے، کہ آیا ملک جمہوری طریقوں سے چلے گا کہ نہیں، کیا پارلیمنٹ کی بالادستی ہوگی کہ نہیں اور کیا عدلیہ آزاد ہوگئی کہ نہیں۔
خان صاحب اور پی ڈی ایم کا آپس میں ٹکرائو اس تناظر میں ہے جس طرح بے نظیر اور نواز شریف میں نوے کی دہائی میں ہوتا تھا۔ میاں نواز شریف ، پیپلز پارٹی کا حصہ بھی سمیٹ گئے لیکن آگے جاکے ان کا سامنا، اسی قوت سے ہوا جو پہلے ان کے ساتھ رہی اور اب وہ عمران خان کے ساتھ ہے ، میاں صاحب جو کل تک مبہم تھے اور آج بالکل واضح انداز میں جمہوری قوت ہیں اور اس وقت اسٹیبلشمنٹ غیرسیاسی ہے یعنی غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ نہیں ہے البتہ اسٹبلشمنٹ کا طاقتور ریٹائرڈ دھڑا ہے، وہ خان صاحب کے ساتھ ہے۔
اس سارے ٹکرائو کی جو مجموعی شکل بنی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ خان صاحب نے نوے دن کے اندر انتخابات کی اندر پناہ لے لی ۔ آرٹیکل 63A کو دوبارہ لکھا گیا۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ صرف تین مخصوص ججوں نے پنجاب حکومت ان کی جھولی میں ڈالی تھی۔ پھر عمران خان اپنا سیاسی ٹارگٹ حاصل کرنے کے اپنی حکومت قبل ازوقت توڑ دیتے ہیں،بغیر ان وجوہات کے جو آئینی طور پر مطلوب تھیں جس کی طرف تازہ جسٹس اطہر من اللہ کی تفصیلی ججمنٹ اشارہ کرتی ہے۔
اور پھر حالات اس وقت پیچیدہ ہوئے کہ 4/3 کی اکثریت نے سپریم کورٹ کے سوموٹو کو کالعدم قرار دیا گیا مگر تین رکنی بینچ نے بلآ خر الیکشن 14 مئی کو کرانے کا حکم جاری کردیا۔ یہ سب معاملات نہ الجھتے کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ اگر سپریم کورٹ کی فل کورٹ دیتی، ان دو کو ہٹا کے جنھوں نے چیف جسٹس کو سوموٹولینے کی استدعا کی تھی۔
اب یہ بات آخرکار جوڈیشل کونسل تک جائے گا۔ انتخابات چودہ مئی کو ہونے جارہے ہیں یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ یہاں سے پھر ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ کون رہے گا اور کون جائے گا ، یا سسٹم بیٹھ جائے گا، یا پھر عزیز ہم وطنوں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
ہمارا معاشی بحران اتنا شدید ہے کہ ہمیں ایک ایسے بیانیے کی اب اشد ضرورت ہے جو ہماری معیشت میں بہتری لاسکے ۔ ہمارے اب تک کے بیانیہ نے بھی ہماری معیشت کو اس بند گلی میں پہنچایا ہے۔ ہم ملک کا سیکیورٹی ریاست کا اپنا بیانیہ بناتے رہے۔ انسانی وسائل پر استرکاری نہیں کی۔ ہمیشہ اس امید میں رہے کہ ہمیں امریکا سے ہماری فرنٹ لائن ریاست حیثیت کی وجہ سے امداد ملتی رہے گی، وہ بند ہوئی۔ ہمارے پاس ایکسپورٹ پالیسی، ہماری بھرپور ٹیکسٹائل تھی وہ گئی، ہم خوراک میں خود کفیل تھے اب نہیں رہے۔
ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی سے اربوں روپے ڈالر کماتے، وہ ہم نے نہیں کیا۔ ہم نے مجاہد پیدا کیے، مدرسوں میں استر کاری کی۔ پاکستان کے اندرونی امن کو ہمارے بنائے ہوئے مخصوص بیانیہ نے تباہ کیا۔ یہ سب اچانک ایک رات میں ٹھیک نہیں ہونے جارہا لیکن اس کے لیے ایک جامع پالیسی بنانا ہوگی، جس کو مستقل مزاجی سے آگے لے کے جانا ہوگا۔ پچھتر سال اس عرصے میں ہم نے جس طرح تاریخ کو مسخ کیا، جمہوریت اور آئین کو روندا، یہ شکل اس تسلسل کا آج ہے ہمارا آیندہ تب ہی بہتر ہوگا جب ہم کو الوادع کہیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ کی تحریر کی ہوئی ججمنٹ نے تین رکنی بینچ کا شیرازہ بکھیر دیا ہے ، ادھر حزب اختلاف قومی اسمبلی سے باہر ہے، لیکن پارلیمنٹ پھر بھی موجود ہے اورایک پیج پر ہے، پارلیمنٹ کا ایک جز صدر بے اختیاری کے باوجود اختیار استمعال کررہا ہے، انتظامیہ ادھر کی رہی نہ ادھر کی ؟
کیا اسٹیبلشمنٹ پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑی ہے؟ اب ایک باریک سی لکیر ہے سسٹم کے چلنے اور سسٹم کے زمین بوس ہونے میں اور بہت تھوڑے سے وقت میں تصویر واضح ہوتے ہوتے بلآخر نظر آ ہی جائے گی۔
یہ بحث کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ثانوی حیثیت اختیار کرچکی ہے، اب یہ ضروری ہے کہ اس نکتے پر بحث کی جائے کہ ان دونوں قوتوں میں جمہوری قوت کون ہے اور آمریتی قوت کون ہے۔ مطلب جھگڑا وہی پرانا ہے، بس کردار تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہمارے خان صاحب کے خد وخال برازیل کے بولسنارو، روس کے پیوٹن اور امریکا کے ٹرمپ سے ملتے جلتے ہیں۔ الیکشن کی باتیں بولسنارو بھی کرتا ہے اور ٹرمپ بھی لیکن ان کے حامی، دائیں بازو کی پاپولر ازم کے زمرے میں آتے ہیں۔
ایک ایسی کیفیت جس سے لوگوں کے جذبات ابھارے جاتے ہیں، نفرتوں کو پروان چڑھایا جاتا، تصادم کو ہوا دی جاتی ہے ،مذہب، رنگ و نسل وغیرہ جیسے منفی حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ماضی میں یہ کام بھٹو نے کیا،شیخ مجیب کے خلاف، نواز شریف نے کیا بے نظیر کے خلاف اور آج یہ کام عمران خان کررہے ہیں جب کہ اس وقت جمہوری قوتوں کی صف میں ہر اول دستے پر کھڑے ہیں، مریم نواز اور بلاول بھٹو۔
ہمارے ہاں جو دائیں بازو کی انتہا پرست سوچ تھی، اس کے پیچھے جنرل ضیاء الحق اور جنرل حمید گل والی سپورٹ خود اسٹبلشمنٹ کے اندر سے تھی، وہ آہستہ آہستہ باہر ہوتی جارہی ہے تاہم اس وقت سوال یہ اٹھتا ہے، آیا بازو کی انتہا پسند سوچ اسٹبلشمنٹ اب بھی برقرار ہے اور کتنی طاقتور ہے ؟ اس کا جواب سوفیصد کلئیر نہیں ہے۔
ہمارا سیکیورٹی کا بیانیہ کشمیر و افغان پالیسی کے گرد گھومتا رہا، ساتھ ساتھ جمہوریت کو ہم نے ملک دشمن سمجھا ،ایسی سیاست جو آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے سفر کو آگے لے کر چلے ہم نے اس کے راستے میں روڑے اٹکائے جس کی وجہ سے جمہوریت کا وہ فطری ارتقا جو ہندوستان و بنگلہ دیش میں ہوا یہاں نہیں ہوسکا۔
اشرافیہ کی ایسی صف بندی کی کہ اس کے مفادات انتہا پسندی کے ساتھ جڑ گئے ، سیاست میں بھی ایسا ہی ہوا، 2017 میں اقامہ کا فیصلہ لیا۔ پھر آر ٹی ایس سٹم فیل ہوگیا، یوں ہائبرڈ جمہوریت قائم ہوئی لیکن اس کے لبادے میں آمریت اور انتہاپسندی چھپی ہوئی تھی، نتیجہ یہ نکلا کہ ''ہرئبرڈ'' نے ملک کی ٹرین کو دیوار سے ٹکرادیا۔ کشمیر ہندوستان نگل گیا،معیشت ڈوب گئی اور طالبان ہمارے دشمن ہوگئے ۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے جو گٹھ جوڑ تھا وہ اس ملک کو اس دہانے تک لے آیا ہے، جہاں پر یہ معرکہ ہونا باقی ہے، کہ آیا ملک جمہوری طریقوں سے چلے گا کہ نہیں، کیا پارلیمنٹ کی بالادستی ہوگی کہ نہیں اور کیا عدلیہ آزاد ہوگئی کہ نہیں۔
خان صاحب اور پی ڈی ایم کا آپس میں ٹکرائو اس تناظر میں ہے جس طرح بے نظیر اور نواز شریف میں نوے کی دہائی میں ہوتا تھا۔ میاں نواز شریف ، پیپلز پارٹی کا حصہ بھی سمیٹ گئے لیکن آگے جاکے ان کا سامنا، اسی قوت سے ہوا جو پہلے ان کے ساتھ رہی اور اب وہ عمران خان کے ساتھ ہے ، میاں صاحب جو کل تک مبہم تھے اور آج بالکل واضح انداز میں جمہوری قوت ہیں اور اس وقت اسٹیبلشمنٹ غیرسیاسی ہے یعنی غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ نہیں ہے البتہ اسٹبلشمنٹ کا طاقتور ریٹائرڈ دھڑا ہے، وہ خان صاحب کے ساتھ ہے۔
اس سارے ٹکرائو کی جو مجموعی شکل بنی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ خان صاحب نے نوے دن کے اندر انتخابات کی اندر پناہ لے لی ۔ آرٹیکل 63A کو دوبارہ لکھا گیا۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ صرف تین مخصوص ججوں نے پنجاب حکومت ان کی جھولی میں ڈالی تھی۔ پھر عمران خان اپنا سیاسی ٹارگٹ حاصل کرنے کے اپنی حکومت قبل ازوقت توڑ دیتے ہیں،بغیر ان وجوہات کے جو آئینی طور پر مطلوب تھیں جس کی طرف تازہ جسٹس اطہر من اللہ کی تفصیلی ججمنٹ اشارہ کرتی ہے۔
اور پھر حالات اس وقت پیچیدہ ہوئے کہ 4/3 کی اکثریت نے سپریم کورٹ کے سوموٹو کو کالعدم قرار دیا گیا مگر تین رکنی بینچ نے بلآ خر الیکشن 14 مئی کو کرانے کا حکم جاری کردیا۔ یہ سب معاملات نہ الجھتے کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ اگر سپریم کورٹ کی فل کورٹ دیتی، ان دو کو ہٹا کے جنھوں نے چیف جسٹس کو سوموٹولینے کی استدعا کی تھی۔
اب یہ بات آخرکار جوڈیشل کونسل تک جائے گا۔ انتخابات چودہ مئی کو ہونے جارہے ہیں یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ یہاں سے پھر ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ کون رہے گا اور کون جائے گا ، یا سسٹم بیٹھ جائے گا، یا پھر عزیز ہم وطنوں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
ہمارا معاشی بحران اتنا شدید ہے کہ ہمیں ایک ایسے بیانیے کی اب اشد ضرورت ہے جو ہماری معیشت میں بہتری لاسکے ۔ ہمارے اب تک کے بیانیہ نے بھی ہماری معیشت کو اس بند گلی میں پہنچایا ہے۔ ہم ملک کا سیکیورٹی ریاست کا اپنا بیانیہ بناتے رہے۔ انسانی وسائل پر استرکاری نہیں کی۔ ہمیشہ اس امید میں رہے کہ ہمیں امریکا سے ہماری فرنٹ لائن ریاست حیثیت کی وجہ سے امداد ملتی رہے گی، وہ بند ہوئی۔ ہمارے پاس ایکسپورٹ پالیسی، ہماری بھرپور ٹیکسٹائل تھی وہ گئی، ہم خوراک میں خود کفیل تھے اب نہیں رہے۔
ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی سے اربوں روپے ڈالر کماتے، وہ ہم نے نہیں کیا۔ ہم نے مجاہد پیدا کیے، مدرسوں میں استر کاری کی۔ پاکستان کے اندرونی امن کو ہمارے بنائے ہوئے مخصوص بیانیہ نے تباہ کیا۔ یہ سب اچانک ایک رات میں ٹھیک نہیں ہونے جارہا لیکن اس کے لیے ایک جامع پالیسی بنانا ہوگی، جس کو مستقل مزاجی سے آگے لے کے جانا ہوگا۔ پچھتر سال اس عرصے میں ہم نے جس طرح تاریخ کو مسخ کیا، جمہوریت اور آئین کو روندا، یہ شکل اس تسلسل کا آج ہے ہمارا آیندہ تب ہی بہتر ہوگا جب ہم کو الوادع کہیں گے۔