فلسطین میں جاری کشیدگی
اسرائیل کی فوج معصوم فلسطینی شہریوں، بچوں اور خواتین پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہے
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے حالیہ کشیدگی اور جھڑپوں کے بعد اسرائیل اور فلسطین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے انھوں نے بڑھتے ہوئے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ جاری مذہبی تعطیلات کے دوران پرسکون رہیں۔
اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے ستائیس ممالک کی ہمدردیاں منقسم ہیں۔ فلسطینیوں کے حامی ممالک یورپی یونین میں صرف چند ہیں،ان ممالک کا کہنا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے یورپی یونین کو فلسطینیوں کی مزید حمایت کرنی چاہیے۔ یہ ممالک ماضی میں بھی فلسطینیوں کے حق میں بیانات دیتے آئے ہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے کئی ممالک اسرائیلی مفادات کی کھلی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں ہنگری، جمہوریہ چیک، آسٹریا، یونان، قبرص اور پولینڈ پیش پیش ہیں۔
جرمنی یورپی یونین کا ایک طاقتور ملک ہے لیکن دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کے قتل عام اور نازی جرائم کی وجہ سے یہ ابھی تک خود کو قصوروار سمجھتا ہے اور نازی جرائم کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی نے کبھی بھی اسرائیل مخالف اقدامات کی حمایت نہیں کی۔
29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی علاقوں کو تقسیم کر کے عرب مسلم ریاست ، یہودی ریاست اسرائیل قائم کرنے اور یرو شلم کو اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول رکھنے کی قرار داد منظورکی، تاہم 1967 میں فوجی طاقت کے بل بوتے پر اسرائیل نے متعدد فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ کر لیا اور ان علاقوں میں سکونت پذیر فلسطینیوں کو بے دخل کر کے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔
اسرائیل اپنے قیام سے آج تک فلسطینیوں کو ان کی آبائی سر زمین سے بے دخل کرنے کے لیے فوجی طاقت کے ذریعے نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتا رہا ہے اور آج بھی لاکھوں فلسطینی ہمسایہ مسلم ممالک میں کیمپوں میں زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطینی اپنی آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور اس جدوجہد میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت ہزاروں نوجوان شہید ہو چکے ہیں۔
رمضان المبارک کا آخری جمعہ دنیا بھرکے مسلمانوں کی طرف سے مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کے لیے رکھا گیا ہے۔ ارض فلسطین کے مظلوم مسلمان گزشتہ ایک صدی سے جبر و تسلط کی چکیوں میں پس رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے نہایت چالاکی اور سفاکی سے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کا بندوبست کر کے ارض مقدس کے باسیوں سے ان کی اپنی ہی زمین چھین لی ہے۔
فلسطین کے مسئلہ پر 1948اور 1967میں دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیں ، لیکن امریکا اور مغربی طاقتوں نے تمام اصول و قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل کے قیام اور وسعت کے لیے بھر پور ساتھ دیا ہے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے جب بھی اسرائیلی حکومت داخلی مسائل سے دوچار ہوتی ہے تو وہ اپنے مسائل غزہ یا جنوبی لبنان میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے عرب ممالک کی بد قسمتی کہیے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد عرب ممالک کے حصے بخرے کیے گئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین میں یہودی آباد کاری کی راہیں ہموار ہوگئیں۔
فلسطینیوں کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ ملین کے قریب فلسطینی اسرائیل میں رہ رہے ہیں اور وہ اپنے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک اور ناروا رویوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ اسرائیلی شہریت کے حامل ہیں تاہم انھیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔
دوسرے وہ فلسطینی ہیں جو غزہ اور مغربی کنارہ بشمول یروشلم میں آباد ہیں اور اسرائیلی قبضہ کا سامنا کررہے ہیں۔ تیسرا گروہ ان فلسطینیوں پر مشتمل ہے جو دنیا بھر میں مقیم ہیں اور اپنی واپسی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تاکہ اپنے علاقے میں آباد ہو سکیں۔جب تک فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے اور آزاد فلسطین کا قیام عمل میں نہیں آجاتا، آزادی کی یہ جد وجہد جاری رہے گی۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل صیہونیت کی نمایندگی کرتا ہے جو در حقیقت مغربی نظریہ اور مغربی سیاسی ایجنڈا ہے۔ یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب یورپ میں یہودیوں کا ہولوکاسٹ کیا گیا تو اس وقت یہودی نہ صرف فلسطین بلکہ دیگر عرب ممالک میں بھی رہ رہے تھے اور ان کے ساتھ یکساں اور منصفانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اصل مسئلہ فلسطین پر اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے۔
اس کی کھلی جارحیت کے خلاف جدوجہد کرنا یقیناً فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے۔ جغرافیائی طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں کوئی رابطہ نہیں ہے۔
1967 سے قبل غزہ کی پٹی مصر کے زیر انتظام تھی اور مغربی کنارہ اردن کے زیر انصرام تھا مگر ان دونوں کے بیچ کوئی جغرافیائی رابطہ نہیں تھا۔ اسی لیے آج غزہ میں لاکھوں لوگ دنیا سے الگ تھلگ اورکٹے ہوئے ہیں۔ وہ اسرائیلی محاصرے میں ہیں اور ان سے قیدیوں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
موجودہ صورتحال انتہائی کرب ناک ہے۔ اسرائیل کی نہایت مضبوط اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج معصوم فلسطینی شہریوں، بچوں اور خواتین پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ ہرکوئی جانتا ہے کہ اس تنازعے کا اصل شکار کون رہا، مگر بد قسمتی سے جب اسرائیل اور فلسطین کی بات آتی ہے تو عالمی برادری دہرے معیارات اختیار کرتی ہے۔
ایک نرالی منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف ایف سولہ طیارے عمارتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری جانب ہاتھ سے بنے ہوئے راکٹ اسرائیل کی جانب پھینکے جا رہے ہیں ۔
جن کی وجہ سے نہ کوئی اسرائیلی ہلاک ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی زخمی۔ فی اللعجب ! اس وقت جوکچھ ارض مقدس پر ہورہا ہے وہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کا بد ترین اظہار ہے جس کا شکار معصوم شہری بن رہے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس ساری صورتحال میں اصل مسئلہ حماس، الفتح یا اور کوئی فلسطینی پارٹی نہیں ہے بلکہ وہ معصوم شہری ہیں جن کا خون ارزاں ہے۔
اگر مغربی میڈیا کی بات کی جائے تو وہ فلسطینیوں کے درد کو بیان نہیں کر رہا کیونکہ اسرائیل کی یہودی لابی تمام بڑے میڈیا ہاؤسز پر مکمل طور پر قابض ہے۔ اسرائیل اور یہودی تمام دنیا میں ڈبل ایم یعنی (Media and Money) کو کنٹرول کرنے میں بہت آگے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی لیے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ او آئی سی کے ستاون اسلامی ممالک کے کنٹرول میں کون سا میڈیا ہے جوکہ مغرب پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاں تک انسانی حقوق کے اداروں کی بات ہے تو وہ دہرے معیارات کے حامل ہیں۔ انسانی حقوق کے تمام ادارے فلسطین میں حقائق دیکھ رہے ہیں اور وہ اسرائیلی جارحیت کے چشم دید گواہ ہیں چاہے وہ چیک پوسٹوں پر ہونے والا تشدد ہو، وہ قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو، عورتوں، بچوں اور طلباء پر ڈھائے جانے والے مظالم ہوں، غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل کی جانب سے کی جانیوالی سنگین خلاف ورزیاں ہوں۔
اس سب کے باوجود مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ابھی تک جتنی بھی قراردادیں فلسطین کے لیے منظور کی گئی ہیں وہ سب کی سب قراردادیں کسی الماری کی زینت ہیں۔ مسئلہ فلسطین کا واحد حل مسلم دنیا کی قیادت کے پاس ہے جس کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ جب تک پوری مسلم قیادت اپنے دل و جذبات کے ساتھ عملی طور پر فلسطین کی مدد نہیں کرتی، مسئلہ فلسطین کے یقینی حل کی طرف کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
اسرائیل کی بنیاد رکھنے والوں کے درمیان یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آئیں گے، انھیں اپنی جگہوں پر لوٹنے کا حق ہو گا لیکن اس کے تناظر میں فلسطینی اپنی سر زمین پر واپس نہیں آسکے۔
عالمی جنگ میں عرب ممالک سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف برطانوی اتحاد کی حمایت پر اس شرط پر شامل ہوئے کہ جنگ میں جیت کی صورت میں انھیں آزادی دے دی جائے گی ، مگر جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر پر نظر رکھنے والی طاقتوں نے خطے کو اپنی مرضی کے مطابق بانٹنا شروع کردیا اور نئی سرحدی تقسیم کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کے علاقے کو تقسیم کر کے یہاں یہودی مملکت کی بنیاد رکھی گئی اور کئی وعدوں کے سائے میں فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا۔
مشرقی یروشلم جو جھگڑے کی بنیاد تھی،اس پر طے ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ مشرقی یروشلم میں ہی رہے گی اور طے کیا جائے گا کہ یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں رہے گا یا آزاد رہے گا۔ اس دوران کئی تبدیلیاں ہوئیں جس سے فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا ، جس کی وجہ سے وہ چھاپہ مار جنگ پر اتر آئے۔ تاریخی اعتبار سے جو ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ دنیا کو مسئلہ فلسطین کے حل پر توجہ دینی چاہیے، ورنہ یہ جنگ تب تک جاری رہے گی جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں مل جاتا۔
اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے ستائیس ممالک کی ہمدردیاں منقسم ہیں۔ فلسطینیوں کے حامی ممالک یورپی یونین میں صرف چند ہیں،ان ممالک کا کہنا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے یورپی یونین کو فلسطینیوں کی مزید حمایت کرنی چاہیے۔ یہ ممالک ماضی میں بھی فلسطینیوں کے حق میں بیانات دیتے آئے ہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے کئی ممالک اسرائیلی مفادات کی کھلی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں ہنگری، جمہوریہ چیک، آسٹریا، یونان، قبرص اور پولینڈ پیش پیش ہیں۔
جرمنی یورپی یونین کا ایک طاقتور ملک ہے لیکن دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کے قتل عام اور نازی جرائم کی وجہ سے یہ ابھی تک خود کو قصوروار سمجھتا ہے اور نازی جرائم کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی نے کبھی بھی اسرائیل مخالف اقدامات کی حمایت نہیں کی۔
29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی علاقوں کو تقسیم کر کے عرب مسلم ریاست ، یہودی ریاست اسرائیل قائم کرنے اور یرو شلم کو اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول رکھنے کی قرار داد منظورکی، تاہم 1967 میں فوجی طاقت کے بل بوتے پر اسرائیل نے متعدد فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ کر لیا اور ان علاقوں میں سکونت پذیر فلسطینیوں کو بے دخل کر کے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔
اسرائیل اپنے قیام سے آج تک فلسطینیوں کو ان کی آبائی سر زمین سے بے دخل کرنے کے لیے فوجی طاقت کے ذریعے نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتا رہا ہے اور آج بھی لاکھوں فلسطینی ہمسایہ مسلم ممالک میں کیمپوں میں زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطینی اپنی آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور اس جدوجہد میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت ہزاروں نوجوان شہید ہو چکے ہیں۔
رمضان المبارک کا آخری جمعہ دنیا بھرکے مسلمانوں کی طرف سے مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کے لیے رکھا گیا ہے۔ ارض فلسطین کے مظلوم مسلمان گزشتہ ایک صدی سے جبر و تسلط کی چکیوں میں پس رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے نہایت چالاکی اور سفاکی سے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کا بندوبست کر کے ارض مقدس کے باسیوں سے ان کی اپنی ہی زمین چھین لی ہے۔
فلسطین کے مسئلہ پر 1948اور 1967میں دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیں ، لیکن امریکا اور مغربی طاقتوں نے تمام اصول و قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل کے قیام اور وسعت کے لیے بھر پور ساتھ دیا ہے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے جب بھی اسرائیلی حکومت داخلی مسائل سے دوچار ہوتی ہے تو وہ اپنے مسائل غزہ یا جنوبی لبنان میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے عرب ممالک کی بد قسمتی کہیے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد عرب ممالک کے حصے بخرے کیے گئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین میں یہودی آباد کاری کی راہیں ہموار ہوگئیں۔
فلسطینیوں کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ ملین کے قریب فلسطینی اسرائیل میں رہ رہے ہیں اور وہ اپنے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک اور ناروا رویوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ اسرائیلی شہریت کے حامل ہیں تاہم انھیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔
دوسرے وہ فلسطینی ہیں جو غزہ اور مغربی کنارہ بشمول یروشلم میں آباد ہیں اور اسرائیلی قبضہ کا سامنا کررہے ہیں۔ تیسرا گروہ ان فلسطینیوں پر مشتمل ہے جو دنیا بھر میں مقیم ہیں اور اپنی واپسی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تاکہ اپنے علاقے میں آباد ہو سکیں۔جب تک فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے اور آزاد فلسطین کا قیام عمل میں نہیں آجاتا، آزادی کی یہ جد وجہد جاری رہے گی۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل صیہونیت کی نمایندگی کرتا ہے جو در حقیقت مغربی نظریہ اور مغربی سیاسی ایجنڈا ہے۔ یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب یورپ میں یہودیوں کا ہولوکاسٹ کیا گیا تو اس وقت یہودی نہ صرف فلسطین بلکہ دیگر عرب ممالک میں بھی رہ رہے تھے اور ان کے ساتھ یکساں اور منصفانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اصل مسئلہ فلسطین پر اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے۔
اس کی کھلی جارحیت کے خلاف جدوجہد کرنا یقیناً فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے۔ جغرافیائی طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں کوئی رابطہ نہیں ہے۔
1967 سے قبل غزہ کی پٹی مصر کے زیر انتظام تھی اور مغربی کنارہ اردن کے زیر انصرام تھا مگر ان دونوں کے بیچ کوئی جغرافیائی رابطہ نہیں تھا۔ اسی لیے آج غزہ میں لاکھوں لوگ دنیا سے الگ تھلگ اورکٹے ہوئے ہیں۔ وہ اسرائیلی محاصرے میں ہیں اور ان سے قیدیوں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
موجودہ صورتحال انتہائی کرب ناک ہے۔ اسرائیل کی نہایت مضبوط اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج معصوم فلسطینی شہریوں، بچوں اور خواتین پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ ہرکوئی جانتا ہے کہ اس تنازعے کا اصل شکار کون رہا، مگر بد قسمتی سے جب اسرائیل اور فلسطین کی بات آتی ہے تو عالمی برادری دہرے معیارات اختیار کرتی ہے۔
ایک نرالی منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف ایف سولہ طیارے عمارتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری جانب ہاتھ سے بنے ہوئے راکٹ اسرائیل کی جانب پھینکے جا رہے ہیں ۔
جن کی وجہ سے نہ کوئی اسرائیلی ہلاک ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی زخمی۔ فی اللعجب ! اس وقت جوکچھ ارض مقدس پر ہورہا ہے وہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کا بد ترین اظہار ہے جس کا شکار معصوم شہری بن رہے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس ساری صورتحال میں اصل مسئلہ حماس، الفتح یا اور کوئی فلسطینی پارٹی نہیں ہے بلکہ وہ معصوم شہری ہیں جن کا خون ارزاں ہے۔
اگر مغربی میڈیا کی بات کی جائے تو وہ فلسطینیوں کے درد کو بیان نہیں کر رہا کیونکہ اسرائیل کی یہودی لابی تمام بڑے میڈیا ہاؤسز پر مکمل طور پر قابض ہے۔ اسرائیل اور یہودی تمام دنیا میں ڈبل ایم یعنی (Media and Money) کو کنٹرول کرنے میں بہت آگے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی لیے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ او آئی سی کے ستاون اسلامی ممالک کے کنٹرول میں کون سا میڈیا ہے جوکہ مغرب پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاں تک انسانی حقوق کے اداروں کی بات ہے تو وہ دہرے معیارات کے حامل ہیں۔ انسانی حقوق کے تمام ادارے فلسطین میں حقائق دیکھ رہے ہیں اور وہ اسرائیلی جارحیت کے چشم دید گواہ ہیں چاہے وہ چیک پوسٹوں پر ہونے والا تشدد ہو، وہ قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو، عورتوں، بچوں اور طلباء پر ڈھائے جانے والے مظالم ہوں، غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل کی جانب سے کی جانیوالی سنگین خلاف ورزیاں ہوں۔
اس سب کے باوجود مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ابھی تک جتنی بھی قراردادیں فلسطین کے لیے منظور کی گئی ہیں وہ سب کی سب قراردادیں کسی الماری کی زینت ہیں۔ مسئلہ فلسطین کا واحد حل مسلم دنیا کی قیادت کے پاس ہے جس کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ جب تک پوری مسلم قیادت اپنے دل و جذبات کے ساتھ عملی طور پر فلسطین کی مدد نہیں کرتی، مسئلہ فلسطین کے یقینی حل کی طرف کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
اسرائیل کی بنیاد رکھنے والوں کے درمیان یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آئیں گے، انھیں اپنی جگہوں پر لوٹنے کا حق ہو گا لیکن اس کے تناظر میں فلسطینی اپنی سر زمین پر واپس نہیں آسکے۔
عالمی جنگ میں عرب ممالک سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف برطانوی اتحاد کی حمایت پر اس شرط پر شامل ہوئے کہ جنگ میں جیت کی صورت میں انھیں آزادی دے دی جائے گی ، مگر جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر پر نظر رکھنے والی طاقتوں نے خطے کو اپنی مرضی کے مطابق بانٹنا شروع کردیا اور نئی سرحدی تقسیم کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کے علاقے کو تقسیم کر کے یہاں یہودی مملکت کی بنیاد رکھی گئی اور کئی وعدوں کے سائے میں فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا۔
مشرقی یروشلم جو جھگڑے کی بنیاد تھی،اس پر طے ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ مشرقی یروشلم میں ہی رہے گی اور طے کیا جائے گا کہ یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں رہے گا یا آزاد رہے گا۔ اس دوران کئی تبدیلیاں ہوئیں جس سے فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا ، جس کی وجہ سے وہ چھاپہ مار جنگ پر اتر آئے۔ تاریخی اعتبار سے جو ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ دنیا کو مسئلہ فلسطین کے حل پر توجہ دینی چاہیے، ورنہ یہ جنگ تب تک جاری رہے گی جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں مل جاتا۔