عوام کو سکھ کا سانس کب نصیب ہوگا
ملک کے دیوالیہ اور ڈیفالٹ کر جانے کے خدشات کی وجہ سے اس قوم پر بہت ظلم ہوچکا ہے
مہنگائی کا جن بری طرح بے قابو ہوچکا ہے۔ موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے ایک سال بیت چکا ہے۔ یہ حکومت یہ کہہ کر برسر اقتدار آئی تھی کہ وہ جلد سے جلد قوم کو مہنگائی کے چنگل سے باہر نکالے گی۔
ابتدائی چھ ماہ کے وزیر خزانہ قوم سے قربانی دینے کی درخواستیں اس وعدہ پر کرتے رہے کہ چند ماہ میں حالات بہتر ہوجائیں گے اور جیسے ہی IMF سے معاہدہ فائنل ہوجائے گا، قوم کو سکھ کا سانس نصیب ہونا شروع ہو جائے گا۔
ایک ارب ڈالر سے نہ ملک کے حالات سدھر جانے تھے اور نہ عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہونا تھا۔ یہ غلط فہمی یا خوش فہمی موصوف مفتاح اسمعیل کو نجانے کیوں ہوگئی تھی۔ ایک ارب ڈالر سے زیادہ تو واجب الادا قرضے موجود تھے جن کی بروقت ادائیگی اگر نہ کی جاتی تو ملک کا دیوالیہ قراردیا جانا یقینی تھا۔ دوست ممالک کی مدد سے یہ انتہائی مشکل وقت تو نکال دیا گیا لیکن مہنگائی کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں اُن کے بارے میں بد گمانیاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔
نتیجتاً حکومت وقت نے انھیں اپنے عہدے سے ہٹا کر اور اسحاق ڈار کو لاکر بظاہر یہ جتانے کی کوشش کردی کہ اسحق ڈار اپنی ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر اس مشکل وقت کو عوام کے سروں پر سے ٹال دیں گے، خود اُن کے بیانوں سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ چونکہ انھیں IMFسے ڈیلنگ کرنے کا وسیع تجربہ ہے وہ ضرور انھیں اپنی مجبوریوں کا احساس دلا کے اس بات پر قائل کرلیں گے کہ IMFاگر ہمیں فوری امداد کی منظوری دیدے تو ہم پر سے یہ معاشی بحران ٹل جائے گا اور ہم ایک بار پھر سے بہتری کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔
گزشتہ برس ہونے والی بارشوں اور سیلابوں کا بھی ذکر کیا گیا لیکن IMFٹس سے مس نہیں ہوا اور عوام کا گلا دبوچنے اور اُن پر بے تحاشہ ٹیکس لگانے اور مہنگائی کرنے کی اپنی رٹ اور مطالبے پر بضد اور ڈٹا رہا۔ اس کے مطالبے پر مہنگائی ہوتی رہی ، ڈالر کو اپنی مرضی کی اُڑان پر مادر پدر آزاد چھوڑ دیا گیا اور تمام کے تمام مطالبے منظور ہوجانے کے بعد بھی یہ معاہدہ ابھی تک کوئی حتمی شکل اختیار نہ کر پایا۔
ہرچند دنوں بعد اُن کی طرف سے کوئی نیا مطالبہ سامنے آجاتا اور حکومت اس پر عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں سرگرم اور سرگرداں ہوجاتی ۔ 9فروری 2023 کو اُن کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تکمیل پر حکومت کی طرف سے اس امر کا اظہار کیا گیا کہ تمام مطالبوں پر عمل ہوچکا ہے اور اب یہ معاہدہ چند دنوں میں فائنل شکل اختیار کر جائے گا۔ مگر آج دو ماہ بعد بھی یہ معاہدہ مکمل نہیں ہو پایا ہے اور اب ایک نیا مطالبہ سامنے آگیا ہے کہ پہلے یہ بتایا جائے کہ کون کون سے دوست ممالک آپ کی امداد کرنے پر راضی ہوچکے ہیں ۔
جب کہ اس دور سے پہلے ہمیں آج تک یہی بتایا جاتا رہا کہ دوست ممالک IMFسے ہونے والی ڈیل کا انتظار کر رہے ہیں ، جیسی ہی یہ ڈیل منظور ہوجائے گی دوست ممالک بھی ہمیں قرضہ دے دینگے، مگر اب گنگا الٹی بہنے لگی ہے۔ پہلے دوست ممالک اپنے وعدے اور ایفائے عہد کا یقین دلائیں پھر IMF ایک قدم آگے بڑھے گا۔ ہمیں اب بھی یہ پتا نہیں ہے کہ تناسب کچھ کرلینے کے باوجود IMF ہمیں قرضہ دے گا بھی یا نہیں۔ صرف ایک ارب ڈالر کے لیے اُن کے اتنے جتن شاید ہی پہلے کبھی کیے گئے ہوں۔
IMF کے ان لاتعداد مطالبوں کے پیچھے دراصل مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔ وہ ہمیں اپنے شکنجے میں کس کے رکھنے کی پالیسی پر سختی سے قائم ہے۔ اُسے ہمارا خود انحصار اور خود کفیل ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اُسے ڈر ہے کہ پاکستان اگر معاشی و اقتصادی طور پر مستحکم اور مضبوط ہوگیا تو وہ ہماری گرفت سے نکل جائے گا۔
اُسے نہ صرف ہمارا نیوکلیئر پروگرام ناگوار گذرتا ہے بلکہ سی پیک یعنی اقتصادی راہداری بھی قطعاً ناپسند ہے ، وہ چاہتا ہے کہ یہ پروجیکٹ فوری طور پرنہ صرف روک دیا جائے بلکہ ختم ہی کردیا جائے۔ سابقہ عمرانی دور میں وہ اپنے اس عزم اور خواہش میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوچکا تھا اور سی پیک منصوبے پر تمام کام روک چکا تھا ، لیکن اب اسے پھر سے وہی وسوسے اور خدشات ستانے لگے ہیں کہ کہیں یہ حکومت اس منصوبے پر پھر سے کام شروع نہ کردے ۔
اُس کا اصل نشانہ اور ٹارگٹ یہی دو پروجیکٹس ہیں جن کو رول بیک کرنے کی وہ اپنی مذموم کوششوں اور ارادوں پرسختی سے قائم اور عمل پیرا ہے۔ اس کابس نہیں چلتا کہ علی الاعلان وہ ہم سے یہ مطالبہ کردے لیکن مختلف طریقوں سے ہم پر دباؤ ڈالے جا رہا ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس IMF کے پیچھے دنیا کی کونسی بڑی طاقت کارفرما ہے اور کس کی ایماء پر یہ IMF مخصوص ممالک کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتا ہے۔
IMFکے مطالبے پر اس حکومت نے عوام کے سروں پر مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی گرانی کے جو بم گرائے ہیں ، وہ اس سے پہلے کبھی بھی نہیں گرائے گئے تھے۔ افسوس کی بات تو یہ کہ تناسب کچھ کرلینے کے باوجود IMF نے ابھی تک معاہدہ پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ یہ معاہدہ ابھی تک کوئی حتمی شکل بھی اختیار نہیں کر پایا ہے اور کوئی بعید از قیاس بھی نہیں کہ یہ معاہدہ شاید ہو بھی نہ پائے۔ ایسی صورت میں ہماری کیا حکمت عملی ہوگی ہمیں اس پر ابھی سے سوچ لینا چاہیے۔
کیا ہمIMF سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں اس مشکل صورت حال سے باہر نکل پائیں گے۔ ایک سال ہوچکا ہے، ہم صرف فرضی اور خیالی آسرے پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ قوم پر مہنگائی کے جتنے بم گرانے تھے وہ ہم نے سب گرا دیے ہیں۔ اس کے بعد اور کوئی حربہ باقی بھی نہیں رہا۔
جس IMF کے مطالبے پر ہم نے اپنی قوم پر جو بم گرائے ہیں وہ اگر اب بھی یہ معاہدہ نہیںکرتا ہے تو کیوں نہ ہم اپنے عوام کو ریلیف دینے کی غرض سے وہ مہنگائی رول بیک کردیں اور اشیائے ضروریہ کے دام پھر سے اسی سطح پر لے آئیں جس سطح پر اس ڈیل کے شروع ہونے سے پہلے تھے۔ جب IMF ہمیں قرض دے ہی نہیں رہا تو پھر اس مہنگائی کو واپس کرنے میں کیا قباحت اور رکاوٹ ہے۔ خدارا عوام کا سوچیے، وہ کب تک ہمارے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگتتی رہے گی۔
ملک کے دیوالیہ اور ڈیفالٹ کر جانے کے خدشات کی وجہ سے اس قوم پر بہت ظلم ہوچکا ہے۔ یہ خدشات لگتا ہے کبھی بھی ختم نہیں ہونگے ، ہمارے سروں پر یہ تلوار ہر وقت لٹکی رہے گی۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے ، وہ ڈیفالٹ کرجانے کے بعد بھی آج زندہ ہے اور سانس بھی لے رہا ہے۔ ہم ابھی ڈیفالٹ بھی نہیں ہوئے لیکن ہماری سانسیں بند کردی گئی ہیں۔
چھوڑیے IMF کی منت و سماجت اور اپنے پیروں پرکھڑا ہونے کی تدابیر کریں۔ ایک لمحہ کے لیے یہ فرض کرلیں کہ IMF نے معاہدہ کرنے سے انکارکر دیا ہے۔ اب بتائیے ایسی صورت میں ہم کیا کریں گے۔ لہٰذا یہ فیصلہ فوری طور پر آج ہی کر لیں اور غیرت مند قوم کی طرح جینا سوچیں۔ ویسے بھی اس ایک ارب ڈالر سے ہماری معاشی صورتحال کچھ زیادہ بہتر تو ہونے والی نہیں ہے ۔
ابتدائی چھ ماہ کے وزیر خزانہ قوم سے قربانی دینے کی درخواستیں اس وعدہ پر کرتے رہے کہ چند ماہ میں حالات بہتر ہوجائیں گے اور جیسے ہی IMF سے معاہدہ فائنل ہوجائے گا، قوم کو سکھ کا سانس نصیب ہونا شروع ہو جائے گا۔
ایک ارب ڈالر سے نہ ملک کے حالات سدھر جانے تھے اور نہ عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہونا تھا۔ یہ غلط فہمی یا خوش فہمی موصوف مفتاح اسمعیل کو نجانے کیوں ہوگئی تھی۔ ایک ارب ڈالر سے زیادہ تو واجب الادا قرضے موجود تھے جن کی بروقت ادائیگی اگر نہ کی جاتی تو ملک کا دیوالیہ قراردیا جانا یقینی تھا۔ دوست ممالک کی مدد سے یہ انتہائی مشکل وقت تو نکال دیا گیا لیکن مہنگائی کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں اُن کے بارے میں بد گمانیاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔
نتیجتاً حکومت وقت نے انھیں اپنے عہدے سے ہٹا کر اور اسحاق ڈار کو لاکر بظاہر یہ جتانے کی کوشش کردی کہ اسحق ڈار اپنی ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر اس مشکل وقت کو عوام کے سروں پر سے ٹال دیں گے، خود اُن کے بیانوں سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ چونکہ انھیں IMFسے ڈیلنگ کرنے کا وسیع تجربہ ہے وہ ضرور انھیں اپنی مجبوریوں کا احساس دلا کے اس بات پر قائل کرلیں گے کہ IMFاگر ہمیں فوری امداد کی منظوری دیدے تو ہم پر سے یہ معاشی بحران ٹل جائے گا اور ہم ایک بار پھر سے بہتری کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔
گزشتہ برس ہونے والی بارشوں اور سیلابوں کا بھی ذکر کیا گیا لیکن IMFٹس سے مس نہیں ہوا اور عوام کا گلا دبوچنے اور اُن پر بے تحاشہ ٹیکس لگانے اور مہنگائی کرنے کی اپنی رٹ اور مطالبے پر بضد اور ڈٹا رہا۔ اس کے مطالبے پر مہنگائی ہوتی رہی ، ڈالر کو اپنی مرضی کی اُڑان پر مادر پدر آزاد چھوڑ دیا گیا اور تمام کے تمام مطالبے منظور ہوجانے کے بعد بھی یہ معاہدہ ابھی تک کوئی حتمی شکل اختیار نہ کر پایا۔
ہرچند دنوں بعد اُن کی طرف سے کوئی نیا مطالبہ سامنے آجاتا اور حکومت اس پر عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں سرگرم اور سرگرداں ہوجاتی ۔ 9فروری 2023 کو اُن کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تکمیل پر حکومت کی طرف سے اس امر کا اظہار کیا گیا کہ تمام مطالبوں پر عمل ہوچکا ہے اور اب یہ معاہدہ چند دنوں میں فائنل شکل اختیار کر جائے گا۔ مگر آج دو ماہ بعد بھی یہ معاہدہ مکمل نہیں ہو پایا ہے اور اب ایک نیا مطالبہ سامنے آگیا ہے کہ پہلے یہ بتایا جائے کہ کون کون سے دوست ممالک آپ کی امداد کرنے پر راضی ہوچکے ہیں ۔
جب کہ اس دور سے پہلے ہمیں آج تک یہی بتایا جاتا رہا کہ دوست ممالک IMFسے ہونے والی ڈیل کا انتظار کر رہے ہیں ، جیسی ہی یہ ڈیل منظور ہوجائے گی دوست ممالک بھی ہمیں قرضہ دے دینگے، مگر اب گنگا الٹی بہنے لگی ہے۔ پہلے دوست ممالک اپنے وعدے اور ایفائے عہد کا یقین دلائیں پھر IMF ایک قدم آگے بڑھے گا۔ ہمیں اب بھی یہ پتا نہیں ہے کہ تناسب کچھ کرلینے کے باوجود IMF ہمیں قرضہ دے گا بھی یا نہیں۔ صرف ایک ارب ڈالر کے لیے اُن کے اتنے جتن شاید ہی پہلے کبھی کیے گئے ہوں۔
IMF کے ان لاتعداد مطالبوں کے پیچھے دراصل مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔ وہ ہمیں اپنے شکنجے میں کس کے رکھنے کی پالیسی پر سختی سے قائم ہے۔ اُسے ہمارا خود انحصار اور خود کفیل ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اُسے ڈر ہے کہ پاکستان اگر معاشی و اقتصادی طور پر مستحکم اور مضبوط ہوگیا تو وہ ہماری گرفت سے نکل جائے گا۔
اُسے نہ صرف ہمارا نیوکلیئر پروگرام ناگوار گذرتا ہے بلکہ سی پیک یعنی اقتصادی راہداری بھی قطعاً ناپسند ہے ، وہ چاہتا ہے کہ یہ پروجیکٹ فوری طور پرنہ صرف روک دیا جائے بلکہ ختم ہی کردیا جائے۔ سابقہ عمرانی دور میں وہ اپنے اس عزم اور خواہش میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوچکا تھا اور سی پیک منصوبے پر تمام کام روک چکا تھا ، لیکن اب اسے پھر سے وہی وسوسے اور خدشات ستانے لگے ہیں کہ کہیں یہ حکومت اس منصوبے پر پھر سے کام شروع نہ کردے ۔
اُس کا اصل نشانہ اور ٹارگٹ یہی دو پروجیکٹس ہیں جن کو رول بیک کرنے کی وہ اپنی مذموم کوششوں اور ارادوں پرسختی سے قائم اور عمل پیرا ہے۔ اس کابس نہیں چلتا کہ علی الاعلان وہ ہم سے یہ مطالبہ کردے لیکن مختلف طریقوں سے ہم پر دباؤ ڈالے جا رہا ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس IMF کے پیچھے دنیا کی کونسی بڑی طاقت کارفرما ہے اور کس کی ایماء پر یہ IMF مخصوص ممالک کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتا ہے۔
IMFکے مطالبے پر اس حکومت نے عوام کے سروں پر مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی گرانی کے جو بم گرائے ہیں ، وہ اس سے پہلے کبھی بھی نہیں گرائے گئے تھے۔ افسوس کی بات تو یہ کہ تناسب کچھ کرلینے کے باوجود IMF نے ابھی تک معاہدہ پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ یہ معاہدہ ابھی تک کوئی حتمی شکل بھی اختیار نہیں کر پایا ہے اور کوئی بعید از قیاس بھی نہیں کہ یہ معاہدہ شاید ہو بھی نہ پائے۔ ایسی صورت میں ہماری کیا حکمت عملی ہوگی ہمیں اس پر ابھی سے سوچ لینا چاہیے۔
کیا ہمIMF سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں اس مشکل صورت حال سے باہر نکل پائیں گے۔ ایک سال ہوچکا ہے، ہم صرف فرضی اور خیالی آسرے پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ قوم پر مہنگائی کے جتنے بم گرانے تھے وہ ہم نے سب گرا دیے ہیں۔ اس کے بعد اور کوئی حربہ باقی بھی نہیں رہا۔
جس IMF کے مطالبے پر ہم نے اپنی قوم پر جو بم گرائے ہیں وہ اگر اب بھی یہ معاہدہ نہیںکرتا ہے تو کیوں نہ ہم اپنے عوام کو ریلیف دینے کی غرض سے وہ مہنگائی رول بیک کردیں اور اشیائے ضروریہ کے دام پھر سے اسی سطح پر لے آئیں جس سطح پر اس ڈیل کے شروع ہونے سے پہلے تھے۔ جب IMF ہمیں قرض دے ہی نہیں رہا تو پھر اس مہنگائی کو واپس کرنے میں کیا قباحت اور رکاوٹ ہے۔ خدارا عوام کا سوچیے، وہ کب تک ہمارے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگتتی رہے گی۔
ملک کے دیوالیہ اور ڈیفالٹ کر جانے کے خدشات کی وجہ سے اس قوم پر بہت ظلم ہوچکا ہے۔ یہ خدشات لگتا ہے کبھی بھی ختم نہیں ہونگے ، ہمارے سروں پر یہ تلوار ہر وقت لٹکی رہے گی۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے ، وہ ڈیفالٹ کرجانے کے بعد بھی آج زندہ ہے اور سانس بھی لے رہا ہے۔ ہم ابھی ڈیفالٹ بھی نہیں ہوئے لیکن ہماری سانسیں بند کردی گئی ہیں۔
چھوڑیے IMF کی منت و سماجت اور اپنے پیروں پرکھڑا ہونے کی تدابیر کریں۔ ایک لمحہ کے لیے یہ فرض کرلیں کہ IMF نے معاہدہ کرنے سے انکارکر دیا ہے۔ اب بتائیے ایسی صورت میں ہم کیا کریں گے۔ لہٰذا یہ فیصلہ فوری طور پر آج ہی کر لیں اور غیرت مند قوم کی طرح جینا سوچیں۔ ویسے بھی اس ایک ارب ڈالر سے ہماری معاشی صورتحال کچھ زیادہ بہتر تو ہونے والی نہیں ہے ۔