کیا واقعی
بات کو کچھ اور پھیلا کر وزیر، مشیر، معاونین اور لیڈر بھی درآمد کیے جا سکتے ہیں
پاکستان میں ان دنوں ویسے بھی ''شورشرابے'' کا بول بالا ہے چنانچہ اس میں ''رمضان پیکیج'' بھی سراسر خوشخبریوں سے بھرا ہوا تھا، مفت آٹا، مفت یہ مفت وہ، ایسا لگتا تھا جیسے غریبوں کی اس مرتبہ شادی ہو ہی جائے گی اور امیروں پر وہ ہو جائے گی جو کبھی نہیں ہوا تھا لیکن ہم جانتے تھے کہ ''گنجی کی شادی'' نہ کبھی ہوئی تھی نہ ہوگی چنانچہ ہم جانتے تھے کہ گنجی روتی رہ جائے گی اوردل والے دلہنیا ہرگز نہیں لے جائیں گے صرف جہیز لے کر چلے جائیں گے۔
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دورکہیں کھو جائے گا
روتے روتے بیٹھ جائے گی آوازکسی سودائی کی
چونکہ ہم خود گنجوں میں ہیں، اس لیے ہمیں معلوم تھا ہم جانتے تھے، مانتے اور لوگوں کو پہنچاتے تھے، اس لیے چاہتے تھے کہ سب کچھ بجا، غریبوں کے لیے رمضان پیکیج بھی خوب ہے اس لیے ایک مشورہ دینا چاہتے تھے، کوشش بھی کی کہ کسی نہ کسی طرح اپنی آواز یا مشورہ ''کانوں'' تک پہنچا دیں لیکن گنجی کی سنتا کون ہے۔
مشورہ یہ دینا تھا ان رمضان پیکیج والوں کو کہ جہاں زرکثیر صرف کر رہے ہو، اربوں روپے عوام کو تحفہ میں دے رہے ہو وہاں ایک چھوٹا سا کام اگر یہ بھی کر دو تو واقعی گنجی کی شادی ہو جائے گی۔ کرنا صرف اتنا تھا کہ تقسیم کرنے والے بھی کہیں کسی باہرکے ملک سے منگوانا یا بلوانا تھے اورکسی غیرمسلمان ملک سے منگوانا تھے جو رمضان کی ''برکات'' سے ناواقف ہوتے، تب ہو سکتا تھا کہ عوام کو واقعی ''کچھ'' مل جاتا، ورنہ اگر وہی ''پٹواری'' اور تھانیدار ہوتے تو حشرنشر بھی تمام گزشتہ پیکیجوں کی طرح ہونا تھا اور وہ ہوگیا۔ رمضان پیکیج جہاں جہاں پہنچانا تھا پہنچ گیا، کیوںکہ تقسیم کرنے والے ''وہی'' تھے جو تھے جو ہیں اور جو ہوتے ہیں۔
یہ شاید کسی کا ایک چھوٹا سا افسانہ ہے کہ ایک شخص کھیت میں ہل چلا رہا تھا کہ اتنے میں ایک اور آدمی اس کے پاس آکر بولا، یہ تم کیا حماقت کر رہے ہو، آج کے دن بھی ہل چلا رہے ہو۔ ہل چلانے والے نے پوچھا، کیوں؟ آج کیا ہے، دوسرا بولا، کم بخت آج یوم آزادی ہے ہر جگہ لوگ جشن منا رہے ہیں آؤ ہم تم بھی شہر جاتے ہیں اور جشن میں شریک ہوتے ہیں۔
ہالی نے پوچھا، کیسی آزادی اور کیسا جشن؟ دوسرے نے کہا انگریزجا رہے ہیں ہمارا ملک آزاد کر کے۔ ہل چلانے والا خوش ہو کر بولا۔ پھر تو واقعی یوم آزادی اور جشن کا دن ہے، ٹھہرو دونوں چلتے ہیں اور اپنے بیل کھولنے لگا لیکن اچانک کچھ سوچ کر بولا، انگریز اپنے ساتھ پٹواری اور تھانیدار کو بھی لے جارہے ہیں نا۔ دوسرے نے کہا نہیں صرف انگریزجا رہے ہیں، پٹواری اور تھانیدار یہیں رہیں گے۔ ہل چلانے والے نے کہا جب پٹواری اور تھانیدار یہاں ہم پر چھوڑ رہے ہیں تو کیسی آزادی کیسا جشن اور پھر ٹخ ٹخ کر کے ہل چلانے لگا۔
اور ہم کہنا چاہتے تھے لیکن ہماری کسی نے بھی نہیں سنی اور رمضان پیکیج ان ہی ''یوٹیلٹی'' والوں کے ''بابرکت'' ہاتھوں میں دے دیا اور وہ ''پہنچ گیا'' جہاں اسے پہنچانا تھا، پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ آخر پچھترسال کا تجربہ بھی کوئی چیز ہے۔
عوام کے ان سوکھے ساکھے بدبخت عوامی منہ میں اگر کیل بھی اڑ کر جائے تو پھر تف ہے ان کی مہارت اور پچھتر سالہ تجربے پر۔ وہ جوکسی بزرگ یا بزرگہ نے کہا ہے کہ... بات نکلے گی تو پھر دورتلک جائے گی اور قول زرین بھی ہے کہ... ایک سناتا ہوں دوسری (بات) دم ہلاتی ہے چنانچہ یہ ''باہر'' سے لوگ منگوانے کا جو سلسلہ ہے یہ اگر کچھ اور بھی دراز کیا جائے تو اور زیادہ فائدہ مند ہو گا مثلاً یہ جو سرکاری محکموں میں وزیروں، مشیروں اور کونسلروں کے بھرتی کیے ہوئے لوگ، کام نہ کرنے کے کام پر مامور ہیں۔ ان کی جگہ بھی اگر ''دساور'' سے لوگ درآمد کیے جائیں تو یہ فائدہ ہوگا کہ آرام اورکام ساتھ چلیں گے۔ یوں کہیے کہ ''لاڈلے'' کام نہ کرنے کا اور درآمد شدہ لوگ کام کرنے کا کام سنبھالیں، یہ ہاتھی کے دکھانے والے دانت اور وہ کھانے والے دانت ہوں گے۔
بات کو کچھ اور پھیلا کر وزیر، مشیر، معاونین اور لیڈر بھی درآمد کیے جا سکتے ہیں یا یوں کہیے کہ حکومت ہی اگر درآمدی لوگوں کو ٹھیکے پر دی جائے تو مزید فائدہ ہو سکتاہے، البتہ مختلف کارڈ انکم سپورٹ اور امدادی پیکیج کا کام اپنے ہاتھ میں رکھا جا سکتا ہے کیوں کہ اس کام کے ماہر اپنے ہاں کے زیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں۔
اب اس بیج میں ایک چھوٹا سا سوال ان کی تنخواہوں، واجبات، مراعات اورکرپشنات کا آتا ہے لیکن اس کی کوئی چنتا نہیں۔ خدا نے ہم کو پچیس کروڑ کالانعام ایسے دے رکھے ہیں جو بیک وقت تیل کے کنوئیں بھی ہیں، دودھ بھی دیتے ہیں اور انڈے بھی، جن کی اون بھی روزانہ اتاری جا سکتی ہے اورکھال بھی۔ اور تیل بھی نکالا جا سکتا ہے وہ ایک بھارتی اساطیری کہانی کے مطابق وہ ''گائے'' ہے جو سب کچھ مہیا کر دیتی ہے۔
بات رمضان پیکیج سے چلی تھی اورکہاں پہنچ گئی، خاص طور پر یہ جو ''یوٹیلیٹی اسٹور'' نام کا دام ہمرنگ زمین ہے اس کے تو کیا کہنے۔ جن میں ہر وقت ہر وہ چیز دستیاب ہوتی ہے جس کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ صرف اخباروں یا پیکیجوں میں ہوتی ہے، ویسے ایک بات ان یوٹیلیٹی اسٹورز کی بڑی اچھی ہے، قوم کو منظم کرنے کے کام کو ان ہی اسٹوروں نے بڑی ترقی دی ہے جو لوگ یہاں وہاں فضول آوارہ گردی کرتے تھے، ان کو قطاروں میں بٹھانا اور صبر کرنا ان ہی اسٹورز نے دکھایا ہے بلکہ صابرین اور شاکرین دونوں کو ان ہی نے فروغ دیا ہوا ہے جن کو مل جاتا ہے وہ شاکرین اور باقی صابرین
اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں
اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دورکہیں کھو جائے گا
روتے روتے بیٹھ جائے گی آوازکسی سودائی کی
چونکہ ہم خود گنجوں میں ہیں، اس لیے ہمیں معلوم تھا ہم جانتے تھے، مانتے اور لوگوں کو پہنچاتے تھے، اس لیے چاہتے تھے کہ سب کچھ بجا، غریبوں کے لیے رمضان پیکیج بھی خوب ہے اس لیے ایک مشورہ دینا چاہتے تھے، کوشش بھی کی کہ کسی نہ کسی طرح اپنی آواز یا مشورہ ''کانوں'' تک پہنچا دیں لیکن گنجی کی سنتا کون ہے۔
مشورہ یہ دینا تھا ان رمضان پیکیج والوں کو کہ جہاں زرکثیر صرف کر رہے ہو، اربوں روپے عوام کو تحفہ میں دے رہے ہو وہاں ایک چھوٹا سا کام اگر یہ بھی کر دو تو واقعی گنجی کی شادی ہو جائے گی۔ کرنا صرف اتنا تھا کہ تقسیم کرنے والے بھی کہیں کسی باہرکے ملک سے منگوانا یا بلوانا تھے اورکسی غیرمسلمان ملک سے منگوانا تھے جو رمضان کی ''برکات'' سے ناواقف ہوتے، تب ہو سکتا تھا کہ عوام کو واقعی ''کچھ'' مل جاتا، ورنہ اگر وہی ''پٹواری'' اور تھانیدار ہوتے تو حشرنشر بھی تمام گزشتہ پیکیجوں کی طرح ہونا تھا اور وہ ہوگیا۔ رمضان پیکیج جہاں جہاں پہنچانا تھا پہنچ گیا، کیوںکہ تقسیم کرنے والے ''وہی'' تھے جو تھے جو ہیں اور جو ہوتے ہیں۔
یہ شاید کسی کا ایک چھوٹا سا افسانہ ہے کہ ایک شخص کھیت میں ہل چلا رہا تھا کہ اتنے میں ایک اور آدمی اس کے پاس آکر بولا، یہ تم کیا حماقت کر رہے ہو، آج کے دن بھی ہل چلا رہے ہو۔ ہل چلانے والے نے پوچھا، کیوں؟ آج کیا ہے، دوسرا بولا، کم بخت آج یوم آزادی ہے ہر جگہ لوگ جشن منا رہے ہیں آؤ ہم تم بھی شہر جاتے ہیں اور جشن میں شریک ہوتے ہیں۔
ہالی نے پوچھا، کیسی آزادی اور کیسا جشن؟ دوسرے نے کہا انگریزجا رہے ہیں ہمارا ملک آزاد کر کے۔ ہل چلانے والا خوش ہو کر بولا۔ پھر تو واقعی یوم آزادی اور جشن کا دن ہے، ٹھہرو دونوں چلتے ہیں اور اپنے بیل کھولنے لگا لیکن اچانک کچھ سوچ کر بولا، انگریز اپنے ساتھ پٹواری اور تھانیدار کو بھی لے جارہے ہیں نا۔ دوسرے نے کہا نہیں صرف انگریزجا رہے ہیں، پٹواری اور تھانیدار یہیں رہیں گے۔ ہل چلانے والے نے کہا جب پٹواری اور تھانیدار یہاں ہم پر چھوڑ رہے ہیں تو کیسی آزادی کیسا جشن اور پھر ٹخ ٹخ کر کے ہل چلانے لگا۔
اور ہم کہنا چاہتے تھے لیکن ہماری کسی نے بھی نہیں سنی اور رمضان پیکیج ان ہی ''یوٹیلٹی'' والوں کے ''بابرکت'' ہاتھوں میں دے دیا اور وہ ''پہنچ گیا'' جہاں اسے پہنچانا تھا، پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ آخر پچھترسال کا تجربہ بھی کوئی چیز ہے۔
عوام کے ان سوکھے ساکھے بدبخت عوامی منہ میں اگر کیل بھی اڑ کر جائے تو پھر تف ہے ان کی مہارت اور پچھتر سالہ تجربے پر۔ وہ جوکسی بزرگ یا بزرگہ نے کہا ہے کہ... بات نکلے گی تو پھر دورتلک جائے گی اور قول زرین بھی ہے کہ... ایک سناتا ہوں دوسری (بات) دم ہلاتی ہے چنانچہ یہ ''باہر'' سے لوگ منگوانے کا جو سلسلہ ہے یہ اگر کچھ اور بھی دراز کیا جائے تو اور زیادہ فائدہ مند ہو گا مثلاً یہ جو سرکاری محکموں میں وزیروں، مشیروں اور کونسلروں کے بھرتی کیے ہوئے لوگ، کام نہ کرنے کے کام پر مامور ہیں۔ ان کی جگہ بھی اگر ''دساور'' سے لوگ درآمد کیے جائیں تو یہ فائدہ ہوگا کہ آرام اورکام ساتھ چلیں گے۔ یوں کہیے کہ ''لاڈلے'' کام نہ کرنے کا اور درآمد شدہ لوگ کام کرنے کا کام سنبھالیں، یہ ہاتھی کے دکھانے والے دانت اور وہ کھانے والے دانت ہوں گے۔
بات کو کچھ اور پھیلا کر وزیر، مشیر، معاونین اور لیڈر بھی درآمد کیے جا سکتے ہیں یا یوں کہیے کہ حکومت ہی اگر درآمدی لوگوں کو ٹھیکے پر دی جائے تو مزید فائدہ ہو سکتاہے، البتہ مختلف کارڈ انکم سپورٹ اور امدادی پیکیج کا کام اپنے ہاتھ میں رکھا جا سکتا ہے کیوں کہ اس کام کے ماہر اپنے ہاں کے زیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں۔
اب اس بیج میں ایک چھوٹا سا سوال ان کی تنخواہوں، واجبات، مراعات اورکرپشنات کا آتا ہے لیکن اس کی کوئی چنتا نہیں۔ خدا نے ہم کو پچیس کروڑ کالانعام ایسے دے رکھے ہیں جو بیک وقت تیل کے کنوئیں بھی ہیں، دودھ بھی دیتے ہیں اور انڈے بھی، جن کی اون بھی روزانہ اتاری جا سکتی ہے اورکھال بھی۔ اور تیل بھی نکالا جا سکتا ہے وہ ایک بھارتی اساطیری کہانی کے مطابق وہ ''گائے'' ہے جو سب کچھ مہیا کر دیتی ہے۔
بات رمضان پیکیج سے چلی تھی اورکہاں پہنچ گئی، خاص طور پر یہ جو ''یوٹیلیٹی اسٹور'' نام کا دام ہمرنگ زمین ہے اس کے تو کیا کہنے۔ جن میں ہر وقت ہر وہ چیز دستیاب ہوتی ہے جس کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ صرف اخباروں یا پیکیجوں میں ہوتی ہے، ویسے ایک بات ان یوٹیلیٹی اسٹورز کی بڑی اچھی ہے، قوم کو منظم کرنے کے کام کو ان ہی اسٹوروں نے بڑی ترقی دی ہے جو لوگ یہاں وہاں فضول آوارہ گردی کرتے تھے، ان کو قطاروں میں بٹھانا اور صبر کرنا ان ہی اسٹورز نے دکھایا ہے بلکہ صابرین اور شاکرین دونوں کو ان ہی نے فروغ دیا ہوا ہے جن کو مل جاتا ہے وہ شاکرین اور باقی صابرین
اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں
اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں