کیا انتخابات ممکن ہوسکیں گے

اس کا بہتر حل سیاسی فورم اور حکومت سمیت حزب اختلاف کو مل کر ہی تلاش کرنا چاہیے تھا

salmanabidpk@gmail.com

سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود پنجاب میں 14مئی کو ہونے والے عام انتخابات پر بدستور سوالیہ نشان یا شکوک وشبہات موجود ہیں ۔ اس کی وجہ اگرچہ، آئینی، قانونی انتظامی، سیکیورٹی اور مالیاتی بحران کے ساتھ جوڑ کر پیش کی جا رہی ہے مگریہ مسئلہ خالصتاً سیاسی نوعیت کا ہے اور یہ عمل سیاسی تناظر کے ساتھ ہی جوڑ کر دیکھا اور سمجھا جائے گا۔

حکمران اتحاد جن میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتیں شامل ہیں انتخابات کو شاید اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھتی ہیں۔ ان کے بقول موجودہ سیاسی صورتحال اور عمران خان کی سیاسی مقبولیت کی موجودگی میں انتخابی نتائج ان کے حق میں نہیں ہوں گے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ انتخابات سے گریز کی پالیسی کو حکومتی ایوانوں ، ان کے حمایت یافتہ میڈیا اور کچھ ریاستی اداروں کی سطح پر حمایت حاصل ہے ۔

صوبائی انتخابات کو سیاسی مسائل کے حل کے بجائے ایک بڑے سیاسی بحران کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ متبادل رائے یہ دی جارہی ہے کہ صوبائی انتخاب کے مقابلے میں عام انتخاب ہی مسئلہ کا حل ہونگے اور یہ عام انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہی ہونگے۔

حکمران اتحاد کی جانب سے انتخابات سے گریز کی پالیسی میں واحد رکاوٹ عدلیہ بنی ہوئی ہے ۔ یعنی اب انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کی کنجی سپریم کورٹ کے پاس ہے ۔

اسی بنیاد پر ہمیں جو ان دنوں حکومت اورعدلیہ کے درمیان تناؤ، ٹکراؤ اور محاز آرائی سمیت الزامات کی عملی سیاست نظر آرہی ہے وہ حالات کی سنگینی کو بھی اجاگر کرتی ہے ۔چیف جسٹس سمیت کچھ ججوں کے خلاف حکومتی مہم ، عدلیہ میں اسی تناظر میں پیدا ہونے والی تقسیم اور عدلیہ اصلاحاتی بل اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔

حکومت نے بڑی خوبصورتی سے عدلیہ بمقابلہ عدلیہ کا ماحول پیدا کردیا ہے جو خود عدلیہ کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی جج اس نقطہ پر متفق نہیں کہ انتخابات 90دن سے آگے جانا چاہیے ۔

اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں کو عدالتی یا مقدمہ کے طریقہ کار، سوموٹو کے اختیار اور چیف جسٹس کے طرز عمل پر تحفظات ہیں ۔ان ججوں کا مطالبہ ہے کہ چیف جسٹس اس معاملے پر فل کورٹ بنا کر مسئلہ کا حل تلاش کریں اور یہ ہی مطالبہ حکومت سمیت کئی اور فریقین کی جانب سے بھی سامنے آرہا ہے ۔


انتخابات کا معاملہ سیاسی نوعیت کا تھا اور اس کا بہتر حل سیاسی فورم اور حکومت سمیت حزب اختلاف کو مل کر ہی تلاش کرنا چاہیے تھا ۔لیکن سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی وجہ سے ہی یہ معاملہ عدالت تک پہنچا اور اس کے بعد یہ معاملہ محض سیاسی نوعیت کا ہی نہیں رہا بلکہ آئینی مسئلہ یا آئین کی تشریح کے ساتھ بھی جڑ گیا تھا ۔کیونکہ آئینی تقاضوں کے تحت وفاقی حکومت، نگران حکومتیں انتخابات کے انعقاد سے انکاری تھیں ۔

ایسی صورت میں کیا انتخابات 90 دن میں ممکن ہوسکیں گے اور کیا صوبائی گورنرز یا الیکشن کمیشن کا انتخابی تاریخ نہ دینے کا فیصلہ آئینی یا غیر آئینی ہے اس کا فیصلہ عدالت کو ہی کرنا تھا۔ اس لیے یہ منطق کہ عدالت کو سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی ، یہ مسئلہ سیاسی سے آئینی مسئلہ بن گیا تھا اور اعلیٰ عدالت میں جانا ناگزیر تھا۔ کیونکہ جب ایک بڑا سیاسی ڈیڈ لاک پیدا ہوجائے اور اس کا ایک نقطہ آئینی مسئلہ بھی ہو تو پھر عدالت کو ہی اپنا کردار ادا کرنا تھا۔

وفاقی حکومت نے جس انداز سے انتخابات سے گریز کی پالیسی اپنائی ہے وہ مستقبل کے انتخابات کی سیاست کے لیے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔

ایک بار اگر ہم نے انتخابات کو ملتوی کیا تو یہ نظیر مستقبل میں بن جائے گی کہ کوئی بھی حکومت مسائل کو بنیاد بنا کر انتخابات کو ملتوی کرسکتی ہے ۔آئین کو ایک بار پٹری سے اتارنے کا یہ عمل مستقبل میں آئین کو پٹری پر رکھنے کے عمل کو بھی نقصان پہنچاسکتا ہے جو خود سیاست ، جمہوریت اور انتخابی عمل سمیت آئینی حیثیت کو کمزور کرنے کا سبب بنے گی ۔

عمومی طور پر سیاسی جماعتیں مسائل کے حل میں نئے انتخابات کو ہی بنیاد بناتی ہیں مگر یہاں انتخابات سے فراریت کا راستہ اختیار کرکے سیاسی بحران میں اور زیادہ شدت پیدا کی جارہی ہے ۔

انتخابات نہ کرانے کی پالیسی براہ راست عمران خان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور حکومت سمجھتی ہے کہ انتخابات کا فائدہ ان کے مقابلے میں عمران خان کو ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت سپریم کورٹ کے فیصلہ کے برعکس انتخابات کے انعقاد سے کھل کر انکار کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں جو حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہونگے تو اس کے منفی نتائج اور ٹکراؤ سے کیے بچا جاسکے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی اتحادیوں کا مشترکہ موقف ہے کہ مسئلہ کا حل صوبائی انتخابات نہیں بلکہ اس کے مقابلے میں ہمیں عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہے ۔لیکن اس کے لیے بھی حکومت بضد ہے کہ فوری انتخابات ممکن نہیں اور اس اثنا میں دو صوبائی نگران حکومتوں کو لمبے عرصہ تک رکھنے کی کیا آئینی منطق ہے اور کیا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے تو ایسا ممکن نہیں ۔بہتر ہوتا کہ حکومت فوری طو رپر عام انتخابات کا راستہ اختیار کرتی اور حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں کسی نئی تاریخ پر عام انتخابات کا اعلان کیا جاتا ۔لگتا ہے کہ اکتوبر میں بھی حکومت کو انتخابات قبول نہیں کیونکہ جو انتخابی نتائج کے حصول میں مسائل اس وقت حکومت کو درپیش ہیں یہ ہی صورتحال اکتوبر میں بھی ہوگی ۔

انتخابات کا عمل سیاسی ، جمہوری اور آئینی تقاضوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔انتخابات کا عمل اگر واقعی شفافیت پر مبنی ہو تو اس سے سیاست اور معیشت میں موجود غیر یقینی کو ختم کرنے کا سبب بنتا ہے ۔

اس وقت جو ملکی سطح پر غیر یقینی کی سیاست اور معیشت سے جڑی غیر یقینی ہے ایسے میں عالمی سطح سے جڑے معاشی ادارے بشمول آئی ایم ایف بھی ہم پر اعتبار کرنے یا کسی مالیاتی منصوبہ بندی یا معاہدوں کے لیے تیار نہیں ۔اسی بنیاد پر عالمی دنیا ہمیں واضح پیغام دے رہی ہے کہ ہم نے اگر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنا داخلی سیاسی اور معاشی غیر یقینی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔اس لیے اب بھی مسئلہ کا حل جون یا جولائی میں نئے انتخابات ہیں اور اسی کو قومی ترجیح کا حصہ بنانا ہوگا۔
Load Next Story