عوام کا محافظ آئین

ہماری اشرافیہ ہمیں ہمارے اس حق سے محروم کرنے کی کوشش نہ کرے اور آئین کے ماورا کوئی ایسے اقدامات نہ کیے جائیں

atharqhasan@gmail.com

صبح سویرے اخبارات پر نظر ڈالی تو پہلے ہی صفحے پر آئین پاکستا ن کی سلور جوبلی تقریبات کے حوالے سے اشتہارات نظر آئے جن میں ماضی کے اخبارات کے تراشوں کو جوڑ کر یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا آئین منظور کر لیاگیا ہے اور اس میں برابری، فرد کا تحفظ، تعلیم کا حق، رائے کی آزادی، نقل و حرکت کی آزادی، یونین اور سیاسی جماعت بنانے کی آزادی، مذہبی آزادی، معلومات تک رسائی، منصفانہ عدالتی کاروائی کے حق کے چند بنیادی اور اہم چنیدہ نکات شامل تھے۔ ریاست کا دستور عوام کی فلاح کا منبع ہوتا ہے۔

آئین شہریوں کو حقوق دیتا ہے جو 1973 میںآئین کی کتاب میں لکھ دیے گئے تھے لیکن ہمارے زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ عوام کے یہ حقوق آئین میں تودرج ہیں لیکن عوام اپنے ان بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں اور اشرافیہ نے عوام کو جان بوجھ کر حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ البتہ سیاسی جماعت بنانے اور جھوٹے وعدے کرنے کی مکمل آزادی ہے ۔

1973 کے آئین کی منظوری سے پہلے آخری مراحل میں حکومت نے حزب اختلاف کی تجاویز بھی مان لیں جس پر حزب اختلاف اور حکومت میں سمجھوتہ ہو گیا اور یوں 1973 کے آئین کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ آئین تو متفقہ طور پر منظور ہو گیا لیکن اس دستور پرکتنا عمل کیا گیا ،وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔

ہر دور میں نظریہ ضرورت کے تحت آئین میں من پسند اورمن چاہی ترامیم کی گئیں اور آئین کو اپنے مفادات کے لیے بے دھڑک استعمال کیا گیا ۔

آئین کے بانی بھٹو صاحب نے 1977 کے عام انتخابات میںدھونس دھاندلی کے ذریعے اپنی حکومت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی کوشش کی دراصل انھوں نے خود ہی اپنے بنائے ہوئے آئین کو ایک آمر کی گود میں ڈال دیا جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کی حکومت کو نہ صرف برطرف کر دیا بلکہ انھیں تختہ دار تک بھی پہنچا دیا گیا اور آئین معطل کر کے اگلے دس برس تک ملک کے مطلق عنان حکمران بھی بن گئے ۔

وقتی مصلحتوں اور قومی مفادات کا بہانہ بنا کر دستور پاکستان میں سے ایسی ایسی شقیں بھی تلاش کرلی جاتی رہیں جن کا تصور بھی کیا جاسکتا ۔


ماضی میں ہمارے نام نہاد آئینی ماہرین نظریہ ضرورت کے تحت دستور کی شقیں نکال کر آمروں کو بھی پیش کرتے رہے اور اس وقت کی عدلیہ تشتریح کے اختیار کا سہارا لے کر آمر کے اقتدار کو آئینی اور قانونی بنا دیتے اور یوں 1973 کا وہ آئین جسے قومی اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا حقیقت میں ایک ایسی کتاب میں بدل دیا گیا جسے جس سیاستدان اور فوجی حکمران نے جب چاہا اپنے مطلب اور مفادکے لیے استعمال کر لیا۔ 1973 کے آئین میں متعددترامیم 1985، 1997 اور 2010 میں کی گئیں۔

عوام الناس یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں پاکستانی آئین کی تاریخ ایک طویل اور ہنگامہ خیز ہے جس میں سیاسی عدم استحکام، فوجی بغاوتوںکے علاوہ جمہوری جدوجہد بھی شامل ہیں۔

آج گو کہ ریاست پاکستان کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سب سے بڑا چیلنج معاشی میدان میں در پیش ہے لیکن ان چیلنجوں کے باوجودیہ آئین اپنی بگڑی ہوئی اور لولی لنگڑی شکل میں بھی پاکستان کی جمہوریت کا بنیادی ستون بنا ہوا ہے، اس میں ملک کو درپیش تمام چیلنجز کا حل موجود ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس اہم دستاویز کو صرف اپنے مفادات کے لیے تو استعمال کرتے ہیں لیکن جب ریاست کی بار ی آتی ہے تو ہمارے سامنے کوئی نہ کوئی نظریہ ضرورت آجاتا ہے اور ہم اپنے آپ کو اسی نظریہ ضرورت کے تابع کر لینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔

بھٹو صاحب جو سیاسی مفاہمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنے کا اعلان کرتے تھے آج ان کی جماعت پیپلز پارٹی جو 1973 کے آئین پر اپنا حق جتاتی ہے، افسوس سے یہ لکھنا پڑتا ہے کہ اس جماعت کے اہم رہنماء بھی دستور پاکستان کی حفاظت سے کنی کترا رہے ہیں۔

عرض یہ کرنا ہے کہ دستور کئی برسوں کے بحث و مباحثے اور اختلافی آراء میں یگانگت کے بعد کہیں جا کر کوئی واضح شکل و صورت اختیار کرتا ہے ۔

ہاتھ جوڑ کر دست بدستہ عرض ہے کہ خدارا اس ملک کے عوام کے پاس ایک ہی آئین ہی بچ گیا ہے جس میں وہ اپنی نجات اور حفاظت کا کوئی نقطہ اور راستہ تلاش کر سکتے ہیں ، ہماری اشرافیہ ہمیں ہمارے اس حق سے محروم کرنے کی کوشش نہ کرے اور آئین کے ماورا کوئی ایسے اقدامات نہ کیے جائیں جس سے معاشی بھنور میں پھنسی ریاست پاکستان کو خدانخواستہ کوئی نقصان پہنچ جائے۔ وما علینا علی البلاغ
Load Next Story