مفت آٹا غریب عوام اور نااہل حکمراں

اسی رقم سے اگلے چھ ماہ آٹے کی قیمت آدھی کردیتے تو پورا ملک اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھا

مفت آٹے کی فراہمی میں بدانتظامی اور کرپشن کی شکایات بھی بے تحاشا موصول ہوئیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کے مختلف شہروں میں مفت آٹے کے حصول کی خاطر اب تک تقریباً دو درجن سے زائد افراد خالق حقیقی سے جاملے۔ بھگدڑ اور لوٹ مار کے باعث زخمی ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مرنے والوں میں سے اکثر اپنے خاندان کا واحد سہارا تھے۔ اس مفت آٹے کی فراہمی میں بدانتظامی اور کرپشن کی شکایات بھی بے تحاشا ہیں۔ انتطامیہ اس پورے معاملے کو کسی بھی حوالے سے نہ صرف موثر بنانے میں ناکام رہی بلکہ کرپشن کے ناسور نے بھی اس پوری ایکسرسائز کی افادیت قائم نہیں ہونے دی۔ بد انتظامیوں کے بعد موبائل ایپلی کیشن کو بہتر انداز سے استعمال کرنے کے بعد پرچی یا ٹوکن کے نظام کو بہتر کرنے کی بہرحال کوشش ضرور رہی ہے۔ لیکن بطور مجموعی اگر اس پوری مہم کا جائزہ لیا جائے تو سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

وفاق و پنجاب نے اعلان کیا تھا کہ مجموعی طور پر 53 ارب روپے کی سبسڈی مفت آٹے کی تقسیم کےلیے رکھی گئی ہے۔ ہم بطور قوم سبسڈیز کا شکار ہیں۔ ہم ہر معاملے میں سبسڈی حاصل کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں اور حکومتی سطح پر ہر طرح کی سبسڈی کو اپنے مفاد کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے جہاں مفادات آجائیں وہاں کسی بھی طرح کی سبسڈی کا حقیقی معنوں میں فائدہ عوامی سطح پر پہنچنا کم و بیش ناممکن ہی ہے۔ کہیں اس سبسڈی سے سیاسی مقاصد حاصل ہوئے اور کہیں پرانی گندم ٹھکانے لگی اور ملوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ بطورِ مجموعی چار کروڑ ستر لاکھ آٹے کے تھیلے اس پوری مہم جوئی میں تقسیم کرنا مقصود ہیں اور حکومتی دعوؤں کے مطابق اس وقت تک کم و بیش تین کروڑ سے زائد تھیلے تقسیم کیے جاچکے ہیں۔

مفت آٹے کی تقسیم کا جو نظام بنایا گیا اس حوالے سے کمائی کی ماہانہ حد ساٹھ ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 8070 کا ایک نظام بنایا گیا اور آٹا تقسیم شروع ہونے کے بعد ایک موبائل ایپلی کیشن سے بھی مدد لی گئی۔ ایس ایم ایس کا نظام تو اس اسکیم کے شروع ہوتے ہی ٹھس کرگیا۔

حکومتی دعوؤں کے برعکس اس پوری اسکیم کی قلعی بھگدڑ اور بدانتظامی نے کھول دی۔ اس اسکیم نے نہ صرف انسانی جانوں کو نگلنا شروع کردیا بلکہ اس حوالے سے کرپشن کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں۔ مظفر گڑھ سے غیر مصدقہ میڈیا اطلاعات کے مطابق محکمہ ریونیو کے دو پٹواری حضرات نے تیس ہزار آٹے کے تھیلے غائب کردیے اور آخری اطلاعات تک ان تھیلوں کا کچھ سراغ نہیں ملا۔ ایک صاحب نے اس اسکیم کا ایسے فائدہ اٹھایا کہ پورے محلے سے کارڈ اکھٹے کیے اور سینٹر سے تین دن میں کم و بیش تیس تھیلے حاصل کیے۔ موبائل ایپلی کیشن کے ساتھ نظام کے منسلک ہونے کے بعد کچھ حالات بہتر ہوئے۔ اس ایپلی کیشن پر رات نو بجے تک تمام اہلکاروں کے موبائل پر لاہور مرکزی ڈسٹری بیوشن مرکز سے ایک کوڈ آتا ہے جو صرف ایک دن کےلیے کارآمد ہے۔ یہ کوڈ اگلے دن کےلیے لازماً نیا ہوجاتا ہے۔ شاید کسی کو اس اسکیم کےلیے ٹیکنالوجی کا بھی خیال آیا۔


ایک حقیقت جس سے ہم نے چشم پوشی کی کہ موبائل ایپلی کیشن سے درست طور پر صرف چپ والا کارڈ قابل عمل ہے۔ لیکن غریب افراد کی اکثریت کے پاس تو چپ والا کارڈ ہی سرے سے موجود نہیں۔ یہ ایک المیہ رہا غریب افراد کےلیے۔ مزید یہ کہ راقم الحروف نے صرف اس نظام کو پرکھنے کےلیے اپنا شناختی کارڈ چیک کیا تو اس پر دو مفت آٹے کے تھیلے ملنے کی نوید مل گئی۔ اب راقم الحروف کے ذاتی خیال میں اس پر ہمارا حق نہیں تھا۔ اسی طرح بہت سے پراپرٹی ڈیلرز حضرات کے کارڈز پر دو سے تین آٹے کے تھیلے موجود تھے۔ لیکن ان کی کمائی تو لاکھوں میں ہے۔ پھر 60 ہزار ماہانہ کی کمائی کو پرکھنے کا کیا معیار ہے؟ اس حوالے سے راوی مکمل طور پر خاموش ہے۔

اکثریت ایسے افراد کی ہے جو نہ صرف رمضان المبارک میں اپنے گھر کا نظام خود چلا سکتے ہیں بلکہ عام حالات میں بھی ان کا شمار باثروت افراد میں ہوتا ہے۔ تو پھر اس کی تقسیم منصفانہ کیسے ہوئی؟ غریب اگر رلتا رہا، جاں گنواتا رہا، دھکے کھاتا رہا، تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مفت آٹا حقدار تک پہنچا ہے؟ کم و بیش دو مفت آٹا سینٹرز پر جانا ہوا۔ دونوں پر صورتحال یہ دیکھی کہ کسی جگہ رکشے میں کئی تھیلے ٹھونسے گئے ہیں (معلوم کرنے پر علم ہوا کہ ایک ہی شخص کے ہیں)۔ تو کسی جگہ جعلی پرچیوں کی بازگشت سنائی دی۔ اور راولپنڈی کے اڈیالہ روڈ کے مرکز پر تو بات ایف آئی آر تک پہنچ گئی، بمشکل معاملہ نمٹا۔ مفت آٹے کا ٹرک آتا ہے، اہلکار ایپلی کیشن یا ایس ایم ایس تصدیق کے بعد پرچی جاری کرتا ہے، پرچی صارف ٹرک کے پاس لے جاتا ہے اور مفت آٹے کا تھیلا وصول کرنے کے بعد واپسی کی راہ لیتا ہے۔ اس پورے عمل میں اتنی بے ضابطگیاں ہوئیں کہ الاماں۔ جعلی رسیدوں سے نمٹنے کےلیے پرنٹڈ بکس بھی حکومت نے مہیا کیں لیکن تب جب چڑیاں چگ گئی تھیں کھیت۔ حقیقی حقدار قطاروں میں مرتے رہے، زخمی ہوتے رہے، پولیس کے ڈنڈے کھاتے رہے اور فائدہ اشرافیہ اٹھا لے گئی۔

ہم بطور قوم ہیجان کا شکار ہیں اور اربابِ اختیار ہمارے اسی ہیجان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم بے عزت ہو لیں گے، ہم مرجائیں گے، لیکن مفت آٹا لینا ہے۔ ہم کسی بھی اسکیم کی افادیت ختم کرنے کےلیے اس کی پہنچ ایسے لوگوں تک ممکن بنا دیتے ہیں جو حقدار نہیں ہوتے اور اصل حقدار بھیڑ میں ہی مر جاتا ہے۔ ہم نے 53 ارب کی سبسڈی فضول میں دی۔ بدانتظامی، کرپشن، غیر موثر، حقداروں کی حق تلفی، اور دیگر شکایات نے اس آٹا اسکیم کو گہنا دیا۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا بیت المال سے صرف منسلک کر دیتے تو بھی بہتری کےلیے کافی تھا۔ آپ نے اعلان کیا کہ چار کروڑ ستر لاکھ مفت تھیلے دیں گے۔ آپ مفت نہ دیتے بس اس کی قیمت آدھی کردیتے۔ 11 اپریل کو دس کلو کے تھیلے کے نرخ 1480 روپے آٹا ڈیلر نے بتائے۔ رمضان مفت راشن کی تقسیم کرنے والے افراد اور اداروں کے ساتھ ڈیلرز کچھ اور بھی نرمی کردیتے ہیں۔

فرض کیجیے تھیلا 1500 کا ہو تو آپ قیمت 750روپے رکھ دیتے۔ وہی انسان لیتا جس کو ضرورت ہوتی۔ مفت اسکیم میں پراپرٹی ڈیلرز بھی لیتے رہے، پٹواری بھی اور لاکھوں ماہانہ کمانے والے بھی۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہی 53 ارب خرچ کرکے اگلے چھ ماہ آٹے کی قیمت آدھی کردیتے تو پورا ملک اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ اس قوم کا مزاج ہے کہ مفت کی چیز سے گودام بھرلیں گے، ایک روپیہ بھی دینا پڑے تو ضرورت سے زیادہ نہیں لیتے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو شاید خودنمائی کا بھی ایک موقع چاہیے تھا اور عوام کو قطاروں میں ذلیل کرکے ایسا کیا جانا تھا۔ حکمران عالمی اداروں کے آگے منگتے بنے رہتے ہیں تو عوام کو بھکاری بنانا پھر ان کےلیے کیسے اچھنبے کی بات ہوتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story