سیاسی کشمکش تدبر کا مظاہرہ کریں
موجودہ آئینی بحران بھی ایسا نہیں ہے کہ اس کا کوئی حل نہ نکل سکے
اتحادی حکومت کو امورمملکت چلاتے ہوئے ایک برس ہو چکا ہے' اس دوران ملک جس قسم کے معاشی اور سیاسی بحران کا شکار رہا ہے' وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
اقتدار کے ستون جس طرح لڑکھڑا رہے ہیں ' پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ اقوام عالم بھی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں' سیاست کے نام پر جو کچھ ہوا اور ابھی تک ہو رہا ہے ' اس کے نتائج و اثرات اوپری سطح سے لے کر انتہائی نچلی سطح تک محسوس ہو رہے ہیں ۔
سیاسی عدم استحکام ' ادارہ جاتی سطح پر اختیارات کی جنگ ' انتظامیہ کا مفلوج ہونا'علاقائی صورت حال کے اثرات نے اکٹھے ہو کر پاکستان کی معیشت کو دبوچ رکھا ہے۔ ایک سالہ اتحادی حکومت نے خارجہ سطح پر کئی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں ' ان میں سرفہرست ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نکلنا ہے۔
پاکستانی حکومت نے امریکا ' مغربی یورپ اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو کسی حدتک بہتر کر لیا ہے' اس کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ بھی معاملات بہتر ہوئے ہیں ' یوں دیکھا جائے تو پاکستان نے سفارتی سطح پراچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اتحادی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر معیشت، توانائی، سفارتکاری، مواصلات اور ماحولیات سمیت مختلف شعبہ جات میں حکومتی کارکردگی کے حوالے سے متعدد ٹویٹس میں کہا ہے کہ میرے نقطہ نظر سے یہ سال بڑے چیلنجز اور مشکلات کا سال تھا۔ سابق حکومت کی ناقص معاشی حکمت عملی اور انتقام کی پالیسی کے بجائے مفاہمت اور تعاون کی نئی سیاست کا آئینہ دار ہے۔
عمران خان کی جانب سے بچھائی گئی اقتصادی سرنگوں اور عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان کی معیشت بدستور رواں دواں ہے اور ڈیفالٹ کی تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں، معیشت کی بحالی کے لیے مخلصانہ کوششیں جاری ہیں۔
گزشتہ سال بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، حکومت نے لاکھوں متاثرین کو سماجی تحفظ فراہم کیا، پبلک ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے تحت حکومت نے گزشتہ سال اپریل میں اپنے قیام کے بعد سے اسلام آباد میں ترقیاتی اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی جلد تکمیل پر توجہ مرکوز کی ہے۔
عالمی سطح پر مہنگائی نے عوام کو بری طرح متاثر کیا ہے، جیواسٹرٹیجک مخاصمت، ایندھن اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور بدترین سیلاب موجودہ مہنگائی کے چند عوامل ہیں۔
ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے سماجی تحفظ کے نیٹ کو وسعت دی اور ٹارگٹڈ سبسڈی مہیا کی' پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ موسمیاتی سفارتکاری کا استعمال کیا گیا، جی77پلس چائنا کے صدرکی حیثیت سے ہم لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کے قیام میں معاون رہے، جنیوا میں کانفرنس میں9 ارب ڈالر کے اعلانات ہماری کامیاب سفارتکاری کا ثبوت ہیں۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں لیکن گراس روٹ لیول پر سچ یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی مہنگائی نے مڈل کلاس اور نچلے طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
حکومت نے اپنے طور پر خاصی کوشش کی ہے کہ نچلے طبقے کو ریلیف پہنچایا جائے لیکن مہنگائی کے لیول کو دیکھیں تو یہ ریلیف نہ ہونے کے برابر ہے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بیروز گاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
نوجوان طبقے کو روز گار نہیں مل رہا ' توانائی کے ذرایع مہنگے ہونے کی بناء پر نجی شعبہ بھی متاثر ہوا ہے جب کہ تعمیراتی شعبے میں بھی تنزلی دیکھنے میں آئی ہے۔ بہر حال آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آوٹ لک رپورٹ جاری کردی ہے'پاکستان کے حوالے سے یہ رپورٹ اپنے اندر بہتری کے اشارے لیے ہوئے ہے۔ اس رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی زیادہ جب کہ گروتھ کم رہے گی۔
مہنگائی کی شرح 27.1فیصد اور کرنٹ اکاؤ نٹ خسارہ جی ڈی پی کا 2.3فیصد تک ہوگا تاہم آیندہ سال جی ڈی پی گروتھ 3.5فیصد اور مہنگائی کم ہوکر21.9 فیصد پرآجائے گی اوربیروزگاری کی شرح 7 فیصد سے کم ہو کر 6.8 فیصد رہنے کی توقع ہے ، آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال بیروزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی ، جو کہ اس سال 7فیصد تک پہنچ جائے گی شرح سود میں اضافہ عارضی ہے تاکہ زیادہ مہنگائی کوکنٹرول کیا جاسکے۔
آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق یوکرین پر روسی حملے کے باعث دنیا میں توانائی اور خوراک کی قیمتیں بڑھی ہیں، مہنگائی میں کمی کے بعد مرکزی بینکس شرح سود میں کمی کریں گے۔یوں دیکھاجائے تو آئی ایم ایف نے آیندہ مالی سال 2023-24 میں پاکستانی معیشت میں بہتری کی پیشگوئی کر دی ہے اور یہ بھی مژدہ سنایا ہے کہ شرح سودمیں اضافہ عارضی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے بہتری آئے گی۔
ادھر وفاقی حکومت نے1,800سی سی تک کی استعمال شدہ کاروں پر ریگولیٹری ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کردی ہے اور نئی کاروں، موبائل فونز اور دیگر اشیا پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی میں نمایاں کمی کی ہے، جس کے نتیجے میں صارفین کو قیمتوں میں بڑا ریلیف ملے گا۔ واضح رہے کہ خراب معاشی حالات کے سبب حکومت نے امپورٹس کم کرنے کے لیے بھاری ٹیکس عائد کیے تھے، لیکن اس کے نتیجے میں محض 400 ملین ڈالر کے ٹیکس جمع ہوئے جب کہ معاشی سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا۔
اس حوالے سے جاری کیے گئے دو لیگل ریگولیٹری آرڈر میں مزید توسیع نہ کیے جانے کی وجہ سے یہ حکمنامے31 مارچ کو ختم ہوگئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں نئی و پرانی کاروں، ہوم اپلائنسز، ہائی ٹیک موبائلز، گوشت، مچھلیوں، فروٹ سبزیوں، جوتوں، فرنیچر، میوزیکل انسٹرومنٹ، کتے بلیوں کی خوراک، اور آئس کریم پر عائد مختلف اقسام کے ٹیکسز میں نمایاں کمی ہوگئی ہے۔ پورٹس پر پھنسی ہوئی700 مختلف گاڑیوں کو بھی اس سے ریلیف ملے گا۔
پاکستان کو درپیش بحران کی مبادیات سے ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز آگاہ ہیں، اب تو سیاسی بحران آگے بڑھ کر آئینی بحران میں تبدیل ہو گیا ہے۔لہٰذا صورت حال کو سمجھنا تو آسان ہے لیکن بحران کو اختتام پذیر کیسے کرنا ہے ' اس کے بارے میں ریاست کے اسٹیک ہولڈر کچھ سوچنے کے بجائے ایک دوسرے سے بالادستی اور برتری کی کش مکش میں مصروف ہیں'وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بحران بڑے طوفان کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
اس دوران معیشت پر کسی کی توجہ ہی نہیں ہے'پاکستان کے ہمسائے میں کیا ہو رہا ہے ' اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کے بارے میں بھی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے' تباہی کی رفتار کو تیز سے تیز تر کیا جا رہا ہے، اس کا انجام کیا ہوگا، اس کا سیٹک ہولڈرز کو شاید پتہ ہے لیکن ان کے مفادات کے درمیان تضاد اتنا گہرا ہے کہ اسے پر کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے وہ ریاست کی قیمت پر اپنے مفادات کو بچانے کے ایجنڈے پر گامزن نظر آتے ہیں۔
حکومت اور پارلیمنٹ نے جو موقف لیے رکھا، صدر اورچیف جسٹس نے الگ موقف لے لیا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کی اس لڑائی میں پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
جو طبقہ خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دے رہا ہے، وہ پریشان ہے اور ٹیکس دینے کے باوجود بدحالی کا شکار ہے لیکن ان کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں، سہولتیں اور مراعات لینے والے، ٹیکس پیئرز کے مفادات کو قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
سیاسی اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ اور ریاستی مشینری کے کل پرزوں کا ایک طاقتور حصہ اپنے ہی طبقے کے دوسرے حصے پر حملہ آور ہے جب کہ عوام اور پاکستان ان کی لڑائی کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ اگر عوام سے ٹیکس لینا ہے تو خود حکومتوں کو بھی ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے عوام کو یقین آجائے کہ عوام سے اکٹھا کیا گیا پیسہ حکومتوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا۔
پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے ' یہ نظام آئین ' پارلیمنٹ 'عدلیہ اور انتظامیہ کے ڈھانچے پر کھڑا ہے جب کہ سیاسی جماعتیں اس نظام کو چلانے اور متحرک رکھنے کے لیے کام کرتی ہیں' دنیا نے پارلیمانی جمہوری نظام کو تمام نظاموں سے بہتر اس لیے قراردیا تھا کہ اس میں اتنی لچک ہے کہ یہ نظام اپنے اندر اتنی لچک رکھتا ہے کہ بڑے سے بڑے بحران کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔
موجودہ آئینی بحران بھی ایسا نہیں ہے کہ اس کا کوئی حل نہ نکل سکے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے تمام اجزاء درست طریقے سے کام کریں اور اسٹیک ہولڈرغیر معمولی تدبر 'ذہانت ' زیرکی 'گیرائی اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کریں۔
اقتدار کے ستون جس طرح لڑکھڑا رہے ہیں ' پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ اقوام عالم بھی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں' سیاست کے نام پر جو کچھ ہوا اور ابھی تک ہو رہا ہے ' اس کے نتائج و اثرات اوپری سطح سے لے کر انتہائی نچلی سطح تک محسوس ہو رہے ہیں ۔
سیاسی عدم استحکام ' ادارہ جاتی سطح پر اختیارات کی جنگ ' انتظامیہ کا مفلوج ہونا'علاقائی صورت حال کے اثرات نے اکٹھے ہو کر پاکستان کی معیشت کو دبوچ رکھا ہے۔ ایک سالہ اتحادی حکومت نے خارجہ سطح پر کئی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں ' ان میں سرفہرست ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نکلنا ہے۔
پاکستانی حکومت نے امریکا ' مغربی یورپ اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو کسی حدتک بہتر کر لیا ہے' اس کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ بھی معاملات بہتر ہوئے ہیں ' یوں دیکھا جائے تو پاکستان نے سفارتی سطح پراچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اتحادی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر معیشت، توانائی، سفارتکاری، مواصلات اور ماحولیات سمیت مختلف شعبہ جات میں حکومتی کارکردگی کے حوالے سے متعدد ٹویٹس میں کہا ہے کہ میرے نقطہ نظر سے یہ سال بڑے چیلنجز اور مشکلات کا سال تھا۔ سابق حکومت کی ناقص معاشی حکمت عملی اور انتقام کی پالیسی کے بجائے مفاہمت اور تعاون کی نئی سیاست کا آئینہ دار ہے۔
عمران خان کی جانب سے بچھائی گئی اقتصادی سرنگوں اور عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان کی معیشت بدستور رواں دواں ہے اور ڈیفالٹ کی تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں، معیشت کی بحالی کے لیے مخلصانہ کوششیں جاری ہیں۔
گزشتہ سال بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، حکومت نے لاکھوں متاثرین کو سماجی تحفظ فراہم کیا، پبلک ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے تحت حکومت نے گزشتہ سال اپریل میں اپنے قیام کے بعد سے اسلام آباد میں ترقیاتی اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی جلد تکمیل پر توجہ مرکوز کی ہے۔
عالمی سطح پر مہنگائی نے عوام کو بری طرح متاثر کیا ہے، جیواسٹرٹیجک مخاصمت، ایندھن اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور بدترین سیلاب موجودہ مہنگائی کے چند عوامل ہیں۔
ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے سماجی تحفظ کے نیٹ کو وسعت دی اور ٹارگٹڈ سبسڈی مہیا کی' پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ موسمیاتی سفارتکاری کا استعمال کیا گیا، جی77پلس چائنا کے صدرکی حیثیت سے ہم لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کے قیام میں معاون رہے، جنیوا میں کانفرنس میں9 ارب ڈالر کے اعلانات ہماری کامیاب سفارتکاری کا ثبوت ہیں۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں لیکن گراس روٹ لیول پر سچ یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی مہنگائی نے مڈل کلاس اور نچلے طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
حکومت نے اپنے طور پر خاصی کوشش کی ہے کہ نچلے طبقے کو ریلیف پہنچایا جائے لیکن مہنگائی کے لیول کو دیکھیں تو یہ ریلیف نہ ہونے کے برابر ہے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بیروز گاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
نوجوان طبقے کو روز گار نہیں مل رہا ' توانائی کے ذرایع مہنگے ہونے کی بناء پر نجی شعبہ بھی متاثر ہوا ہے جب کہ تعمیراتی شعبے میں بھی تنزلی دیکھنے میں آئی ہے۔ بہر حال آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آوٹ لک رپورٹ جاری کردی ہے'پاکستان کے حوالے سے یہ رپورٹ اپنے اندر بہتری کے اشارے لیے ہوئے ہے۔ اس رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی زیادہ جب کہ گروتھ کم رہے گی۔
مہنگائی کی شرح 27.1فیصد اور کرنٹ اکاؤ نٹ خسارہ جی ڈی پی کا 2.3فیصد تک ہوگا تاہم آیندہ سال جی ڈی پی گروتھ 3.5فیصد اور مہنگائی کم ہوکر21.9 فیصد پرآجائے گی اوربیروزگاری کی شرح 7 فیصد سے کم ہو کر 6.8 فیصد رہنے کی توقع ہے ، آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال بیروزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی ، جو کہ اس سال 7فیصد تک پہنچ جائے گی شرح سود میں اضافہ عارضی ہے تاکہ زیادہ مہنگائی کوکنٹرول کیا جاسکے۔
آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق یوکرین پر روسی حملے کے باعث دنیا میں توانائی اور خوراک کی قیمتیں بڑھی ہیں، مہنگائی میں کمی کے بعد مرکزی بینکس شرح سود میں کمی کریں گے۔یوں دیکھاجائے تو آئی ایم ایف نے آیندہ مالی سال 2023-24 میں پاکستانی معیشت میں بہتری کی پیشگوئی کر دی ہے اور یہ بھی مژدہ سنایا ہے کہ شرح سودمیں اضافہ عارضی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے بہتری آئے گی۔
ادھر وفاقی حکومت نے1,800سی سی تک کی استعمال شدہ کاروں پر ریگولیٹری ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کردی ہے اور نئی کاروں، موبائل فونز اور دیگر اشیا پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی میں نمایاں کمی کی ہے، جس کے نتیجے میں صارفین کو قیمتوں میں بڑا ریلیف ملے گا۔ واضح رہے کہ خراب معاشی حالات کے سبب حکومت نے امپورٹس کم کرنے کے لیے بھاری ٹیکس عائد کیے تھے، لیکن اس کے نتیجے میں محض 400 ملین ڈالر کے ٹیکس جمع ہوئے جب کہ معاشی سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا۔
اس حوالے سے جاری کیے گئے دو لیگل ریگولیٹری آرڈر میں مزید توسیع نہ کیے جانے کی وجہ سے یہ حکمنامے31 مارچ کو ختم ہوگئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں نئی و پرانی کاروں، ہوم اپلائنسز، ہائی ٹیک موبائلز، گوشت، مچھلیوں، فروٹ سبزیوں، جوتوں، فرنیچر، میوزیکل انسٹرومنٹ، کتے بلیوں کی خوراک، اور آئس کریم پر عائد مختلف اقسام کے ٹیکسز میں نمایاں کمی ہوگئی ہے۔ پورٹس پر پھنسی ہوئی700 مختلف گاڑیوں کو بھی اس سے ریلیف ملے گا۔
پاکستان کو درپیش بحران کی مبادیات سے ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز آگاہ ہیں، اب تو سیاسی بحران آگے بڑھ کر آئینی بحران میں تبدیل ہو گیا ہے۔لہٰذا صورت حال کو سمجھنا تو آسان ہے لیکن بحران کو اختتام پذیر کیسے کرنا ہے ' اس کے بارے میں ریاست کے اسٹیک ہولڈر کچھ سوچنے کے بجائے ایک دوسرے سے بالادستی اور برتری کی کش مکش میں مصروف ہیں'وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بحران بڑے طوفان کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
اس دوران معیشت پر کسی کی توجہ ہی نہیں ہے'پاکستان کے ہمسائے میں کیا ہو رہا ہے ' اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کے بارے میں بھی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے' تباہی کی رفتار کو تیز سے تیز تر کیا جا رہا ہے، اس کا انجام کیا ہوگا، اس کا سیٹک ہولڈرز کو شاید پتہ ہے لیکن ان کے مفادات کے درمیان تضاد اتنا گہرا ہے کہ اسے پر کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے وہ ریاست کی قیمت پر اپنے مفادات کو بچانے کے ایجنڈے پر گامزن نظر آتے ہیں۔
حکومت اور پارلیمنٹ نے جو موقف لیے رکھا، صدر اورچیف جسٹس نے الگ موقف لے لیا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کی اس لڑائی میں پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
جو طبقہ خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دے رہا ہے، وہ پریشان ہے اور ٹیکس دینے کے باوجود بدحالی کا شکار ہے لیکن ان کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں، سہولتیں اور مراعات لینے والے، ٹیکس پیئرز کے مفادات کو قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
سیاسی اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ اور ریاستی مشینری کے کل پرزوں کا ایک طاقتور حصہ اپنے ہی طبقے کے دوسرے حصے پر حملہ آور ہے جب کہ عوام اور پاکستان ان کی لڑائی کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ اگر عوام سے ٹیکس لینا ہے تو خود حکومتوں کو بھی ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے عوام کو یقین آجائے کہ عوام سے اکٹھا کیا گیا پیسہ حکومتوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا۔
پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے ' یہ نظام آئین ' پارلیمنٹ 'عدلیہ اور انتظامیہ کے ڈھانچے پر کھڑا ہے جب کہ سیاسی جماعتیں اس نظام کو چلانے اور متحرک رکھنے کے لیے کام کرتی ہیں' دنیا نے پارلیمانی جمہوری نظام کو تمام نظاموں سے بہتر اس لیے قراردیا تھا کہ اس میں اتنی لچک ہے کہ یہ نظام اپنے اندر اتنی لچک رکھتا ہے کہ بڑے سے بڑے بحران کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔
موجودہ آئینی بحران بھی ایسا نہیں ہے کہ اس کا کوئی حل نہ نکل سکے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے تمام اجزاء درست طریقے سے کام کریں اور اسٹیک ہولڈرغیر معمولی تدبر 'ذہانت ' زیرکی 'گیرائی اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کریں۔