کیا ملک میں واقعی مہنگائی ہے
ملک میں لوگ غربت کی وجہ سے خودکشی کررہے ہیں اور دوسری جانب بازاروں میں رش بھی بڑھتا جارہا ہے
مہنگائی، مہنگائی، مہنگائی... ہر طرف اس لفظ کا شور ہے۔ عوام کی چیخیں اور بددعائیں بھی خوب سنائی دیتی ہیں۔ ایک وقت کا کھانا، فاقہ کشی، آٹا ملنا مشکل، چینی بھی دور۔ بلاشبہ یہ سب کسی طور پر بھی مثبت اور سازگار ماحول کی طرف اشارہ کرتی ہوئی صورتحال نہیں۔
بنیادی طور پر ایک متوسط طبقے کا واحد کفیل پریشان ہی نظر آرہا ہے۔ گھر کا خرچ سات گنا بڑھ چکا ہے۔ مہنگائی ایک دہشت گرد، ایک بم، ایک مجرم کی طرح روز کتنے ہی لوگوں کی جان لے لیتی ہے، کتنوں کو زخمی کرتی ہے اور کتنے ہی لوگوں کو تمام عمر کےلیے معذور کردیتی ہے۔ جینے کےلیے بنیادی ضروریات تو ایک زمانے سے پاکستان میں رہنے والی 90 فیصد آبادی کا بس ایک خواب ہی ہیں۔
مگر اب جیسے جیسے رمضان کے آخری عشرے کے دن گزر رہے ہیں، تو سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ آفس سے واپسی پر صدر اور اطراف میں بے پناہ رش ہونے کی وجہ سے افطار سے کچھ لمحے قبل گھر پہنچنا ان دنوں معمول بنتا جارہا ہے۔ اس رش کی وجہ اور کچھ نہیں بلکہ بازاروں میں خریداروں کی بڑی تعداد ہے، کیونکہ عید کی تیاری زور و شور سے جو ہورہی ہے۔
اس وقت اگر کراچی یا کسی بھی بڑے شہر میں آپ کہیں بھی جائیں، بازاروں کا ہر طرف یہی حال نظر آئے گا۔ کراچی میں صدر ہو یا کریم آباد، کلفٹن کے شاپنگ مالز ہوں یا حیدری کا بازار... تِل دھرنے کی جگہ نظر نہیں آئے گی۔ یہی حال کھانے پینے کی جگہوں کا بھی ہے۔ افطار بوفے ہوں یا چنا چاٹ کی دکانیں، سب میں ماشااللہ رونقیں ہی رونقیں ہیں۔ یہ رونقیں یقیناً اچھی لگتی ہیں، لیکن صرف ایک یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا مہنگائی واقعی ہے یا صرف شور ہے؟
اس بارے میں جب کچھ راہ چلتے لوگوں سے بات کی تو ان کے دیے ہوئے جوابات کے مطابق پاکستان میں کہیں بھی مہنگائی نہیں۔ بازار جائیں، لوگ بھرے پڑے ہیں۔ بجلی کے بل میں ہر مہینے اضافہ ہوتا ہے مگر لوگ دے رہے ہیں۔ پٹرول بڑھ گیا ہے، مگر سب خوش ہیں، کوئی سڑکوں پر نہیں آنا چاہتا۔ سچ بات یہی ہے کہ کسی کو کوئی فکر نہیں، اگر حکمرانوں کو برا سمجھتے ہیں تو ہر جلسے میں ان کےلیے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟ ہہ بینر جو اٹھاتے ہیں، یہ سب جھوٹے ہیں۔ بس کسی نے پچاس سو پکڑا دیے ہیں اس بینر کو تھامنے کے۔ کیا کسی نے کبھی پوچھا ہے کہ اس بینر کی قیمت کیا ہے؟ کس نے بنوایا اور اس کے پیسے کس نے دیے ہیں؟
اس ردعمل کے بعد میرے ذہن میں حبیب جالب کی نظم ''میں نے اس سے یہ کہا'' کا ایک حصہ آگیا، جو کچھ یوں ہے:
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سوگئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھوگئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے، ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے، کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید لوگ تیرے راج میں
میں نے اس سے یہ کہا
میری ناقص عقل اس معاشرتی توازن کو ابھی تک سمجھ نہیں پائی۔ جہاں ایک طرف آٹے کی قطار میں لگ کر مرنے والوں کی خبر آتی ہے یا پھر ایک باپ اپنی بیوی اور بچوں کو زہر دے کر خود بھی خودکشی کرلیتا ہے۔ دوسری طرف ذاتی تقویت کےلیے ہر طرح کی خریداری بھی باآسانی ہوجاتی ہے۔ کیا بحیثیت مجموعی ہم لوگ دوغلے اور دہرے معیار کے لوگ ہیں؟ ہم کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ ہر بندہ چھاؤں چاہتا ہے لیکن درخت کبھی نہیں لگاتا۔ ہر بندہ ملک میں مہنگائی سے نجات چاہتا ہے لیکن اپنی چیز کی زیادہ سے زیادہ قیمت بھی لینا چاہتا ہے اور ذخیرہ اندوزی سے بھی باز نہیں آتا۔ تمام بڑے برانڈز ان حالات میں بھی چل رہے ہیں کہ اس معاملے میں طلب ہے تو رسد بھی بڑھ رہی ہے۔ جب ایک عام آدمی کی دل کی بھڑاس یہ ہے کہ کہاں ہے مہنگائی، تو پھر آئی ایم ایف کا ٹیکس میں اضافے کا مطالبہ غلط نہیں لگتا۔ بےحس حکمرانوں کو یہ سب نظر آرہا ہے کہ عوام تو چل ہی رہے ہیں، بھلے گالیاں دیں مگر سب چل تو رہا ہے!
یہ حقیقت ہے کہ عوامی طاقت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے، اگر یہ متحد ہوجائے تو دنیا کا کوئی طوفان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اب یہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی عوام کی گردن پر پنجے گاڑے اس کی آخری سانس کی منتظر ہے، مگر حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ کیوں کہ اس مہنگائی سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہمیں اب مجموعی جہالت کے خول کو توڑ کر اپنے حقوق اور محرومیوں کا اِدراک کرنا ہوگا۔ ہمیں ''یوتھیا''، ''پٹواری'' اور ''جیالا'' بن کر نہیں، بلکہ ''پاکستانی'' بن کر آگے بڑھنا ہوگا، تبھی ہم ایک قوم بن سکتے ہیں۔ اور جب ہم قوم بن جائیں گے، تو ہماری سوچ بھی ایک ہوجائے گی۔ ہم پھر مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور اسی مثبت انداز سے پاکستان بھی آگے بڑھے گا۔ انشااللہ!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بنیادی طور پر ایک متوسط طبقے کا واحد کفیل پریشان ہی نظر آرہا ہے۔ گھر کا خرچ سات گنا بڑھ چکا ہے۔ مہنگائی ایک دہشت گرد، ایک بم، ایک مجرم کی طرح روز کتنے ہی لوگوں کی جان لے لیتی ہے، کتنوں کو زخمی کرتی ہے اور کتنے ہی لوگوں کو تمام عمر کےلیے معذور کردیتی ہے۔ جینے کےلیے بنیادی ضروریات تو ایک زمانے سے پاکستان میں رہنے والی 90 فیصد آبادی کا بس ایک خواب ہی ہیں۔
مگر اب جیسے جیسے رمضان کے آخری عشرے کے دن گزر رہے ہیں، تو سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ آفس سے واپسی پر صدر اور اطراف میں بے پناہ رش ہونے کی وجہ سے افطار سے کچھ لمحے قبل گھر پہنچنا ان دنوں معمول بنتا جارہا ہے۔ اس رش کی وجہ اور کچھ نہیں بلکہ بازاروں میں خریداروں کی بڑی تعداد ہے، کیونکہ عید کی تیاری زور و شور سے جو ہورہی ہے۔
اس وقت اگر کراچی یا کسی بھی بڑے شہر میں آپ کہیں بھی جائیں، بازاروں کا ہر طرف یہی حال نظر آئے گا۔ کراچی میں صدر ہو یا کریم آباد، کلفٹن کے شاپنگ مالز ہوں یا حیدری کا بازار... تِل دھرنے کی جگہ نظر نہیں آئے گی۔ یہی حال کھانے پینے کی جگہوں کا بھی ہے۔ افطار بوفے ہوں یا چنا چاٹ کی دکانیں، سب میں ماشااللہ رونقیں ہی رونقیں ہیں۔ یہ رونقیں یقیناً اچھی لگتی ہیں، لیکن صرف ایک یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا مہنگائی واقعی ہے یا صرف شور ہے؟
اس بارے میں جب کچھ راہ چلتے لوگوں سے بات کی تو ان کے دیے ہوئے جوابات کے مطابق پاکستان میں کہیں بھی مہنگائی نہیں۔ بازار جائیں، لوگ بھرے پڑے ہیں۔ بجلی کے بل میں ہر مہینے اضافہ ہوتا ہے مگر لوگ دے رہے ہیں۔ پٹرول بڑھ گیا ہے، مگر سب خوش ہیں، کوئی سڑکوں پر نہیں آنا چاہتا۔ سچ بات یہی ہے کہ کسی کو کوئی فکر نہیں، اگر حکمرانوں کو برا سمجھتے ہیں تو ہر جلسے میں ان کےلیے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟ ہہ بینر جو اٹھاتے ہیں، یہ سب جھوٹے ہیں۔ بس کسی نے پچاس سو پکڑا دیے ہیں اس بینر کو تھامنے کے۔ کیا کسی نے کبھی پوچھا ہے کہ اس بینر کی قیمت کیا ہے؟ کس نے بنوایا اور اس کے پیسے کس نے دیے ہیں؟
اس ردعمل کے بعد میرے ذہن میں حبیب جالب کی نظم ''میں نے اس سے یہ کہا'' کا ایک حصہ آگیا، جو کچھ یوں ہے:
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سوگئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھوگئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے، ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے، کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید لوگ تیرے راج میں
میں نے اس سے یہ کہا
میری ناقص عقل اس معاشرتی توازن کو ابھی تک سمجھ نہیں پائی۔ جہاں ایک طرف آٹے کی قطار میں لگ کر مرنے والوں کی خبر آتی ہے یا پھر ایک باپ اپنی بیوی اور بچوں کو زہر دے کر خود بھی خودکشی کرلیتا ہے۔ دوسری طرف ذاتی تقویت کےلیے ہر طرح کی خریداری بھی باآسانی ہوجاتی ہے۔ کیا بحیثیت مجموعی ہم لوگ دوغلے اور دہرے معیار کے لوگ ہیں؟ ہم کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ ہر بندہ چھاؤں چاہتا ہے لیکن درخت کبھی نہیں لگاتا۔ ہر بندہ ملک میں مہنگائی سے نجات چاہتا ہے لیکن اپنی چیز کی زیادہ سے زیادہ قیمت بھی لینا چاہتا ہے اور ذخیرہ اندوزی سے بھی باز نہیں آتا۔ تمام بڑے برانڈز ان حالات میں بھی چل رہے ہیں کہ اس معاملے میں طلب ہے تو رسد بھی بڑھ رہی ہے۔ جب ایک عام آدمی کی دل کی بھڑاس یہ ہے کہ کہاں ہے مہنگائی، تو پھر آئی ایم ایف کا ٹیکس میں اضافے کا مطالبہ غلط نہیں لگتا۔ بےحس حکمرانوں کو یہ سب نظر آرہا ہے کہ عوام تو چل ہی رہے ہیں، بھلے گالیاں دیں مگر سب چل تو رہا ہے!
یہ حقیقت ہے کہ عوامی طاقت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے، اگر یہ متحد ہوجائے تو دنیا کا کوئی طوفان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اب یہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی عوام کی گردن پر پنجے گاڑے اس کی آخری سانس کی منتظر ہے، مگر حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ کیوں کہ اس مہنگائی سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہمیں اب مجموعی جہالت کے خول کو توڑ کر اپنے حقوق اور محرومیوں کا اِدراک کرنا ہوگا۔ ہمیں ''یوتھیا''، ''پٹواری'' اور ''جیالا'' بن کر نہیں، بلکہ ''پاکستانی'' بن کر آگے بڑھنا ہوگا، تبھی ہم ایک قوم بن سکتے ہیں۔ اور جب ہم قوم بن جائیں گے، تو ہماری سوچ بھی ایک ہوجائے گی۔ ہم پھر مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور اسی مثبت انداز سے پاکستان بھی آگے بڑھے گا۔ انشااللہ!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔