سول آمریت
بھٹو صاحب نے FSF بنائی، ہاں مگر بھٹو کے سیاسی وارثوں کو سول آمریت کا خیال نہیں آیا،۔۔۔۔
اس ملک کے لیے آگے جانے کے راستے صرف جمہوریت سے نکلتے ہیں، اس پر دو رائے نہیں ہوسکتی، مگر کون جمہوریت پرست قوتیں ہیں، کل تک تو یہ فرق واضح نظر آتا تھا۔ جب میثاق جمہوریت کی ہوا چلی تھی، قانون کی حکمرانی کی تحریک چلی تھی، مگر اب یہ قوتیں اپنے جوہر میں جمہوری قوتیں تو ہیں، معیار لیکن مفقود ہیں، جس کی وجہ سے ان کے بارے میں ابہام پائے جاتے ہیں۔
اچھی اور بری حکمرانی کے پیمانے پر جمہوریت کو اب نہیں تولا جاسکتا، کیونکہ جمہوریت ارتقائی عمل ہے۔ ہاں مگر جمہوری قوتیں خود آمریتیں بننا چاہیں یوں کہیے کہ جمہوریت ارتقا کرنے کے بجائے پیچھے کی طرف جائے تو پھر جمہوری قوتوں پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ کیونکہ تحفظ پاکستان جیسے قوانین آمریتیں لایا کرتی ہیں۔ عجیب ہے یہ قانون، آپ ہی منصف، آپ ہی وکیل، آپ ہی جلاد۔ جو چاہے سو آپ کرے ہیں، باقی سارا ڈھکوسلا ہے۔
جس کی تحریر میں ہی واضح تضاد ہو، اس کی تعمیل میں تو اور بھی مظالم ڈھائے جائیں گے۔ یہ مانا کہ ملک ایک خانہ جنگی میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف مذہبی انتہا پرستی سے مقابلہ ہے تو دوسری طرف آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ہیں۔ وہی کام جو ہندوستان کشمیر میں کر رہا ہے ہم یہاں قانون کا ٹھپہ لگا کر کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ قانون ''اجنبیوں'' کے لیے ہے وہ جو یہاں کہ شہری نہیں ہیں، رہتے لیکن یہاں پر دہائیوں سے ہیں۔
اجنبی آسمانوں میں نہیں بسا کرتے، انھیں ہم ہی اپنے ساتھ ٹھہراتے تھے۔ جہاد کے نام پر ہم نے ہی ان کو دعوت دی تھی۔ کل تک وہ ہمارے مہمان تھے اور آج اجنبی۔ اور پھر کون کرے گا اس بات کی تشریح کہ کون اجنبی ہے اور کون نہیں۔ کون تھا اس کا میزبان اور کون مہمان۔ ہم بھی کوئی گوانتاناموبے جیسی جیل اپنی ہی سرزمین پر بنانا چاہتے ہیں۔ اجنبیوں کے بہانے یہ قانون ہمارے ہی خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔ کسی پر بھی ملک کی غداری کا الزام لگادو، یہ کافی ہوگا اس پر اس قانون کے اطلاق ہونے کا۔
''گمشدہ لوگوں'' والی اصلاح اور ''اجتماعی قبریں'' اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد سب قانونی ہوجائیں گی۔ پھر کوئی حبس بے جا میں نہیں ہوگا۔ نہ کوئی 561A کرمنل پروسیجر کے تحت ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے نہ اس قانون کے سیکشن 8 کے تحت بنائی ہوئی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرسکتا ہے۔ اس قانون کے بنانے والے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک کرمنل پروسیجر 1898 ہے تو دوسرا پروسیجر خود آئین کے اندر موجود ہے، جسے کوئی بھی ہائی کورٹ میں آرٹیکل 199 کے تحت چیلنج کرسکتا ہے۔ ہائی کورٹ چاہے تو کسی بات پر بھی اپنی جیورسڈکشن بناسکتی ہے۔ میں تو ذرا اور دور تک جاکر دیکھتا ہوں کہ یہ قانون خود ہائی کورٹس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش ہے۔
ہندوستان میں بھی ایک آمریت آئی تھی، وہ خاکی وردی پہن کر نہیں بلکہ بیلٹ باکس کے زوروں پر آئی تھی۔ اندرا گاندھی کا 1972 سے لے کر 1977 تک کا دور بہت بھیانک تھا۔ اس نے بھی حب الوطنی کے نام پر ایمرجنسی نافذ کی۔ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ Maintanance of Internal Security Act 1971 کے تحت گرفتار ہوئے، خود ہمارے کلدیپ نیر اور کئی دانشور و صحافی بھی اس قانون یعنی MISA 1971 کے تحت ان کے آئین کے آرٹیکل 22,21 اور 14 کے تحت جو ملے ہوئے بنیادی حقوق تھے، قدغن لگادی اور اس بات کو دیکھنے کا حق جو ان کے آرٹیکل 226 کے تحت تھا، ہائی کورٹس بول پڑیں کہ ان کے دروازے بند نہیں کیے جاسکتے۔
سیکشن 14 کے تحت جو بنیادی حق ہے ملزم کا، یہ اس کے مجرم ہونے کو پراسیکیوٹر ثابت کرے، وہ بھی لیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت صرف الزام لگانا ہی کافی ہے۔ کورٹ یہ باور کرے گی کہ وہ مجرم ہے بشرط دیگر ملزم یہ ثابت کرے کہ وہ کیوں مجرم نہیں ہے۔ اس سے نہ صرف اس قانون نے ہمارے آئین کی روح میں Validity نہیں پائی اور یوں Ultra Vived ہے بلکہ یہ تو ہماری دنیا کو دیے ہوئے اقرار ناموں کے بھی خلاف ہے کہ کہیں جاکر یہ ہمیں دنیا کے اندر مہذب ریاست ہونے کے تناظر سے بھی کاٹ کر نہ رکھ دے۔ اور ایسے کئی کرمنل پروسیجر کے تحت دیے ہوئے ملزم کے حقوق ہیں وہ بھی سلب کیے ہوئے ہیں۔
ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان بالآخر جسٹس عارف خلجی کی الوداعی ریفرنس اشاروں میں بول پڑے کہ عدالت آئین میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کا ہر حال میں دفاع کرے گی۔ دوسری طرف قومی اسمبلی نے تو اسے پاس کردیا مگر سینیٹ اسے پاس کرتے ہوئے نظر نہیں آرہی۔ اور خدانخواستہ اس قانون کے پاس کرنے کے لیے آئین آرٹیکل 70(3) والی نوبت آگئی یعنی مشترکہ اجلاس ایوانوں کا بلا کر سینیٹ کی حیثیت کم کرکے یہ قانون اگر پاس کیا گیا تو تاثر یہ جڑے گا کہ جیسے یہ قانون پورے ملک پر ٹھونسا گیا ہے اور اگر پاس ہوگیا، قانون بن گیا تو پھر سپریم کورٹ کی ہائی کورٹس کی آرٹیکل 184(3) و آرٹیکل 199 کے تحت جیورسڈکشن بنے گی کہ وہ اس کو دیکھیں کہ یہ Validity کے معیار پر پورا اترتا ہے یا یہ Ultra Vived ہے یعنی آئین سے متصادم ہے۔
حیرانی تو اس بات کی ہے اس قانون کے تحت سادہ اکثریت لے کر آرٹیکل 70 کے حوالے سے وہ کام کیا جا رہا ہے جو آئین کے آرٹیکل 238 کے تحت یعنی آئین میں ترمیم کرکے دو تہائی اکثریت لے کر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ آئین کے بنیادی رو سے متصادم ہے کیونکہ یہ قانون عام شہری کو دیے ہوئے بنیادی حقوق سلب کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ کوئی بھی ''فارنر'' اگر اس ملک میں ہے اور اس ملک کے قوانین کو توڑتا ہے تو ہمارا آئین اسے بھی وہ حق دیتا ہے جو یہاں کے عام شہری کے بنتے ہیں۔
کل یہ کام جب اندرا کر رہی تھی کیونکہ وہ بھی بھاری مینڈیٹ کے نشے میں چور تھی تو کورٹس اس سول آمریت کے خلاف کھڑی ہوگئی۔ جسٹس کھنہ، جسٹس سکری، جسٹس چندرپد جیسے کمال کے دلیر جج تھے وہ۔ مگر وہاں ماجرا کچھ اور تھا۔ اندرا کو خطرہ فوج سے نہیں کورٹ سے تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ کورٹس سے خطرات نہیں ہوا کرتے کیونکہ کورٹس کے پاس بندوق نہیں قلم ہوا کرتے ہیں اور ایسے قلم سے وہ کیشونندا کیس کے تحت بنیادی ڈھانچہ وضع کرکے سول آمریت کے راستے روکتے ہیں۔ اور سب کو آئین کے تابع کرتے ہیں۔
بدنصیبی ہماری یہ ہے کہ جب ہندوستان میں نانی پالکھی والا جیسے عظیم جیورسٹ کورٹ میں ایسے آمریت یا 32 ویں امینڈمنٹ کے خلاف صف آرا تھے تو ہمارے شریف الدین پیرزادہ جیسے عظیم وکیل آٹھویں ترمیم کے نسخے ضیا الحق کو بتا رہے تھے تو 17 ویں ترمیم کے طریقے جنرل مشرف کو۔ ہوا کیا؟
ہوا یہ کہ وہاں کشونندا کیس آفاقی حقیقت بن گیا اور یہاں عاصمہ جیلانی کیس بار بار سربازار رسوا ہوا۔
یہ سول آمریتوں کا خیال تھا جس نے ملک میں فوجی آمریتوں کے لیے بہانہ نکالا۔ بھٹو صاحب نے FSF بنائی، ہاں مگر بھٹو کے سیاسی وارثوں کو سول آمریت کا خیال نہیں آیا، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ چھوٹے صوبوں سے تھے۔ یہ مانیں کہ اندرا کتنی بھی سول آمریت رکھتی تھی، کتنا ہی اس کا اٹارنی جنرل نارائن ڈی یہ تک بھی کیشونندا کیس کے دوران کہتا رہا کہ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف آیا تو ہوسکتا ہے ججوں کو رخصت ہونا پڑے۔ مگر اندرا نے ایسا نہیں کیا۔
مسئلہ اس ملک کے لیے اب مارشل لا نہیں۔ یا جنرل مشرف کا ٹرائل وغیرہ نہیں۔ ایسے بحران سے ہم نکل آئیں گے، ضرورت ہماری کورٹس کو آگے آنے کی ہے تاکہ وہ آیندہ آنے والی سول آمریت کی سوچ کو روک سکیں۔
اچھی اور بری حکمرانی کے پیمانے پر جمہوریت کو اب نہیں تولا جاسکتا، کیونکہ جمہوریت ارتقائی عمل ہے۔ ہاں مگر جمہوری قوتیں خود آمریتیں بننا چاہیں یوں کہیے کہ جمہوریت ارتقا کرنے کے بجائے پیچھے کی طرف جائے تو پھر جمہوری قوتوں پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ کیونکہ تحفظ پاکستان جیسے قوانین آمریتیں لایا کرتی ہیں۔ عجیب ہے یہ قانون، آپ ہی منصف، آپ ہی وکیل، آپ ہی جلاد۔ جو چاہے سو آپ کرے ہیں، باقی سارا ڈھکوسلا ہے۔
جس کی تحریر میں ہی واضح تضاد ہو، اس کی تعمیل میں تو اور بھی مظالم ڈھائے جائیں گے۔ یہ مانا کہ ملک ایک خانہ جنگی میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف مذہبی انتہا پرستی سے مقابلہ ہے تو دوسری طرف آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ہیں۔ وہی کام جو ہندوستان کشمیر میں کر رہا ہے ہم یہاں قانون کا ٹھپہ لگا کر کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ قانون ''اجنبیوں'' کے لیے ہے وہ جو یہاں کہ شہری نہیں ہیں، رہتے لیکن یہاں پر دہائیوں سے ہیں۔
اجنبی آسمانوں میں نہیں بسا کرتے، انھیں ہم ہی اپنے ساتھ ٹھہراتے تھے۔ جہاد کے نام پر ہم نے ہی ان کو دعوت دی تھی۔ کل تک وہ ہمارے مہمان تھے اور آج اجنبی۔ اور پھر کون کرے گا اس بات کی تشریح کہ کون اجنبی ہے اور کون نہیں۔ کون تھا اس کا میزبان اور کون مہمان۔ ہم بھی کوئی گوانتاناموبے جیسی جیل اپنی ہی سرزمین پر بنانا چاہتے ہیں۔ اجنبیوں کے بہانے یہ قانون ہمارے ہی خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔ کسی پر بھی ملک کی غداری کا الزام لگادو، یہ کافی ہوگا اس پر اس قانون کے اطلاق ہونے کا۔
''گمشدہ لوگوں'' والی اصلاح اور ''اجتماعی قبریں'' اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد سب قانونی ہوجائیں گی۔ پھر کوئی حبس بے جا میں نہیں ہوگا۔ نہ کوئی 561A کرمنل پروسیجر کے تحت ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے نہ اس قانون کے سیکشن 8 کے تحت بنائی ہوئی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرسکتا ہے۔ اس قانون کے بنانے والے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک کرمنل پروسیجر 1898 ہے تو دوسرا پروسیجر خود آئین کے اندر موجود ہے، جسے کوئی بھی ہائی کورٹ میں آرٹیکل 199 کے تحت چیلنج کرسکتا ہے۔ ہائی کورٹ چاہے تو کسی بات پر بھی اپنی جیورسڈکشن بناسکتی ہے۔ میں تو ذرا اور دور تک جاکر دیکھتا ہوں کہ یہ قانون خود ہائی کورٹس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش ہے۔
ہندوستان میں بھی ایک آمریت آئی تھی، وہ خاکی وردی پہن کر نہیں بلکہ بیلٹ باکس کے زوروں پر آئی تھی۔ اندرا گاندھی کا 1972 سے لے کر 1977 تک کا دور بہت بھیانک تھا۔ اس نے بھی حب الوطنی کے نام پر ایمرجنسی نافذ کی۔ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ Maintanance of Internal Security Act 1971 کے تحت گرفتار ہوئے، خود ہمارے کلدیپ نیر اور کئی دانشور و صحافی بھی اس قانون یعنی MISA 1971 کے تحت ان کے آئین کے آرٹیکل 22,21 اور 14 کے تحت جو ملے ہوئے بنیادی حقوق تھے، قدغن لگادی اور اس بات کو دیکھنے کا حق جو ان کے آرٹیکل 226 کے تحت تھا، ہائی کورٹس بول پڑیں کہ ان کے دروازے بند نہیں کیے جاسکتے۔
سیکشن 14 کے تحت جو بنیادی حق ہے ملزم کا، یہ اس کے مجرم ہونے کو پراسیکیوٹر ثابت کرے، وہ بھی لیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت صرف الزام لگانا ہی کافی ہے۔ کورٹ یہ باور کرے گی کہ وہ مجرم ہے بشرط دیگر ملزم یہ ثابت کرے کہ وہ کیوں مجرم نہیں ہے۔ اس سے نہ صرف اس قانون نے ہمارے آئین کی روح میں Validity نہیں پائی اور یوں Ultra Vived ہے بلکہ یہ تو ہماری دنیا کو دیے ہوئے اقرار ناموں کے بھی خلاف ہے کہ کہیں جاکر یہ ہمیں دنیا کے اندر مہذب ریاست ہونے کے تناظر سے بھی کاٹ کر نہ رکھ دے۔ اور ایسے کئی کرمنل پروسیجر کے تحت دیے ہوئے ملزم کے حقوق ہیں وہ بھی سلب کیے ہوئے ہیں۔
ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان بالآخر جسٹس عارف خلجی کی الوداعی ریفرنس اشاروں میں بول پڑے کہ عدالت آئین میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کا ہر حال میں دفاع کرے گی۔ دوسری طرف قومی اسمبلی نے تو اسے پاس کردیا مگر سینیٹ اسے پاس کرتے ہوئے نظر نہیں آرہی۔ اور خدانخواستہ اس قانون کے پاس کرنے کے لیے آئین آرٹیکل 70(3) والی نوبت آگئی یعنی مشترکہ اجلاس ایوانوں کا بلا کر سینیٹ کی حیثیت کم کرکے یہ قانون اگر پاس کیا گیا تو تاثر یہ جڑے گا کہ جیسے یہ قانون پورے ملک پر ٹھونسا گیا ہے اور اگر پاس ہوگیا، قانون بن گیا تو پھر سپریم کورٹ کی ہائی کورٹس کی آرٹیکل 184(3) و آرٹیکل 199 کے تحت جیورسڈکشن بنے گی کہ وہ اس کو دیکھیں کہ یہ Validity کے معیار پر پورا اترتا ہے یا یہ Ultra Vived ہے یعنی آئین سے متصادم ہے۔
حیرانی تو اس بات کی ہے اس قانون کے تحت سادہ اکثریت لے کر آرٹیکل 70 کے حوالے سے وہ کام کیا جا رہا ہے جو آئین کے آرٹیکل 238 کے تحت یعنی آئین میں ترمیم کرکے دو تہائی اکثریت لے کر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ آئین کے بنیادی رو سے متصادم ہے کیونکہ یہ قانون عام شہری کو دیے ہوئے بنیادی حقوق سلب کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ کوئی بھی ''فارنر'' اگر اس ملک میں ہے اور اس ملک کے قوانین کو توڑتا ہے تو ہمارا آئین اسے بھی وہ حق دیتا ہے جو یہاں کے عام شہری کے بنتے ہیں۔
کل یہ کام جب اندرا کر رہی تھی کیونکہ وہ بھی بھاری مینڈیٹ کے نشے میں چور تھی تو کورٹس اس سول آمریت کے خلاف کھڑی ہوگئی۔ جسٹس کھنہ، جسٹس سکری، جسٹس چندرپد جیسے کمال کے دلیر جج تھے وہ۔ مگر وہاں ماجرا کچھ اور تھا۔ اندرا کو خطرہ فوج سے نہیں کورٹ سے تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ کورٹس سے خطرات نہیں ہوا کرتے کیونکہ کورٹس کے پاس بندوق نہیں قلم ہوا کرتے ہیں اور ایسے قلم سے وہ کیشونندا کیس کے تحت بنیادی ڈھانچہ وضع کرکے سول آمریت کے راستے روکتے ہیں۔ اور سب کو آئین کے تابع کرتے ہیں۔
بدنصیبی ہماری یہ ہے کہ جب ہندوستان میں نانی پالکھی والا جیسے عظیم جیورسٹ کورٹ میں ایسے آمریت یا 32 ویں امینڈمنٹ کے خلاف صف آرا تھے تو ہمارے شریف الدین پیرزادہ جیسے عظیم وکیل آٹھویں ترمیم کے نسخے ضیا الحق کو بتا رہے تھے تو 17 ویں ترمیم کے طریقے جنرل مشرف کو۔ ہوا کیا؟
ہوا یہ کہ وہاں کشونندا کیس آفاقی حقیقت بن گیا اور یہاں عاصمہ جیلانی کیس بار بار سربازار رسوا ہوا۔
یہ سول آمریتوں کا خیال تھا جس نے ملک میں فوجی آمریتوں کے لیے بہانہ نکالا۔ بھٹو صاحب نے FSF بنائی، ہاں مگر بھٹو کے سیاسی وارثوں کو سول آمریت کا خیال نہیں آیا، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ چھوٹے صوبوں سے تھے۔ یہ مانیں کہ اندرا کتنی بھی سول آمریت رکھتی تھی، کتنا ہی اس کا اٹارنی جنرل نارائن ڈی یہ تک بھی کیشونندا کیس کے دوران کہتا رہا کہ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف آیا تو ہوسکتا ہے ججوں کو رخصت ہونا پڑے۔ مگر اندرا نے ایسا نہیں کیا۔
مسئلہ اس ملک کے لیے اب مارشل لا نہیں۔ یا جنرل مشرف کا ٹرائل وغیرہ نہیں۔ ایسے بحران سے ہم نکل آئیں گے، ضرورت ہماری کورٹس کو آگے آنے کی ہے تاکہ وہ آیندہ آنے والی سول آمریت کی سوچ کو روک سکیں۔