اقتدار کی جنگ
اقوام متحدہ سے لے کر عالمی فورمز پر کشمیریوں کا کیس ضرور اٹھایا گیا مگر نتیجہ صفر رہا
بھارتی مسلمانوں نے بلاشبہ اب بھارت میں جینا سیکھ لیا ہے۔ وہ ماضی سے سبق لیتے ہوئے بھارتی غنڈوں سے نمٹنا سیکھ چکے ہیں۔ اب لگتا ہے انھیں بیرون ملک سے کسی کی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب وہ خود اپنی حفاظت کرسکتے ہیں۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو بیرون ملک سے ان کے لیے کیا کیا گیا؟ سوائے بیان بازی کے آگے کچھ نہیں کیا گیا۔ 1947 سے لے کر اب تک بھارت میں متعدد مرتبہ مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے جن میں گجرات، کلکتہ اور دہلی کے قتل عام سب سے زیادہ تباہ کن تھے۔
دنیا نے بھارت کو ان فسادات سے باز رکھنے کے لیے کیا کیا؟ کبھی کچھ نہیں کیا۔ بھارتی مسلمان تو بیرونی امدار سے لاتعلق ہو ہی چکے ہیں۔
اقوام متحدہ سے لے کر عالمی فورمز پر کشمیریوں کا کیس ضرور اٹھایا گیا مگر نتیجہ صفر رہا۔ بے شک پاکستان نے کشمیریوں کے لیے 1965 میں بھارت سے ٹکر لی۔ پیپلز پارٹی کا قیام کشمیر کی آزادی کے لیے عمل میں لایا گیا تھا کاش کہ بھٹو مغرب کے انتقام کا شکار نہ ہوتے تو شاید کشمیر کے مسئلے پر ضرور کچھ نہ کچھ پیش رفت ہو چکی تھی۔
اب 75 سالوں میں کشمیر میں حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں، مودی نے دہلی کا تخت سنبھالتے ہی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ہی ختم کردیا ہے۔ بھارتی حکومتیں پہلے بھی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتی آئی ہیں مگر مودی نے تو باقاعدہ جموں کشمیر کا نیا نقشہ جاری کر کے اسے تین حصوں میں بانٹ دیا اور اپنی من مانی کرتے ہوئے اسے بھارت میں ضم کرنے کی مضحکہ خیز کوشش کی ہے۔
اب نئے حالات میں کوئی بھی بھارتی وہاں جا کر آباد ہو سکتا ہے۔ وہاں کا ڈومیسائل حاصل کرسکتا ہے۔ وہاں کی زمینوں اور جائیداد کو پہلے کوئی بھی بھارتی خرید نہیں سکتا تھا مگر اب غیر کشمیری آزادی سے وہاں زمین اور جائیداد خرید رہے ہیں اور اپنے نام ٹرانسفر کرا رہے ہیں۔
اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی باشندوں کی تعداد میں بھی روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے لگتا ہے مسلمانوں کو اقلیت بنانے کی سازش ابھی نہیں تو چند سال بعد ضرور کامیاب ہو سکتی ہے اس وقت مودی کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح G-20 کا سربراہی اجلاس سری نگر میں منعقد ہو جائے، چین کے علاوہ کسی بھی ملک نے اس پر اعتراض نہیں کیا ہے۔
گزشتہ دنوں اس نے اروناچل پردیش میں بھی ایک عالمی کانفرنس منعقد کی تھی۔ چین نے اس کی سخت مخالفت کی تھی کیونکہ یہ ایک متنازع خطہ ہے اور اس کے تبت کا حصہ ہونے کی وجہ سے چین اس کا دعویدار ہے۔
چین بھارت کو روک تو نہ پایا مگر اس نے اس خطے کو اپنے نقشے میں شامل کرکے عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے۔ چین نے اروناچل پردیش کا نام بھی تبدیل کردیا ہے اور اس کے کئی شہروں کے نام بھی اپنی پسند کے رکھ دیے ہیں جس پر بھارتی حکومت بہت سیخ پا ہے۔
اروناچل میں کانفرنس منعقد کرنے کے بعد مودی کے حوصلے بہت بلند ہیں اور اب وہ سری نگر میں G-20 سربراہی اجلاس کو کامیاب بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
مغربی ممالک تو بھارت سے اپنے مالی مفادات کے تحت اس کے ہرگناہ کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو مودی اپنے مذموم مقاصد میں مسلسل کامیاب ہوتا جا رہا ہے پھر پاکستان کی طرف سے اسے کسی بھی طرح کی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔
پاکستان دراصل اس وقت اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ سیاست دان اقتدار کی جنگ پوری قوت سے لڑ رہے ہیں۔ انھیں بس اقتدار کی فکر ہے ملک و قوم کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ نفسا نفسی کا عالم اگرچہ ملک کی جڑیں ہلا رہا ہے مگر اس کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔
عوام موجودہ حکومت سے بدظن نظر آرہے ہیں کیونکہ اس کے آنے سے ملک میں مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے۔ بلاشبہ اس وقت حزب اختلاف کی پارٹی کا پلا بھاری ہے اس لیے کہ عوام اس کے پچھلے تمام گناہوں کو بھول کر اس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ عمران دوبارہ اقتدار میں آ کر ان کے تمام مسائل کو حل کر دے گا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ عوام کی یاد داشت بہت کمزور ہوتی ہے تو یہ بات بالکل درست ہے اور عوام کی اسی بھول کا سیاستدان فائدہ اٹھاتے چلے آ رہے ہیں۔
عمران خان کوئی نئے آدمی نہیں ہیں نہ وہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں وہ 2018 سے 2022 تک وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
وہ کس طرح وزیر اعظم بنے تھے یہ بات ایک الگ کہانی ہے تاہم انھوں نے اپنے دور اقتدار میں عوام کی بھلائی کے لیے کیا کیا؟ کیا اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں میں سے کسی ایک کو پورا کیا ؟ نہ غریبوں کو مکان بنا کر دیے نہ نوکریاں دیں البتہ مہنگائی کا تحفہ ضرور عوام کو دیا تھا اور اگر ان کی کرسی نہ چھینی جاتی تو آج جو حال موجودہ حکومت کا ہے۔
اس سے کہیں زیادہ بدتر پی ٹی آئی کا ہوتا۔ عمران خان اس وقت عوام میں اپنی مقبولیت پر بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں مگر یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اتحادی حکومت کی کارکردگی عمران خان سے بھی بدتر ثابت ہو رہی ہے۔ بس اسی لیے عوام اب عمران خان کی جانب دیکھ رہے ہیں مگر کیا عمران خان اقتدار پھر سنبھال کر معیشت کے بے قابو گھوڑے کو لگام دے سکیں گے۔
ایسا ہرگز نہیں لگتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس تجربہ کار اور باہمت ٹیم نہیں تھی۔ معیشت کا انحطاط انھی کے دور سے شروع ہوا، انھوں نے چار وزرائے خزانہ باری باری استعمال کیے مگر حالات بے قابو ہوتے گئے۔
پہلے وہ یہ کہتے رہے کہ خودکشی کر لوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا مگر آخر کار آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا تاہم اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی چنانچہ آئی ایم ایف نے ایسی سخت شرائط رکھیں جنھیں ماننا پڑا اور پھر جب عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کا جانا طے ہو گیا تو انھوں نے آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ توڑ دیا۔
اس سے ان کا خیال تھا کہ اتحادی حکومت زیادہ دیر نہیں ٹک سکے گی مگر اس سے اصل نقصان عوام کا ہوا۔ اس لیے کہ اتحادی حکومت کو آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ کرنے میں زیادہ سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑا، جس کا اثر عوام پر پڑا۔ اب عوام نہ صرف مہنگائی میں پس رہے ہیں بلکہ بجلی، گیس اور پٹرول کے مہنگے ہونے سے اپنے ہوش و حواس کھو چکے ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ حزب اختلاف اور حکومت اقتدار کا کھیل ترک کریں اور مل کر عوام کی حالت زار کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو بیرون ملک سے ان کے لیے کیا کیا گیا؟ سوائے بیان بازی کے آگے کچھ نہیں کیا گیا۔ 1947 سے لے کر اب تک بھارت میں متعدد مرتبہ مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے جن میں گجرات، کلکتہ اور دہلی کے قتل عام سب سے زیادہ تباہ کن تھے۔
دنیا نے بھارت کو ان فسادات سے باز رکھنے کے لیے کیا کیا؟ کبھی کچھ نہیں کیا۔ بھارتی مسلمان تو بیرونی امدار سے لاتعلق ہو ہی چکے ہیں۔
اقوام متحدہ سے لے کر عالمی فورمز پر کشمیریوں کا کیس ضرور اٹھایا گیا مگر نتیجہ صفر رہا۔ بے شک پاکستان نے کشمیریوں کے لیے 1965 میں بھارت سے ٹکر لی۔ پیپلز پارٹی کا قیام کشمیر کی آزادی کے لیے عمل میں لایا گیا تھا کاش کہ بھٹو مغرب کے انتقام کا شکار نہ ہوتے تو شاید کشمیر کے مسئلے پر ضرور کچھ نہ کچھ پیش رفت ہو چکی تھی۔
اب 75 سالوں میں کشمیر میں حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں، مودی نے دہلی کا تخت سنبھالتے ہی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ہی ختم کردیا ہے۔ بھارتی حکومتیں پہلے بھی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتی آئی ہیں مگر مودی نے تو باقاعدہ جموں کشمیر کا نیا نقشہ جاری کر کے اسے تین حصوں میں بانٹ دیا اور اپنی من مانی کرتے ہوئے اسے بھارت میں ضم کرنے کی مضحکہ خیز کوشش کی ہے۔
اب نئے حالات میں کوئی بھی بھارتی وہاں جا کر آباد ہو سکتا ہے۔ وہاں کا ڈومیسائل حاصل کرسکتا ہے۔ وہاں کی زمینوں اور جائیداد کو پہلے کوئی بھی بھارتی خرید نہیں سکتا تھا مگر اب غیر کشمیری آزادی سے وہاں زمین اور جائیداد خرید رہے ہیں اور اپنے نام ٹرانسفر کرا رہے ہیں۔
اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی باشندوں کی تعداد میں بھی روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے لگتا ہے مسلمانوں کو اقلیت بنانے کی سازش ابھی نہیں تو چند سال بعد ضرور کامیاب ہو سکتی ہے اس وقت مودی کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح G-20 کا سربراہی اجلاس سری نگر میں منعقد ہو جائے، چین کے علاوہ کسی بھی ملک نے اس پر اعتراض نہیں کیا ہے۔
گزشتہ دنوں اس نے اروناچل پردیش میں بھی ایک عالمی کانفرنس منعقد کی تھی۔ چین نے اس کی سخت مخالفت کی تھی کیونکہ یہ ایک متنازع خطہ ہے اور اس کے تبت کا حصہ ہونے کی وجہ سے چین اس کا دعویدار ہے۔
چین بھارت کو روک تو نہ پایا مگر اس نے اس خطے کو اپنے نقشے میں شامل کرکے عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے۔ چین نے اروناچل پردیش کا نام بھی تبدیل کردیا ہے اور اس کے کئی شہروں کے نام بھی اپنی پسند کے رکھ دیے ہیں جس پر بھارتی حکومت بہت سیخ پا ہے۔
اروناچل میں کانفرنس منعقد کرنے کے بعد مودی کے حوصلے بہت بلند ہیں اور اب وہ سری نگر میں G-20 سربراہی اجلاس کو کامیاب بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
مغربی ممالک تو بھارت سے اپنے مالی مفادات کے تحت اس کے ہرگناہ کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو مودی اپنے مذموم مقاصد میں مسلسل کامیاب ہوتا جا رہا ہے پھر پاکستان کی طرف سے اسے کسی بھی طرح کی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔
پاکستان دراصل اس وقت اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ سیاست دان اقتدار کی جنگ پوری قوت سے لڑ رہے ہیں۔ انھیں بس اقتدار کی فکر ہے ملک و قوم کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ نفسا نفسی کا عالم اگرچہ ملک کی جڑیں ہلا رہا ہے مگر اس کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔
عوام موجودہ حکومت سے بدظن نظر آرہے ہیں کیونکہ اس کے آنے سے ملک میں مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے۔ بلاشبہ اس وقت حزب اختلاف کی پارٹی کا پلا بھاری ہے اس لیے کہ عوام اس کے پچھلے تمام گناہوں کو بھول کر اس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ عمران دوبارہ اقتدار میں آ کر ان کے تمام مسائل کو حل کر دے گا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ عوام کی یاد داشت بہت کمزور ہوتی ہے تو یہ بات بالکل درست ہے اور عوام کی اسی بھول کا سیاستدان فائدہ اٹھاتے چلے آ رہے ہیں۔
عمران خان کوئی نئے آدمی نہیں ہیں نہ وہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں وہ 2018 سے 2022 تک وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
وہ کس طرح وزیر اعظم بنے تھے یہ بات ایک الگ کہانی ہے تاہم انھوں نے اپنے دور اقتدار میں عوام کی بھلائی کے لیے کیا کیا؟ کیا اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں میں سے کسی ایک کو پورا کیا ؟ نہ غریبوں کو مکان بنا کر دیے نہ نوکریاں دیں البتہ مہنگائی کا تحفہ ضرور عوام کو دیا تھا اور اگر ان کی کرسی نہ چھینی جاتی تو آج جو حال موجودہ حکومت کا ہے۔
اس سے کہیں زیادہ بدتر پی ٹی آئی کا ہوتا۔ عمران خان اس وقت عوام میں اپنی مقبولیت پر بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں مگر یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اتحادی حکومت کی کارکردگی عمران خان سے بھی بدتر ثابت ہو رہی ہے۔ بس اسی لیے عوام اب عمران خان کی جانب دیکھ رہے ہیں مگر کیا عمران خان اقتدار پھر سنبھال کر معیشت کے بے قابو گھوڑے کو لگام دے سکیں گے۔
ایسا ہرگز نہیں لگتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس تجربہ کار اور باہمت ٹیم نہیں تھی۔ معیشت کا انحطاط انھی کے دور سے شروع ہوا، انھوں نے چار وزرائے خزانہ باری باری استعمال کیے مگر حالات بے قابو ہوتے گئے۔
پہلے وہ یہ کہتے رہے کہ خودکشی کر لوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا مگر آخر کار آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا تاہم اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی چنانچہ آئی ایم ایف نے ایسی سخت شرائط رکھیں جنھیں ماننا پڑا اور پھر جب عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کا جانا طے ہو گیا تو انھوں نے آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ توڑ دیا۔
اس سے ان کا خیال تھا کہ اتحادی حکومت زیادہ دیر نہیں ٹک سکے گی مگر اس سے اصل نقصان عوام کا ہوا۔ اس لیے کہ اتحادی حکومت کو آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ کرنے میں زیادہ سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑا، جس کا اثر عوام پر پڑا۔ اب عوام نہ صرف مہنگائی میں پس رہے ہیں بلکہ بجلی، گیس اور پٹرول کے مہنگے ہونے سے اپنے ہوش و حواس کھو چکے ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ حزب اختلاف اور حکومت اقتدار کا کھیل ترک کریں اور مل کر عوام کی حالت زار کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔