عوام تجربات کے قیدی
عوام کے لیے آپ کو حیرت نہیں ہوگی کہ آپ بھی اس دلدل میں رہتے ہیں جسے مہنگائی کہتے ہیں
ہمارا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں اختلافات ہوں تو وہ بدتمیزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ سچ بولو تو آپ کو اہمیت نہیں دی جاتی اور آپ کو بے وقوف تصور کیا جاتا ہے اور اگر آپ چپ رہیں تو پستی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آپ کے جائز حقوق پر پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں اور اگر آپ نے حقائق بتا دیے تو بے حیائی کا لقب دے دیا جاتا ہے۔
غرض آپ آدھی حیوانیت کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ اختلافی نقطہ نظر کو تو تصوراتی کہانیوں میں ڈھال دیا جاتا ہے اور رہا معاملہ صبرکا تو صبر کا گھونٹ دوسروں کو پلانا تو بہت آسان ہے، خود پیتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ ایک ایک قطرہ پینا کتنا مشکل کام ہے۔ الیکشن کے حوالے سے سیاسی طور پر بیانات آتے رہتے ہیں جو چمک دمک اور رعنائیوں سے بھرپور ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ الیکشن سے سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوں گے قوم آٹے کی لائن میں کھڑی ہو تو کوئی سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں جب کہ یہ بہت اہم موضوع ہے کہ آٹے سے پیٹ کے دوزخ کا علاج کیا جاتا ہے الیکشن سے غریب اور ناتواں شخص کا پیٹ نہیں بھرے گا ہاں آٹے کی اہمیت ہے، دنیا کہاں سے کہاں کا سفر کر رہی ہے؟ ایک غیر ملکی صاحب جو پاکستانی تھے۔
1960 میں وہ پاکستان سے ہجرت کر گئے اور وہ پاکستانی اب ایک ملک کے وزیر اعظم ہیں وہ تو شکر کیجیے کہ چل گئے اگر یہاں ہوتے تو آٹے کی لائن میں لگے ہوتے وہ جواں مرد جو پاکستانی تھا ان کا نام حمزہ یوسف ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی سہولیات کا آغاز دوبارہ ہو گیا ہے مگر اس تجارتی مرکز پر توجہ نہیں دی جا رہی، شخصیت ہمیشہ زبان کے نیچے چھپی ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں تو سیاسی زبان ہی نہیں سب گونگے بنے ہوئے ہیں۔
عوام کے لیے آپ کو حیرت نہیں ہوگی کہ آپ بھی اس دلدل میں رہتے ہیں جسے مہنگائی کہتے ہیں۔ ایک کلو گائے کا گوشت لیا نرخ پوچھے تو کہا گیا، 1100 روپے فی کلو ہے میں تو مجسمے کی طرح ساکت ہو گیا اگر کوئی فیشن شاپ کا مالک دیکھ لیتا تو یقینا مجھے شوکیس میں سجا دیتا وہاں تو ایک کوٹ پہن کر ہی کھڑا ہونا تھا، واقعی قبر کی اہمیت اب بہت اجاگر ہوگئی ہے کہ سکون وہیں ملے گا اور لواحقین کہتے پھریں گے کہ نہ مرتے تو اچھا تھا یہ کیا گئے ساتھ میں چالیس ہزار بھی خرچ کروا کر چلے گئے۔
اب آتے ہیں تکنیکی ماہرین کی طرف جب پاکستان کا معاہدہ چین سے تجارتی ہو گیا ہے جب کہ چین اپنی پروڈکٹ کے حوالے سے دنیا میں چھایا ہوا ہے تو ہمارے تجارتی امور کے کرتا دھرتا اس سے گوشت کیوں نہیں امپورٹ کرتے کہ وہ ایک غیر مسلم ملک ہے۔
ان کے ہاں گائے، بکرے بکریاں یہاں تک کہ اونٹ بھی لاکھوں نہیں سیکڑوں کے حساب سے پیدا ہوتے ہیں ان سے گوشت یا جانور امپورٹ کریں مگر یہاں تو مراعات دینے اور مراعات لینے کے حوالے سے روٹیشن کی پالیسی کی پازیب خوبصورتی سے دکھائی دیتی ہے صحت مند روایت تو 40 سال پہلے عوامی صبر کی قبر میں دفن ہوئی بکرے کا گوشت 2500 روپے تک فروخت کیا جا رہا ہے انڈیا، سری لنکا سے گوشت امپورٹ کیوں نہیں کیا جاتا مگر ہمارے ہاں تو جو الیکشن میں کھمبوں پر چڑھ کر بینر لگاتا ہے اسے بھی مختلف مراعات پارٹیوں کے کرتا دھرتا دیتے ہیں۔
اب تو یہ حال ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں سے وابستہ حضرات جو تعلیم یافتہ ہیں انھوں نے اپنی ہی پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کرنی شروع کردی ہے اور عوام ان کے اس جذبے کو سراہا رہی ہے۔ مردم شماری پر کروڑوں روپے خرچ کردیے گئے یہ قوم کا پیسہ تھا قوم پر لگتا تو کچھ برسر اقتدار حضرات کو بھی لوگ تعریفی نگاہ سے دیکھتے مگر ایسا نہیں ہوا اور قابلیت کا گہوارہ زمیں بوس ہوا۔
کلچر اور تہذیب کے لیے دلیل ہونی چاہیے مگر کوئی دلیل آج کے زمانے میں ماننے کو تیار نہیں، بس یہ قوم اب تجربات کی قیدی ہوگئی ہے مردم شماری پر خطیر رقم خرچ کی اسٹیشنری، سیکیورٹی مرد اور خواتین ورکر غرض ہر جگہ پیسہ فکری پرواز سے بے پروا ہو کر خرچ کیا گیا۔
اس مردم شماری کا حل تو یہ تھا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو برتھ سرٹیفکیٹ، جب بڑا ہوا تو ب فارم، 18 سال کا ہوا تو شناختی کارڈ، جب ڈرائیور بنے تو لائسنس، جب شادی ہو تو نکاح نامہ سرٹیفکیٹ، جب وفات پائے تو ڈیتھ سرٹیفکیٹ، جب یہ تمام چیزیں نادرا کے پاس موجود ہیں تو ڈیٹا نادرا سے کیوں نہیں لیا گیا یہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر جب سڑکیں ٹوٹ جائیں، نالے بند ہو جائیں۔
پل مضحکہ خیز شکل اختیار کرلیں تو ہر میئر نے کہا کہ ہمارے پاس بجٹ نہیں ہے۔ سیاسی محاذ آرائی نے آتش فشاں کا منظر عروج پر پہنچا دیا ہے ہچکچاہٹ کا فیشن مضحکہ خیز شکل اختیار کر گیا ہے ادب سے بے ادبیاں نمایاں ہو رہی ہیں اب تو صرف سیاسی تصوراتی کہانی منظر عام پر آتی ہیں۔ شک و شبہات کا ماضی میں اور حال میں یہ عالم ہے کہ آنے والے جانے والی حکومت کا بیانات کے حوالے سے ستیا ناس کرتے ہیں اور قوم خون کے آنسو صبر کے ساتھ بہاتی ہے۔
انداز و اطوار ماضی کی روایت کے تحت مسائل حل کیے بغیر رواں دواں ہیں سیاسی کارکردگی کو دیکھ کر عوام میں تشویش کی لہر برف کی طرح جم گئی ہے وفاقی وزرا، صوبائی وزرا، مشیر حضرات موجود ہیں جمہوری قوالیاں عروج پر ہیں اور مزے کی بات دیکھیں کہ جب الیکشن کا وقت ہوتا ہے تو نگران حکومت آجاتی ہے جس میں اکثر 6 یا 7 وفاقی وزیر ہوتے ہیں جو کراچی سے لے کر خیبر تک اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہیں۔
اس پر کسی سیاستدان نے افراتفری کا شور نہیں مچایا کہ یہ وفاقی وزرا مختلف شعبہ ہائے زندگی کو کس طرح چلائیں گے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ عوام کی نگاہ میں یہ چند وفاقی وزرا واجب الاحترام ہیں اور عوامی اعزاز و اکرام کے لائق ہیں۔
کیا آئین مختصر سی کابینہ کو اوور ٹائم دیا جاتا ہے مسئلہ یہ ہے کہ ان وزرا میں چاچے، مامے نہیں ہوتے اور یہ چاچے، مامے آنا بھی پسند نہیں کرتے کہ تین ماہ کے قلیل عرصے میں ان کے خواب پورے نہیں ہوتے اور ادھورے خواب دیکھنے کے یہ عادی نہیں دلاسوں پر قوم زندہ ہے۔ اس دفعہ کا الیکشن سیاسی طور پر بڑا امتحان ہوگا جو جیتے گا وہ اصلاحات کی نوید مٹھی بھری فائل سے نکال کر جھاڑ جھاڑ کر قوم کو بتائے گا۔
پی ڈی ایم ایک پلیٹ فارم سے الیکشن نہیں لڑے گی وہ اپنے اپنے صوبوں کے حوالے سے لڑے گی جب کہ عمران خان کے چاروں صوبوں میں امیدوار ہوں گے۔
اب یہ امید کس کی پوری ہوتی ہے یہ اوپر والے کو پتا ہے اگر پی ڈی ایم ایک پلیٹ فارم سے لڑے گی تو پھر عمران خان کے لیے بھی آنے والا الیکشن امتحان ہوگا یہ سب تو نصیبوں کے کھیل ہیں کہ تاش کے باون پتے کون خوبصورتی سے کھیلے گا قوم تو ان سیاست دانوں کے رویوں کے تجزیے سے لطف اندوز ہو رہی ہے مگر یہ تمام سیاسی حضرات سوشل میڈیا کو بالکل ہلکا نہ لیں کہ سوشل میڈیا نے سب کے چودہ طبق روشن کردیے ہیں۔
غرض آپ آدھی حیوانیت کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ اختلافی نقطہ نظر کو تو تصوراتی کہانیوں میں ڈھال دیا جاتا ہے اور رہا معاملہ صبرکا تو صبر کا گھونٹ دوسروں کو پلانا تو بہت آسان ہے، خود پیتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ ایک ایک قطرہ پینا کتنا مشکل کام ہے۔ الیکشن کے حوالے سے سیاسی طور پر بیانات آتے رہتے ہیں جو چمک دمک اور رعنائیوں سے بھرپور ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ الیکشن سے سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوں گے قوم آٹے کی لائن میں کھڑی ہو تو کوئی سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں جب کہ یہ بہت اہم موضوع ہے کہ آٹے سے پیٹ کے دوزخ کا علاج کیا جاتا ہے الیکشن سے غریب اور ناتواں شخص کا پیٹ نہیں بھرے گا ہاں آٹے کی اہمیت ہے، دنیا کہاں سے کہاں کا سفر کر رہی ہے؟ ایک غیر ملکی صاحب جو پاکستانی تھے۔
1960 میں وہ پاکستان سے ہجرت کر گئے اور وہ پاکستانی اب ایک ملک کے وزیر اعظم ہیں وہ تو شکر کیجیے کہ چل گئے اگر یہاں ہوتے تو آٹے کی لائن میں لگے ہوتے وہ جواں مرد جو پاکستانی تھا ان کا نام حمزہ یوسف ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی سہولیات کا آغاز دوبارہ ہو گیا ہے مگر اس تجارتی مرکز پر توجہ نہیں دی جا رہی، شخصیت ہمیشہ زبان کے نیچے چھپی ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں تو سیاسی زبان ہی نہیں سب گونگے بنے ہوئے ہیں۔
عوام کے لیے آپ کو حیرت نہیں ہوگی کہ آپ بھی اس دلدل میں رہتے ہیں جسے مہنگائی کہتے ہیں۔ ایک کلو گائے کا گوشت لیا نرخ پوچھے تو کہا گیا، 1100 روپے فی کلو ہے میں تو مجسمے کی طرح ساکت ہو گیا اگر کوئی فیشن شاپ کا مالک دیکھ لیتا تو یقینا مجھے شوکیس میں سجا دیتا وہاں تو ایک کوٹ پہن کر ہی کھڑا ہونا تھا، واقعی قبر کی اہمیت اب بہت اجاگر ہوگئی ہے کہ سکون وہیں ملے گا اور لواحقین کہتے پھریں گے کہ نہ مرتے تو اچھا تھا یہ کیا گئے ساتھ میں چالیس ہزار بھی خرچ کروا کر چلے گئے۔
اب آتے ہیں تکنیکی ماہرین کی طرف جب پاکستان کا معاہدہ چین سے تجارتی ہو گیا ہے جب کہ چین اپنی پروڈکٹ کے حوالے سے دنیا میں چھایا ہوا ہے تو ہمارے تجارتی امور کے کرتا دھرتا اس سے گوشت کیوں نہیں امپورٹ کرتے کہ وہ ایک غیر مسلم ملک ہے۔
ان کے ہاں گائے، بکرے بکریاں یہاں تک کہ اونٹ بھی لاکھوں نہیں سیکڑوں کے حساب سے پیدا ہوتے ہیں ان سے گوشت یا جانور امپورٹ کریں مگر یہاں تو مراعات دینے اور مراعات لینے کے حوالے سے روٹیشن کی پالیسی کی پازیب خوبصورتی سے دکھائی دیتی ہے صحت مند روایت تو 40 سال پہلے عوامی صبر کی قبر میں دفن ہوئی بکرے کا گوشت 2500 روپے تک فروخت کیا جا رہا ہے انڈیا، سری لنکا سے گوشت امپورٹ کیوں نہیں کیا جاتا مگر ہمارے ہاں تو جو الیکشن میں کھمبوں پر چڑھ کر بینر لگاتا ہے اسے بھی مختلف مراعات پارٹیوں کے کرتا دھرتا دیتے ہیں۔
اب تو یہ حال ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں سے وابستہ حضرات جو تعلیم یافتہ ہیں انھوں نے اپنی ہی پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کرنی شروع کردی ہے اور عوام ان کے اس جذبے کو سراہا رہی ہے۔ مردم شماری پر کروڑوں روپے خرچ کردیے گئے یہ قوم کا پیسہ تھا قوم پر لگتا تو کچھ برسر اقتدار حضرات کو بھی لوگ تعریفی نگاہ سے دیکھتے مگر ایسا نہیں ہوا اور قابلیت کا گہوارہ زمیں بوس ہوا۔
کلچر اور تہذیب کے لیے دلیل ہونی چاہیے مگر کوئی دلیل آج کے زمانے میں ماننے کو تیار نہیں، بس یہ قوم اب تجربات کی قیدی ہوگئی ہے مردم شماری پر خطیر رقم خرچ کی اسٹیشنری، سیکیورٹی مرد اور خواتین ورکر غرض ہر جگہ پیسہ فکری پرواز سے بے پروا ہو کر خرچ کیا گیا۔
اس مردم شماری کا حل تو یہ تھا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو برتھ سرٹیفکیٹ، جب بڑا ہوا تو ب فارم، 18 سال کا ہوا تو شناختی کارڈ، جب ڈرائیور بنے تو لائسنس، جب شادی ہو تو نکاح نامہ سرٹیفکیٹ، جب وفات پائے تو ڈیتھ سرٹیفکیٹ، جب یہ تمام چیزیں نادرا کے پاس موجود ہیں تو ڈیٹا نادرا سے کیوں نہیں لیا گیا یہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر جب سڑکیں ٹوٹ جائیں، نالے بند ہو جائیں۔
پل مضحکہ خیز شکل اختیار کرلیں تو ہر میئر نے کہا کہ ہمارے پاس بجٹ نہیں ہے۔ سیاسی محاذ آرائی نے آتش فشاں کا منظر عروج پر پہنچا دیا ہے ہچکچاہٹ کا فیشن مضحکہ خیز شکل اختیار کر گیا ہے ادب سے بے ادبیاں نمایاں ہو رہی ہیں اب تو صرف سیاسی تصوراتی کہانی منظر عام پر آتی ہیں۔ شک و شبہات کا ماضی میں اور حال میں یہ عالم ہے کہ آنے والے جانے والی حکومت کا بیانات کے حوالے سے ستیا ناس کرتے ہیں اور قوم خون کے آنسو صبر کے ساتھ بہاتی ہے۔
انداز و اطوار ماضی کی روایت کے تحت مسائل حل کیے بغیر رواں دواں ہیں سیاسی کارکردگی کو دیکھ کر عوام میں تشویش کی لہر برف کی طرح جم گئی ہے وفاقی وزرا، صوبائی وزرا، مشیر حضرات موجود ہیں جمہوری قوالیاں عروج پر ہیں اور مزے کی بات دیکھیں کہ جب الیکشن کا وقت ہوتا ہے تو نگران حکومت آجاتی ہے جس میں اکثر 6 یا 7 وفاقی وزیر ہوتے ہیں جو کراچی سے لے کر خیبر تک اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہیں۔
اس پر کسی سیاستدان نے افراتفری کا شور نہیں مچایا کہ یہ وفاقی وزرا مختلف شعبہ ہائے زندگی کو کس طرح چلائیں گے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ عوام کی نگاہ میں یہ چند وفاقی وزرا واجب الاحترام ہیں اور عوامی اعزاز و اکرام کے لائق ہیں۔
کیا آئین مختصر سی کابینہ کو اوور ٹائم دیا جاتا ہے مسئلہ یہ ہے کہ ان وزرا میں چاچے، مامے نہیں ہوتے اور یہ چاچے، مامے آنا بھی پسند نہیں کرتے کہ تین ماہ کے قلیل عرصے میں ان کے خواب پورے نہیں ہوتے اور ادھورے خواب دیکھنے کے یہ عادی نہیں دلاسوں پر قوم زندہ ہے۔ اس دفعہ کا الیکشن سیاسی طور پر بڑا امتحان ہوگا جو جیتے گا وہ اصلاحات کی نوید مٹھی بھری فائل سے نکال کر جھاڑ جھاڑ کر قوم کو بتائے گا۔
پی ڈی ایم ایک پلیٹ فارم سے الیکشن نہیں لڑے گی وہ اپنے اپنے صوبوں کے حوالے سے لڑے گی جب کہ عمران خان کے چاروں صوبوں میں امیدوار ہوں گے۔
اب یہ امید کس کی پوری ہوتی ہے یہ اوپر والے کو پتا ہے اگر پی ڈی ایم ایک پلیٹ فارم سے لڑے گی تو پھر عمران خان کے لیے بھی آنے والا الیکشن امتحان ہوگا یہ سب تو نصیبوں کے کھیل ہیں کہ تاش کے باون پتے کون خوبصورتی سے کھیلے گا قوم تو ان سیاست دانوں کے رویوں کے تجزیے سے لطف اندوز ہو رہی ہے مگر یہ تمام سیاسی حضرات سوشل میڈیا کو بالکل ہلکا نہ لیں کہ سوشل میڈیا نے سب کے چودہ طبق روشن کردیے ہیں۔