بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال
تحریک پاکستان کا ایک 'گم نام محسن'
تحریک پاکستان کی نمایاں شخصیت ڈاکٹر افضال قادری کی 'دریافت' کا یہ کام محمد مشہود قاسمی کے ہاتھوں ہوا ہے، سیاست اور تعلیم سے لے کر سائنس کے میدان تک ان کے پھیلے ہوئے وسیع کام کی بابت اس کتاب کے محقق کو بھی حیرت ہوتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی دستاویزات، بانی پاکستان سے اس قدر خط وکتابت اور اس ملک کی تحریک میں اتنا اہم حصہ، اس کے باوجود انھوں نے گوشہ نشینی اختیار رکھی، خودنوشت لکھی نہ کہیں یادداشتیں پیش کیں، یہاں تک کے کہ کوئی انٹرویو وغیرہ بھی نہ دیا۔ وہ انتہائی بے نیاز قسم کی شخصیت تھے۔
ہندوستان کے بٹوارے کے ہنگام میں انھوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے مرکز 'علی گڑھ یونیورسٹی' کو بلوائیوں سے بچانے کی خاطر وہاں قیام کیا، آخر میں حالات نہایت غیر موافق ہوتے چلے گئے۔
ان پر وہاں بغاوت تک کے مقدمات بن گئے، چناں چہ انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور اس سے قبل تحریک پاکستان سے متعلق اہم دستاویزات خود ہی تلف کر ڈالیں! پاکستان آنے کے بعد سیاست سے بالکل پرے رہے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کے اظہار خیال سے بھی گریزاں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کی بنیاد کا پتھر ہوں مجھے بنیاد ہی میں رہنے دو۔ تاریخ میں ڈاکٹر افضال قادری تقسیم ہندوستان کی مجوزہ 'علی گڑھ اسکیم' کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں، وہ انگلستان میں چوہدری رحمت علی کے ساتھ رہے، جو آل انڈیا مسلم لیگ کے ناقد تھے اور ان سے ایک فاصلے پر رہے۔
چوہدری رحمت علی نے ہندوستان میں اپنی 'تحریک پاکستان' کا ذمہ ڈاکٹر قادری کو سونپا تھا۔ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ کے ڈاکٹر ظفر الحسن کے ہم راہ 'علی گڑھ اسکیم' پیش کی، جس میں موجودہ پاکستان اور بنگلادیش کے ساتھ 'ہندو ہندوستان' اور اس میں دو خود مختار صوبے دلی (بشمول علی گڑھ) اور مالابار تجویز کیے گئے۔
جہاں اقلیت کے طور پر مسلمانوں کا تناسب بالترتیب 25 اور 27 فی صد ہوتا۔ اور یوں 'ہندو ہندوستان' میں مسلمان اقلیت 10 فی صد رہ جاتی۔
اس طرح انھوں نے برصغیر کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے مسائل کا بھی کماحقہ ادراک کیا۔ اس کتاب ''حصول پاکستان تک قائداعظم کے ہمراہ ، ڈاکٹر افضال حسین قادری'' میں افضال قادری کے قائداعظم کو لکھے گئے خطوط اور مختلف حوالہ جاتی مواد کو بھی شامل کیا گیا ہے، ساتھ ہی ان کے حوالے سے اہل خانہ کے رشحات قلم بھی اس کتاب کی زینت ہیں۔ یوں یہ کتاب ایک وقیع تاریخی دستاویز بن جاتی ہے، جسے مشہود قاسمی نے تاریخ کے طالب علموں کے لیے سجا سنوار کر پیش کر دیا ہے۔
یوں انھوں مستقبل کے مورخ کے لیے بہتیرے کاموں کو آسان بھی کر دیا ہے، بلکہ ہمارے گوشہ گم نامی میں رہ جانے والے ایک محسن سے بھی ہمیں روشناس کرایا ہے۔ ساڑھے تین سو صفحات کی اس تاریخی دستاویز کی قیمت ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے، جو کہ فضلی سنز (021-32633997-0336/2633887) سے دست یاب ہے۔
تحیّرانگیز تجربات، مشاہدات اور حوادث
کہنے کو ''نگارخانہ'' رئیس فاطمہ کی آپ بیتی ہے، لیکن اس 'خود نوشت' کا اچھا خاصا حصہ ان کے مشاہدے میں آئے ہوئے مختلف واقعات پر مبنی ہے، جو خود ان سے زیادہ ان کے حلقۂ احباب کی کتھا ہے، اور ایک عجیب وغریب کتھا، حادثات وواقعات، بہت سے سبق آموز بھی، دل دوز بھی اور بہت سی جگہوں پر مافوق الفطرت بھی۔۔۔ کچھ کی ذاتی اعتقادات اور بعضوں کی روحانی توجیہات دی گئی ہیں۔
جیسے کچھ پر 'پرچھاویں آجانا'، اوپری اثرات اور جنات کے معاملات بھی اس کتاب میں جا بہ جا پڑھنے میں آتے ہیں۔ جیون کی کہانی درکہانی کھلتی ہی چلی جاتی ہیں۔۔۔ کتنی ہی زندگیاں، کتنے ہی خاندان اور شخصیات کے تذکرے آتے ہیں، جن میں مشہور و معروف شخصیات سے لے کر ذاتی طور پر راہ ورسم رکھنے والی بے شمار شخصیات، سبھی شامل ہیں۔
رئیس فاطمہ کی جنم بھومی یعنی سرحد پار ہندوستان سے اِس پار تلک۔ بچپن سے لے کر زندگی کے موجودہ مراحل تک۔۔۔ زمانۂ طالب علمی سے ازدواجی زندگی اور پیشہ وارانہ بپتا سے گھر گرہستی تک۔۔۔ ذاتی زندگی، تدریسی، ادبی، سماجی اور صحافتی تجربات کا خلاصہ۔۔۔ نجی زندگی کے طرح طرح کے تجربات، حوادث، نشیب وفراز اور ہنگامہ خیزی۔۔۔ اس آپ بیتی میں بہت سی ایسی شخصیات کا درد بھی موجود ہے۔
جو دنیا سے گزر گئیں اور کچھ اسی دنیا کے بھیڑ بھڑکّے میں کہیں کھو کر رہ گئیں۔ بدلتی ہوئی دنیا کے رنگوں پر بہتیرے سوالات اور اس پر بے لاگ احساسات اور جذبات۔ ہندوستان سے یہاں ہجرت کا درد اور کراچی میں ان پر اس سبب سے گزری بہت سی اَن کہی اور ناگفتنی انھوں نے بہت بے باکانہ انداز میں کہہ ڈالی ہے۔
افسانوں، کہانیوں، سفرناموں، کالموں کے مجموعوں سے لے کر تنقید وغیرہ تک، ان کی کتابوں کی اشاعت اور ان کے پیچھے کی عرق ریزی اور حالات وواقعات کا احوال بھی ہمیں اس کتاب میں ملتا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ رئیس فاطمہ صاحبہ نے بہت تفصیل سے اپنی جیون کتھا لکھ ڈالی ہے، جو کہ بہت بھرپور ہے۔
اس مجلد کتاب کے آخر میں مصنفہ اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ مختلف شخصیات کے ساتھ تصاویر بھی شامل ہیں۔ 215 صفحات کی اس کتاب کی اشاعت راشد اشرف کے معروف سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت 'اٹلانٹس ڈیجیٹل پرنٹرز' سے کی گئی ہے، قیمت 990 روپے۔
''موٹی''
ثمینہ مشتاق کا یہ ناول 'موٹی' خواتین کے معروف ماہ نامہ 'دوشیزہ' میں قسط وار شایع ہو چکا ہے، دو برس جاری رہنے والے اس ناول کو اب کتابی صورت میں یک جا کیا گیا ہے۔
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو فربہ جسامت کی مالک ہوتی ہے اور اسی سبب اس کے رشتے کے مسائل بھی معمول سے کچھ زیادہ درپیش ہوتے ہیں، زندگی میں اس لڑکی کے احساسات، جذبات اور خود اس کے ساتھ کیا بیتتی ہے۔
اس کی منظر کشی اس ناول کے صفحات پر ہمیں خوب ملتی ہے۔ کراچی شہر کے پس منظر میں بُنی گئی یہ کہانی دیگر ملک کے شہروں کے جغرافیائی نفوذ سے بھی آراستہ ہوتی ہے اور اس میں ڈائجسٹ کا روایتی تمثیلی رنگ چوکھا اور نشیب وفراز کی چاشنی بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔۔۔ عام طور پر مرکزی کردار ناول کے ابتدائی حصے میں شامل ہوتے ہیں، لیکن اس کے برخلاف اس ناول میں دوسرے مرکزی کرداروں کی شمولیت فوری نہیں ہوتی، تاہم کہانی میں زندگی کی تلخیاں اور اتار چڑھاؤ سے لے کر ڈرامائی رنگ تک سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔
مکالمہ نگاری اور ترکی بہ ترکی جواب کا اسلوب بھی یہاں دست یاب ہے اور بعضے فقروں کی کاٹ، ماحول کی تمہید اور صورت حال کی منظر کشی پر بے ساختہ اس کے جملے دُہرانے کو طبیعت چاہتی ہے، کیوں کہ کہانی یہاں چلتے چلتے خیال کی گہرائی اور کہیں کسی بات کے طنز، کاٹ یا تلخی بہت بے رحمی سے اپنے قاری کو دعوت فکر دے رہی ہوتی ہے۔
کہانی کی ضرورت کے مطابق جہاں ٹھیراؤ کی ضرورت ہو، وہاں قیام اور جہاں تفصیل کی گنجائش ہو، وہاں اس سے بہت اچھی طرح عہدہ برآ ہوا گیا ہے، البتہ پروف کے معیار میں بہتری کی کافی گنجائش دکھائی دیتی ہے۔ 512 صفحات کے اس ناول کی اشاعت 'سٹی بک پوائنٹ' (021-32762483) سے کی گئی ہے اور اس کی قیمت 1800 روپے ہے۔
''رئیس فاطمہ۔۔۔ احوال وآثار''
''رئیس فاطمہ۔۔۔ احوال وآثار'' کے عنوان سے یہ کتاب سید معراج جامی نے مرتب کی ہے۔ جس میں رئیس فاطمہ کے فن پر مقالات ومضامین وغیرہ شامل ہیں، جس میں ممتاز شاعر ونقاد جمیل الدین عالی، انتظار حسین، ڈاکٹرممتاز احمد خان، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر علی حیدر ملک، رفیع الزماں زبیری کے رشحات قلم موجود ہیں۔ رئیس فاطمہ کے افسانوں پر مشہورِ ومعروف 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے بانی مدیر شکیل عادل زادہ، ڈاکٹر سہیل آغا، حمید اختر، انور احسن صدیقی، ادیب سہیل، ڈاکٹر مشرف احمد کی آرا شامل ہے۔
جب کہ رئیس فاطمہ کی سفرنامہ نگاری، کالم نگاری اور ان کی شخصیت اور فنی زندگی کے دیگر مجموعی احوال کے باب میں ڈاکٹر نثار احمد زبیری، پروفیسر یسین معصوم اور طاہر نجمی کے علاوہ روزنامہ ایکسپریس میں راقم السطور کو دیا گیا انٹرویو بھی شامل ہے۔
کتاب کے ان 30 سے زائد مشمولات کے علاوہ 11 عدد تبصرے بھی اس کتاب کی زینت ہیں، جو ان کی مختلف تصانیف پر کیے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ رئیس فاطمہ کے 21 اخباری کالم اور دو عدد افسانے بھی اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ رئیس فاطمہ کے ادبی و صحافتی کام پر کی گئی مختلف تعلیمی اداروں کی علمی تحقیقات سے لے کر ان پر اظہار خیال کی گئی مختلف تحریروں اور مضامین کے علاوہ نام وَر افسانہ نگار الطاف فاطمہ کا ان کے نام ایک مکتوب بھی اس کتاب کی زینت ہے۔
اس کتاب میں کہیں کہیں پروف کی غلطیاں بہت کَھلتی ہیں، بالخصوص 'ایکسپریس' کو دیے گئے انٹرویو والے حصے میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی سبب یہ 'پروف خوانی' کے مرحلے سے یک سر ہی چُوک گیا ہے۔ امید ہے آئندہ اشاعت میں ان اغلاط کو دور کر لیا جائے گا۔ رئیس فاطمہ کی شخصیت اور ان کے حالات و واقعات سے لے کر ان کے ادبی وفنی محاسن کے حوالے سے محققین اور دیگر مشاہیر علم وادب کی جانب سے اظہار خیال بھی اس کتاب میں پیش کردیا گیا ہے۔ 'بزم تخلیق ادب' کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کے 336 صفحات اور قیمت ایک ہزار روپے ہے۔
رواں سائنسی استدلال سے آراستہ تفسیرِ
قرآن مجید کے مختلف مفسرین نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ بہت سے تراجم میں معنی کا اختلاف بھی پیدا ہوا، جو ظاہر ہے پھر تفسیر کرتے ہوئے اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
ایسے میں ڈاکٹر میر انیس الدین (حیدرآباد دکن) کی تین جلدوں میں جمع کی گئی تفسیر بہ عنوان 'درسِ قرآن' ایک مختلف اور منفرد منظر دکھاتی ہے۔ اس کے مؤلف صاحب زادہ محمود ہیں۔
اس تفسیر کو شروع کرتے ہی سب سے پہلے اس کا رواں اسلوب آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، اور پھر اسی ہلکے پھلکے اور سہل انداز میں وہ قرآنی مفاہیم کو کھولتے چلے جاتے ہیں، اور ہر استدلال کی عقلی اور منطقی توجیہہ بھی پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کے معانی جاننے کے لیے سب سے پہلے ان آیات سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ سے راہ نمائی لینی چاہیے۔
اس کے بعد صحابہ کرامؓؓ اور پھر اس کے بعد دیگر استدلال کی جانب آنا چاہیے۔ جب اللہ کے کسی کلام سے متعلق جناب رسول اللہ ﷺ کے ارشادات موجود ہوں تو ہمارے لیے لائق نہیں ہے کہ ہم ہدایت کے لیے کسی اور کی جانب دیکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ان 'دروس' میں منطقی سہاروں اور سماجیات سے سائنسی مظاہر تک کو شامل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ قرآن پڑھنے اورپڑھانے سے مراد صرف لفظی طور پر پڑھنا پڑھانا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد کلام پاک کے معانی ومفاہیم جان کر اس پر عمل پیر اہونا ہے۔ قرآن پاک میں کائنات کے اسرار سے لے کر معاشی نظام اور سماجی حرکیا ت تک کا کماحقہ احاطہ کیا گیا ہے۔ لیکن ہم نے ابھی تک اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تین حصوں پر مشتمل اس تفسیر کے پہلے حصے میں اول تا آٹھ سورتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس جلد کے صفحات 480 اور ہدیہ 900 روپے ہے۔ دوسرے حصے میں نویں سورۃ سے تئیسویں سورۃ تک گفتگو رقم کی گئی ہے، اس جلد کے صفحات 464 اور ہدیہ 900 روپے ہے، جب کہ تیسرے حصے میں چوبیسویں سورۃ سے آخری سورۃ یعنی 114 ویں سورۃ تک کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔
اس جلد کے صفحات 600 اور ہدیہ 1200 روپے ہے۔ مجموعی طور پر تینوں جلدوں کے صفحات 1544 اور ہدیہ تین ہزار روپے بنتا ہے۔ قرآن شریف کی یہ تفسیر سوہنی پبلی کیشنز، لاہور سے شایع کی گئی ہے، جب کہ یہ کتاب ویلکم بک پورٹ کراچی (02132633151) میں بھی دست یاب ہے۔
بے باک و 'بے رحم' طنز ومزاح !
'چپ رہا نہیں جاتا' محمد عثمان جامعی کی چوتھی تصنیف ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کتاب کے عنوان کو دیکھ کر اس کے بعد کتاب کا سرورق پلٹیے، تو نگاہ اس کے انتساب پر اٹک جائے کہ یہ شریکِ حیات کے نام ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فاضل مزاح نگار نے یہاں بھی 'بین السطور' بہت گہرا پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں بہ عنوان 'یہ میرا احتجاج ہے' میں مصنف نے یہ آگاہی دی ہے کہ کتاب کا عنوان میر تقی میر کے اس شعر سے اخذ کیا ہے؎
کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا
اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اُن کی پچھلی تینوں کتابیں الگ الگ اصناف پر تھیں، پہلی کتاب 'کہے بغیر' مختلف اخبار وجرائد کی زینت بننے والے طنزو مزاح پر مبنی مضامین پر مشتمل تھی، اس کے بعد 'میں بس ایک دیوار' میں قارئین نے ان کا ایک دل گداز اور سنجیدہ شاعر کا روپ دیکھا، اس کے بعد 'سرسید، سینتالیس، سیکٹر انچارج' میں مصنف نے نہ صرف سنجیدہ نثری ادب کے دروازے پر دستک دی، بلکہ سیاسی موضوع کے ساتھ تیکنیک کی انفرادیت سے بھی روشناس کرایا، یعنی 'ڈائری' کی ایسی تکنیک جو بعضے نقادوں کو کھٹکی، جب کہ بہت سوں نے اُسے ناولوں کی دنیا میں ایک نیا تجربہ بھی قرار دیا۔ اور اب یہ چوتھی تصنیف جو اگرچہ طنزومزاح ہی کے مضامین کا ایک گل دستہ ہے، لیکن اس چوتھی تصنیف میں بھی یہ انفرادیت پائی جاتی ہے کہ یہ بیش تر ان کے 'بلاگوں' پر مشتمل ہے۔
جو کہ مختلف وقتوں میں ویب سائٹوں پر شایع ہوتے رہے۔ فہرست دیکھیے تو مندرجات کے 131 عنوانات، 584 صفحات تک دراز دکھائی دیتے ہیں، جن میں عثمان جامعی نے روایتی طور پر مختلف سیاسی وسماجی مسائل، خبروں میں درآنے والے مختلف امور، بہت سے ناگفتنی معاملات، سماج کے بُہتیرے تلخ ترین حقائق اور بہت سے قابل گردن زدنی سچائیاں ایسے 'ہنستے کھیلتے' گوش گزار کرا دی ہیں کہ قاری کو ان کی جرأت پر حیرت ہوتی ہے۔۔۔ کتاب میں عثمان جامعی کی روایتی بزلہ سنجی، تاریخی حوالوں، ملتے جلتے لفظوں اور معمول کے لفظوں کے ذرا سے الٹ پھیر نے جملوں کی گہرائی اور ان کے معنوں کی گیرائی کو دو چند کیا ہے۔ گویا وہ مزاح کے اس 'نظریے' کی پوری طرح تکمیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ 'مزاح ایسا ہو، جو صرف ہنسنے پر ہی مجبور نہیں کرے، بلکہ سوچنے کے لیے بھی بہت سے زاویے دے جائے۔' پھر جیسے 'طنزو مزاح' ایک ترکیب ہی بن گئی ہے۔
لیکن غور کیجیے تو عموماً زیادہ زور مزاح پر رہا جاتا ہے، لیکن یہاں پیمائش لے کر بیٹھیے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مزاح کا عنصر زیادہ رہا یا طنز کی کاٹ میں بڑھوتری۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریر میں تخلیقیت 'طنز ومزاح' کے دشت میں ایک ایسا اضافی وصف ہے، جو زبان کی شگفتگی کو علمی مدارج بھی طے کرا دیتا ہے اور یہ عام مزاح کو پھکڑ پن اور عامیانہ انداز سے بھی بہت پرے کر دیتا ہے، یعنی کسی بھی موضوع کی مناسبت سے وہ تشبیہات، تلمیحات اور استعارے اس چابک دستی اور بے رحمی سے ٹانکتے ہیں کہ آپ بے ساختہ ان کی ذہانت کی داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ کتاب فرید پبلشرز (0345-2360378) پر دست یاب ہے، اور 'کراچی یونین آف جرنلسٹس' نے شایع کی ہے، قیمت600 روپے ہے۔
تحریک پاکستان کی نمایاں شخصیت ڈاکٹر افضال قادری کی 'دریافت' کا یہ کام محمد مشہود قاسمی کے ہاتھوں ہوا ہے، سیاست اور تعلیم سے لے کر سائنس کے میدان تک ان کے پھیلے ہوئے وسیع کام کی بابت اس کتاب کے محقق کو بھی حیرت ہوتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی دستاویزات، بانی پاکستان سے اس قدر خط وکتابت اور اس ملک کی تحریک میں اتنا اہم حصہ، اس کے باوجود انھوں نے گوشہ نشینی اختیار رکھی، خودنوشت لکھی نہ کہیں یادداشتیں پیش کیں، یہاں تک کے کہ کوئی انٹرویو وغیرہ بھی نہ دیا۔ وہ انتہائی بے نیاز قسم کی شخصیت تھے۔
ہندوستان کے بٹوارے کے ہنگام میں انھوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے مرکز 'علی گڑھ یونیورسٹی' کو بلوائیوں سے بچانے کی خاطر وہاں قیام کیا، آخر میں حالات نہایت غیر موافق ہوتے چلے گئے۔
ان پر وہاں بغاوت تک کے مقدمات بن گئے، چناں چہ انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور اس سے قبل تحریک پاکستان سے متعلق اہم دستاویزات خود ہی تلف کر ڈالیں! پاکستان آنے کے بعد سیاست سے بالکل پرے رہے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کے اظہار خیال سے بھی گریزاں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کی بنیاد کا پتھر ہوں مجھے بنیاد ہی میں رہنے دو۔ تاریخ میں ڈاکٹر افضال قادری تقسیم ہندوستان کی مجوزہ 'علی گڑھ اسکیم' کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں، وہ انگلستان میں چوہدری رحمت علی کے ساتھ رہے، جو آل انڈیا مسلم لیگ کے ناقد تھے اور ان سے ایک فاصلے پر رہے۔
چوہدری رحمت علی نے ہندوستان میں اپنی 'تحریک پاکستان' کا ذمہ ڈاکٹر قادری کو سونپا تھا۔ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ کے ڈاکٹر ظفر الحسن کے ہم راہ 'علی گڑھ اسکیم' پیش کی، جس میں موجودہ پاکستان اور بنگلادیش کے ساتھ 'ہندو ہندوستان' اور اس میں دو خود مختار صوبے دلی (بشمول علی گڑھ) اور مالابار تجویز کیے گئے۔
جہاں اقلیت کے طور پر مسلمانوں کا تناسب بالترتیب 25 اور 27 فی صد ہوتا۔ اور یوں 'ہندو ہندوستان' میں مسلمان اقلیت 10 فی صد رہ جاتی۔
اس طرح انھوں نے برصغیر کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے مسائل کا بھی کماحقہ ادراک کیا۔ اس کتاب ''حصول پاکستان تک قائداعظم کے ہمراہ ، ڈاکٹر افضال حسین قادری'' میں افضال قادری کے قائداعظم کو لکھے گئے خطوط اور مختلف حوالہ جاتی مواد کو بھی شامل کیا گیا ہے، ساتھ ہی ان کے حوالے سے اہل خانہ کے رشحات قلم بھی اس کتاب کی زینت ہیں۔ یوں یہ کتاب ایک وقیع تاریخی دستاویز بن جاتی ہے، جسے مشہود قاسمی نے تاریخ کے طالب علموں کے لیے سجا سنوار کر پیش کر دیا ہے۔
یوں انھوں مستقبل کے مورخ کے لیے بہتیرے کاموں کو آسان بھی کر دیا ہے، بلکہ ہمارے گوشہ گم نامی میں رہ جانے والے ایک محسن سے بھی ہمیں روشناس کرایا ہے۔ ساڑھے تین سو صفحات کی اس تاریخی دستاویز کی قیمت ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے، جو کہ فضلی سنز (021-32633997-0336/2633887) سے دست یاب ہے۔
تحیّرانگیز تجربات، مشاہدات اور حوادث
کہنے کو ''نگارخانہ'' رئیس فاطمہ کی آپ بیتی ہے، لیکن اس 'خود نوشت' کا اچھا خاصا حصہ ان کے مشاہدے میں آئے ہوئے مختلف واقعات پر مبنی ہے، جو خود ان سے زیادہ ان کے حلقۂ احباب کی کتھا ہے، اور ایک عجیب وغریب کتھا، حادثات وواقعات، بہت سے سبق آموز بھی، دل دوز بھی اور بہت سی جگہوں پر مافوق الفطرت بھی۔۔۔ کچھ کی ذاتی اعتقادات اور بعضوں کی روحانی توجیہات دی گئی ہیں۔
جیسے کچھ پر 'پرچھاویں آجانا'، اوپری اثرات اور جنات کے معاملات بھی اس کتاب میں جا بہ جا پڑھنے میں آتے ہیں۔ جیون کی کہانی درکہانی کھلتی ہی چلی جاتی ہیں۔۔۔ کتنی ہی زندگیاں، کتنے ہی خاندان اور شخصیات کے تذکرے آتے ہیں، جن میں مشہور و معروف شخصیات سے لے کر ذاتی طور پر راہ ورسم رکھنے والی بے شمار شخصیات، سبھی شامل ہیں۔
رئیس فاطمہ کی جنم بھومی یعنی سرحد پار ہندوستان سے اِس پار تلک۔ بچپن سے لے کر زندگی کے موجودہ مراحل تک۔۔۔ زمانۂ طالب علمی سے ازدواجی زندگی اور پیشہ وارانہ بپتا سے گھر گرہستی تک۔۔۔ ذاتی زندگی، تدریسی، ادبی، سماجی اور صحافتی تجربات کا خلاصہ۔۔۔ نجی زندگی کے طرح طرح کے تجربات، حوادث، نشیب وفراز اور ہنگامہ خیزی۔۔۔ اس آپ بیتی میں بہت سی ایسی شخصیات کا درد بھی موجود ہے۔
جو دنیا سے گزر گئیں اور کچھ اسی دنیا کے بھیڑ بھڑکّے میں کہیں کھو کر رہ گئیں۔ بدلتی ہوئی دنیا کے رنگوں پر بہتیرے سوالات اور اس پر بے لاگ احساسات اور جذبات۔ ہندوستان سے یہاں ہجرت کا درد اور کراچی میں ان پر اس سبب سے گزری بہت سی اَن کہی اور ناگفتنی انھوں نے بہت بے باکانہ انداز میں کہہ ڈالی ہے۔
افسانوں، کہانیوں، سفرناموں، کالموں کے مجموعوں سے لے کر تنقید وغیرہ تک، ان کی کتابوں کی اشاعت اور ان کے پیچھے کی عرق ریزی اور حالات وواقعات کا احوال بھی ہمیں اس کتاب میں ملتا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ رئیس فاطمہ صاحبہ نے بہت تفصیل سے اپنی جیون کتھا لکھ ڈالی ہے، جو کہ بہت بھرپور ہے۔
اس مجلد کتاب کے آخر میں مصنفہ اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ مختلف شخصیات کے ساتھ تصاویر بھی شامل ہیں۔ 215 صفحات کی اس کتاب کی اشاعت راشد اشرف کے معروف سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت 'اٹلانٹس ڈیجیٹل پرنٹرز' سے کی گئی ہے، قیمت 990 روپے۔
''موٹی''
ثمینہ مشتاق کا یہ ناول 'موٹی' خواتین کے معروف ماہ نامہ 'دوشیزہ' میں قسط وار شایع ہو چکا ہے، دو برس جاری رہنے والے اس ناول کو اب کتابی صورت میں یک جا کیا گیا ہے۔
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو فربہ جسامت کی مالک ہوتی ہے اور اسی سبب اس کے رشتے کے مسائل بھی معمول سے کچھ زیادہ درپیش ہوتے ہیں، زندگی میں اس لڑکی کے احساسات، جذبات اور خود اس کے ساتھ کیا بیتتی ہے۔
اس کی منظر کشی اس ناول کے صفحات پر ہمیں خوب ملتی ہے۔ کراچی شہر کے پس منظر میں بُنی گئی یہ کہانی دیگر ملک کے شہروں کے جغرافیائی نفوذ سے بھی آراستہ ہوتی ہے اور اس میں ڈائجسٹ کا روایتی تمثیلی رنگ چوکھا اور نشیب وفراز کی چاشنی بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔۔۔ عام طور پر مرکزی کردار ناول کے ابتدائی حصے میں شامل ہوتے ہیں، لیکن اس کے برخلاف اس ناول میں دوسرے مرکزی کرداروں کی شمولیت فوری نہیں ہوتی، تاہم کہانی میں زندگی کی تلخیاں اور اتار چڑھاؤ سے لے کر ڈرامائی رنگ تک سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔
مکالمہ نگاری اور ترکی بہ ترکی جواب کا اسلوب بھی یہاں دست یاب ہے اور بعضے فقروں کی کاٹ، ماحول کی تمہید اور صورت حال کی منظر کشی پر بے ساختہ اس کے جملے دُہرانے کو طبیعت چاہتی ہے، کیوں کہ کہانی یہاں چلتے چلتے خیال کی گہرائی اور کہیں کسی بات کے طنز، کاٹ یا تلخی بہت بے رحمی سے اپنے قاری کو دعوت فکر دے رہی ہوتی ہے۔
کہانی کی ضرورت کے مطابق جہاں ٹھیراؤ کی ضرورت ہو، وہاں قیام اور جہاں تفصیل کی گنجائش ہو، وہاں اس سے بہت اچھی طرح عہدہ برآ ہوا گیا ہے، البتہ پروف کے معیار میں بہتری کی کافی گنجائش دکھائی دیتی ہے۔ 512 صفحات کے اس ناول کی اشاعت 'سٹی بک پوائنٹ' (021-32762483) سے کی گئی ہے اور اس کی قیمت 1800 روپے ہے۔
''رئیس فاطمہ۔۔۔ احوال وآثار''
''رئیس فاطمہ۔۔۔ احوال وآثار'' کے عنوان سے یہ کتاب سید معراج جامی نے مرتب کی ہے۔ جس میں رئیس فاطمہ کے فن پر مقالات ومضامین وغیرہ شامل ہیں، جس میں ممتاز شاعر ونقاد جمیل الدین عالی، انتظار حسین، ڈاکٹرممتاز احمد خان، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر علی حیدر ملک، رفیع الزماں زبیری کے رشحات قلم موجود ہیں۔ رئیس فاطمہ کے افسانوں پر مشہورِ ومعروف 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے بانی مدیر شکیل عادل زادہ، ڈاکٹر سہیل آغا، حمید اختر، انور احسن صدیقی، ادیب سہیل، ڈاکٹر مشرف احمد کی آرا شامل ہے۔
جب کہ رئیس فاطمہ کی سفرنامہ نگاری، کالم نگاری اور ان کی شخصیت اور فنی زندگی کے دیگر مجموعی احوال کے باب میں ڈاکٹر نثار احمد زبیری، پروفیسر یسین معصوم اور طاہر نجمی کے علاوہ روزنامہ ایکسپریس میں راقم السطور کو دیا گیا انٹرویو بھی شامل ہے۔
کتاب کے ان 30 سے زائد مشمولات کے علاوہ 11 عدد تبصرے بھی اس کتاب کی زینت ہیں، جو ان کی مختلف تصانیف پر کیے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ رئیس فاطمہ کے 21 اخباری کالم اور دو عدد افسانے بھی اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ رئیس فاطمہ کے ادبی و صحافتی کام پر کی گئی مختلف تعلیمی اداروں کی علمی تحقیقات سے لے کر ان پر اظہار خیال کی گئی مختلف تحریروں اور مضامین کے علاوہ نام وَر افسانہ نگار الطاف فاطمہ کا ان کے نام ایک مکتوب بھی اس کتاب کی زینت ہے۔
اس کتاب میں کہیں کہیں پروف کی غلطیاں بہت کَھلتی ہیں، بالخصوص 'ایکسپریس' کو دیے گئے انٹرویو والے حصے میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی سبب یہ 'پروف خوانی' کے مرحلے سے یک سر ہی چُوک گیا ہے۔ امید ہے آئندہ اشاعت میں ان اغلاط کو دور کر لیا جائے گا۔ رئیس فاطمہ کی شخصیت اور ان کے حالات و واقعات سے لے کر ان کے ادبی وفنی محاسن کے حوالے سے محققین اور دیگر مشاہیر علم وادب کی جانب سے اظہار خیال بھی اس کتاب میں پیش کردیا گیا ہے۔ 'بزم تخلیق ادب' کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کے 336 صفحات اور قیمت ایک ہزار روپے ہے۔
رواں سائنسی استدلال سے آراستہ تفسیرِ
قرآن مجید کے مختلف مفسرین نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ بہت سے تراجم میں معنی کا اختلاف بھی پیدا ہوا، جو ظاہر ہے پھر تفسیر کرتے ہوئے اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
ایسے میں ڈاکٹر میر انیس الدین (حیدرآباد دکن) کی تین جلدوں میں جمع کی گئی تفسیر بہ عنوان 'درسِ قرآن' ایک مختلف اور منفرد منظر دکھاتی ہے۔ اس کے مؤلف صاحب زادہ محمود ہیں۔
اس تفسیر کو شروع کرتے ہی سب سے پہلے اس کا رواں اسلوب آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، اور پھر اسی ہلکے پھلکے اور سہل انداز میں وہ قرآنی مفاہیم کو کھولتے چلے جاتے ہیں، اور ہر استدلال کی عقلی اور منطقی توجیہہ بھی پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کے معانی جاننے کے لیے سب سے پہلے ان آیات سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ سے راہ نمائی لینی چاہیے۔
اس کے بعد صحابہ کرامؓؓ اور پھر اس کے بعد دیگر استدلال کی جانب آنا چاہیے۔ جب اللہ کے کسی کلام سے متعلق جناب رسول اللہ ﷺ کے ارشادات موجود ہوں تو ہمارے لیے لائق نہیں ہے کہ ہم ہدایت کے لیے کسی اور کی جانب دیکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ان 'دروس' میں منطقی سہاروں اور سماجیات سے سائنسی مظاہر تک کو شامل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ قرآن پڑھنے اورپڑھانے سے مراد صرف لفظی طور پر پڑھنا پڑھانا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد کلام پاک کے معانی ومفاہیم جان کر اس پر عمل پیر اہونا ہے۔ قرآن پاک میں کائنات کے اسرار سے لے کر معاشی نظام اور سماجی حرکیا ت تک کا کماحقہ احاطہ کیا گیا ہے۔ لیکن ہم نے ابھی تک اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تین حصوں پر مشتمل اس تفسیر کے پہلے حصے میں اول تا آٹھ سورتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس جلد کے صفحات 480 اور ہدیہ 900 روپے ہے۔ دوسرے حصے میں نویں سورۃ سے تئیسویں سورۃ تک گفتگو رقم کی گئی ہے، اس جلد کے صفحات 464 اور ہدیہ 900 روپے ہے، جب کہ تیسرے حصے میں چوبیسویں سورۃ سے آخری سورۃ یعنی 114 ویں سورۃ تک کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔
اس جلد کے صفحات 600 اور ہدیہ 1200 روپے ہے۔ مجموعی طور پر تینوں جلدوں کے صفحات 1544 اور ہدیہ تین ہزار روپے بنتا ہے۔ قرآن شریف کی یہ تفسیر سوہنی پبلی کیشنز، لاہور سے شایع کی گئی ہے، جب کہ یہ کتاب ویلکم بک پورٹ کراچی (02132633151) میں بھی دست یاب ہے۔
بے باک و 'بے رحم' طنز ومزاح !
'چپ رہا نہیں جاتا' محمد عثمان جامعی کی چوتھی تصنیف ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کتاب کے عنوان کو دیکھ کر اس کے بعد کتاب کا سرورق پلٹیے، تو نگاہ اس کے انتساب پر اٹک جائے کہ یہ شریکِ حیات کے نام ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فاضل مزاح نگار نے یہاں بھی 'بین السطور' بہت گہرا پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں بہ عنوان 'یہ میرا احتجاج ہے' میں مصنف نے یہ آگاہی دی ہے کہ کتاب کا عنوان میر تقی میر کے اس شعر سے اخذ کیا ہے؎
کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا
اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اُن کی پچھلی تینوں کتابیں الگ الگ اصناف پر تھیں، پہلی کتاب 'کہے بغیر' مختلف اخبار وجرائد کی زینت بننے والے طنزو مزاح پر مبنی مضامین پر مشتمل تھی، اس کے بعد 'میں بس ایک دیوار' میں قارئین نے ان کا ایک دل گداز اور سنجیدہ شاعر کا روپ دیکھا، اس کے بعد 'سرسید، سینتالیس، سیکٹر انچارج' میں مصنف نے نہ صرف سنجیدہ نثری ادب کے دروازے پر دستک دی، بلکہ سیاسی موضوع کے ساتھ تیکنیک کی انفرادیت سے بھی روشناس کرایا، یعنی 'ڈائری' کی ایسی تکنیک جو بعضے نقادوں کو کھٹکی، جب کہ بہت سوں نے اُسے ناولوں کی دنیا میں ایک نیا تجربہ بھی قرار دیا۔ اور اب یہ چوتھی تصنیف جو اگرچہ طنزومزاح ہی کے مضامین کا ایک گل دستہ ہے، لیکن اس چوتھی تصنیف میں بھی یہ انفرادیت پائی جاتی ہے کہ یہ بیش تر ان کے 'بلاگوں' پر مشتمل ہے۔
جو کہ مختلف وقتوں میں ویب سائٹوں پر شایع ہوتے رہے۔ فہرست دیکھیے تو مندرجات کے 131 عنوانات، 584 صفحات تک دراز دکھائی دیتے ہیں، جن میں عثمان جامعی نے روایتی طور پر مختلف سیاسی وسماجی مسائل، خبروں میں درآنے والے مختلف امور، بہت سے ناگفتنی معاملات، سماج کے بُہتیرے تلخ ترین حقائق اور بہت سے قابل گردن زدنی سچائیاں ایسے 'ہنستے کھیلتے' گوش گزار کرا دی ہیں کہ قاری کو ان کی جرأت پر حیرت ہوتی ہے۔۔۔ کتاب میں عثمان جامعی کی روایتی بزلہ سنجی، تاریخی حوالوں، ملتے جلتے لفظوں اور معمول کے لفظوں کے ذرا سے الٹ پھیر نے جملوں کی گہرائی اور ان کے معنوں کی گیرائی کو دو چند کیا ہے۔ گویا وہ مزاح کے اس 'نظریے' کی پوری طرح تکمیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ 'مزاح ایسا ہو، جو صرف ہنسنے پر ہی مجبور نہیں کرے، بلکہ سوچنے کے لیے بھی بہت سے زاویے دے جائے۔' پھر جیسے 'طنزو مزاح' ایک ترکیب ہی بن گئی ہے۔
لیکن غور کیجیے تو عموماً زیادہ زور مزاح پر رہا جاتا ہے، لیکن یہاں پیمائش لے کر بیٹھیے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مزاح کا عنصر زیادہ رہا یا طنز کی کاٹ میں بڑھوتری۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریر میں تخلیقیت 'طنز ومزاح' کے دشت میں ایک ایسا اضافی وصف ہے، جو زبان کی شگفتگی کو علمی مدارج بھی طے کرا دیتا ہے اور یہ عام مزاح کو پھکڑ پن اور عامیانہ انداز سے بھی بہت پرے کر دیتا ہے، یعنی کسی بھی موضوع کی مناسبت سے وہ تشبیہات، تلمیحات اور استعارے اس چابک دستی اور بے رحمی سے ٹانکتے ہیں کہ آپ بے ساختہ ان کی ذہانت کی داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ کتاب فرید پبلشرز (0345-2360378) پر دست یاب ہے، اور 'کراچی یونین آف جرنلسٹس' نے شایع کی ہے، قیمت600 روپے ہے۔