کراچی آتشزدگی کے واقعات
کراچی میں آئے روز آگ لگنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے قیمتی جانوں کے ساتھ املاک کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے
نیوکراچی صنعتی ایریا میں واقع گارمنٹ فیکٹری آتشزدگی کے نتیجے میں زمین بوس ہوگئی ، جس کے نتیجے میں چار فائر فائٹرز ملبے تلے دب کر جاں بحق ہوگئے۔
کراچی میں آئے روز آگ لگنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے قیمتی جانوں کے ساتھ املاک کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے، لیکن ان سب ہولناک واقعات کے باوجود کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے تاکہ مستقبل میں ان کا سد باب ہوسکے۔ کیا زندہ انسان آگ میں جھلس کراپنی جانیں دیتے رہیں گے، کیا ارباب اختیار اسے کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔
ہمارے تعمیراتی قوانین کسی بھی عمارت کی تیاری اور مرمت کے دوران آگ بجھانے کے انتظامات کا بنیادی ڈھانچہ بیان کرتے ہیں۔ اس فریم ورک میں اسٹینڈ پائپ، پانی چھڑکنے کا خود کار نظام، آگ بجھانے کے دستی آلات، فائر الارم سسٹم، سگنل اسٹیشنز، پانی کے بالائی ٹینک، آگ سے بچاؤ فراہم کرنے والی تعمیرات، فائر والز، پروٹیکٹڈ شافٹ اور آگ نہ پکڑنے والے دروازے شامل ہیں، تاہم ان کے نفاذ کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہیں۔ہمارے ہاں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ،آگ پر قابو پانے کے ناقص انتظامات اور صورتحال سے نمٹنے کے لیے تربیت کی کمی ہے۔
کراچی کے پرپیچ اور پُرہجوم علاقوں میں اس قسم کی کئی عمارتیں موجود ہیں جنھیں سیفٹی آڈٹ کی ضرورت ہے۔ پرانے علاقوں میں موجود گودام اور پیداواری ادارے، ریلوے لائن، ہائی ٹینشن لائن اور سڑکوں اور ہائی وے کے ساتھ موجود جھونپڑیاں، ایسے گودام جہاں خطرناک مادے رکھے ہوں، پٹرولیم تنصیبات، آئل ڈپو، بجلی گھر اور کچرا کنڈیاں ایسے مقامات ہیں جہاں لوگ نسبتاً منظم لیکن خطرناک زندگی گزارتے ہیں۔
ہمیں اکثر مزدور ٹھیلوں، فٹ پاتھ، ٹریفک آئی لینڈ، دکانوں کے باہر، چار دیواری، پارکوں میں اور پلوں کے نیچے سوتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ سب بھی انھی خطرات کا شکار ہیں۔کمرشل عمارتوں میں بجلی اور پلمبنگ کے نقائص کو شاذ ہی درست کیا جاتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہوتے جاتے ہیں۔
چونکہ مالکان اور انتظامیہ کو صرف اور صرف زیادہ منافع کمانے کی فکر ہوتی ہے اس وجہ سے وہ لیکیج، بجلی کی تاروں میں ہونے والے اسپارک اور جن نالیوں سے بجلی کی تاریں گزرتی ہیں ان میں خرابیوں کے باوجود ملازمین کو کام جاری رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اندرون شہر کے پُرہجوم علاقوں میں موجود گارمنٹس فیکٹریاں اور سلائی کڑھائی کی دکانیں اس حوالے سے خطرات کا شکار ہیں۔ جہاں جہاں بجلی کی تاروں کو گزارنے کے لیے پائپ، گیس کے پائپ یا سلینڈر، آگ پکڑنے والی اشیا یا تیل کے ڈپو موجود ہیں وہاں حفاظتی انتظامات ضرور ہونے چاہئیں۔
موجودہ عمارتوں کی جانچ پڑتال سے ناقص تعمیرات والی عمارتوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے تاکہ پھر ان کی مرمت کی جاسکے۔ ان کاموں کو ہنگامی بنیاد پر انجام دینے کے لیے خصوصی ٹیمیں تیار کرکے انھیں متحرک کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شراکت بہت ضروری ہے۔
کراچی میں آئے روز آگ لگنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے قیمتی جانوں کے ساتھ املاک کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے، لیکن ان سب ہولناک واقعات کے باوجود کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے تاکہ مستقبل میں ان کا سد باب ہوسکے۔ کیا زندہ انسان آگ میں جھلس کراپنی جانیں دیتے رہیں گے، کیا ارباب اختیار اسے کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔
ہمارے تعمیراتی قوانین کسی بھی عمارت کی تیاری اور مرمت کے دوران آگ بجھانے کے انتظامات کا بنیادی ڈھانچہ بیان کرتے ہیں۔ اس فریم ورک میں اسٹینڈ پائپ، پانی چھڑکنے کا خود کار نظام، آگ بجھانے کے دستی آلات، فائر الارم سسٹم، سگنل اسٹیشنز، پانی کے بالائی ٹینک، آگ سے بچاؤ فراہم کرنے والی تعمیرات، فائر والز، پروٹیکٹڈ شافٹ اور آگ نہ پکڑنے والے دروازے شامل ہیں، تاہم ان کے نفاذ کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہیں۔ہمارے ہاں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ،آگ پر قابو پانے کے ناقص انتظامات اور صورتحال سے نمٹنے کے لیے تربیت کی کمی ہے۔
کراچی کے پرپیچ اور پُرہجوم علاقوں میں اس قسم کی کئی عمارتیں موجود ہیں جنھیں سیفٹی آڈٹ کی ضرورت ہے۔ پرانے علاقوں میں موجود گودام اور پیداواری ادارے، ریلوے لائن، ہائی ٹینشن لائن اور سڑکوں اور ہائی وے کے ساتھ موجود جھونپڑیاں، ایسے گودام جہاں خطرناک مادے رکھے ہوں، پٹرولیم تنصیبات، آئل ڈپو، بجلی گھر اور کچرا کنڈیاں ایسے مقامات ہیں جہاں لوگ نسبتاً منظم لیکن خطرناک زندگی گزارتے ہیں۔
ہمیں اکثر مزدور ٹھیلوں، فٹ پاتھ، ٹریفک آئی لینڈ، دکانوں کے باہر، چار دیواری، پارکوں میں اور پلوں کے نیچے سوتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ سب بھی انھی خطرات کا شکار ہیں۔کمرشل عمارتوں میں بجلی اور پلمبنگ کے نقائص کو شاذ ہی درست کیا جاتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہوتے جاتے ہیں۔
چونکہ مالکان اور انتظامیہ کو صرف اور صرف زیادہ منافع کمانے کی فکر ہوتی ہے اس وجہ سے وہ لیکیج، بجلی کی تاروں میں ہونے والے اسپارک اور جن نالیوں سے بجلی کی تاریں گزرتی ہیں ان میں خرابیوں کے باوجود ملازمین کو کام جاری رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اندرون شہر کے پُرہجوم علاقوں میں موجود گارمنٹس فیکٹریاں اور سلائی کڑھائی کی دکانیں اس حوالے سے خطرات کا شکار ہیں۔ جہاں جہاں بجلی کی تاروں کو گزارنے کے لیے پائپ، گیس کے پائپ یا سلینڈر، آگ پکڑنے والی اشیا یا تیل کے ڈپو موجود ہیں وہاں حفاظتی انتظامات ضرور ہونے چاہئیں۔
موجودہ عمارتوں کی جانچ پڑتال سے ناقص تعمیرات والی عمارتوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے تاکہ پھر ان کی مرمت کی جاسکے۔ ان کاموں کو ہنگامی بنیاد پر انجام دینے کے لیے خصوصی ٹیمیں تیار کرکے انھیں متحرک کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شراکت بہت ضروری ہے۔