لہو کی کتاب کا آخری ورق
انسان کوئی برا کام کرے کسی کو ذہنی اذیت دے تو ایسے انسان کو کبھی نہ کبھی صدمہ ضرور پہنچتا ہے ۔۔۔
انسان کوئی برا کام کرے، مثال کے طور پر کسی کو نقصان پہنچاکر خود فائدہ اٹھالے، یتیم کا مال ہڑپ کرلے، کسی کو ذہنی اذیت دے اور طعنوں تشنوں سے اس کا سینہ چھلنی کردے تو ایسے انسان کو کبھی نہ کبھی صدمہ ضرور پہنچتا ہے اور ضمیر لعنت ملامت کرتا ہے خصوصاً اس وقت جب وہ بستر مرگ پر پہنچ جائے اور توبہ کرنے کا وقت بھی گزر جائے تب وہ سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں کرپاتا، جس طرح فرعون نے ڈوبتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایمان لاتا ہوں اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب ایمان لاتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمانی کرچکا ہے اور تو فساد کرنے والوں میں سے تھا پس آج تیرے بدن کو بچا لیں گے تاکہ وہ اپنے پچھلے آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان ہو۔ (92۔سورہ یونس)
آج ہمارے اردگرد ایک نہیں، بے شمار فرعون ہیں جو دولت کے پجاری ہیں، خوب روپیہ پیسہ سمیٹ رہے ہیں نعوذ باللہ خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں۔ انھوں نے اپنے انجام کو بھلا دیا ہے۔ دوسروں کا مال و اسباب ہتھیانے کے بعد نہ ان کا دل گھبراتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی پریشانی لاحق ہوتی ہے، گئے وقتوں میں عوام اور بادشاہ اپنے گناہوں پر شرمسار ہوتے تھے اور وقت سے پہلے توبہ کرلیا کرتے تھے۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کا یہ واقعہ بھی بڑا مشہور ہوا کہ ایک وقت بادشاہ پر ایسا آیا کہ وہ سکھ و چین کی دولت گنوا بیٹھا، ہر لمحہ پریشان اور مضطرب رہتا اسی عالم میں بہت سے دن گزر گئے راتوں کی نیند حرام ہوگئی اب حالات اس طرح کے تھے کہ کسی کی مدد درکار تھی سو خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے وزیر فضل بن ربیع کو بلا بھیجا اور کہا کہ کسی روحانی عامل کو تلاش کرو کہ جن سے مل کر درد دل رفع ہو اور بے چین دل کو چین نصیب ہو۔
وزیر باتدبیر نے اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لی لیکن کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔ بادشاہ کا اصرار مزید بڑھا کہ میرے مسئلے کا حل جلد سے جلد ڈھونڈو۔ تو وزیر کی نگاہ انتخاب ایک صوفی بزرگ فضیل بن عیاضؒ پر پڑی۔ بادشاہ نے جوں ہی ان کے بارے میں سنا تو فوراً ہی رات کے اندھیرے میں اپنے وزیر کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے اور بزرگ کے در دولت پر پہنچ گئے وہ دولت جس کا کوئی نعم البدل نہ تھا دروازہ کھٹکھٹایا تو ان صوفی بزرگ نے چراغ گل کردیا اور انھیں اندر بلالیا، بادشاہ اور وزیر نے اندھیرے حجرے میں داخل ہوکر فضیل بن عیاضؒ کا نام لے کر پکارا اور ٹٹول کر اندازہ لگایا کہ اس جگہ پر صوفی بزرگ تشریف رکھتے ہیں۔ مصافحہ کرنے کے بعد ہی ہارون الرشید کو اپنے جسم میں ٹھنڈک کا احساس ہوا، بزرگ نے اس طرح خلیفہ سے کلام کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت کے بدترین علما وہ ہیں جو حکمرانوں کے دروازوں پر جاتے ہیں اور بہترین حکمراں وہ ہیں جو علما کے در پر حاضری دیتے ہیں۔
ان کلمات کا یہ اثر ہوا کہ خلیفہ وقت روحانی دنیا کے سفر پر گامزن ہوگیا۔ بزرگ فرمانے لگے ہارون الرشید! تیرا ہاتھ کتنا نرم و نازک ہے کاش تو جہنم کی آگ سے بچ سکے۔ خلیفہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے بزرگ نے ہارون الرشید کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ اپنے پاؤں کو ڈگمگانے سے بچاؤ، اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وقت آخر کوئی وزیر، مشیر رہنما نہ ہوگا صرف اور صرف تیرے اعمال ہی تیرے کام آئیں گے۔ یہ سن کر بادشاہ پر رقت طاری ہوگئی، وزیر یہ صورت حال دیکھ کر پریشان ہوگیا اور بولا سرکار! نرمی فرمائیں اور ان کے حال پر ترس کھائیں۔ صوفی بزرگ نے وزیر کو دیکھا اور فرمایا کہ تم اور تمہارے ساتھی ایسے حالات پیدا کرتے ہو، غلط مشورے دے کر گناہ پر گناہ کرنے پر مجبور کرتے ہو، کبھی تم لوگوں نے اسے غیر شرعی فعل سے ٹوکا ہے؟
پھر ہارون الرشید سے مخاطب ہوئے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھ سے تیری رعایا کے بارے میں پوچھے گا اگر تو اپنے آپ کو آگ سے بچانا چاہتا ہے تو بچا لے ہرگز دیر نہ کر۔ تیرے دل میں اپنی رعایا کے لیے جو بغض و کدورت ہے تو فوراً اسے نکال کر اپنی اصلاح کر اور مخلوق خدا کے کام آ۔ درویش کی باتوں نے ہارون الرشید کی دنیا بدل دی، کھویا ہوا سکون واپس آگیا، اس کی بعد خلیفہ وقت نے نصیحت پر عمل کیا اور لوگوں کے حقوق ادا کیے۔ لیکن افسوس آج ہم جس دور میں زیست بسر کر رہے ہیں وہ نہایت تکلیف دہ وقت ہے۔ افلاس، بے روزگاری، بددیانتی، غیر منصفانہ رویہ تو اپنی جگہ رہ گیا اب تو ہمارے حکمران اپنے ہی عیش و طرب میں مبتلا ہیں دنیا کو ہی جنت سمجھ بیٹھے ہیں، بڑے بڑے محل بنا لیتے ہیں، جنھیں آرائش، زیب و زینت بخش دیا گیا ہے۔ گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں، انواع و اقسام کے کھانے دستر خوان پر سجے ہوئے ہیں۔
کوئی اپنے گھوڑوں کو طاقت ور غذا کھلا رہا ہے ، غریب بھوکے مر رہے ہیں، اپنی اور اپنے چاہنے والوں کی خدمت کر رہا ہے، تو کوئی اپنے قصر کو مشیروں اور دوسرے جانوروں سے اپنا تحفظ اور حسن بخش رہا ہے، گھر بھی ہے، جنگل کا نظارہ بھی موجود ہے اور جنت کا منظر بھی ہے کسی چیز کی کمی نہیں، تعیشات زندگی نے فرائض کو اور جہنم کی آگ کو بھلا دیا ہے، عوام ہر روز مر رہے ہیں لاشیں اٹھائی جا رہی ہیں، سڑکیں خون میں نہا گئی ہیں۔
ایمبولینس ہارن بجاتی ہوئی ان شاہراہوں پر دوڑ رہی ہیں جن پر کبھی اردو اور انگریزی باجے کی دھنوں کے ساتھ باراتیں گزرا کرتی تھیں، پیسے لٹائے جاتے تھے، غیر ملکی سربراہوں کی سواریاں گزرتی تھیں اور لوگ جوق در جوق سڑکوں اور راستوں پر کھڑے ہوکر نظارہ کیا کرتے تھے نہ جہیز کے چوری ہونے کا ڈر تھا اور نہ دلہن و دولہا کے اغوا کا خطرہ اور نہ بھتے کی پرچیاں۔ سچ ہے کہ اب انصاف مر گیا ہے، ضمیر مردہ ہوگئے ہیں۔ خواہشات کی غلامی نے اپنے کل کو اور نزع کے عالم کو بھلا دیا ہے۔ہر روز ڈاکٹرز، وکیل، طلبا، تجار مارے جا رہے ہیں کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ اٹھاؤ جنازہ تمہارا آدمی ہے، ہمارا نہیں۔
دو روز قبل دارالصحت اسپتال کے فزیشن و سرجن ڈاکٹر حیدر رضا کو ایک نہیں پانچ گولیاں مار کر انھیں خون میں نہلادیا۔ ان کی کیا خطا تھی؟ یہی کہ انھوں نے محنت سے پڑھا لکھا تھا۔ اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے انجام دیے تھے ۔ نہایت نرم مزاج، لالچ اور طمع سے دور، جب کہ آج کل کے زیادہ تر ڈاکٹروں کا شیوہ ہے کہ وہ بیمار انسان کو موت کے منہ میں دھکیلنے تک ہزاروں، بلکہ لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔
فزیشن حیدر رضا کی طرح ہزاروں ڈاکٹروں کو قبر کی آغوش میں دھکیل دیا گیا ہے، ایک ڈاکٹر کتنی مشکل میں بنتا ہے، صبح و شام محنت کرنی پڑتی ہے بڑی بڑی فیسیں دینی پڑتی ہیں تب کہیں ماں باپ اپنی اولاد کو کامیاب دیکھ کر خوش ہوتے ہیں لیکن والدین کی، گھر والوں کی خوشی کو لمحہ بھر میں مٹی میں ملادیا جاتا ہے۔ ان حالات میں ہمارے حکمراں کیا کر رہے ہیں؟ کیا وہ اپنی دانشوری اور ذمے داریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خونی کھیل کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ لہو سے رنگین کتاب کا آخری ورق کب آئے گا؟ یا پھر صفحات میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہے گا؟
آج ہمارے اردگرد ایک نہیں، بے شمار فرعون ہیں جو دولت کے پجاری ہیں، خوب روپیہ پیسہ سمیٹ رہے ہیں نعوذ باللہ خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں۔ انھوں نے اپنے انجام کو بھلا دیا ہے۔ دوسروں کا مال و اسباب ہتھیانے کے بعد نہ ان کا دل گھبراتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی پریشانی لاحق ہوتی ہے، گئے وقتوں میں عوام اور بادشاہ اپنے گناہوں پر شرمسار ہوتے تھے اور وقت سے پہلے توبہ کرلیا کرتے تھے۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کا یہ واقعہ بھی بڑا مشہور ہوا کہ ایک وقت بادشاہ پر ایسا آیا کہ وہ سکھ و چین کی دولت گنوا بیٹھا، ہر لمحہ پریشان اور مضطرب رہتا اسی عالم میں بہت سے دن گزر گئے راتوں کی نیند حرام ہوگئی اب حالات اس طرح کے تھے کہ کسی کی مدد درکار تھی سو خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے وزیر فضل بن ربیع کو بلا بھیجا اور کہا کہ کسی روحانی عامل کو تلاش کرو کہ جن سے مل کر درد دل رفع ہو اور بے چین دل کو چین نصیب ہو۔
وزیر باتدبیر نے اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لی لیکن کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔ بادشاہ کا اصرار مزید بڑھا کہ میرے مسئلے کا حل جلد سے جلد ڈھونڈو۔ تو وزیر کی نگاہ انتخاب ایک صوفی بزرگ فضیل بن عیاضؒ پر پڑی۔ بادشاہ نے جوں ہی ان کے بارے میں سنا تو فوراً ہی رات کے اندھیرے میں اپنے وزیر کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے اور بزرگ کے در دولت پر پہنچ گئے وہ دولت جس کا کوئی نعم البدل نہ تھا دروازہ کھٹکھٹایا تو ان صوفی بزرگ نے چراغ گل کردیا اور انھیں اندر بلالیا، بادشاہ اور وزیر نے اندھیرے حجرے میں داخل ہوکر فضیل بن عیاضؒ کا نام لے کر پکارا اور ٹٹول کر اندازہ لگایا کہ اس جگہ پر صوفی بزرگ تشریف رکھتے ہیں۔ مصافحہ کرنے کے بعد ہی ہارون الرشید کو اپنے جسم میں ٹھنڈک کا احساس ہوا، بزرگ نے اس طرح خلیفہ سے کلام کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت کے بدترین علما وہ ہیں جو حکمرانوں کے دروازوں پر جاتے ہیں اور بہترین حکمراں وہ ہیں جو علما کے در پر حاضری دیتے ہیں۔
ان کلمات کا یہ اثر ہوا کہ خلیفہ وقت روحانی دنیا کے سفر پر گامزن ہوگیا۔ بزرگ فرمانے لگے ہارون الرشید! تیرا ہاتھ کتنا نرم و نازک ہے کاش تو جہنم کی آگ سے بچ سکے۔ خلیفہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے بزرگ نے ہارون الرشید کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ اپنے پاؤں کو ڈگمگانے سے بچاؤ، اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وقت آخر کوئی وزیر، مشیر رہنما نہ ہوگا صرف اور صرف تیرے اعمال ہی تیرے کام آئیں گے۔ یہ سن کر بادشاہ پر رقت طاری ہوگئی، وزیر یہ صورت حال دیکھ کر پریشان ہوگیا اور بولا سرکار! نرمی فرمائیں اور ان کے حال پر ترس کھائیں۔ صوفی بزرگ نے وزیر کو دیکھا اور فرمایا کہ تم اور تمہارے ساتھی ایسے حالات پیدا کرتے ہو، غلط مشورے دے کر گناہ پر گناہ کرنے پر مجبور کرتے ہو، کبھی تم لوگوں نے اسے غیر شرعی فعل سے ٹوکا ہے؟
پھر ہارون الرشید سے مخاطب ہوئے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھ سے تیری رعایا کے بارے میں پوچھے گا اگر تو اپنے آپ کو آگ سے بچانا چاہتا ہے تو بچا لے ہرگز دیر نہ کر۔ تیرے دل میں اپنی رعایا کے لیے جو بغض و کدورت ہے تو فوراً اسے نکال کر اپنی اصلاح کر اور مخلوق خدا کے کام آ۔ درویش کی باتوں نے ہارون الرشید کی دنیا بدل دی، کھویا ہوا سکون واپس آگیا، اس کی بعد خلیفہ وقت نے نصیحت پر عمل کیا اور لوگوں کے حقوق ادا کیے۔ لیکن افسوس آج ہم جس دور میں زیست بسر کر رہے ہیں وہ نہایت تکلیف دہ وقت ہے۔ افلاس، بے روزگاری، بددیانتی، غیر منصفانہ رویہ تو اپنی جگہ رہ گیا اب تو ہمارے حکمران اپنے ہی عیش و طرب میں مبتلا ہیں دنیا کو ہی جنت سمجھ بیٹھے ہیں، بڑے بڑے محل بنا لیتے ہیں، جنھیں آرائش، زیب و زینت بخش دیا گیا ہے۔ گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں، انواع و اقسام کے کھانے دستر خوان پر سجے ہوئے ہیں۔
کوئی اپنے گھوڑوں کو طاقت ور غذا کھلا رہا ہے ، غریب بھوکے مر رہے ہیں، اپنی اور اپنے چاہنے والوں کی خدمت کر رہا ہے، تو کوئی اپنے قصر کو مشیروں اور دوسرے جانوروں سے اپنا تحفظ اور حسن بخش رہا ہے، گھر بھی ہے، جنگل کا نظارہ بھی موجود ہے اور جنت کا منظر بھی ہے کسی چیز کی کمی نہیں، تعیشات زندگی نے فرائض کو اور جہنم کی آگ کو بھلا دیا ہے، عوام ہر روز مر رہے ہیں لاشیں اٹھائی جا رہی ہیں، سڑکیں خون میں نہا گئی ہیں۔
ایمبولینس ہارن بجاتی ہوئی ان شاہراہوں پر دوڑ رہی ہیں جن پر کبھی اردو اور انگریزی باجے کی دھنوں کے ساتھ باراتیں گزرا کرتی تھیں، پیسے لٹائے جاتے تھے، غیر ملکی سربراہوں کی سواریاں گزرتی تھیں اور لوگ جوق در جوق سڑکوں اور راستوں پر کھڑے ہوکر نظارہ کیا کرتے تھے نہ جہیز کے چوری ہونے کا ڈر تھا اور نہ دلہن و دولہا کے اغوا کا خطرہ اور نہ بھتے کی پرچیاں۔ سچ ہے کہ اب انصاف مر گیا ہے، ضمیر مردہ ہوگئے ہیں۔ خواہشات کی غلامی نے اپنے کل کو اور نزع کے عالم کو بھلا دیا ہے۔ہر روز ڈاکٹرز، وکیل، طلبا، تجار مارے جا رہے ہیں کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ اٹھاؤ جنازہ تمہارا آدمی ہے، ہمارا نہیں۔
دو روز قبل دارالصحت اسپتال کے فزیشن و سرجن ڈاکٹر حیدر رضا کو ایک نہیں پانچ گولیاں مار کر انھیں خون میں نہلادیا۔ ان کی کیا خطا تھی؟ یہی کہ انھوں نے محنت سے پڑھا لکھا تھا۔ اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے انجام دیے تھے ۔ نہایت نرم مزاج، لالچ اور طمع سے دور، جب کہ آج کل کے زیادہ تر ڈاکٹروں کا شیوہ ہے کہ وہ بیمار انسان کو موت کے منہ میں دھکیلنے تک ہزاروں، بلکہ لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔
فزیشن حیدر رضا کی طرح ہزاروں ڈاکٹروں کو قبر کی آغوش میں دھکیل دیا گیا ہے، ایک ڈاکٹر کتنی مشکل میں بنتا ہے، صبح و شام محنت کرنی پڑتی ہے بڑی بڑی فیسیں دینی پڑتی ہیں تب کہیں ماں باپ اپنی اولاد کو کامیاب دیکھ کر خوش ہوتے ہیں لیکن والدین کی، گھر والوں کی خوشی کو لمحہ بھر میں مٹی میں ملادیا جاتا ہے۔ ان حالات میں ہمارے حکمراں کیا کر رہے ہیں؟ کیا وہ اپنی دانشوری اور ذمے داریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خونی کھیل کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ لہو سے رنگین کتاب کا آخری ورق کب آئے گا؟ یا پھر صفحات میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہے گا؟