گیبریل گارشیا مارکیز

اگر مجھے زندگی کے ملبے کا کوئی حصہ پھر سے مل جائے تو میں سب کچھ تو نہیں کہوں گا۔۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

دور حاضر کا سب سے بڑا، محبوب اور عالمی سطح پر پڑھا جانے والا فکشن نگار گیبریل گارشیا مارکیز 87 برس پر مشتمل ایک شاندار اور قابل رشک زندگی گزار کر اب اس منطقے میں داخل ہو گیا ہے جہاں اس دنیائے فانی کی ہر چیز کے معنی بدل جاتے ہیں۔ اس نے 1982ء میں ادب کا نوبل انعام حاصل کیا جب اس کی عمر لگ بھگ 55 برس تھی۔

یوں تو گزشتہ تین چار صدیوں میں مختلف علاقوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے ادیبوں نے عالمی سطح پر شہرت پائی ہے مگر جن تین ادیبوں کو غیر مشروط طور پر عظمت کا تاج پہنایا گیا ان میں چارلس ڈکنز، لیو ٹالسٹائی اور ارنسٹ ہیمنگوے کے نام شامل ہیں۔ ایک عمومی انداز کے مطابق گیبریل گارشیا مارکیز کو اس شاندار گروپ کے چوتھے رکن کی حیثیت دی جاتی ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز تک انگریزی، فرانسیسی، جرمن، روسی اور اسپینش زبانوں میں لکھے گئے جدید ادب کو ہی عالمی سطح پر بہترین ادب شمار کیا جاتا تھا کہ اس میں جدید انسان اور اس کے ان مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے جو ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے ہیں جب کہ اس سے قبل مصری، یونانی، لاطینی، سنسکرت، چینی، عربی اور فارسی زبانوں میں لکھا گیا ادب زیادہ تر ایسے موضوعات پر مشتمل تھا جن میں مابعد الطبیعات' Fanticies اور تصورات پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔

گیبریل گارشیا مارکیز کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کی تحریروں میں ماضی حال اور مستقبل ساتھ ساتھ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میری رائے میں گزشتہ ایک صدی میں عالمی ادب کی نمائندگی یورپ اور امریکا سے زیادہ لاطینی امریکا، برصغیر پاک و ہند اور فلسطین کے ادیبوں نے کی ہے اور اس فہرست میں برصغیر کے اقبال منٹو اور قرۃ العین حیدر، فلسطین کے محمود درویش اور نزار قبانی، چلّی کے پابلو نرودا اور کولمبیا کے مارکیز نام سرفہرست ہیں۔

گیبریل کارسیا مارکیز کی تقریباً تمام تحریریں اردو سمیت دنیا کی بیشتر ترقی یافتہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور دنیا بھر کے ادب دوست اس کے انوکھے موضوعات، کردار نگاری کے مخصوص انداز اور واقعات کی طلسماتی بنت سے بخوبی آگاہ ہیں اس کے زیادہ مشہور ناولوں کے نام کچھ اس طرح ہیں۔

(1967) One Hundred Year of Solitude

(1975) The Autum of the Patriarch

(1985) Love in the Time of Cholera

(2002) Living to Tell the Tale


مارکیز 1927ء میں کولمبیا کے شہر Azacataca میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی تربیت دادا دادی اور نانا نانی نے کی کہ اس کا والد ایک کیمسٹ تھا اور وہ کاروبار کی غرض سے اپنی بیوی کے ساتھ ایک بڑے شہر میں منتقل ہوگیا تھا اس نے اپنے بزرگوں سے جو کولمبیا کی ایک ہزار دن والی جنگ میں شامل رہ چکے تھے وہ طلسماتی تاریخی اور جادوئی کہانیاں سنیں جو آگے چل کر اس کے بیشتر ناولوں کا پس منظر بنیں۔ اس کی کہانیوں میں مردہ بزرگوں کی روحوں، بھوتوں اور گھر کے درو دیوار میں رقص کرتی ہوئی روحوں کا جو تذکرہ ملتا ہے اس کی بنیاد بھی داد دادی کی سنائی ہوئی داستانیں تھیں۔

اس نے ابتدا میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی مگر بہت جلد وہ صحافت کے میدان میں داخل ہو گیا۔ 1954ء میں وہ ایک اخبار کی طرف سے روم روانہ ہوا اور پھر اس کی زندگی کا بیشتر حصہ وطن سے دور پیرس، وینزویلا اور آخر میں میکسیکو سٹی میں گزرا۔ اس کی ابتدائی تحریروں پر ولیم تالکز کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ 23 برس کی عمر میں اس نے پہلا ناول لکھا جس کے ناشر کے لیے اسے سات برس تک انتظار کرنا پڑا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس کے ایک ناول کی دو کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔

اس کے مشہور ترین ناول ''تنہائی کے سو سال'' کے بارے میں ایک واقعے کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ 1965ء میں ایک دن وہ اکاپلکو شہر کی طرف اپنی کار پر جا رہا تھا کہ اس ناول کا خیال اس کے دماغ پر ایک تصویر کی طرح روشن ہوا۔ اس نے وہیں اپنی گاڑی روکی اس کا رخ موڑا اور اپنے گھر میں 18 ماہ تک بند ہو کر یہ ناول لکھتا رہا جب کہ اس دوران میں اس کی فیملی بارہ ہزار پائونڈ کی مقروض ہو چکی تھی۔ یہ ناول سپینش زبان میں لکھا گیا اور اس کی وجہ سے اسے سپینش کے عظیم ترین ادیب سروانٹس کا ہم پلہ قرار دیا گیا۔

نیویارک ٹائم نے اسے ''کتاب پیدائش'' کے بعد دوسرا ایسا ادب پارہ قرار دیا جسے نسل انسانی کے ہر فرد کو پڑھنا لازم ٹھہرتا ہے۔ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو سے اس کی زندگی بھر کی محبت اور دوستی کا آغاز بھی اپنی تحریروں کی وجہ سے ہوا۔ اس نے اپنے ملک میں جاری جنگ و جدل، بدامنی اور بے چینی کو اپنی کہانیوں کے طلسماتی اور ماوراتی عناصر کے ذریعے سے ایک نئی جہت دی جسے وہ فرار کا نام بھی دیتا ہے اس کی کہانیوں کے بیشتر کردار اس کے خاندان اور شہر کے زندہ اور جا چکے لوگ ہیں جن کی زندگیوں کو اس نے اپنے تخلیق کردہ کرداروں میں ایک نئے مفہوم سے بہرہ ور کیا ہے۔

اس نے اپنے باپ اور ماں کی محبت کی داستان کو بھی ایک ناول کا موضوع بنایا۔ اس کے نزدیک اس کی تحریروں کی علامتیت اور ابہام اصل میں لاطینی امریکا کی ''حقیقت'' ہی کا ایک روپ ہے۔ مارکیز ایسا زبردست اور عہد ساز ادیب تھا کہ اس پر لکھنے کے لیے کتابیں بھی کم پڑ جاتی ہیں سو اب میں آخر میں اس کے اس خط سے چند اقتباسات درج کرتا ہوں جو آج سے پانچ سال قبل اس نے ایک خود تعزیتی خط کی شکل میں اپنے دوستوں کو روانہ کیا تھا۔ ان چند جملوں سے یہ اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اسے کیوں عالمی ادب میں اس قدر عظیم درجے کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

''اگر میرا خدا پھر سے مجھے زندگی کا ایک بے مصرف حصہ دے دے تو میں سادہ لباس پہن کر زمین کے سینے پر سیدھا لیٹ جائوں گا اور اپنے جسم اور روح دونوں کو سورج کی روشنی کے سپرد کر دوں گا۔''

''اگر مجھے زندگی کے ملبے کا کوئی حصہ پھر سے مل جائے تو میں سب کچھ تو نہیں کہوں گا مگر ہر اس چیز کے بارے میں گہرائی سے سوچوں گا ضرور جو مجھے کہنا ہو گی۔''

''میرا خدا اگر پھر سے مجھے ایک دل دے تو میں اپنی تمام نفرتوں کو برف کی چادر پر بچھا دوں گا اور سورج کے نکلنے کا انتظار کروں گا، میں وین گوخ کی تصویروں کا کوئی خواب لیے ستاروں پر بینی ڈیٹی کی کسی نظم کے رنگ بکھیروں گا اور اس رات سیرا کا کوئی گیت گنگنائوں جو ایک نغمہ شب کی صورت چاند اور اس سے تشبیہ دیے جانے والے ہر خوب صورت چہرے کے نام ہو گا''۔''میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان پہاڑی کی چوٹی تک پہنچا اور وہاں رہنا چاہتا ہے یہ جانے اور محسوس کیے بغیر کہ اصل خوشی اس رستے میں ہے جو ہمیں اس بلندی کے سفر کی طرف لے جاتا ہے۔''

''میں نے جانا ہے کہ جب ایک نومولود بچہ پہلی بار اپنے باپ کی انگلی کو اپنی ننھی سی ہتھیلی میں گرفت کرتا ہے تو دراصل وہ اس کو زندگی بھر کے لیے اس میں محصور کر لیتا ہے۔
Load Next Story