جوتے اور پھولوں کے ہار
دنیائے اسپورٹس کا سب سے بڑا ہر چار سال بعد سولہ دن تک کھیلا جانے والا ایونٹ اولمپکس ہے ۔۔۔
PESHAWAR:
ہمارے پاس انڈور اور آئوٹ ڈور خوشی کے مواقع بہت کم ہونے کی وجہ سے جب بھی قومی سطح پر کسی بہادری یا جیت کی کوئی خبر نکلتی ہے تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں لیکن شکست یا ناکامی پر اتنے دکھی ہوتے ہیں کہ جذبات کا اظہار ایسی بے ہودگی سے کرتے ہیں کہ جس کی مثال گزشتہ چند ماہ میں کرکٹ کے کھیل کو پیش نظر رکھ کر دی جائے تو جذباتیت کے استعمال کی بڑی آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم شاندار طریقے سے جیتی بھی اور اتنی ہی بری پرفارمنس سے شکست سے دوچار ہوئی۔ کھیل میں بلاشبہ جیت بھی ہوتی ہے اور ہار بھی لیکن ہمارے عوام پھولوں کے ہار لے کر کھلاڑیوں کو کندھوں پر اٹھائے نعرے لگاتے ہیں تو اسی ٹیم کی ہار پر جوتوں سے ان کا استقبال کرتے ہیں۔عوام اور خواص کا ردعمل ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس غیرمتوازن ردعمل کا علاج ہر شہر میں مختلف قسم کی انڈور اور آئوٹ ڈور سہولیات مہیا کرنے سے ممکن ہے۔جیت کا لطف اٹھانے اور ہار کو برداشت کرنے کی ٹریننگ کھیل کے میدان میں ہوتی ہے۔
ڈیوک آف ولنگٹن برطانیہ کے ایٹن کالج کا فارغ التحصیل تھا، وہ ایٹن اسکول کے بورڈنگ ہائوس میں کئی سال رہا تھا۔ سن 1815ء میں اس نے اتحادی فوجوں کی کمان کرتے ہوئے نپولین بوناپارٹ کو شکست دی تو تاریخی فقرہ بولتے ہوئے فتح کا کریڈٹ یوں اپنے اسکول کو دیا کہ ''واٹرلو کی جنگ ایٹن اسکول کے کھیل کی گرائونڈ میں جیتی گئی تھی۔'' دراصل فتحیاب جنرل تعلیم کے ساتھ اسپورٹس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے کہہ رہا تھا کہ اسکول کی پلے گرائونڈ کھلاڑی کو ڈسپلن، بے غرض تعاون، قربانی، اصولوں کی پاسداری، جیتنے کی لگن، جرأت و ہمت اور مہارت سکھاتی ہے ۔
جن دو اسکولوں اور دو کالجوں میں میں نے تعلیم حاصل کی اتفاق سے ان چاروں کے اپنے کھیل کے میدان تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آبادی میں اضافہ اس اہم انسانی ضرورت کو بھی مات دے گیا اور جہاں بھی عاشقی قید شریعت میں آتی رہی جلوۂ کثرت اولاد دکھاتی گئی نتیجتاً بڑے مکانوں میں افراد کا سناٹا چھاتا اور چھوٹے مکانوں میں جمگھٹا لگتا رہا۔ لاہور کی ایک بستی ماڈل ٹائون ہے جس کے ہر بلاک میں کھیل کا میدان ہے۔ جب وہاں کھیل ہو رہا ہوتا ہے تو راہگیر رک کر تماشا کرتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جب سے بڑے شہروں اور امرأ میں بچوں کو اچھی تعلیم دینے کا جذبہ بیدار ہوا ہے گورنمنٹ نے یہ ذمے داری پرائیویٹ اداروں کو سونپ کر اس مصیبت سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ اب جس کے پاس ذاتی یا کرائے کا چار کمروں کا مکان ہوتا ہے وہ انگریزی یا کوئی ماڈرن نام دیکر وہاں اسکول یا اکیڈمی بنا لیتا ہے۔
میرا مکان ایک رہائشی علاقے میں ہے۔ اس کے چار فرلانگ قطر کے علاقے میں چھ اسکول اور کالج ہیں۔ چار میں معمول کے اوقات کار اور دو میں دو دو شفٹیں ہیں۔ دو شفٹوں والے کالجوں میں مخلوط تعلیم کی وجہ سے رات دس گیارہ بجے تک طلبہ کی چہل پہل رہتی ہے۔ ان دو مہنگے پرائیویٹ کالجوں کی عمارتوں کے اندر طلباء کی ستر اسی کاروں اور ڈیڑھ سو موٹر سائیکلوں کے لیے پارکنگ کی جگہ نہیں ہے، اس لیے ان بچوں کی تمام گاڑیاں کالجوں کے سامنے اور باقی اطراف کی سڑکوں کو بلاک رکھتی ہیں۔
چونکہ ان بچوں کا زیادہ وقت کلاس روم کیفیٹیریا نزدیکی فاسٹ فوڈ ریستورانوں اور اپنی کاروں میں گزرتا ہے اس لیے انھیں پلے گرائونڈ، اسپورٹس، رولز آف گیم، جیت اور ہار کا نہ تجربہ ہے نہ علم اس لیے انھیں نہ کسی واٹر لو میں لڑی جانے والی جنگ سے کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے نہ ڈیوک آف ولنگٹن کے حکیمانہ ریمارکس ان کے کسی کام کے ہوں گے کیونکہ وہ تو لیکچر روم سے نکلنے کے بعد مخلوط تعلیم سے حاصل ہونے والے گڈ ٹائم کے علاوہ کسی بھی آئوٹ ڈور کھیل میں اناڑی ہیں۔ یہ شہزادے البتہ ان بچوں سے قطعی مختلف مخلوق ہیں جنھیں نہ چھتوں اور دیواروں والے مدرسے میسر ہیں نہ استاد، پلے گرائونڈ کا تو کہنا ہی کیا۔ یہ حال سرکاری اسکولوں کا ہے۔
پاکستان میں اب ٹیلی ویژن پر دنیا کے تمام چینل دیکھے جا سکتے ہیں۔ علمی معلوماتی تفریحی مذہبی اور پھر ان کی متعدد شاخیں، دن کے چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت بیشمار چینلز پر لائیو اور ریکارڈڈ اسپورٹس دیکھنے کو ملیں گی۔ گھر میں مہمان ٹی وی لائونج میں بیٹھے ہوں تو کوئی TV پروگرام دیکھنا معیوب معلوم ہوتا ہے لیکن آپ TV کی آواز بند کر کے کوئی اسپورٹس چینل لگا دیں کسی کو برا نہیں لگے گا۔
کھیل یعنی اسپورٹس میں دلچسپی انسان کے علاوہ جانوروں میں بھی ایک فطری جذبے کے طور پر موجود ہوتی ہے۔ کھیل دیکھنا اور ممکن ہو تو خود کھیلنا جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ہمیشہ سے مفید سمجھا گیا ہے اس لیے ترقی یافتہ ملکوں میں اسکولوں کالجوں کے علاوہ شہروں کے مخصوص علاقوں میں پلے گرائونڈز اور اسٹیڈیمز کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔ کئی غیر ترقی یافتہ ممالک میں فٹ بال جو سستا ترین کھیل ہے اتنا مقبول ہے کہ وہاں نامور کھلاڑیوں نے اپنے ملک کو اس ایک کھیل ہی کی وجہ سے عالمی شہرت دلوا دی ہے جب کہ اسکواش کا ذکر دنیا کے کسی کونے میں بھی آئے پاکستان کے روشن خاں، ہاشم خاں، جہانگیر خاں اور جان شیر خاں کے ذکر اور حوالے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ کرکٹ میں پاکستان کے عمران خاں، جاوید میاں داد اور وسیم اکرم دنیائے اسپورٹس کے جانے پہچانے نام ہیں۔ ان دو کھیلوں کے علاوہ بیرون ملک تو چھوڑیئے شاید کوئی پاکستانی بھی کسی نامور کھلاڑی کا نام مشکل سے بتا سکے۔
دنیائے اسپورٹس کا سب سے بڑا ہر چار سال بعد سولہ دن تک کھیلا جانے والا ایونٹ اولمپکس ہے جس کی میزبانی کے لیے بڑے اور خوشحال ملکوں کے درمیان مقابلہ اور پھر کسی ایک کی کامیابی بھی ایک معرکے سے کم نہیں ہوتی اولمپکس گیمز کی تاریخ پونے تین ہزار سال پرانی ہے اس کی ابتدا اولمپیا ایتھنز سے سن 776 ق م (قبل مسیح) میں ہوئی جب کہ موجودہ اولمپکس گیمز کی تاریخ 1896ء سے چلتی ہے۔ اولمپکس میں 33 کھیل کھیلے جاتے ہیں جن میں ہر بار مہارت کے نئے ریکارڈ قائم ہوتے ہیں۔ رنگارنگ پروگراموں کے دوران کھلاڑی بہترین پرفارمنس دے کر حاضرین اور ٹیلی ویژن ناظرین کو یادگار لمحات میں سے گزارتے ہیں جن کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں اولمپکس گیمز دیکھنا دل و نگاہ کی ضیافت کا دوسرا نام ہے۔
گزشتہ سال والے بیجنگ اولمپکس کے مناظر تصور میں لانے کے دوران میں پاکستان میں اسپورٹس کے مستقبل کا اندازہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو ذہن بھٹک کر پاکستان کے مستقبل کے اندیشوں کی طرف نکل جاتا ہے کیونکہ اولمپکس کی افتتاحی پھلجھڑیوں کا نظارہ کرتے ہوئے یکلخت مجھے پانچ روز قبل راولپنڈی چھائونی کی مسجد میں جمعہ کی نماز کے دوران دہشت گردوں کے نمازیوں پر برسائے ہینڈ گرنیڈوں کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ مسجد کے شہیدوں میں کھیلنے کودنے کی عمر کے معصوم اسکول جانے والے سترہ بچے بھی تھے جو اس وقت جنت کے باغوں میں کھیلتے پھر رہے ہوں گے جو ان کے دنیاوی اسکولوں کے پلے گرائونڈ اور باغیچوں سے بدرجہا خوبصورت اور پر لطف ہوں گے۔
ہمارے پاس انڈور اور آئوٹ ڈور خوشی کے مواقع بہت کم ہونے کی وجہ سے جب بھی قومی سطح پر کسی بہادری یا جیت کی کوئی خبر نکلتی ہے تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں لیکن شکست یا ناکامی پر اتنے دکھی ہوتے ہیں کہ جذبات کا اظہار ایسی بے ہودگی سے کرتے ہیں کہ جس کی مثال گزشتہ چند ماہ میں کرکٹ کے کھیل کو پیش نظر رکھ کر دی جائے تو جذباتیت کے استعمال کی بڑی آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم شاندار طریقے سے جیتی بھی اور اتنی ہی بری پرفارمنس سے شکست سے دوچار ہوئی۔ کھیل میں بلاشبہ جیت بھی ہوتی ہے اور ہار بھی لیکن ہمارے عوام پھولوں کے ہار لے کر کھلاڑیوں کو کندھوں پر اٹھائے نعرے لگاتے ہیں تو اسی ٹیم کی ہار پر جوتوں سے ان کا استقبال کرتے ہیں۔عوام اور خواص کا ردعمل ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس غیرمتوازن ردعمل کا علاج ہر شہر میں مختلف قسم کی انڈور اور آئوٹ ڈور سہولیات مہیا کرنے سے ممکن ہے۔جیت کا لطف اٹھانے اور ہار کو برداشت کرنے کی ٹریننگ کھیل کے میدان میں ہوتی ہے۔
ڈیوک آف ولنگٹن برطانیہ کے ایٹن کالج کا فارغ التحصیل تھا، وہ ایٹن اسکول کے بورڈنگ ہائوس میں کئی سال رہا تھا۔ سن 1815ء میں اس نے اتحادی فوجوں کی کمان کرتے ہوئے نپولین بوناپارٹ کو شکست دی تو تاریخی فقرہ بولتے ہوئے فتح کا کریڈٹ یوں اپنے اسکول کو دیا کہ ''واٹرلو کی جنگ ایٹن اسکول کے کھیل کی گرائونڈ میں جیتی گئی تھی۔'' دراصل فتحیاب جنرل تعلیم کے ساتھ اسپورٹس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے کہہ رہا تھا کہ اسکول کی پلے گرائونڈ کھلاڑی کو ڈسپلن، بے غرض تعاون، قربانی، اصولوں کی پاسداری، جیتنے کی لگن، جرأت و ہمت اور مہارت سکھاتی ہے ۔
جن دو اسکولوں اور دو کالجوں میں میں نے تعلیم حاصل کی اتفاق سے ان چاروں کے اپنے کھیل کے میدان تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آبادی میں اضافہ اس اہم انسانی ضرورت کو بھی مات دے گیا اور جہاں بھی عاشقی قید شریعت میں آتی رہی جلوۂ کثرت اولاد دکھاتی گئی نتیجتاً بڑے مکانوں میں افراد کا سناٹا چھاتا اور چھوٹے مکانوں میں جمگھٹا لگتا رہا۔ لاہور کی ایک بستی ماڈل ٹائون ہے جس کے ہر بلاک میں کھیل کا میدان ہے۔ جب وہاں کھیل ہو رہا ہوتا ہے تو راہگیر رک کر تماشا کرتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جب سے بڑے شہروں اور امرأ میں بچوں کو اچھی تعلیم دینے کا جذبہ بیدار ہوا ہے گورنمنٹ نے یہ ذمے داری پرائیویٹ اداروں کو سونپ کر اس مصیبت سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ اب جس کے پاس ذاتی یا کرائے کا چار کمروں کا مکان ہوتا ہے وہ انگریزی یا کوئی ماڈرن نام دیکر وہاں اسکول یا اکیڈمی بنا لیتا ہے۔
میرا مکان ایک رہائشی علاقے میں ہے۔ اس کے چار فرلانگ قطر کے علاقے میں چھ اسکول اور کالج ہیں۔ چار میں معمول کے اوقات کار اور دو میں دو دو شفٹیں ہیں۔ دو شفٹوں والے کالجوں میں مخلوط تعلیم کی وجہ سے رات دس گیارہ بجے تک طلبہ کی چہل پہل رہتی ہے۔ ان دو مہنگے پرائیویٹ کالجوں کی عمارتوں کے اندر طلباء کی ستر اسی کاروں اور ڈیڑھ سو موٹر سائیکلوں کے لیے پارکنگ کی جگہ نہیں ہے، اس لیے ان بچوں کی تمام گاڑیاں کالجوں کے سامنے اور باقی اطراف کی سڑکوں کو بلاک رکھتی ہیں۔
چونکہ ان بچوں کا زیادہ وقت کلاس روم کیفیٹیریا نزدیکی فاسٹ فوڈ ریستورانوں اور اپنی کاروں میں گزرتا ہے اس لیے انھیں پلے گرائونڈ، اسپورٹس، رولز آف گیم، جیت اور ہار کا نہ تجربہ ہے نہ علم اس لیے انھیں نہ کسی واٹر لو میں لڑی جانے والی جنگ سے کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے نہ ڈیوک آف ولنگٹن کے حکیمانہ ریمارکس ان کے کسی کام کے ہوں گے کیونکہ وہ تو لیکچر روم سے نکلنے کے بعد مخلوط تعلیم سے حاصل ہونے والے گڈ ٹائم کے علاوہ کسی بھی آئوٹ ڈور کھیل میں اناڑی ہیں۔ یہ شہزادے البتہ ان بچوں سے قطعی مختلف مخلوق ہیں جنھیں نہ چھتوں اور دیواروں والے مدرسے میسر ہیں نہ استاد، پلے گرائونڈ کا تو کہنا ہی کیا۔ یہ حال سرکاری اسکولوں کا ہے۔
پاکستان میں اب ٹیلی ویژن پر دنیا کے تمام چینل دیکھے جا سکتے ہیں۔ علمی معلوماتی تفریحی مذہبی اور پھر ان کی متعدد شاخیں، دن کے چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت بیشمار چینلز پر لائیو اور ریکارڈڈ اسپورٹس دیکھنے کو ملیں گی۔ گھر میں مہمان ٹی وی لائونج میں بیٹھے ہوں تو کوئی TV پروگرام دیکھنا معیوب معلوم ہوتا ہے لیکن آپ TV کی آواز بند کر کے کوئی اسپورٹس چینل لگا دیں کسی کو برا نہیں لگے گا۔
کھیل یعنی اسپورٹس میں دلچسپی انسان کے علاوہ جانوروں میں بھی ایک فطری جذبے کے طور پر موجود ہوتی ہے۔ کھیل دیکھنا اور ممکن ہو تو خود کھیلنا جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ہمیشہ سے مفید سمجھا گیا ہے اس لیے ترقی یافتہ ملکوں میں اسکولوں کالجوں کے علاوہ شہروں کے مخصوص علاقوں میں پلے گرائونڈز اور اسٹیڈیمز کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔ کئی غیر ترقی یافتہ ممالک میں فٹ بال جو سستا ترین کھیل ہے اتنا مقبول ہے کہ وہاں نامور کھلاڑیوں نے اپنے ملک کو اس ایک کھیل ہی کی وجہ سے عالمی شہرت دلوا دی ہے جب کہ اسکواش کا ذکر دنیا کے کسی کونے میں بھی آئے پاکستان کے روشن خاں، ہاشم خاں، جہانگیر خاں اور جان شیر خاں کے ذکر اور حوالے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ کرکٹ میں پاکستان کے عمران خاں، جاوید میاں داد اور وسیم اکرم دنیائے اسپورٹس کے جانے پہچانے نام ہیں۔ ان دو کھیلوں کے علاوہ بیرون ملک تو چھوڑیئے شاید کوئی پاکستانی بھی کسی نامور کھلاڑی کا نام مشکل سے بتا سکے۔
دنیائے اسپورٹس کا سب سے بڑا ہر چار سال بعد سولہ دن تک کھیلا جانے والا ایونٹ اولمپکس ہے جس کی میزبانی کے لیے بڑے اور خوشحال ملکوں کے درمیان مقابلہ اور پھر کسی ایک کی کامیابی بھی ایک معرکے سے کم نہیں ہوتی اولمپکس گیمز کی تاریخ پونے تین ہزار سال پرانی ہے اس کی ابتدا اولمپیا ایتھنز سے سن 776 ق م (قبل مسیح) میں ہوئی جب کہ موجودہ اولمپکس گیمز کی تاریخ 1896ء سے چلتی ہے۔ اولمپکس میں 33 کھیل کھیلے جاتے ہیں جن میں ہر بار مہارت کے نئے ریکارڈ قائم ہوتے ہیں۔ رنگارنگ پروگراموں کے دوران کھلاڑی بہترین پرفارمنس دے کر حاضرین اور ٹیلی ویژن ناظرین کو یادگار لمحات میں سے گزارتے ہیں جن کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں اولمپکس گیمز دیکھنا دل و نگاہ کی ضیافت کا دوسرا نام ہے۔
گزشتہ سال والے بیجنگ اولمپکس کے مناظر تصور میں لانے کے دوران میں پاکستان میں اسپورٹس کے مستقبل کا اندازہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو ذہن بھٹک کر پاکستان کے مستقبل کے اندیشوں کی طرف نکل جاتا ہے کیونکہ اولمپکس کی افتتاحی پھلجھڑیوں کا نظارہ کرتے ہوئے یکلخت مجھے پانچ روز قبل راولپنڈی چھائونی کی مسجد میں جمعہ کی نماز کے دوران دہشت گردوں کے نمازیوں پر برسائے ہینڈ گرنیڈوں کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ مسجد کے شہیدوں میں کھیلنے کودنے کی عمر کے معصوم اسکول جانے والے سترہ بچے بھی تھے جو اس وقت جنت کے باغوں میں کھیلتے پھر رہے ہوں گے جو ان کے دنیاوی اسکولوں کے پلے گرائونڈ اور باغیچوں سے بدرجہا خوبصورت اور پر لطف ہوں گے۔