ساغر صدیقی نے سرکاری انعام ٹھکرا دیا

محبت اور حکومت وقت نے اُس کی تو نہیں مگر مرنے کے بعد شاید اس کے اشعار کی دستک سن لی ہے

زندگی اور محبت کے دروازے پر ہزاروں لوگ دستک دیتے ہیں۔ کچھ کو اندر جانے کی اجازت مل جاتی ہے اور کچھ انتظار کرتے کرتے دونوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔اس کٹھن انتظار کے دوران وہ تڑپ تڑپ کر تماشا بن جاتے ہیں، مگر دنیا کو اس سے کیا غرض کہ کوئی کیوں تڑپ رہا ہے۔

کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی

دنیا تو لطف لے گئی مرے واقعات میں

یہ شعر معروف شاعر مصطفٰے زیدی نے کہا تھا جنھیں محبت نے دنیا کے سامنے تماشہ بنا دیا تھا ، مگر ایسا لگتا ہے جیسے یہ شعر انھوں نے اپنے لیے نہیں بلکہ ساغر صدیقی کے لیے کہا ہو۔ اس لیے کہ مصطفے ٰ زیدی کے ساتھ زندگی نے وہ سلوک نہیں کیا جو ساغر صدیقی کے ساتھ ہوا تھا۔

ساغر صدیقی کی پوری زندگی جدو جہد اور کرب میں گزری اور یہ کرب اسے ہزاروں فسانوں کے ساتھ بے چارگی و آوارگی کے لباس میں فٹ پاتھ پر لے آیا۔ لاہور کی سرد راتوں میں سڑک کے کنارے درختوں کی سوکھی شاخیں جلا کر سردی کو شکست اور زندگی کو حرارت بخشنے والا یہ درویش شاعر شاید یہ سوچتا ہو گا کہ مرنے کے بعد اسے بہت سارے دکھوں سے نہ سہی کم از کم اپنی پہچان سے تو نجات مل جائے گی، لیکن اُس کی اس سوچ کو لاہور کے پبلشروں نے جھوٹ کر دکھایا ۔ اُس کی شاعری اور زندگی کو افسانوی رنگ دے کر یوں چھاپا کہ ان کے پاس پیسوں کے ڈھیر لگ گئے اور ساغر صدیقی مرنے کے بجائے ہر گلی اور ہر گھر کا مکین بن گیا۔

ساغر کے منہ سے چھلکنے والا ہر شعر نوجوانوں کے لیے محبت کا ایسا سرور آمیز گھونٹ ہوتا کہ وہ مستی میں جھوم جھوم اٹھتے، لیکن نقادوں کے پاس اس کے الفاظ تولنے اور پرکھنے کا کوئی بھی ترازو نہیں تھا۔ اس نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا

یہ کناروں سے کھیلنے والے

ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو

وہ امرتسر میں بڑا ہوا اور جوانی کی ابتدائی بہاریں بھی وہیں دیکھیں، وہی امرتسر جس کی سڑکیں احمد راہی،ایم ڈی تاثیر، اے حمید، صوفی تبسم اور بھولو پہلوان کے قدموں سے آشنا تھیں، لیکن تقسیم کے بعد اُس پر امرتسر کے دروازے بند ہو ئے تو اُس نے لاہور کا رُخ کیا جہاں علمی اور ادبی محفلیں بھی عروج پر تھیں، اخبارات و رسائل بھی اس شہر کی پہچان تھے، پونا، کول کتہ، ممبئی کے بعد برصغیر کی فلمی دنیا کا چوتھا مرکز بھی یہی تھا اور اسے خون جگر دے کر جوان کرنے والے ہزاروں موسیقار و اداکار بھی یہیں رہتے تھے۔ اُس نے غزلیں بھی کہیں نظمیں بھی لکھیں اور اخبارات و رسائل کو بھی بنایا سنوارا، لیکن زندگی کے چہرے کو نہ سنوار سکا۔

وقت گزرتا گیا اور اُس کی شاعری نوجوانوں کی رومانوی زندگی کا اٹوٹ انگ بنتی چلی گئی، لیکن کسی کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ کون ہے کہاں سے آیا اور کہاں رہتا ہے۔ بے بسی اور بے کسی میں بسر ہونے والی زندگی سے جڑے افسانے مزید طویل ہوتے چلے گئے، جن میں عسرت سے زیادہ اس عشرت کی من گھڑت کہانیاں بھی شامل تھیں جو چرس اور افیون کی گولیوں سے جنم لے کر سستی شراب پر ختم ہوجاتی تھیں۔ ایک دن بھوک اور بے گھری کا زخم سینے پر سجائے وہ ایک فٹ پاتھ پر مردہ حالت میں دیکھا گیا۔

دن سڑک پر کٹا رات فٹ پاتھ پر

ایک بھٹکی ہوئی ذات فٹ پاتھ پر


ساغر صدیقی پر اپنے دروازے بند کرنے اور اُسے فٹ پاتھ پر دھکیلنے والی شاطر زندگی لاہور کی سڑکوں اور بازاروں میں انتہائی طمطراق سے گھوم پھر رہی تھی،لیکن ایسا کب تک کرسکتی تھی۔ اُس کی چال میں قرض کی مے پینے کے بعد لڑکھڑاہٹ پیدا ہوئی اور ایک دن دھڑام سے بیچ بازار گر پڑی، ایسی گری کہ شاہ نور اسٹوڈیو میں دھول اُڑنے لگی، مال روڈ ویران ہو گیا، ریگل سینما بند ہوا، پاک ٹی ہائوس کے دروازے پر تالا پڑ گیا اور داتا دربار کے سامنے لنگر کھانے والوں کی قطاریں مزید لمبی ہو گئیں۔

بینکوں کی شاخیں بھی بند ہونے لگیں، اسٹیل ملیں، کارخانے، ریلوے اور سڑکیں بکنے لگیں بھرے ہوئے پیٹوں کو مزید بھرنے اور سوکھے پیٹوں کو مزید سکھانے کے لیے دوست ممالک سے امداد اور عالمی مالیاتی اداروں سے امداد کے نام پر قرض اور بھیک مانگنے کا آخری مگر کبھی نہ ختم ہونے والا دور شروع ہوا۔ لیکن دنیا کو یہ بھی دکھانا تھا کہ ہم علم و ادب اور فنون لطیفہ کے کتنے قریب ہیں اور اس سے تعلق رکھنے والے کیسے کیسے گوہر نایاب قبروں میں دبا چکے ہیں جن میں ساغر صدیقی نام کا ایک شاعر بھی شامل تھا۔ وہ ساغر صدیقی جو زندگی بھر دو وقت کی روٹی کو ترستا رہا اور اُس سے شعر لکھوا کر دیوان چھاپنے والے کئی بے نام چہرے نام ور شاعر بن گئے۔

ایک دن سرکاری ایوانوں میں ایک خبر گونجی کہ ساغر صدیقی کو کسی انعام کے لیے منتخب کیا گیا ہے، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی، وہ تو لگ بھگ پینتالیس سال پہلے فٹ پاتھ کو چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے اندھیری قبر میں جا بسا تھا کہ

راہزن آدمی رہنما آدمی

بارہا بن چکا ہے خدا آدمی

جسے زندگی اور محبت نے ٹھکرایا تھا اُس نے سرکاری انعام اور زندگی کو ٹھکرا کر اپنی ذات کے ساتھ جڑے افسانوں میں یا انعام بانٹنے والوں کے خلاف لکھے جانے والے مرثیوں میں مزید اضافہ کیا ہے ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہیں گے، مگر وہ زندہ ہوتا بھی تو ایوان صدر میں اپنی میلی کچیلی گدڑی اور الجھے بالوں کے ساتھ کیسے داخل ہوتا کہ وہاں پر داخل ہونے والے ہر شخص کے لیے ظاہری رکھ رکھائو باطنی گندگی سے کہیں زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔

اُس نے ایک دفعہ کہا تھا۔

میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

محبت اور حکومت وقت نے اُس کی تو نہیں مگر مرنے کے بعد شاید اس کے اشعار کی دستک سن لی ہے لیکن جب اُسے اندر بلانے کے لیے دروازہ کھولا گیا تو تو وہ کہیں جا چکا تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی کے پاس اُس کے گھر کا پتا تھا اور نہ ہی کسی کو اس بات کا علم تھا کہ اُس کا خاندان کہاں قیام پذیر ہے۔ زیادہ تر یہی جانتے ہیں کہ وہ لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں قیام پذیر ہے جہاں سے گزرنے والے اکثر یہ صدا سنتے ہیں۔

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اُس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
Load Next Story