خانہ بدوشوں میں کم عمری میں شادی کئی طبی مسائل کا باعث بنتی ہیں

زیادہ تربچے خون کی کمی، کمزور اورلاغر اورسب سے بڑھ کی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں، ماہرین

—فائل فوٹو

پاکستان میں بسنے والے خانہ بدوشوں کی بڑی تعداد میں آج بھی بچوں کی کم عمری میں شادی کرنے کا رواج ہے جس کی وجہ سے ناصرف کم عمردلہن بلکہ بعد ازاں اس کے بچوں کو بھی کئی ذہنی اورجسمانی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

18 سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح رجسٹرڈ نہ کئے جانے کی شرط کے باعث یہ لوگ شرعی نکاح پڑھا لیتے ہیں جس کا مقامی یونین کونسل یا پھر نادرا میں اندراج قانونی عمرپوری ہونے کے بعد کروایا جاتاہے۔

رانی بی بی شاہدرہ کے قریب جھونپڑیوں میں رہتی ہیں۔ ان کی عمر 24 سال ہے۔ رانی نے بتایا کہ ان کی 13 سال کی عمر میں شادی ہوگئی تھی، شادی کے بعد ان کا پہلا بچہ بہت لاغر اورکمزور پیدا ہوا اورچند دنوں بعد ہی فوت ہوگیا، اس کے بعد دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ شادی کے وقت میری عمر کم تھی، میں احتجاج بھی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ اس طرح خاندان والے مجھ پرشک کرتے میں کیوں انکار کررہی ہوں، میں نے اپنے باپ سے صرف اتنا کہا تھا کہ بابا میری شادی نہ کریں لیکن میرے والد نے کہا بیٹی میں مجبورہوں، بیمار رہتا ہوں ،مجھے کچھ ہوگیا تو تمھاری ماں کس طرح تم بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرے گی۔

رانی نے مزید بتایا اس کا شوہراس پربہت تشدد کرتا تھا،اس پرشک کرتا، کوئی کام نہیں کرتا تھا بلکہ چند سال بعد اس نے نشہ کرنا شروع کردیا، اسی وجہ سے میں اپنے شوہرکو چھوڑکراپنی دونوں بیٹیوں کولیکر بھائیوں کے پاس آگئی اوراب 4 برس سے یہاں رہ رہی ہوں۔



انہوں نے بتایا کہ میں محنت مزدوری کرتی ہوں اوراپنی بیٹیوں کو پڑھا رہی ہوں، میں نہیں چاہتی کہ جوکچھ میرے ساتھ ہوا میری بیٹیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ ایکسپریس ٹربیون کی تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ خانہ بدوش جن کئی قبیلے اوربرادریاں ہیں ان میں سے زیادہ تر اپنے بچوں کی شادیاں جلدی کردیتے ہیں۔


لاہورکے دریائے راوی کے پل پر صدقہ گوشت بیچنے والوں میں کئی کم عمرلڑکیاں نظرآتی ہیں جن کی عمربمشکل 16 سے 18 سال ہوگی لیکن انہوں نے گود میں بچے اٹھائے ہوتے ہیں، اس کی بنیاد پر ایک قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کی شادی بھی 14، 15 سال کی عمرمیں ہوئی ہوگی۔


بچوں کے حقوق کے لئے سرگرم سرچ فارجسٹس کی نمائندہ فاطمہ طاہر نے بتایا '' خانہ بدوشوں کے بچے جس ماحول میں رہتے ہیں وہ ذہنی اورجسمانی طورپر معاشرے کے دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ میچور ہوتے ہیں، دوسرا مسلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنی درست عمر کاخود بھی معلوم نہیں ہوتا، بس جیسے ہی لڑکی، لڑکا بالغ ہوتے ہیں ان کی شادی کردی جاتی ہے اسی وجہ سے زیادہ تربچے خون کی کمی کاشکار، کمزور اورلاغر اورسب سے بڑھ کی جلدی بیماری ،خارش کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں 18 سال سے کم عمرلڑکے اورلڑکی کی شادی نہیں ہوسکتی، نکاح خواں کو پابند کیا گیا کہ وہ لڑکی اورلڑکے کی عمر کی تصدیق کے بغیرنکاح نہیں پڑھائیں گے تاہم مختلف خانہ بدوشوں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے یہاں زیادہ تر شرعی نکاح پڑھایا جاتا ہے جس کے لئے لڑکے اورلڑکی کی عمرکے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

خانہ بدوش فیملی کے سربراہ چراغ دین نے بتایا کہ ہمیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ لڑکا کسی نوکری پرلگ جائے یا اپنا کوئی کاروبارشروع کرے اورنہ ہی یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ لڑکی اپنی پڑھائی مکمل کرلے، ہمارے یہاں چونکہ خواتین بھیک مانگ کریاپھر گوشت، پھول ،کھلونے بیچ کر روزگارکماتی ہیں تو اس وجہ سے ہم صرف دیکھتے ہیں کہ جب بچے 14۔ 15 سال کی عمرمیں بالغ ہوجاتے ہیں تو پھر ان کا شادی کردیتے ہیں۔ چراغ دین کے مطابق بستی کے بڑے بزرگ جمع ہوتے ہیں اور بچوں کا شرع نکاح پڑھا دیا جاتا ہے۔

خانہ بدوش بچوں خاص طورپرخواتین کی جسمانی صحت کے لئے کام کرنیوالی علینا اظہر نے بتایا '' خانہ بدوش لڑکیوں کو شادی کے بعد کئی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ان میں خون کی کمی ہوتی ہے، کم عمری میں حاملہ ہونے سے اکثرزچہ اوربچہ کی موت ہوجاتی ہے یا پھر پیداہونیوالاپہلا بچہ کسی جسمانی اورذہنی معذوری کا شکارہوجاتا ہے اورپھریہ لوگ اس معذور بچے کو کمائی کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔
لاہورکی ایک مقامی یونین کونسل کے سیکرٹری محمد اقبال نے بتایا کہ خانہ بدوش زیادہ تراپنی شادی اوربچوں کی پیدائش رجسٹرڈہی نہیں کرواتے ، اگر حکومت کی طرف سے دی جانیوالی کسی سہولت سے مستفید ہونے کے وجہ جب انہیں شناختی کارڈ بنوانے اورب فارم کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر وہ نکاح رجسٹرڈ کرواتے ہیں، اس مقصد کے لئے وہ کسی رجسٹرڈنکاح خواں سے دوبارہ نکاح پڑھوا لیتے ہیں جبکہ بچوں کی پیدائش کا اندارج بھی غلط کروالیتے ہیں۔
Load Next Story