طالبان رابطہ کمیٹی کا شوریٰ سے رابطہجنگ بندی میں توسیع کی درخواست
طالبان اس پر بات پر مصر ہیں کہ ان کی 3 بڑی شرائط پر حکومت کی جانب سے پیش رفت ہونی چاہیے۔
طالبان کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے اور حکومتی مقامات پردفاعی حملوں کے اعلان کے بعد ہفتے کووزیرداخلہ کی صدارت میں حکومتی اور طالبان کمٹیوں کے درمیان ہونے والی میٹنگ نہ ہوسکی دوسری طرف طالبان رابطہ کارکمیٹی نے طالبان مجلس شوریٰ سے رابطہ کرکے درخواست کی ہے کہ وہ جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کے اپنے اعلان پر نظر ثانی کرے ۔
ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طالبان رابطہ کار کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے ملاقات ہوئی تھی ۔ وزیرداخلہ نے مولانا سمیع الحق سے کہا تھا کہ وہ طالبان مجلس شوریٰ تک حکومت کا پیغام کہ جنگ بندی میں توسیع کریں پہنچائیں ۔ اس ملاقات میں طے پایا تھا کہ حکومتی اورطالبان کمیٹیوں کے درمیان میٹنگ ہفتے کو ہوگی لیکن یہ ملاقات نہیں ہوسکی ۔ اس سلسلے میں ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رابطہ کار مولانا سید یوسف شاہ نے کہاکہ حکومت کی طرف سے میٹنگ کے بارے میں باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیاگیا ، معلوم ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ کی مصروفیات کے باعث کمیٹیوں کی میٹنگ نہ ہوسکی۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کے اعلان کے بعد ان کا طالبان مجلس شوریٰ کیساتھ رابطہ ہوا تھا جس میں انھوں نے طالبان سے درخواست کی تھی کہ وہ جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کے اپنے اعلان پر نظر ثانی کریں تاہم اس کے بعد گزشتہ روز طالبان رہنماؤں کیساتھ ان کا رابطہ نہیں ہوسکا ۔ مولانا یوسف شاہ کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں حکومتی وطالبان رابطہ کار کمیٹیوں کا اجلاس ہوگا، اسی طرح طالبان کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع کرنے کی ان کی درخواست پر مثبت ردعمل کا اظہار ہوگا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ ایک طرف پیپلزپارٹی کے رہنما ملک میں امن کا مطالبہ کرتے ہیں تو دوسری جانب آپریشن کے لیے حکومت پر زور دیتے ہیں لیکن آپریشن سے کسی بھی صورت امن قائم نہیں ہو سکتا، اگر آپریشن ہی مسئلے کا حل تھا تو پیپلز پارٹی اپنے دور میں علی حیدر گیلانی اور شہباز تاثیر کے بیٹوں کو رہا کیوں نہیں کرا سکی۔ انھوں نے کہا کہ کہ وزارت داخلہ کی جانب سے انھیں ملاقات کیلیے کوئی پیغام نہیں ملا ہے۔
حکومت کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے کے فیصلے کے بعد طالبان کیساتھ سیز فائر میں توسیع کے لیے بیک چینل رابطے شروع ہوگئے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ مذاکراتی عمل دوبارہ جلدازجلد شروع ہواور اس میں پیدا شدہ تعطل کو دورکیاجائے۔ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکراتی عمل سے باخبر ذرائع کے مطابق حکومت کی صفوں میں شامل کچھ اہم شخصیات کیساتھ عسکری حلقوں کا بھی خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے سیز فائر میں توسیع ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر بات چیت کا عمل آگے بڑھانا بڑا دشوار ہوگا۔ واضح رہے کہ طالبان نے 10اپریل کو سیز فائر کی مدت ختم ہونے کے بعد اس میں مزید توسیع سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کو چلانے کے لیے تیار ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر خدانخواستہ دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو یہ بات چیت کا عمل سبوتاژہوسکتا ہے اور اس کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔اس لیے سیزفائر میں توسیع ہونی چاہیے ۔
دوسری جانب طالبان اس پر بات پر مصر ہیں کہ ان کی 3 بڑی شرائط پر حکومت کی جانب سے پیش رفت ہونی چاہیے جیسا کہ وزیرستان میں پیس زون کا قیام، طالبان سے وابستہ غیر جنگجو قیدیوں کی رہائی اور سیکیورٹی اداروں کی مبینہ حراست میں طالبان قیدیوں پر تشدد کا خاتمہ ۔ ذرائع نے بتایا کہ سیز فائر میں توسیع کے لیے حکومت کی جانب سے طالبان کیساتھ بیک چینل رابطے شروع کردیے گئے ہیں ۔ یہ بیک چینل رابطے ماضی میں بھی موثر ثابت ہوئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کچھ اہم مذہبی رہنما طالبان کیساتھ مذاکرات کی کامیابی کے لیے حکومت کی کوششوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ شخصیات حکومتی مذاکراتی کمیٹی اورطالبان مذاکراتی کمیٹی میں شامل افراد کے علاوہ ہیں مگر امن کے بڑے مقصد کے تحت اپنا کام کر رہی ہیں۔حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں شامل ایک رکن نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے سیزفائرمیں توسیع کے امکانات توہیں، اس مقصد کے لیے کام بھی ہورہا ہے مگر ابھی وثوق سے کچھ کہانہیں جاسکتا۔ انھوں نے کہاکہ امن مذاکرات کی کامیابی کی راہ تب ہی ہموارہوسکتی ہے جب فریقین لچک دکھائیں ۔ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ طالبان اپنے موقف میں نرمی لائیں۔
ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طالبان رابطہ کار کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے ملاقات ہوئی تھی ۔ وزیرداخلہ نے مولانا سمیع الحق سے کہا تھا کہ وہ طالبان مجلس شوریٰ تک حکومت کا پیغام کہ جنگ بندی میں توسیع کریں پہنچائیں ۔ اس ملاقات میں طے پایا تھا کہ حکومتی اورطالبان کمیٹیوں کے درمیان میٹنگ ہفتے کو ہوگی لیکن یہ ملاقات نہیں ہوسکی ۔ اس سلسلے میں ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رابطہ کار مولانا سید یوسف شاہ نے کہاکہ حکومت کی طرف سے میٹنگ کے بارے میں باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیاگیا ، معلوم ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ کی مصروفیات کے باعث کمیٹیوں کی میٹنگ نہ ہوسکی۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کے اعلان کے بعد ان کا طالبان مجلس شوریٰ کیساتھ رابطہ ہوا تھا جس میں انھوں نے طالبان سے درخواست کی تھی کہ وہ جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کے اپنے اعلان پر نظر ثانی کریں تاہم اس کے بعد گزشتہ روز طالبان رہنماؤں کیساتھ ان کا رابطہ نہیں ہوسکا ۔ مولانا یوسف شاہ کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں حکومتی وطالبان رابطہ کار کمیٹیوں کا اجلاس ہوگا، اسی طرح طالبان کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع کرنے کی ان کی درخواست پر مثبت ردعمل کا اظہار ہوگا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ ایک طرف پیپلزپارٹی کے رہنما ملک میں امن کا مطالبہ کرتے ہیں تو دوسری جانب آپریشن کے لیے حکومت پر زور دیتے ہیں لیکن آپریشن سے کسی بھی صورت امن قائم نہیں ہو سکتا، اگر آپریشن ہی مسئلے کا حل تھا تو پیپلز پارٹی اپنے دور میں علی حیدر گیلانی اور شہباز تاثیر کے بیٹوں کو رہا کیوں نہیں کرا سکی۔ انھوں نے کہا کہ کہ وزارت داخلہ کی جانب سے انھیں ملاقات کیلیے کوئی پیغام نہیں ملا ہے۔
حکومت کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے کے فیصلے کے بعد طالبان کیساتھ سیز فائر میں توسیع کے لیے بیک چینل رابطے شروع ہوگئے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ مذاکراتی عمل دوبارہ جلدازجلد شروع ہواور اس میں پیدا شدہ تعطل کو دورکیاجائے۔ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکراتی عمل سے باخبر ذرائع کے مطابق حکومت کی صفوں میں شامل کچھ اہم شخصیات کیساتھ عسکری حلقوں کا بھی خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے سیز فائر میں توسیع ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر بات چیت کا عمل آگے بڑھانا بڑا دشوار ہوگا۔ واضح رہے کہ طالبان نے 10اپریل کو سیز فائر کی مدت ختم ہونے کے بعد اس میں مزید توسیع سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کو چلانے کے لیے تیار ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر خدانخواستہ دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو یہ بات چیت کا عمل سبوتاژہوسکتا ہے اور اس کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔اس لیے سیزفائر میں توسیع ہونی چاہیے ۔
دوسری جانب طالبان اس پر بات پر مصر ہیں کہ ان کی 3 بڑی شرائط پر حکومت کی جانب سے پیش رفت ہونی چاہیے جیسا کہ وزیرستان میں پیس زون کا قیام، طالبان سے وابستہ غیر جنگجو قیدیوں کی رہائی اور سیکیورٹی اداروں کی مبینہ حراست میں طالبان قیدیوں پر تشدد کا خاتمہ ۔ ذرائع نے بتایا کہ سیز فائر میں توسیع کے لیے حکومت کی جانب سے طالبان کیساتھ بیک چینل رابطے شروع کردیے گئے ہیں ۔ یہ بیک چینل رابطے ماضی میں بھی موثر ثابت ہوئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کچھ اہم مذہبی رہنما طالبان کیساتھ مذاکرات کی کامیابی کے لیے حکومت کی کوششوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ شخصیات حکومتی مذاکراتی کمیٹی اورطالبان مذاکراتی کمیٹی میں شامل افراد کے علاوہ ہیں مگر امن کے بڑے مقصد کے تحت اپنا کام کر رہی ہیں۔حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں شامل ایک رکن نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے سیزفائرمیں توسیع کے امکانات توہیں، اس مقصد کے لیے کام بھی ہورہا ہے مگر ابھی وثوق سے کچھ کہانہیں جاسکتا۔ انھوں نے کہاکہ امن مذاکرات کی کامیابی کی راہ تب ہی ہموارہوسکتی ہے جب فریقین لچک دکھائیں ۔ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ طالبان اپنے موقف میں نرمی لائیں۔