جونیئر ججز کی تعیناتی کا معاملہ

آج سپریم کورٹ میں جو تقسیم نظر آرہی ہے، اس کا آغاز جونئیر ججز کو لانے سے ہی شروع ہوا ہے

msuherwardy@gmail.com

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ میں جونیئر ججز کی تعیناتی کے لیے جیوڈیشل کمیشن میں ووٹ دینے پر قوم سے معافی مانگ لی ہے۔

بعدازاں ایک انٹرویو میں انھوں نے یہ انکشاف بھی کیاہے کہ جیوڈیشل کمیشن میں جونیئر ججز کو ووٹ ڈالنے کے لیے اس وقت کی عسکری قیادت نے کہا تھا کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان ججز کی تعیناتی پر تناؤ ٹھیک نہیں، اس لیے جونئیر ججز کو ووٹ ڈال دیا جائے۔

حالانکہ حکومت کے نمایندے جیوڈیشل کمیشن کے پہلے اجلاس میں ان جونیئر ججز کو ووٹ ڈالنے سے انکار کر چکے تھے۔ جس کی وجہ سے چیف جسٹس اپنے نامزد کردہ ججز کو تعینات کرانے میں ناکام رہے تھے۔

سپریم کورٹ کا کام ملک میں آئین وقانون کی بالادستی قائم رکھنا ہے۔ ملک میں کہیں بھی میرٹ کی خلاف ورزی ہوتو لوگ عدالت کا ہی دروازہ کھٹکھاتے ہیں۔ سپریم کورٹ ہی ملک میں شفاف میرٹ کو قائم رکھنے کے لیے کام کرتا ہے، حکومت کو میرٹ کی خلاف وزری سے روکتا ہے۔

عام شہریوں کو ایک دوسرے کا حق کھانے سے روکتا ہے۔ اسکولوں کالجوں میں داخلوں سے لے کر نوکریوں کی تقسیم تک میرٹ کو قائم رکھنے کے لیے سپریم کورٹ اور دیگر عدالتیں ہی کردار ادا کرتی ہیں، لیکن اگر عدلیہ میں میرٹ کی خلاف ورزی ہو جائے تو کہاں جائیں؟ اگر عدالت کے کسی فیصلے سے آئین وقانون کی نفی ہو جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کہیں بھی جونئیر کی پروموشن جائز نہیں تو عدلیہ میں کیسے جائز ہے؟

سادہ سی بات ہے کہ اگر آپ کسی کو پروموٹ نہیں کرتے تو اس کی کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔ ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ میں پروموشن کا کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے۔

کوئی قواعد ہونے چاہیے۔ سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اپنے خطوط میں یہی مطالبہ کیا تھا کہ ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ میں پروموشن کے لیے کوئی قانون ،کوئی ضابطہ اور کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے۔ اگر سنیارٹی میرٹ اور ضابطہ ہے تو سب کو اسی کے اصول پر لانا چاہیے۔


یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کو سنیارٹی پر لائیں، دوسرے کو بغیر سنیارٹی کے لے آئیں۔ حکومت کے پاس جیوڈیشل کمیشن میں دو ووٹ ہیں، ایک وفاقی وزیر قانون اور دوسرا اٹارنی جنرل کا ووٹ ہے ،اس دفعہ یہ دو ووٹ بہت اہم ہو گئے تھے کیونکہ عدلیہ کے اپنے اندر تقسیم اس قدر واضح تھی کہ ان کے ساتھی سنیئر ججز چیف جسٹس کے نامزکردہ جونیئر ججز کووٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے چیف جسٹس کے پاس حکومتی ووٹ کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔

اب جب اعظم نذیر تارڑ نے اس حوالے سے جو انکشاف کردیا ہے تو معاملہ اور بھی متنازعہ ہو گیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ سابق اسٹبلشمنٹ کو جونیئر ججز کی پروموشن میں دلچسپی کیوں تھی؟ کیا وہ چیف جسٹس کی حمایت میں ایسا کر رہے تھے یا وہ ان جونئیر ججز کی پروموشن میں خود دلچسپی رکھتے تھے؟ کیا اعظم نذیر تاڑٖڑ کو استعفیٰ دینے کے لیے بھی اسی لیے مجبور کیا گیا تھا کہ انھوں نے پہلی دفعہ میں ووٹ نہیں ڈالے تھے۔

عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کی بات خود عدلیہ کرتی ہے، عدلیہ کی آزادی کا آئین بھی تحفظ کرتا ہے لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ کوئی ایسا طریقہ کار نہیں بن سکا جس سے ججز کی تعیناتی خود کار نظام کے تحت ہوسکے۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی تو آجکل زبان زد عام ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہائی کورٹس میں بھی ججز کی تعیناتی کا کوئی مضبوط اور مربوط نظام موجود نہیں ہے۔

وہاں بھی چیف جسٹس کی مرضی سے ہی نام سامنے آتے ہیں۔میں تو سمجھتا ہوں اعلیٰ عدلیہ میں براہ راست ججز کی تعیناتی نے نظام عدل کے میعار اور وقار میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا ہے، اس سے نظام عدل سیاست کا شکار ہوا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اب ماتحت عدلیہ سے ججز کو ہائی کورٹ میں لانا شروع کیا جائے۔

انھیں کام کا بہتر تجربہ بھی ہوتا ہے۔ وہ نظام انصاف کی پیچید گیوں کو بھی جانتے ہیں، وہ بنیادی طور پر جیورسٹ ہوتے ہیں، وکیل نہیں ہوتے، اس لیے اگر وہ اعلیٰ عدلیہ میں آئیں گے تو نظام انصاف بہتر ہوسکتا ہے۔ جب سپریم کورٹ کے سنیئر ججز کا موقف ہے کہ سنیارٹی کا اصول ہی بہترین اصول ہے تو پھر جونئیر ججز کو لانا نا قابل فہم ہے۔

آج سپریم کورٹ میں جو تقسیم نظر آرہی ہے، اس کا آغاز جونئیر ججز کو لانے سے ہی شروع ہوا ہے۔ سینئر ججز جونئیر ججز کو لانے کے کل بھی حق میں نہ تھے ،آج بھی نہیں ہیں۔ سینئر ججز کو نظر انداز کر کے جونیئرججز کو اہم بنچ میں لانے کی وجہ سے بھی سوال پید ا ہوئے ہیں۔ بنچ فکسنگ جیسے تنازعات کو جنم دیا ہے۔ عدلیہ اور پارلیمان کی لڑائی کو جنم دیا ہے، جو سب کے سامنے ہے۔

پارلیمان کا اجلاس روز نظرا ٓتا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ میں فل کورٹ ممکن نہیں۔ اگر وہاں بھی فیصلے ہو جائیں تو تنازعہ ہی ختم ہو جائے۔ لیکن شاید وہاں بھی وہی فیصلے ہونے کا خدشہ ہے جو پارلیمان میں ہو رہے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک کے تمام اداروں میں تو میرٹ پر ترقیاں اور تعیناتیاں ہوں لیکن عدلیہ اس اصول سے مبرا ہو،پھر سوال بھی ا ٹھیں گے اور تنقید بھی ہو گی۔
Load Next Story