عید سے پہلے نیا پٹرول بم مزید نئی مہنگائی
عمومی تصور تو یہ ہے کہ ریاست اور حکمران ماں کی طرح ہوتے ہیں ۔ ماں اپنی ساری اولاد کو یکساں طور پر، ایک ہی محبت و شفقت بھری نظر سے دیکھتی ہے ۔
وہ ہر لمحہ اولاد کی سُکھوں میں اضافہ اور دُکھوں میں کمی کرنے کے خواب بھی دیکھتی ہے ، اِس ضمن میں دعائیں بھی کرتی ہے اور ممکنہ حد تک، مقدور بھر اِن خواہشات میں رنگ بھرنے کی سبیل بھی نکالتی ہے ۔ لیکن ہماری ریاست اور حکمران ایسے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے تو شب و روز بھاگ دوڑ کررہے ہیں ، اپنی ذات کے لیے ہر ممکنہ کوششیں بھی کرتے ہیں لیکن اپنے عوام کے مسائل و مصائب کو مسلسل فراموش کیے رہتے ہیں ۔
مصائب و مسائل کے دو مہیب پاٹوں میں پستے بے بس عوام کو نئے خوابوں کی جھلک دکھا کر اور عمران خان کو اقتدار سے نکال کر جب سے شہباز شریف صاحب اور اتحادی حکومت کے درجن بھر لیڈرز اقتدار کے رنگین ایوانوں میں داخل ہُوئے ہیں، تب سے عوام کی مصیبتوں اور دکھوں میں کئی گنا مزید اضافہ ہو چکا ہے ۔ ان مصائب کی کوئی انتہا ہے نہ اَنت اور نہ کوئی اخیر و اختتام ۔
شہباز شریف کی صورت میں'' ہمارے'' یہ درجن بھر اتحادی حکمران ہر روز عوام کے لیے کمر شکن مہنگائی کا نیا سورج طلوع کر کے بیدار ہوتے ہیں ۔ آج شائد عید الفطر ہو جائے ، لیکن یہ عید ایسے ایام میں ہو رہی ہے جب عید سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل عوام پر نیا پٹرول بم گرا دیا گیا ہے ۔
غریب عوام سہم کررہ گئے ہیں۔ اِس نئے ظلم و زیادتی پر وزیراعظم بھی خاموش ہیں اور وزیر خزانہ بھی مہر بہ لب۔ عیدسے ایک ہفتہ قبل پٹرول کی قیمت میں 10روپے فی لٹر اضافہ کرکے وزیر اعظم شہباز شریف اور اتحادی حکومت کے84وزرا نے عوام سے عید کی خوشیاں اورمسرتیں چھین لی ہیں ۔
عید الفطر کے اِن ایام میں غضب و غصب کا یہ وفاقی اقدام دراصل عوامی احساسات پر بم بن کر گرا ہے۔ وفاقی حکومت اسقدر بے حس ہے کہ عید سے قبل یہ فیصلہ کرتے ہُوئے اُسے عوامی ردِ عمل کی بھی پروا نہیں رہی۔ عید کی نماز ادا کرتے عوام اور امامت کراتے علمائے کرام ایسے حکمرانوں اور ریاست کے لیے دعائیں بھی مانگیں تو کیونکر ؟
لگتا ہے شہباز شریف، اُن کی پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے انتخابات کروانے ہیں نہ عوام سے ووٹ مانگنے جانا ہے۔ اس لیے وہ ہر فکر سے آزاد ہو کر نت دوسرے روز مہنگائی کے بم گراتے جا رہے ہیں۔ عیدالفطر سے قبل عوام پر نیا پٹرول بم گرا کر نئی مہنگائی کی لہر اُٹھائی گئی ہے ۔
عوام کو زِچ کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے ۔ عید سے پہلے پٹرول کی قیمت میں 10روپے فی لٹر اضافہ ایسا ایام میں کیا گیا ہے جب تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 5ڈالر فی بیرل گر چکی ہیں ۔ مگر ہماری84رکنی وفاقی کابینہ اور اس کے وزیر اعظم کو چونکہ اپنے بھاری بھر کم اخراجات بھی پورے کرنے ہیں۔
اس لیے اپنی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے عوام کی ہڈیوں سے مزید رَس نچوڑنے کے لیے پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنے کا پہلا اور فوری دباؤ اُن غریب مسافروں پر پڑا ہے جو عید الفطر کی خوشیاں منانے کے لیے دُور دراز کے شہروں سے اپنے اپنے گاؤں، قصبوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں جا رہے ہیں۔
پٹرول میں 10روپے فی لٹر اضافہ کرنے سے بسوں، ویگنوں اور ٹیکسیوں کے ٹرانسپورٹ مالکان نے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے ۔اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے کا نیا طوفان اُٹھا ہے ۔
ہمارے ہر قسم کے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو مگر اس نئے بم کے گرائے جانے پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا کیونکہ ان کی سرکاری مراعات اور تنخواہیں ہی اتنی بلند ہیں کہ پٹرول میں 10روپے فی لٹراضافہ ہو جائے یا100روپے ، اِن بے تحاشہ مراعات یافتہ حکمران طبقات کی چمڑی پر فکر و تفکر کی کوئی لکیر نہیں اُبھرتی ۔
عوام پہلے ہی اتحادی حکومت کے اُٹھائے گئے اقدامات اور فیصلوں سے بے حد ناراض اور نالاں ہیں۔ اِس عوامی ناراضی کی حدت و تپش اتحادی حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں تک بھی پہنچ رہی ہے ۔
شائد ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اتحادی عمران خان کے جلد انتخابات کرانے کے مطالبے کا سامنا کرنے اور انتخابات کے میدان میں اُترنے کے لیے راضی اور تیار نہیں ہیں ۔ اتحادی حکمران جماعتوں کے سبھی ''لیڈرز'' کس منہ سے اور کس بیانئے کے ساتھ ووٹ مانگنے کے لیے عوام کے سامنے اپنی جھولی پھیلائیں گے؟
عمران خان کی کہہ مکرنیوں اور یو ٹرنز سے کتنا بھی اختلاف کیا جائے ، یہ بات مگر سچ ہے کہ خان صاحب نے تنِ تنہا اتحادی حکومت کی درجن بھر جماعتوں کا ہر رُخ سے راستہ بند کررکھا ہے۔ اتحادی حکمران جماعتوں کے جلی و خفی سرپرست بھی عمران خان کی یلغار کے سامنے بے بس ہیں ۔
کسی کے پاس انتخابات جلد نہ کروانے کا کوئی جواز ہے نہ جواب ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت اور حکم سے عید سے قبل عوام پر یہ جو نیا پٹرول بم گرایا گیا ہے، اس کی اُٹھے والی نئی لہروں کے زیرو بم سے حکومتی اتحاد لرزاں ہے ۔
وفاقی سرکاری حکومت تسلیم کررہی ہے کہ شہباز شریف کی ایک سالہ حکومت میں مہنگائی43فیصد پہنچ چکی ہے۔ یہ پاکستان کی75سالہ تاریخ کی بد ترین اور بلند ترین مہنگائی ہے۔ جن لوگوں کی آل اولادیں اور سرمائے بیرونِ ملک ہیں، اُنہیںتو اس جان لیوا مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ نیا پٹرول بم گرانے سے نئی مہنگائی آئی ہے۔
ایسے میں ورلڈ بینک نے اپنی تازہ ترینPakistan Economic Development Out Look and Risk Reportمیںیہ نیا بم پھوڑا ہے کہ ''پاکستان میں مزید39لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے گر گئے ہیں۔'' اور یہ کہ ''پاکستان میں معاشی بدحالی اور مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ خطِ غربت سے نیچے گرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔''
مذکورہ پریشان کن رپورٹ کی براہِ راست ذمے داری اِس حکومت پر عائد ہوتی ہے جسے عمران خان کو اقتدار سے نکال کر خود اقتدار سنبھالنے کا بے حد چاؤ تھا۔ ملک میں ہر روز بڑھتی کمر توڑ مہنگائی اور جان لیوا بے روزگاری سے بچنے کے لیے ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ پاکستان سے بھاگ رہا ہے۔
اگلے روز پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر اور اسلام آباد کے نوجوان سیاستدان ، جناب مصطفیٰ نواز کھوکھر، نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ''پچھلے ایک سال کے دوران 10لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان ملک سے بھاگ چکے ہیں۔'' پاکستان ایسا کوئی ملک جب اپنے بے نوا ، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے آس اُمید کے سارے چراغ بجھا دے گا تو پھر یہ نوجوان ملک سے فرار ہی حاصل کریں گے ۔
پھر بیچاروں کے جہاں سینگ سمائیں گے ، چلے جائیں گے ۔ اِس کوشش و سعی میں چاہے وہ غیر ممالک کی سرحدوں پر غیروں کی گولیوں کا ہدف بن جائیں اور خواہ سمندروں کی سفاک لہروں کا لُقمہ بن جائیں ۔ ہماری ریاست اور ہمارے حکمرانوں کی بلا سے !!
وہ ہر لمحہ اولاد کی سُکھوں میں اضافہ اور دُکھوں میں کمی کرنے کے خواب بھی دیکھتی ہے ، اِس ضمن میں دعائیں بھی کرتی ہے اور ممکنہ حد تک، مقدور بھر اِن خواہشات میں رنگ بھرنے کی سبیل بھی نکالتی ہے ۔ لیکن ہماری ریاست اور حکمران ایسے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے تو شب و روز بھاگ دوڑ کررہے ہیں ، اپنی ذات کے لیے ہر ممکنہ کوششیں بھی کرتے ہیں لیکن اپنے عوام کے مسائل و مصائب کو مسلسل فراموش کیے رہتے ہیں ۔
مصائب و مسائل کے دو مہیب پاٹوں میں پستے بے بس عوام کو نئے خوابوں کی جھلک دکھا کر اور عمران خان کو اقتدار سے نکال کر جب سے شہباز شریف صاحب اور اتحادی حکومت کے درجن بھر لیڈرز اقتدار کے رنگین ایوانوں میں داخل ہُوئے ہیں، تب سے عوام کی مصیبتوں اور دکھوں میں کئی گنا مزید اضافہ ہو چکا ہے ۔ ان مصائب کی کوئی انتہا ہے نہ اَنت اور نہ کوئی اخیر و اختتام ۔
شہباز شریف کی صورت میں'' ہمارے'' یہ درجن بھر اتحادی حکمران ہر روز عوام کے لیے کمر شکن مہنگائی کا نیا سورج طلوع کر کے بیدار ہوتے ہیں ۔ آج شائد عید الفطر ہو جائے ، لیکن یہ عید ایسے ایام میں ہو رہی ہے جب عید سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل عوام پر نیا پٹرول بم گرا دیا گیا ہے ۔
غریب عوام سہم کررہ گئے ہیں۔ اِس نئے ظلم و زیادتی پر وزیراعظم بھی خاموش ہیں اور وزیر خزانہ بھی مہر بہ لب۔ عیدسے ایک ہفتہ قبل پٹرول کی قیمت میں 10روپے فی لٹر اضافہ کرکے وزیر اعظم شہباز شریف اور اتحادی حکومت کے84وزرا نے عوام سے عید کی خوشیاں اورمسرتیں چھین لی ہیں ۔
عید الفطر کے اِن ایام میں غضب و غصب کا یہ وفاقی اقدام دراصل عوامی احساسات پر بم بن کر گرا ہے۔ وفاقی حکومت اسقدر بے حس ہے کہ عید سے قبل یہ فیصلہ کرتے ہُوئے اُسے عوامی ردِ عمل کی بھی پروا نہیں رہی۔ عید کی نماز ادا کرتے عوام اور امامت کراتے علمائے کرام ایسے حکمرانوں اور ریاست کے لیے دعائیں بھی مانگیں تو کیونکر ؟
لگتا ہے شہباز شریف، اُن کی پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے انتخابات کروانے ہیں نہ عوام سے ووٹ مانگنے جانا ہے۔ اس لیے وہ ہر فکر سے آزاد ہو کر نت دوسرے روز مہنگائی کے بم گراتے جا رہے ہیں۔ عیدالفطر سے قبل عوام پر نیا پٹرول بم گرا کر نئی مہنگائی کی لہر اُٹھائی گئی ہے ۔
عوام کو زِچ کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے ۔ عید سے پہلے پٹرول کی قیمت میں 10روپے فی لٹر اضافہ ایسا ایام میں کیا گیا ہے جب تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 5ڈالر فی بیرل گر چکی ہیں ۔ مگر ہماری84رکنی وفاقی کابینہ اور اس کے وزیر اعظم کو چونکہ اپنے بھاری بھر کم اخراجات بھی پورے کرنے ہیں۔
اس لیے اپنی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے عوام کی ہڈیوں سے مزید رَس نچوڑنے کے لیے پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنے کا پہلا اور فوری دباؤ اُن غریب مسافروں پر پڑا ہے جو عید الفطر کی خوشیاں منانے کے لیے دُور دراز کے شہروں سے اپنے اپنے گاؤں، قصبوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں جا رہے ہیں۔
پٹرول میں 10روپے فی لٹر اضافہ کرنے سے بسوں، ویگنوں اور ٹیکسیوں کے ٹرانسپورٹ مالکان نے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے ۔اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے کا نیا طوفان اُٹھا ہے ۔
ہمارے ہر قسم کے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو مگر اس نئے بم کے گرائے جانے پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا کیونکہ ان کی سرکاری مراعات اور تنخواہیں ہی اتنی بلند ہیں کہ پٹرول میں 10روپے فی لٹراضافہ ہو جائے یا100روپے ، اِن بے تحاشہ مراعات یافتہ حکمران طبقات کی چمڑی پر فکر و تفکر کی کوئی لکیر نہیں اُبھرتی ۔
عوام پہلے ہی اتحادی حکومت کے اُٹھائے گئے اقدامات اور فیصلوں سے بے حد ناراض اور نالاں ہیں۔ اِس عوامی ناراضی کی حدت و تپش اتحادی حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں تک بھی پہنچ رہی ہے ۔
شائد ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اتحادی عمران خان کے جلد انتخابات کرانے کے مطالبے کا سامنا کرنے اور انتخابات کے میدان میں اُترنے کے لیے راضی اور تیار نہیں ہیں ۔ اتحادی حکمران جماعتوں کے سبھی ''لیڈرز'' کس منہ سے اور کس بیانئے کے ساتھ ووٹ مانگنے کے لیے عوام کے سامنے اپنی جھولی پھیلائیں گے؟
عمران خان کی کہہ مکرنیوں اور یو ٹرنز سے کتنا بھی اختلاف کیا جائے ، یہ بات مگر سچ ہے کہ خان صاحب نے تنِ تنہا اتحادی حکومت کی درجن بھر جماعتوں کا ہر رُخ سے راستہ بند کررکھا ہے۔ اتحادی حکمران جماعتوں کے جلی و خفی سرپرست بھی عمران خان کی یلغار کے سامنے بے بس ہیں ۔
کسی کے پاس انتخابات جلد نہ کروانے کا کوئی جواز ہے نہ جواب ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت اور حکم سے عید سے قبل عوام پر یہ جو نیا پٹرول بم گرایا گیا ہے، اس کی اُٹھے والی نئی لہروں کے زیرو بم سے حکومتی اتحاد لرزاں ہے ۔
وفاقی سرکاری حکومت تسلیم کررہی ہے کہ شہباز شریف کی ایک سالہ حکومت میں مہنگائی43فیصد پہنچ چکی ہے۔ یہ پاکستان کی75سالہ تاریخ کی بد ترین اور بلند ترین مہنگائی ہے۔ جن لوگوں کی آل اولادیں اور سرمائے بیرونِ ملک ہیں، اُنہیںتو اس جان لیوا مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ نیا پٹرول بم گرانے سے نئی مہنگائی آئی ہے۔
ایسے میں ورلڈ بینک نے اپنی تازہ ترینPakistan Economic Development Out Look and Risk Reportمیںیہ نیا بم پھوڑا ہے کہ ''پاکستان میں مزید39لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے گر گئے ہیں۔'' اور یہ کہ ''پاکستان میں معاشی بدحالی اور مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ خطِ غربت سے نیچے گرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔''
مذکورہ پریشان کن رپورٹ کی براہِ راست ذمے داری اِس حکومت پر عائد ہوتی ہے جسے عمران خان کو اقتدار سے نکال کر خود اقتدار سنبھالنے کا بے حد چاؤ تھا۔ ملک میں ہر روز بڑھتی کمر توڑ مہنگائی اور جان لیوا بے روزگاری سے بچنے کے لیے ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ پاکستان سے بھاگ رہا ہے۔
اگلے روز پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر اور اسلام آباد کے نوجوان سیاستدان ، جناب مصطفیٰ نواز کھوکھر، نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ''پچھلے ایک سال کے دوران 10لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان ملک سے بھاگ چکے ہیں۔'' پاکستان ایسا کوئی ملک جب اپنے بے نوا ، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے آس اُمید کے سارے چراغ بجھا دے گا تو پھر یہ نوجوان ملک سے فرار ہی حاصل کریں گے ۔
پھر بیچاروں کے جہاں سینگ سمائیں گے ، چلے جائیں گے ۔ اِس کوشش و سعی میں چاہے وہ غیر ممالک کی سرحدوں پر غیروں کی گولیوں کا ہدف بن جائیں اور خواہ سمندروں کی سفاک لہروں کا لُقمہ بن جائیں ۔ ہماری ریاست اور ہمارے حکمرانوں کی بلا سے !!