عوامی نفسیات کا عجیب ٹیڑھ پن
مجھے پرویز مشرف کے حوالے سے اندرون و بیرون ملک سے بے شمار ٹیلیفون آتے رہتے ہیں...
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور غیر آئینی اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اتفاق رائے وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے قائد سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم محمد نواز شریف کے درمیان ون آن ون ملاقات اور وفود کی سطح پر بات چیت میں کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ایک گفتگو میں کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی ملاقات ایک واضع پیغام دیتی ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کے خلاف سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سابق صدر آصف زرداری نے نواز شریف کو مشرف ایشو پر ڈٹ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری قوتوں کے پاس پارلیمنٹ اور جمہوری اداروں کی بالادستی قائم کرنے کا سنہری موقعہ ہے جسے کسی صورت ضایع نہیں ہونا چاہیے۔آصف زرداری نے نواز شریف کو یقین دلایا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ان کا ساتھ دے گی۔
اس ملاقات کا پس منظر یہ ہے کہ حال ہی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فوجی کمانڈوز اکیڈمی کا دورہ کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ فوج کے وقار کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ اس کی وجہ دو وزراء کے انتہائی سخت بیانات تھے جو سابق صدر پرویز مشرف کے حوالے سے تھے۔ سویلین بالادستی جمہوریت کے حوالے سے ناگزیر ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات کرنے والے کون لوگ ہیں اور ان کا ماضی کیا رہا ہے۔ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ سویلین بالادستی راتوں رات نہیں آ جاتی اس کے لیے عوام کا اعتماد جیتنا پڑتا ہے۔ وہ اعتماد جس میں عوام سڑکوں پر آ کر سویلین بالادستی کے لیے خون دے سکیں نہ کہ ملٹری ٹیک اوور کی صورت میں مٹھائیاں بانٹیں جس کا ہم ماضی میں بارہا مشاہدہ کر چکے ہیں۔
جمہوریت جمہور سے ہوتی ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کے لیے عوام صرف ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس کے بعد ان کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ انھیں کوئی بھی منتخب نمایندہ منہ نہیں لگاتا۔ مہنگائی بیروز گاری غربت کے ستائے عوام سڑکوں پر آ کر جمہوریت کے لیے خون نہیں بہاتے بلکہ نئے فوجی آمر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ویسے بھی جس ملک میں بقول وفاقی وزیر خزانہ 53 فیصد آبادی (یعنی دس کروڑ افراد) خط غربت (خط فاقہ) سے نیچے ہو۔ فاقوں نے انسان اور جانور میں کوئی تمیز نہ رہنے دی ہو انھیں جمہوریت اور آرٹیکل 6 سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔
مجھے پرویز مشرف کے حوالے سے اندرون و بیرون ملک سے بے شمار ٹیلیفون آتے رہتے ہیں جو بات میرے لیے حیران کن ہے' وہ یہ ہے کہ اکا دکا مخالفت کے سوا بیشتر لوگ ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق ہر طبقے سے ہے لیکن غریب اور متوسط طبقہ سے زیادہ ہے جن کی اس ملک میں اکثریت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پرویز مشرف پر مقدمہ چلا کر ان سے زیادتی کی جا رہی ہے۔ سابق آرمی چیف کو غدار کہنا انتہائی نامناسب بات ہے۔ جب میں انھیں بتاتا ہوں کہ پرویز مشرف تو آئین شکن ہیں ۔ توآپ انھیں کیوں پسند کرتے ہیں؟ تو جواب میں کہتے ہیں کہ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ لیکن انھوں نے بہت سے اچھے کام بھی کیے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ انھوں نے کیا اچھے کام کیے تو وہ بتاتے ہیں کہ ہم مشرف کے دور میں خوش حال تھے مہنگائی نہیں تھی۔ ہمارے پاس پیسے بھی تھے۔ اب ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو بے روز گاری کے ہاتھوں بھوکا سونا پڑتا ہے۔
میں نے جو کچھ پرویز مشرف کے حوالے سے لکھا ہے نہ اس میں مبالغہ ہے نہ اس میں تعصب ہے۔ نہ کسی کی حمایت و مخالفت ہے۔ جب پرویز مشرف برسراقتدار تھے تو میں نے خود ان کے خلاف کالم لکھے۔ جو بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت آج بھی فوج کی بحیثیت ادارہ احترام کرتی ہے اور اس کی تذلیل برداشت نہیں کر سکتی عوام مشرف کی حمایت ان کی ذاتی حیثیت میں نہیں کر رہے بلکہ آرمی سے جو ان کا تعلق ہے اس وجہ سے کر رہے ہیں ورنہ ایک طویل عرصے سے دن رات ان کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے اس کا نتیجہ یہ نہ نکلتا کہ ان کی حمایت میں ٹیلیفون آتے۔ اس کا مطلب کیا نکلا؟ اس کا مطلب یہ نکلا کہ مشرف کے خلاف چلائی گئی مہم زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
ایک اور بات جو سمجھنے کی ہے اس کا تعلق نفسیات سے ہے کہ پرویز مشرف کبھی ظالم تھے لیکن اب وہ مظلوم ہیں چنانچہ عوام بھی انھیں اپنے جیسا مظلوم سمجھنے لگے ہیں۔ یہ عوامی نفسیات کا عجیب ٹیڑھ پن ہے۔ یہ چیز ہمارے ہاں ہی نہیں حال ہی میں یہ چیز فرانس میں بھی ثابت ہوئی۔ دوسری چیز کا تعلق ہماری تاریخ سے ہے۔ مسلم تاریخ بادشاہتوں اور آمریتوں سے بھری ہوئی ہے۔
بادشاہتوں آمریتوں کا احترام ہمارے خون (سرشت) میں شامل ہے۔ بادشاہتوں نے لاکھوں انسانوں کا خون کیا خزانے لوٹے' ظلم کیا سیکڑوں ہزاروں سالوں میں چنانچہ عوام اسے معمول سمجھنے لگے کیوں کہ ان افعال پر کوئی آسمانی عذاب بھی نازل نہیں ہوا۔ بادشاہوں کو ظل الہیٰ کا خطاب دیا گیا یعنی خدا کا سایہ اور عوام نے اسے شعوری یا لاشعوری طور پر قبول بھی کر لیا۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ عوام پچھلے 6 سالوں میں جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ مند نہ ہو سکے اور اقتدار خاندان برادری و دوستوں میں محدود ہو کر رہ گیا۔ عوام منہ تکتے رہ گئے۔
آرٹیکل 6 کے حوالے سے میں نے چند سال پہلے لکھا تھا کہ اس کے تن مردہ میں جان 013ء میں پڑ جائے گی اور ایسا ہی ہوا لیکن اس میں ابھی اتنی بھی جان نہیں پڑی کہ سویلین بالادستی قائم ہو سکے۔ اس کے لیے اس ملک کی جمہوری قوتوں کو 016ء سے 018ء کے درمیان انتظار کرنا پڑے گا۔
جیسا کہ میں پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ مشرف اپنے بارھویں گھر سے نکل چکے ہیں جو ان کا سب سے سخت وقت تھا جس کا آغاز آٹھویں گھر سے ہوا۔ میں نے 9-8 اپریل تاریخیں دی تھیں۔ 7 اپریل کو آرمی چیف کا فوج کے وقار کے حوالے سے بیان آیا کہ اس کا ''ہر قیمت'' پر تحفظ کیا جائے گا۔ یہ ہر قیمت لفظ انتہائی قابل غور ہے۔ اسے سرسری نہ پڑھ جائیں۔ اس میں معنی کا سمندر پنہاں ہے۔ 19اپریل کو مشرف کراچی پہنچ گئے۔ یعنی عین 12ویں دن آرمی چیف کے بیان دینے کے بعد۔ اب سابق صدر پرویز مشرف 13ویں اور 14 ویں گھر میں داخل ہو گئے ہیں جو ان کے لیے کامیابی لا سکتا ہے یعنی مئی اور جون... اسی حوالے سے مشرف کے لیے فوری طور پر اہم تاریخیں 24-23 اپریل 28,27 تا30 اپریل یکم مئی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ایک گفتگو میں کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی ملاقات ایک واضع پیغام دیتی ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کے خلاف سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سابق صدر آصف زرداری نے نواز شریف کو مشرف ایشو پر ڈٹ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری قوتوں کے پاس پارلیمنٹ اور جمہوری اداروں کی بالادستی قائم کرنے کا سنہری موقعہ ہے جسے کسی صورت ضایع نہیں ہونا چاہیے۔آصف زرداری نے نواز شریف کو یقین دلایا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ان کا ساتھ دے گی۔
اس ملاقات کا پس منظر یہ ہے کہ حال ہی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فوجی کمانڈوز اکیڈمی کا دورہ کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ فوج کے وقار کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ اس کی وجہ دو وزراء کے انتہائی سخت بیانات تھے جو سابق صدر پرویز مشرف کے حوالے سے تھے۔ سویلین بالادستی جمہوریت کے حوالے سے ناگزیر ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات کرنے والے کون لوگ ہیں اور ان کا ماضی کیا رہا ہے۔ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ سویلین بالادستی راتوں رات نہیں آ جاتی اس کے لیے عوام کا اعتماد جیتنا پڑتا ہے۔ وہ اعتماد جس میں عوام سڑکوں پر آ کر سویلین بالادستی کے لیے خون دے سکیں نہ کہ ملٹری ٹیک اوور کی صورت میں مٹھائیاں بانٹیں جس کا ہم ماضی میں بارہا مشاہدہ کر چکے ہیں۔
جمہوریت جمہور سے ہوتی ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کے لیے عوام صرف ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس کے بعد ان کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ انھیں کوئی بھی منتخب نمایندہ منہ نہیں لگاتا۔ مہنگائی بیروز گاری غربت کے ستائے عوام سڑکوں پر آ کر جمہوریت کے لیے خون نہیں بہاتے بلکہ نئے فوجی آمر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ویسے بھی جس ملک میں بقول وفاقی وزیر خزانہ 53 فیصد آبادی (یعنی دس کروڑ افراد) خط غربت (خط فاقہ) سے نیچے ہو۔ فاقوں نے انسان اور جانور میں کوئی تمیز نہ رہنے دی ہو انھیں جمہوریت اور آرٹیکل 6 سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔
مجھے پرویز مشرف کے حوالے سے اندرون و بیرون ملک سے بے شمار ٹیلیفون آتے رہتے ہیں جو بات میرے لیے حیران کن ہے' وہ یہ ہے کہ اکا دکا مخالفت کے سوا بیشتر لوگ ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق ہر طبقے سے ہے لیکن غریب اور متوسط طبقہ سے زیادہ ہے جن کی اس ملک میں اکثریت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پرویز مشرف پر مقدمہ چلا کر ان سے زیادتی کی جا رہی ہے۔ سابق آرمی چیف کو غدار کہنا انتہائی نامناسب بات ہے۔ جب میں انھیں بتاتا ہوں کہ پرویز مشرف تو آئین شکن ہیں ۔ توآپ انھیں کیوں پسند کرتے ہیں؟ تو جواب میں کہتے ہیں کہ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ لیکن انھوں نے بہت سے اچھے کام بھی کیے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ انھوں نے کیا اچھے کام کیے تو وہ بتاتے ہیں کہ ہم مشرف کے دور میں خوش حال تھے مہنگائی نہیں تھی۔ ہمارے پاس پیسے بھی تھے۔ اب ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو بے روز گاری کے ہاتھوں بھوکا سونا پڑتا ہے۔
میں نے جو کچھ پرویز مشرف کے حوالے سے لکھا ہے نہ اس میں مبالغہ ہے نہ اس میں تعصب ہے۔ نہ کسی کی حمایت و مخالفت ہے۔ جب پرویز مشرف برسراقتدار تھے تو میں نے خود ان کے خلاف کالم لکھے۔ جو بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت آج بھی فوج کی بحیثیت ادارہ احترام کرتی ہے اور اس کی تذلیل برداشت نہیں کر سکتی عوام مشرف کی حمایت ان کی ذاتی حیثیت میں نہیں کر رہے بلکہ آرمی سے جو ان کا تعلق ہے اس وجہ سے کر رہے ہیں ورنہ ایک طویل عرصے سے دن رات ان کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے اس کا نتیجہ یہ نہ نکلتا کہ ان کی حمایت میں ٹیلیفون آتے۔ اس کا مطلب کیا نکلا؟ اس کا مطلب یہ نکلا کہ مشرف کے خلاف چلائی گئی مہم زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
ایک اور بات جو سمجھنے کی ہے اس کا تعلق نفسیات سے ہے کہ پرویز مشرف کبھی ظالم تھے لیکن اب وہ مظلوم ہیں چنانچہ عوام بھی انھیں اپنے جیسا مظلوم سمجھنے لگے ہیں۔ یہ عوامی نفسیات کا عجیب ٹیڑھ پن ہے۔ یہ چیز ہمارے ہاں ہی نہیں حال ہی میں یہ چیز فرانس میں بھی ثابت ہوئی۔ دوسری چیز کا تعلق ہماری تاریخ سے ہے۔ مسلم تاریخ بادشاہتوں اور آمریتوں سے بھری ہوئی ہے۔
بادشاہتوں آمریتوں کا احترام ہمارے خون (سرشت) میں شامل ہے۔ بادشاہتوں نے لاکھوں انسانوں کا خون کیا خزانے لوٹے' ظلم کیا سیکڑوں ہزاروں سالوں میں چنانچہ عوام اسے معمول سمجھنے لگے کیوں کہ ان افعال پر کوئی آسمانی عذاب بھی نازل نہیں ہوا۔ بادشاہوں کو ظل الہیٰ کا خطاب دیا گیا یعنی خدا کا سایہ اور عوام نے اسے شعوری یا لاشعوری طور پر قبول بھی کر لیا۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ عوام پچھلے 6 سالوں میں جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ مند نہ ہو سکے اور اقتدار خاندان برادری و دوستوں میں محدود ہو کر رہ گیا۔ عوام منہ تکتے رہ گئے۔
آرٹیکل 6 کے حوالے سے میں نے چند سال پہلے لکھا تھا کہ اس کے تن مردہ میں جان 013ء میں پڑ جائے گی اور ایسا ہی ہوا لیکن اس میں ابھی اتنی بھی جان نہیں پڑی کہ سویلین بالادستی قائم ہو سکے۔ اس کے لیے اس ملک کی جمہوری قوتوں کو 016ء سے 018ء کے درمیان انتظار کرنا پڑے گا۔
جیسا کہ میں پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ مشرف اپنے بارھویں گھر سے نکل چکے ہیں جو ان کا سب سے سخت وقت تھا جس کا آغاز آٹھویں گھر سے ہوا۔ میں نے 9-8 اپریل تاریخیں دی تھیں۔ 7 اپریل کو آرمی چیف کا فوج کے وقار کے حوالے سے بیان آیا کہ اس کا ''ہر قیمت'' پر تحفظ کیا جائے گا۔ یہ ہر قیمت لفظ انتہائی قابل غور ہے۔ اسے سرسری نہ پڑھ جائیں۔ اس میں معنی کا سمندر پنہاں ہے۔ 19اپریل کو مشرف کراچی پہنچ گئے۔ یعنی عین 12ویں دن آرمی چیف کے بیان دینے کے بعد۔ اب سابق صدر پرویز مشرف 13ویں اور 14 ویں گھر میں داخل ہو گئے ہیں جو ان کے لیے کامیابی لا سکتا ہے یعنی مئی اور جون... اسی حوالے سے مشرف کے لیے فوری طور پر اہم تاریخیں 24-23 اپریل 28,27 تا30 اپریل یکم مئی ہیں۔